سردار شہید قاسم سلیمانی (رح) کی خود تعمیر کردہ معنوی و روحانی شخصیت ایک ایسا مکتب ہے، جس کی فنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ و حالیہ صدی میں متعدد مکاتب تشکیل پاتے رہے لیکن ہر مکتب پائندہ رہا ہو، یہ کم ہی نظر آیا، لیکن مکتب سلیمانی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ لافانی ہے۔ ایسے میں اس کی علت پر متعدد نکات کو یہاں ثبت کیا گیا ہے، لیکن مہم ترین نکتہ یہ کہ قرآن کریم زندہ حقیقت ہے اور جو انسان قرآن کریم کے ساتھ زندگی کرتا ہے، وہ بھی اس جاوداں حقیقت کے ساتھ زندہ رہتا ہے، کیونکہ قرآن منبع حیات ہے، جو خود بھی زندہ ہے اور دیگر موجودات کو بھی زندگی بخشتا ہے۔ بلاشبہ شہید سلیمانی کی زندگی میں قرآن کریم ایک آفتابِ روشن تھا، جس کی روشنی کے حصول کے لیے آپ نے عرصہ دراز زندگی کے ہر لمحہ کو وقف کیا۔
قرآن کریم میں سورہ رحمن کی 26ویں آیت میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ"، "جو مخلوق زمین پر ہے، سب کو فنا ہونا ہے" اور آگے مزید فرماتا ہے کہ "وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ"، "اور تمھارے پروردگار ہی کی ذات جو صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی۔" ان آیات پر اگر غوروفکر کیا جائے تو اس میں واضح طور پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ہر چیز، ہر شے کو فنا ہے۔ ایسے میں کس شے کو فنا نہیں ہے؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ سوائے خدا کی ذات کے، یعنی واحد شے جو زندہ و جاوید رہنے کا باعث ہے، وہ خدا سے ارتباط ہے۔ وہ یہ ہے کہ کس قدر انسان کی زندگی میں خدا شامل ہے اور کس قدر انسان اپنی زندگی میں خدا کے مطابق حرکت کر رہا ہے۔
ایسا کرنا انسان کو خدا کا مظہر بنا دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان خدا کی صفات اور اس کے اسماء کی تجلی بن جاتا ہے۔ بلاشبہ ایسا انسان خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پس ایسے میں جب انسان کاملاً خدا کی صفات کا مظہر بن چکا ہے تو ان پیغامات کا مصداق ہے۔ چنانچہ رہتی دنیا تک اس کو بھی فنا نہیں ہے۔ خدا لافانی ہے، لہٰذا وہ انسان جو خود کو خدا کے حوالے کرکے اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دے تو وہ بھی لافانی ہوگا، اس کی حرکت بھی ہمیشہ جاری رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہداء کی حیات بھی انہی قرآنی افکار کا مظہر ہے، لیکن جب شہید قاسم سلیمانی کی بات کی جائے تو یہ حرکت ایک مکتب کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جس کا پس منظر مکتب خمینی ہے۔
حرکت خمینی نے مکتب خمینی کو اور مکتب خمینی کے شاگرد قاسم سلیمانی کی بے مثال و الہیٰ حرکت نے مکتب سلیمانی کو جاری کیا اور یہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی قیادت میں تا ابد جاری رہے گی۔ مکتب سلیمانی اسی طرح لافانی ہے، جس طرح مکتب خمینی، چونکہ اس کی اساس خدا کی ذات، قرآنی تعلیمات ہیں اور سایہ عترت علیہم السلام ہے۔ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ: "شہداء آسمان پر دمکتے وہ ستارے ہیں، جن کی راہ پہ چل کر ہر کوئی اپنی منزل پا سکتا ہے۔" اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ شہداء ہر انسان کو منزل و مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔؟ یا اس نقطے پہ غور و فکر کیا جائے تو زیادہ جامع ہوگا کہ کس طرح شہید سلیمانی کئی انسانوں کی زندگی کو اس کے ہدف سے ملا سکتے ہیں۔؟
ایسے میں فزکس کے شعبہ فلکیات (Astronomy) میں ماہرین کے مطابق ستارے درست راستے کا تعین کرتے ہیں۔ وہ مقامات جہاں حدود کا تعین نہیں ہوتا اور کوئی بھی راستہ مشخص نہیں ہوتا، وہاں ستارے وہ ذریعہ(source) ہیں، جو درست سمت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح انہی ستاروں کا جھرمٹ، ان کا مجموعہ نہ صرف کسی ایک انسان بلکہ سینکڑوں انسانوں کے لیے درست راہ کو مشخص کرتا ہے۔ لہٰذا یاد رکھیں! مکتب کی مثال بھی انہی ستاروں کی مثال کی مانند ہے، جس کی طرف امام خمینی (رح) نے اشارہ کیا ہے۔ پس یہ کہ مکتب سلیمانی ایسے علمی و فکری نیز عملی نظام کا مجموعہ ہے، جو کئی بھٹکے ہوئے لوگوں کی درست سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔کئی ہزاروں داستانیں، واقعات ایسے ملتے ہیں، جو اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہی اس مکتب کی وہ تصویر ہے، جو اس کو لافانی بناتی ہے۔
جب ہم ایک مکتب کے عنوان سے مزید غوروفکر کرتے ہیں تو اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ یہ کسی خاص زمانے یا خاص عمر کے افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے اندر انقلاب و حرکت پیدا کرنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ ہر شخص کو آمادہ کرتی ہے کہ ظلمات سے نور کی طرف حرکت کرے۔ قرآن کریم میں آیت الکرسی ( 256 تا 257) میں فکر کو جمع کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ رشد اور غی و فساد کی راہیں جدا ہوچکی ہیں، اسی طرح جیسے طاغوت اور خدا کے مابین فاصلہ واضح و آشکار ہے۔ پس رشد کے لیے طاغوت سے انکار اور خدا پر ایمان ہی واحد صورت ہے۔ جس کے ذریعے انسان ظلمات سے نور تک کا سفر طے کرسکتا ہے۔
شہید سلیمانی کے اس مکتب کی بنیادی ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس نے امریکہ و اسرائیل جیسے دشمن کے دل و دماغ کے منصوبوں کو فلسطین، لبنان، عراق و شام میں خس و خاشاک ثابت کیا اور ان کو ان کے ارادوں میں ناکام کر دکھایا۔ آپ کے اس عظیم کارنامے نے دنیا میں طاقت کے توازن اور معیار کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ قدس کے لیے، اس کی آزادی کے لیے آپ کی خدمت نے دنیائے اسلام کو متحرک کر دیا اور ہر ایک شخص کو اس مسئلے کی سنگینیت کے لیے غوروفکر کرنے اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ پس یہ کہ یہ تشخص دو سیاسی نظریئے کی مخالفت اور آزادی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ نور سلیمانی کی چالیس سالہ کاوشوں اور حرکت کا نتیجہ ہے، جس کو بطور وصیت آپ نے ایک نئے معاشرے میں جاری کر دیا۔ جو مثل آفتاب ہر زمانے کے آسمان پہ جگمگا کر اس زمانے کے ہر شخص کے علمی، فکری، سماجی، اقتصادی، سیاسی، معاشی و معاشرتی باب کو روشن کر رہا ہے۔
