بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد للّه ربّ العالمین و صلّی اللّه علی محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.
حج کا موسم جو ہمیشہ عالم اسلام کی عزت و عظمت اور حیرت انگیز خصوصیات کا موسم رہا، اس سال مومنین کی حسرت اور غم و اندوہ کا آئینہ اور اشتیاق میں ڈوبے افراد کے احساس فراق اور محرومی کی تصویر بن گيا ہے۔ کعبے کی تنہائی دیکھ کر دلوں کو اپنی تنہائی کا احساس ستا رہا ہے، جدائی میں تڑپنے والوں کی صدائے لبیک آنسوؤں اور آہوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ محرومیت عارضی ہے اور اللہ کی مدد سے یہ زیادہ وقت نہیں رہے گی۔ تاہم اس سے حج کی عظیم نعمت کی قدر کرنے کا سبق ملتا ہے جو ہمیشہ یاد رہنا چاہئے، اس کی برکت سے ہمیں غفلتوں سے نجات حاصل کرنا چاہئے۔ کعبے کی حدود، حرم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جنت البقیع میں مدفون ائمہ علیہم السلام کے حرم میں مومنین کے رنگارنگ اور وسیع اجتماع کی اہمیت اس سال ہمیں ہمیشہ سے زیادہ محسوس ہونا چاہئے اور اس کے بارے میں ہمیں غور کرنا چاہئے۔
حج بے مثال فریضہ ہے۔ اسلامی واجبات کے گلشن کا حسین پھول ہے۔ دین کے تمام شخصی، سماجی، زمینی و آسمانی، تاریخی و عالمی پہلو اس میں مد نظر رکھے گئے ہیں۔ اس میں روحانیت ہے لیکن خلوت و تنہائی اور گوشہ نشینی کے بغیر۔ اس میں اجتماع ہے لیکن تصادم، بدکلامی اور بری خواہشوں کے بغیر۔ ایک طرف مناجات، روحانی لذت اور ذکر خداوندی ہے اور دوسری جانب انسانی انس و روابط ہیں۔ حاجی کی نگاہ پرانی تاریخ سے اپنے رابطے، ابراہیم، اسماعیل، ہاجرہ اور مسجد الحرام میں فاتحانہ انداز میں رسول اسلام کی صدر اسلام کے مومنین کی بڑی جماعت کے ہمراہ آمد کے لمحات سے اپنے رابطے پر بھی ہوتی ہے اور اس کی ایک نگاہ اپنے ہم عصر مومنین پر بھی ہوتی ہے جن میں سے ہر شخص باہمی تعاون کا ایک فریق اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے والے اجتماع کا ایک جز قرار پا سکتا ہے۔
حج کی حقیقت پر غور و خوض حاجی کے اندر یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ انسانیت کے لئے دین کے بہت سے اہداف و مقاصد دینداروں کے باہمی تعاون، ہمدلی اور امداد باہمی کے بغیر مکمل نہیں سکتے اور یہ ہمدلی و باہمی تعاون پیدا ہو جانے کی صورت میں مخالفین اور دشمنوں کے مکر و فریب سے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔
حج ان استکباری قوتوں کے مقابلے میں طاقت کی نمایش ہے جو بدعنوانی، ظلم و ستم، کمزوروں کے قتل عام اور غارت گری کا مرکز ہیں اور آج امت اسلامیہ کا جسم و جان ان کے ستم اور خباثتوں کی وجہ سے لہولہان ہے۔ حج امت اسلامی کی فکری و افرادی توانائی کا مظہر ہے۔ یہ حج کا مزاج، حج کی روح اور حج کے اہداف کا سب سےاہم حصہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے عظیم قائد امام خمینی نے حج ابراہیمی کا نام دیا تھا اور یہ وہی چیز ہے کہ اگر خود کو خادم حرمین کہنے والے متولی سچائی کے ساتھ اسے تسلیم کریں اور امریکی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے رضائے پروردگار کی فکر میں رہیں تو عالم اسلام کی بڑی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں۔
