آج یوم القدس ہے، آج یوم الاسلام ہے۔ آج یوم اللہ ہے، آج یوم حمایت مظلومین جہان ہے۔ آج یوم مظلومین فلسطین ہے، آج یوم آزادی القدس ہے، آج یوم حریت ہے، آج یوم استقامت ہے۔ آج یوم مزاحمت ہے، آج یوم امید ہے، آج یوم جہاد ہے، آج یوم اتحاد امت ہے، آج یوم قبلہ اول ہے، آج یوم شہداء ہے، آج یوم مستکبرین پر مستضعفین کی فتح کا دن ہے، آج طاغوت کے خلاف قیام کا دن ہے، آج استکبار کے خلاف کھڑے ہونے کا دن ہے، آج امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر عمل کا دن ہے۔ آج امام خامنہ ای کی پیشین گوئی کو سچ ثابت کرنے کا دن ہے، آج سید حسن نصر اللہ کی فاتحانہ مسکراہٹوں پر درود و سلام بھیجنے کا دن ہے، آج شہید القدس شہید سلیمانی کی شہادت اور جدوجہد کے مقصد پر عمل درآمد کا دن ہے۔ آج شہید احمد یسٰین، شہید فتحی شقاقی، شہید ڈکٹر رنتیسی، شہید حاج رضوان کی شہادت کا بدلہ چکانے کا دن ہے۔
آج قبلہ اول بیت المقدس کیلئے اپنی جانوں کو نچھاور کرنے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ آج اپنی دھرتی، اپنے آبائی وطن کی حفاظت کیلئے غاصبوں سے ٹکرانے والے فداکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ آج دنیا بھر میں امت مسلمہ کے قدیم ترین مسئلہ کو پہلا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کا دن ہے۔ آج ارض مقدس کی ان مائوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے، جنہوں نے اتنا عرصہ تک مسلسل ایسے سپوت دیئے، جنہوں نے اپنے خون کی سرخی سے اس کتاب قربانی و ایثار کے ورق ورق پر آزادی و حریت کے ابواب لکھے اور لکھ رہے ہیں، ایسے ابواب جو مسلسل جوانوں کے خون سے لکھے جا رہے ہیں اور بہنون کی عزتوں کی پائمالی سے بھی خالی نہیں، بچوں کی مسکراہٹیں چھینتے، بوڑھوں کی آنکھوں کی نورانیت چورانے سے عبارت ہیں، مگر اس داستان شجاعت، حریت و آزادی، ایثار و قربانی کے چراغوں کی لو کم نہیں ہونے دی ہے۔
غاصبوں کے ظلم و تشدد، قتل و غارت، طاقت کے مظاہروں نے اہل فلسطین جو اس پاک و مقدس سر زمین کے مالک ہیں، ان کے جذبہ حریت و مالکیت کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ آپ لوگوں نے وہ تصویریں ضرور دیکھی ہون گی، جن میں اہل فلسطین جو اس مقدس سرزمین کے اصل مالک ہیں، غاصب صیہونی فوجیوں کی بندوقوں کی گھن گرج اور رعب و دبدبہ کو کسی خاطر میں لائے بنا مسجد الاقصیٰ میں ایسے بیٹھے جیسے واقعی کسی اصل مالک کو اپنی زمین پر بیٹھنا چاہیئے۔ اس قدر اطمینان، سکون اور اعتماد کہ تصویریں دیکھنے والا بھی دنگ رہ جائے کہ اتنے جدید اسلحہ کے ساتھ غاصب فوجی ان کے سامنے موجود ہیں اور وہ اپنے اطمینان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے سینہ تان کر بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں بلکہ بعض تصویروں میں لیٹے بھی ہیں، جبکہ صیہونی فوج مسجد اقصیٰ میں حملہ آور ہے۔
اس جذبے کو کیسے ماند کیا جا سکتا ہے، اس اعتماد کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، اس جراءت کو اگر اتنے طویل عرصہ میں ختم نہیں کرسکے تو یہ تو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا رہیگا، فلسطینی مائوں کو اس لئے بھی سلام پیش کرنا چاہیئے کہ اس سرزمین کی باسی مائوں نے اپنے بچوں کو بیت المقدس کی آزادی، قربانیوں، اس کیلئے مرنے مارنے اور جہاد کرنے کی لوریاں کانوں میں رس گھول کے پلانے کی طرح ازبر کرا د ی ہوتی ہیں، تب ہی ایسا ممکن ہوا ہے کہ پچھتر برس سے ایسے ایسے جوانوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں کہ جن پہ سر فخر سے بلند ہے۔ ارض مقدس فلسطین کے باسیوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کسی بھی غیر کی طاقت، قوت، حمایت، مدد اور نصرت پر انحصار نہیں کیا۔ اگر کسی بھی طرف سے اس لمبے عرصہ کے دوران ان کو مدد ملی ہے تو یہ اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ بذات خود ان کے اندر حریت و آزادی، مزاحمت و مقاومت کا جذبہ صادق موجود ہے۔
اگر ان کے اندر جذبہ صادق نہ ہوتا تو شاید کسی کی مدد و نصرت اور امداد کام نہ کرتی۔ جو کام آج نظر آرہا ہے کہ اسرائیل دنیا کی جدید ترین آرمی، اسلحہ، ایٹمی قوت، اقتصادی پاور ہونے کے باوجود غلیلوں سے شروع ہونے والے اور پتھروں سے لڑی جانے والی جنگ سے خوف زدہ نظر آتا ہے، کل جن کے ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں تھیں، آج تمام تر سختیوں، تمام تر پابندیوں، مظالم، تشدد، جیلوں، اسارتوں کے باوجود فلسطینی مزاحمتی قوتیں راکٹ اور میزائل کیساتھ ڈرون خودکش کو بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ گذشتہ ایام میں جس جرات و شجاعت کیساتھ فلسطینی نوجوانوں نے مقبوضہ علاقوں میں تمام تر پابندیوں اور سختیوں، سکیورٹی حصارز کو توڑتے ہوئے کامیاب کارروائیاں کی ہیں، اس نے غاصب صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
میرے خیال میں ہمارے کشمیری مسلمانوں کیلئے فلسطینی جدوجہد اور مزاحمت کے جانبازوں کی شکل اور حکمت عملی نیز جذبہ صادق میں بہت سی رہنمائی کی علامات موجود ہیں۔ ہندوستان نے اسرائیلی غاصب حکومت کے سفاکانہ طریقہ کار پر عمل شروع کر رکھا ہے تو اس کا توڑ بھی اہل فلسطین کی حکمت، جہاد و ایثار نیز مقاومت سے ہی ممکن ہے۔ کسی کو انکار نہیں کہ کشمیری مسلمانوں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں جانیں قربان کی ہیں، کشمیری مائوں بہنوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں، ان کے گھر بار اور املاک تاراج کیے گئے ہیں، ان کے جوانوں کو بھی بدترین اذیتیں دی جا رہی ہیں اور ان کے جوان بھی ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں ہیں، مگر ان پر بیرونی عوامل زیادہ موثر اور طاقتور تھے، جس کی وجہ سے اندر کے کشمیری نوجوان کے جذبہ حریت و استقامت کو عالمی سطح پر اس طرح تسلیم نہیں کیا گیا،جیسے فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
فلسطین میں مقاومت و مزاحمت کرنے والے بیرونی لوگ نہیں ہیں، یہ اصلی و نسلی فلسطینی ہیں، لہذا آزادی کی جنگ لڑنا ان کا قانونی حق ہے، اپنے حق کیلئے غاصبوں سے ٹکرا جانا ان کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی بھی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اہل کشمیر کو اپنی جدوجہد آزادی، مزاحمت کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ ملت فلسطین کی جدوجہد آزادی، حریت، مزاحمت کی تاریخ میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے، جو دنیا بھر کی آزادی و حریت کے پیروکاروں کیلئے روشن مثال کے طور پر موجود ہے اور رہیگی۔ یوم القدس امام خمینی کے فرمان پر ان کی عظیم جدوجہد، ان کیساتھ اظہار یکجہتی، امت مسلمہ، انسانی آزادی کے علمبرداروں، انسانی حقوق کیلئے بر سرپیکار تنظیموں اور مہذب اقوام کیلئے ایک پیغام ہے کہ ارض مقدس فلسطین کی بازیابی سے کم اس ملت مظلوم کو کچھ بھی قبول نہیں ہوگا۔
اگرچہ بعض نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی خیانت اور ارض مقدس سے ان کی غداری، صیہونیوں سے ان کی قربتیں کچھ نیا نہیں، اس سے اہل فلسطین یا آزادی و حریت کے علمبردار گھبرانے والے نہیں، یہ تو پہلے سے واضح و روشن ہے کہ نام نہاد مسلم حکمران اپنی کرسیاں اور سلطنتیں بچانے کیلئے عالمی طاقتوں کی جھولی میں گر جاتے ہیں، فلسطین کا فیصلہ فلسطین کی غیور و غیرت مند عوام نے کرنا ہے، جو انہیں قبول ہوگا، اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔ یوم القدس کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کی اہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی اور اہل فلسطین کے اس دن بلند ہوتے شعار ثابت کریں گے کہ ان کا فیصلہ کیا ہے، فلسطینیوں کا فیصلہ یہی ہے کہ "قدس ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے۔"
تحریر: ارشاد حسین ناصر