لیکن کیا اس آفتاب سلیمانی سے مستفیض ہونے کی شرائط بھی ہیں؟ قرآن کریم میں سورہ الشمس میں خدا نے سورج کی قسم کھائی اور پھر اس کی روشنی کی بھی قسم کھائی، جس کا مقصد اس کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کرکے اس کی معرفت کو انسانیت پر عیاں کرنا تھا، ورنہ خداوند متعال کو ضرورت نہ تھی کہ قسم اٹھا کر اس بات کی حقانیت کو واضح کرتا، چونکہ وہ خود صاحب عظمت ہے۔ ایسے میں معرفت و شناسائی کا پہلو بہت اہم ہے، جس کے لیے سورج اور اس کی روشنی کی عظمت کو واضح کرنے کے لیے قسم کھائی گئی۔ اسی طرح اگر آفتابِ سلیمانی کی عظمت کو اپنی زندگی میں منطبق کرنا چاہتے ہیں تو بہت ضروری ہے کہ اس کی معرفت بھی حاصل کریں۔ مثلاً ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ آیا میرے گھر کہ کھڑکی کھلی ہے یا بند ہے! آیا میرے گھر کی چھت سورج کی روشنی اور میرے مابین مانع تو نہیں ہے۔؟
نتیجتاً یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سورج ہر جگہ اپنی روشنی پہنچاتا ہے، ہر جگہ اپنی عظمت کی کرنوں کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم نے اپنی در و دیوار کو روشنی اور اپنے درمیان مانع تو قرار نہیں دیا؟ آیا یہ موانع تو باعث نہیں کہ ہم اس سورج کی روشنی سے محروم رہ گئے۔؟ پس یہ کہ اہم ترین شرط معرفت و آگاہی اور عملی حرکت کو جاری کرنا ہے۔ چونکہ متحرک موجود کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دوسروں میں بھی تحرک پیدا کرتی ہے۔ مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے، جس نے مکتب سلیمانی کو مکتب لافانی میں بدل دیا۔؟ سورہ عصر کے آئینے میں آپ کو دیکھا جائے تو آپ وہ انسان ہیں، جس نے خود کو خسران سے نکال لیا اور ایمان و عمل صالح کے ساتھ حقائق کو معاشرے کے قرطاس پر ثبت کر دیا۔ اہم ترین نکتہ حق و صبر کی وصیت ہے۔
وصیت یعنی کیا؟
وصیت یعنی انسان اپنی حرکت کو دوسروں کی آگاہی اور ان میں حرکت کے اجرا کے لیے منتقل کرے۔ جب وقت رخصت وصیت کا کلمہ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کا نچوڑ دوسروں کی آگاہی کے لئے بیان کرے، تاکہ اس کے مطابق وہ حرکت کو جاری رکھ سکیں۔ شہید سلیمانی کا وصیت نامہ ان کی سالہا سال کی حرکت کا نچوڑ تھا اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی زندگی کن ابواب کا مجموعہ تھی۔ چنانچہ احیاءِ حرکتِ الہیٰ میں آپ نے فقط انفرادیت تک محدودیت اختیار نہیں کی بلکہ ان حقائق کو اجتماعی کیا، تاکہ ان تک رسائی میں ہر انسان اس مکتب لافانی سے مستفیض ہوسکے۔
نور سلیمانی کہ جس کی لامحدود نورانی وسعتیں مادیت کی تاریکیوں میں گھری انسانیت کو نہ صرف منور کرتا ہے بلکہ ان کو عشق خدا کے لازوال جذبے سے آشنا کراتا ہے۔ آج اس حرکت قرآنی کو جو جاری کیے ہوئے ہیں، انہی کی حرکت کا تسلسل ہے اور اسی مکتب لافانی کو ایک نئے آئینے میں دیکھنا باعث بنتا ہے کہ ہر شخص شہید کیخوشبو سے خود کو پاکیزہ کرسکے۔ شہید سلیمانی کی شخصیت ایک خود تعمیر کردہ شخصیت تھی۔ جب ہم اس عنوان سے اس مکتب لافانی کو دیکھتے ہیں تو سورہ انشراح کے پیغامات کو آپ کی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایسا نہ تھا کہ آپ نے بنا کسی زحمت کے ایک ایسے مکتب کو تشکیل دیا، جس سے کئی مکاتب فکر احیاء ہوئے ہیں۔ بلکہ آپ نے شرح صدر کے حصول میں زندگی کے مصائب و مشکلات کو خود انتخاب کیا اور اس کی جہت کو راہ خدا کی طرف موڑ دیا۔ یہ ایسی راہ بنی، جس پر چلنے والا کبھی گمراہ نہ ہوا اور جس پر چلنے والے کے نشان پہ کئی قدم پیش قدمی کرتے ہیں۔
شہید سلیمانی میں تمام شہداء کا عکس دکھائی دیتا ہے، چاہے وہ کئی شہداء کی گمنامی ہو، پاکیزہ جوانی ہو، شہید قائد الحسینی کی قیادت ہو یا خمینی فکر و خامنہ ای جانبازی و جانثاری ہو، آپ ایسا آئینہ ہیں کہ جس میں ہر شہید کی تصویر واضح ہے۔ آپ کی مثال اس آئینے کی سی ہے، جس میں دیکھ کر انسان میں محاسبے و تزکیے کی شکوفانی ہوتی ہے۔ جو انسان کے قلب سے حُب دنیا کو نکال کر حُب اللہ کو بھر دیتا ہے۔ یوں نگاہ سلیمانی عالم سیاہ کی غلاظتوں میں غرق انسان کے لیے مثل آفتاب ہوتی ہے، جس کے ذریعے ایک خود تعمیر کردہ شخصیت وجود میں آتی ہے۔
اگر ہم یہ سمجھیں کہ 11 مارچ 1957ء کو کرمان میں اُگنے والے اس شجر کی تمام شاخوں پر اگنے والے ہر پھل کے ثمرات و نتائج کو چند تحاریر میں ثبت کیا جاسکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے تو ایسے میں اس شجر پہ اُگنے والے پتوں تک رسائی تو خود ایک فکری، عملی صلاحیت و حرکت کا تقاضا کرتی ہے۔ آپ کی زندگی کی ایک لمحے کی نورانی وسعتیں اس قدر لامحدود ہیں کہ ان کو ثبت اور رقم کرنے کے لیے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک کتاب بھی کم ہے، لیکن اگر آپ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا جائے تو وہ چیز جو اس مکتب لافانی کے احیاء کا بنیادی موجب بنی، وہ اُن کی شہادت طلبی تھی۔ جیسا کہ ایک مرتبہ انھیں بتایا گیا کہ ایک افواہ لوگوں کی زبانوں پر گردش کر رہی ہے کہ آپ شہید ہوگئے ہیں تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے: یہ وہی چیز ہے، جس کی تلاش میں میں نے بیابانوں اور پہاڑوں کی خاک چھانی ہے۔
شہادت طلبی یعنی شہادت آپ کا انتخاب تھا۔ اس انتخاب کا بھی معیار ہے اور وہ معیار زندہ شہید ہونا ہے جو کہ آپ کی خود تعمیر کردہ شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ چونکہ ابدی شہادت کا تقاضا ہے کہ انسان پہلے زندہ شہید بنے۔ اسی طرح جب آپ اپنے آخری سفر بغداد کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ایک کمانڈر کہنے لگے کہ آپ عراق نہ جائیں، وہاں کے حالات بہتر نہیں ہیں۔ قاسم سلیمانی نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں میں شہید نہ ہو جائوں؟ اس کے بعد قاسم سلیمانی نے ٹھہرائو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پھل جس وقت پک جائے تو باغبان کو اسے اتار لینا چاہیئے، پکا ہوا پھل اگر درخت کے اوپر ہی رہے تو ہ خراب ہو جاتا ہے اور خود ہی نیچے گر جاتا ہے۔ پھر چند کمانڈروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی پک چکا ہے، یہ بھی پک چکا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اخلاص روحانیت کی معراج آپ میں موجود تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ اسی باعث آخری وقت میں آپ کا یہ سکون و اطمینان ہر شے پر غالب تھا۔ آپ کا قلب، قلب مطمئنہ کا مصداق تھا، جس کو کتاب الہیٰ میں خداوند متعال نے اپنی رضا و خوشنودی کا حق دار قرار دیا گیا اور اس سے راضی ہوگیا۔ "يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ، ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً" (سورہ فجر) ایسی زیبا ترین شہادت، زندگی کے ہر لمحے میں دی جانے والی شہادت کی جانب متوجہ کرتی ہے، جس نے حاج قاسم کو سردارِ شہداء بنا دیا۔ شہید سلیمانی نے اسی عشق کو خود میں ایسا بویا کہ اپنی زندگی میں "خدا اور خدا کے لیے" کے جذبے کے ساتھ مخلوق خدا سے بے لوث محبت کی۔ آپ کا شہداء سے محبت کرنا، ان کے اہل خانہ کے لیے والہانہ اخلاص بے نظیر ہے۔
حاج قاسم نے اپنے پورے وجود سے شہادت دی اور ظہور مہدی (عج) کے لیے اخلاص و عشق کے ساتھ انتظار کو فروغ دیا۔ اس عاشقانہ انتظار نے آپ کو اس قدر متحرک کر دیا کہ آپ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے اور بارگاہ عشق میں مشغول رہتے۔ غیبت حسین عصر (عج) میں آپ یزید صفت طاغوت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور دشمن کو نیست و نابود کر دیا۔ وہ داعش جو حرم زینب (سلام اللہ علیہا) کو مسمار کرکے ایک بار پھر اہل حسین (عج) پر وار کرنا چاہتا تھا، اس کو اس کے ارادوں میں ناکام کر دیا اور جذبہ عشق سے سرشار ہو کر اہلیبیت اطہار (علیھم السلام) کے دفاع کے لیے عاشقان خدا کے ہمراہ یکجا ہوگئے۔ لیکن آج کا یزید آپ کو مٹانے کے درپے ہوگیا۔ اس غیر انسانی گماں کے ساتھ کہ وہ اس شمع عشق و وفا کو بجھا دے گا، سو اس نے 3 جنوری 2020ء کو شب کی سیاہی میں اپنی گھناؤنی سازشوں کو عملی صورت میں ڈھال دیا۔
مولانا روم کا فارسی میں بہت خوبصورت شعر ہے کہ
فرو شدن چو بدیدی برآمدن بنگر
غروب شمس و قمر را چرا زیان باشد
یعنی "جب چاند اور سورج غروب ہوتے ہیں تو دوبارہ طلوع ہوتے ہیں، ہم ان کے غروب ہونے کو ان کا ختم ہونا نہ سمجھیں۔" اسی طرح یہ درست ہے کہ قاسم سلیمانی کا بدن خاک میں دفن ہوا، لیکن ان کی شخصیت کی ایک نئی ولادت ہوئی، جس نے تمام دنیا کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ وہ نور سلیمانی جو جسم سلیمانی میں محدود تھا، یوں وہ پوری کائنات میں پھیل گیا اور ہر دل کو عشق الہیٰ سے منور کر دیا۔ ہر دل جذبہ عشقِ سلیمانی سے سرشار ہو کر آج یزیدیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ایک سلیمانی سینکڑوں کی تعداد میں ناصرین کو نصرتِ امام عصر (عج) کے لیے میدان عمل میں لے آیا۔ جیسا کہ از نگاہ دختر شہید زینب سلیمانی: "میرے بابا جان کی مثال خوشبو کی شیشی کی مانند ہے۔ شیشی تو ٹوٹ گئی لیکن خوشبو کل جہاں میں پھیل چکی ہے۔"
شہید قاسم سلیمانی نے اپنے نام کا حق ادا کیا اور خود کو ٹکڑوں میں بکھیر کر امام عصر (عج) کو سنبھال لیا۔ بلاشبہ آج ہر دل میں موجود سردار سلیمانی کی محبت جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی ہی دعا ہے۔ شہید کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ حقیقی عاشق خدا و رسول تھے۔ ہر انسان کو شہید کا لہو دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور جبر کی تیز دھار سے مت گھبراؤ اور اٹھ کھڑے ہو، اس کی خاطر جو پردہ غیب میں تمہارا منتظر ہے!! آؤ اور مدد کرو، اس کی جو تمہارا مددگار ہے! حقیقی منتظر بنو اس کے جو تمہارا منتظر ہے!! یہ لہو اور اس کی ہر اک صدا ہر عاشق پر قرض ہے، جو واجب ادا ہے۔ جس کی ادائیگی یاد شہداء کی بدولت ہی ممکن ہے، چونکہ شہداء کی یاد شہادت سے کم نہیں۔
آج ہر عاشق خدا پر شہید سلیمانی کے لہو کا قرض واجب ادا ہے۔ جس کو ادا کرنے کے لیے ہمیں ان کی راہ پر چل کر "یا مہدی عج" کے نعروں سے طاغوت کی فضا کو مقفل کرنا ہوگا اور یوں یہی فضائے سلیمانی ظہور مہدی عج کی راہ کو ہموار کرے گی۔
وہ اس جہاں سے رشتہ اگرچہ توڑ گئے ہیں
وہ اپنے خوں کا مگر قرض چھوڑ گئے ہیں
لہو سے ان کے اجالے کا کام لینا ہے
شب سیاہ سے یوں انتقام لینا ہے
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس نقوی
(صدر نشین البصیرہ)