آج ہمیشہ سے بڑھ کر امت اسلامیہ کی مصلحت اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے۔ اس اتحاد پر جو خطرات اور دشمنیوں کے مقابلے میں متحدہ قوت تشکیل دے اور مجسم شیطان، جارح اور عیار امریکہ اور اس کے پالتو کتے یعنی صیہونی حکومت پر بجلی بن کر گرے اور جابرانہ اقدامات کے مقابلے میں شجاعت کے ساتھ ڈٹ جائے۔ یہی اللہ کے اس قول کا مفہوم ہے جس میں اللہ فرماتا ہے؛ وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا(یعنی اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے پکڑ لو اور منتشر نہ ہو)۔ قرآن کریم امت اسلامیہ کو «اَشِدّاّْءُ عَلَي الكُفّارِ رُحَماّْءُ بَينَهُم (کفار کے خلاف سخت اور آپس میں رحم دل)» کے تناظر میں متعارف کراتا ہے اور ان سے «وَلا تَركَنوِّا اِلَي الَّذينَ ظَلَموا (ظالموں پر کبھی بھروسہ نہ کرو)»، «وَلَن يَجعَلَ اللهُ لِلكـّْفِرينَ عَلَي المُـؤمِنينَ سَبيلًا (اور اللہ ہرگز کفار کے لئے مومنین پر غلبے کا راستہ نہیں بنائے گا۔)»، «فَقاتِلوِّا اَئِمَّةَ الكُفر (کفر کے سربراہوں سے جنگ کرو)» اور «لا تَتَّـخِذوا عَـدُوّي وَ عَدُوَّكُم اَولِياّْء (میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)» جیسے فرائض پر عمل آوری کا مطالبہ کرتا ہے۔ دشمن کی بخوبی نشاندہی کرنے کے لئے یہ حکم صادر کرتا ہے؛ «لا يَنهىّْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِي الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيارِكُم »۔ یہ اہم اور فیصلہ کن فرمودات ہرگز ہم مسلمانوں کی فکر و نظر کے دائرے اور اقدار سے جدا نہیں ہونے چاہئے اور انھیں ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔
اس وقت اس بنیادی تبدیلی کے وسائل امت اسلامیہ اور اس کی ممتاز ہستیوں اور خیر خواہوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہیں۔ آج اسلامی بیداری یعنی مسلمان دانشوروں اور نوجوانوں کی اپنے روحانی و معرفتی سرمائے پر توجہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ آج لبرلزم اور کمیونزم جو سو سال اور پچاس سال پہلے مغربی تمدن کا عظیم ثمرہ سمجھے جاتے تھے پوری طرح بے رنگ ہو چکے ہیں اور ان کی لا علاج خامیاں آشکارا ہو چکی ہیں۔ اس پہلی فکر پر استوار نظام منہدم ہو چکا ہے اور اس دوسری فکر پر مبنی نظام گہرے بحرانوں سے دوچار اور تباہی کی دہانے پر کھڑا ہے۔
اس وقت صرف مغرب کا کلچرل ماڈل ہی نہیں جس نے شروع ہی سے بے غیرتی اور رسوائی کے ساتھ میدان میں قدم رکھا بلکہ اس کا سیاسی و اقتصادی ماڈل یعنی دولت کے گرد گھومنے والی ڈیموکریسی اور طبقاتی، تفریق آمیز اور بدعنوان سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا ہے۔
آج عالم اسلام میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو سر اٹھا کر اور افتخار و سرافرازی کے ساتھ مغرب کے تمام تمدنی اور علمی دعوؤں کو چیلنج کر رہے ہیں اور ان کے اسلامی متبادل صراحت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ آج تو بعض مغربی مفکرین بھی جو اس سے پہلے تک لبرلزم کو بڑی نخوت سے تاریخ کا آخری انجام قرار دیتے تھے، مجبورا اپنے دعوے واپس لے رہے ہیں اور اپنی فکری و علمی سرگردانی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ امریکہ کی سڑکوں، اپنے عوام کے ساتھ امریکی حکام کے برتاؤ، اس ملک میں گہری طبقاتی خلیج، اس ملک کو چلانے کے لئے منتخب افراد کی حماقت و حقارت، وہاں کی ہولناک نسل پرستی، غیر مجرم شخص کو سڑک پر بڑے اطمینان سے راہگیروں کی آنکھ کے سامنے ایذائیں دیکر قتل کر دینے والے اہلکاروں کی سفاکی، مغربی تمدن کے اخلاقی و سماجی بحران کی گہرائی اور وہاں کے سیاسی و اقتصادی فلسفے کی کجروی اور کھوکھلے پن پر ایک نظر ڈالئے۔ کمزور اقوام کے ساتھ امریکہ کا برتاؤ اس پولیس اہلکار کے برتاؤ کی بڑے کینواس کی تصویر ہے جس نے نہتے سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر اتنا دبایا کہ وہ مر گیا۔ دیگر مغربی حکومتیں بھی اپنے وسائل اور توانائی کے مطابق اسی المناک صورت حال کی دوسری مثالیں ہیں۔
حج ابراہیمی اس ماڈرن جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کی ایک پرشکوہ حقیقت ہے۔ یہ اسلام کی دعوت اور اسلامی معاشرے کے طرز زندگی کی علامتی جھلک ہے۔ وہ اسلامی معاشرہ جس میں مومنین کی پرامن بقائے باہمی توحید کے محور پر مربوط پیش قدمی کی سب سے نمایاں تصویر ہے۔ ٹکراؤ اور تصادم سے دوری، تفریق اور امتیاز سے اجتناب، بدعنوانی اور آلودگی سے پرہیز جس کی لازمی شرطیں ہیں۔ شیطان پر وار اور مشرکین سے اظہار بیزاری، کم رتبہ افراد سے گھل مل جانا اور غریبوں کی مدد اور اہل ایمان کے شعائر کا نمایاں ہونا جس کے اصلی اعمال ہیں۔ اللہ کے ذکر، اس کے شکر اور اس کی عبادت کے ساتھ ساتھ عمومی مفادات اور مصلحتوں کا حصول اس کے میانہ مدتی اور آخری اہداف ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے کی اجمالی تصویر ہے جو حج ابراہیمی کے آئينے میں جلوہ گر ہے۔ بلند بانگ دعوے کرنےوالے مغربی معاشروں کے حقائق سے اس کا تقابلی جائزہ ہر بلند ہمت مسلمان کے دل کو شوق اور اس معاشرے کی تشکیل کے لئے سعی و کوشش کے جذبے سے بھر دیتا ہے۔
عظیم قائد امام خمینی کی ہدایت و رہبری میں ہم ایران کے عوام نے اسی شوق کے ساتھ اپنا سفر شروع کیا اور کامیاب رہے۔ ہمارا یہ تو دعوی نہیں کہ ہم نے وہ سب حاصل کر لیا جو چاہتے تھے اور جن سے آگاہ تھے لیکن یہ دعوی ضرور ہے کہ اس راہ میں ہم کافی آگے گئے ہیں اور راستے کی بہت سی رکاوٹیں ہم نے ختم کی ہیں۔ قرآنی وعدوں پر اعتماد کی برکت سے ہمارے قدموں کو ثبات ملا ہے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا راہزن اور عیار شیطان یعنی امریکی حکومت ہمیں ہراساں یا اپنے مکر و حیلے سے مغلوب نہیں کر سکی اور نہ ہماری مادی و روحانی پیشرفت کا سلسلہ روکنے میں کامیاب ہوئی۔
ہم تمام مسلم اقوام کو اپنے بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہمارے دشمن محاذ سے نہیں جڑے ہیں بھلائی اور انصاف کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اسلامی معاشروں کے دکھ اور مشکلات کو اپنی مشکلات مانتے ہیں اور ان کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ مظلوم فلسطین کی مدد، یمن کے زخمی پیکر کے لئے ہمدردی اور دنیا کے کسی بھی خطے میں ستم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کے لئے فکرمندی دائمی طور پر ہماری توجہ کا مرکز ہے۔ بعض مسلمان سربراہوں کو نصیحت کرنا ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، ان سربراہوں کو اپنے مسلمان بھائی پر بھروسہ کرنے کے بجائے دشمن کی آغوش میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور عارضی ذاتی مفادات کی خاطر دشمن کی تحقیر اور ڈانٹ پھٹکار برداشت کرتے ہیں اور اپنی قوم کا وقار اور خود مختاری نیلام کرتے ہیں، جو ظالم و غاصب صیہونی حکومت کی بقا پر راضی ہیں اور آشکارا اور خفیہ طور پر اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ ایسے رہنماؤں کو ہم نصیحت کرتے ہیں اور اس روئے کے تلخ انجام کی طرف سے خبردار کرتے ہیں۔ ہم مغربی ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کو اس علاقے کی اقوام کے لئے ضرر رساں اور ملکوں کی بدامنی، تباہی اور پسماندگی کا سبب مانتے ہیں۔ امریکہ کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں اور وہاں نسل پرستی کے خلاف جاری تحریک کے تعلق سے ہمارا موقف عوام کی حمایت اور اس ملک کی نسل پرست حکومت کے بے رحمانہ برتاؤ کی مذمت پر مبنی ہے۔
آخر میں حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) پر درود و سلام بھیجتے ہیں، عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور شہیدوں کی پاکیزہ ارواح پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالی سے امت اسلامیہ کے لئے مستقبل قریب میں محفوظ، مقبول اور مبارک حج کی دعا کرتے ہیں۔
والسلام علی عباد اللّه الصالحین
سید علی خامنه ای
۷ مرداد ۱۳۹۹ (ہجری شمسی مطابق 28 جولائی 2020)