غاصب اسرائیل کی آبادی کے مسئلے کی دو جہتیں ہیں، ایک جذب اور امیگریشن اور دوسری ریورس مائیگریشن۔ اگرچہ یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں، لیکن ان میں مختلف حالات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ جب بھی بحران اور جنگیں کم ہوئیں، قدرتی طور پر یہودیوں کو زیادہ جذب اور قبول کیا گیا، لیکن جب بھی بحران سنگین اور جنگیں ملک گیر اور انتفاضہ شروع ہوا تو الٹی ہجرتیں زیادہ ہوئیں۔ صیہونی حکومت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی مسائل میں سے ایک جو سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، وہ آبادی کا مسئلہ ہے۔ درحقیقت فلسطین پر قبضے اور فرضی حکومت کے قیام کے لیے زمین کی تشکیل کے بعد سے آبادی کا مسئلہ اور دنیا بھر سے یہودیوں کی اس سرزمین پر آمد ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اپنی آبادی میں قدرتی اضافے کے باوجود، یہودی مقبوضہ سرزمین کے اصل باشندوں یعنی فلسطینیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے، جن کی آبادی میں اضافہ قابل ذکر ہے۔
اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی انتظامیہ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کو لایا جائے۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے بھی یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور بہت سے مذہبی اور صیہونی یہودی رہنماء یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ہجرت کی پہلی لہر تقریباً 140 سال قبل 1880ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب صیہون سے محبت کرنے والوں کی شکل میں ایک آبادی روس سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی۔ یہ تھیوڈور ہرزل کی سرگرمیوں سے پہلے کی بات ہے۔ ہرزل کے کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں اہم شخصیت بننے کے بعد دیگر منظم صہیونی تنظیمیں بھی اس میدان میں داخل ہوئیں۔
حالیہ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی کوششوں میں سے ایک وزارت ہجرت اور جذب کے نام سے ایک وزارت قائم کرنا ہے، یعنی ایک ایسی وزارت جو پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ بلاشبہ، امیگریشن اور جذب کی وزارت نے یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور صہیونی تنظیموں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ صورت حال نے ریورس مائیگریشن کو تیز تر کر دیا ہے۔ اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 63 دن گزر چکے ہیں۔ صیہونی حکومت کے لیے جنگ کے ٹھوس نتائج میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی لہر میں شدت آنا ہے۔
صہیونی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے شمالی مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے چھوڑنے والے ان افراد میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ حالیہ الٹی ہجرت یا معکوس نقل مکانی7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔ پرتگال کی امیگریشن سروس نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک 21,000 اسرائیلیوں نے شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے پرتگال میں اسرائیلیوں کی درخواستیں سب سے زیادہ تھیں۔ اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز مقبوضہ زمینوں سے ریورس ہجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔
طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے قبل مقبوضہ زمینوں سے معکوس نقل مکانی کے پیچھے بہت سے معاشی مسائل اور چیلنجز تھے، لیکن طوفان الاقصیٰ کے بعد اس میں سکیورٹی کے عوامل بھی شامل ہوگئے۔ جنگ کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہوا ہے، جبکہ معاشی مسائل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔الاقصیٰ طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کچھ دن قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے اعداد و شمار جو بلاشبہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اقتصادی اور معاشی مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مقبوضہ سرزمین کے باشندے نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی گوگل سرچ میں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ "اسرائیل سے کیسے نکلا جائے" اور اس سے متعلق طریقے تلاش کرنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی تارکین وطن امیگریشن کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی پریشانی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کسی غیر ملک کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ، تارکین وطن یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن کی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے پرتگال، جرمنی اور پولینڈ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تل ابیب میں یورپی یونین کے دفتر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہجرت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کابینہ کو جنگ کے ساتھ الٹی ہجرت اور مقبوضہ علاقوں کو ترک کرنے والے باشندوں کو روکنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر غور کرنا ہوگا۔ البتہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کے قلیل مدت میں مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی انتظامیہ کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ دنیا بھر سے لوگوں کو لایا جائے۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کے قیام سے پہلے بھی یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور بہت سے مذہبی اور صیہونی یہودی رہنماء یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ہجرت کی پہلی لہر تقریباً 140 سال قبل 1880ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب صیہون سے محبت کرنے والوں کی شکل میں ایک آبادی روس سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی۔ یہ تھیوڈور ہرزل کی سرگرمیوں سے پہلے کی بات ہے۔ ہرزل کے کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں اہم شخصیت بننے کے بعد دیگر منظم صہیونی تنظیمیں بھی اس میدان میں داخل ہوئیں۔
حالیہ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی کوششوں میں سے ایک وزارت ہجرت اور جذب کے نام سے ایک وزارت قائم کرنا ہے، یعنی ایک ایسی وزارت جو پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے کے لیے کام کرتی ہے۔ بلاشبہ، امیگریشن اور جذب کی وزارت نے یہودی ایجنسی برائے اسرائیل اور صہیونی تنظیموں کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ صورت حال نے ریورس مائیگریشن کو تیز تر کر دیا ہے۔ اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا، لیکن غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے۔ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کو 63 دن گزر چکے ہیں۔ صیہونی حکومت کے لیے جنگ کے ٹھوس نتائج میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی لہر میں شدت آنا ہے۔
صہیونی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے شمالی مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے چھوڑنے والے ان افراد میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا۔ حالیہ الٹی ہجرت یا معکوس نقل مکانی7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔ پرتگال کی امیگریشن سروس نے اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک 21,000 اسرائیلیوں نے شہریت کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے پرتگال میں اسرائیلیوں کی درخواستیں سب سے زیادہ تھیں۔ اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز مقبوضہ زمینوں سے ریورس ہجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔
طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے قبل مقبوضہ زمینوں سے معکوس نقل مکانی کے پیچھے بہت سے معاشی مسائل اور چیلنجز تھے، لیکن طوفان الاقصیٰ کے بعد اس میں سکیورٹی کے عوامل بھی شامل ہوگئے۔ جنگ کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پیدا ہوا ہے، جبکہ معاشی مسائل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بے روزگاری میں کافی اضافہ ہوا ہے۔الاقصیٰ طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے قریب ہے۔ کچھ دن قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے اعداد و شمار جو بلاشبہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
اقتصادی اور معاشی مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مقبوضہ سرزمین کے باشندے نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی گوگل سرچ میں ٹرینڈ کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ "اسرائیل سے کیسے نکلا جائے" اور اس سے متعلق طریقے تلاش کرنا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی تارکین وطن امیگریشن کے ساتھ ساتھ دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی پریشانی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے کسی غیر ملک کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ، تارکین وطن یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن کی منزل کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کی جانب سے پرتگال، جرمنی اور پولینڈ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تل ابیب میں یورپی یونین کے دفتر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہجرت کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں صیہونی حکومت کی کابینہ کو جنگ کے ساتھ الٹی ہجرت اور مقبوضہ علاقوں کو ترک کرنے والے باشندوں کو روکنے کے لیے ایک منظم منصوبہ پر غور کرنا ہوگا۔ البتہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کے قلیل مدت میں مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی