حوثی مجاہدین سے درپیش سمندری خطرات کے مقابلے میں امریکہ کی بے بسی

Rate this item
(0 votes)
حوثی مجاہدین سے درپیش سمندری خطرات کے مقابلے میں امریکہ کی بے بسی
غزہ کے خلاف صیہونی جارحیت چوتھے ماہ میں داخل ہو چکی ہے جبکہ دیگر محاذ بھی گرم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے یمن اور بحیرہ احمر کا محاذ اپنی خاص اسٹریٹجک اہمیت کے باعث عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے امریکہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ان دنوں امریکی حکومت پر اندر سے یہ دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی اقدامات انجام دے تاکہ اس سمندری علاقے کی سکیورٹی بحال ہو سکے۔ لہذا امریکی حکام ان دنوں حوثی مجاہدین کے حملے روکنے کیلئے مناسب راہ حل کی تلاش میں مصروف ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جو بائیڈن نے حال ہی میں بحیرہ احمر میں تجارتی کشتیوں کو درپیش خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے مسلح افواج کے پاس موجود آپشنز پر غور کرنے کیلئے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز سے ایک میٹنگ منعقد کی ہے۔
 
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے امریکی فوج کی جانب سے انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اخبار پولیٹیکو نے بھی اعلان کیا ہے کہ جو بائیڈن ایسے منظرناموں کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں جو واشنگٹن کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ پینٹاگون کے ترجمان جنرل پیٹ رائیڈر نے حوثی مجاہدین کے حملوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا ملک خطے میں تعینات فورسز کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات انجام دے گا اور اپنے اتحادیوں کی مدد سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں انصاراللہ کے حملوں کی روک تھام کرے گا۔ ایک مغربی سفارتکار کے بقول امریکی حکام نے بدھ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین سے بند کمرے میں میٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ وہ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کے حملوں کی مذمت پر مشتمل قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
 
امریکی حکام انصاراللہ کی فوجی کاروائیوں کا جواب دینے میں تردد کا شکار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور بحیرہ احمر اور خلیج فارس میں تناو کی شدت میں ممکنہ اضافے سے شدید پریشان ہیں۔ امریکہ مختلف ممالک کو ایک اتحاد کی صورت میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی مدد سے مشترکہ طور پر انصاراللہ یمن کو بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں پر حملوں سے روک سکے لیکن اکثر ممالک نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس وقت صرف برطانیہ واشنگٹن کا ساتھ دے رہا ہے۔ انتہائی محدود تعداد میں ممالک کا ساتھ دینے کے باعث یمن کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کیلئے امریکہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ لہذا بائیڈن کابینہ کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے مدد لئے بغیر اکیلے ہی انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔
 
امریکہ کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے سرگرمیاں ایسے وقت انجام پا رہی ہیں جب حوثی مجاہدین نام نہاد امریکی اتحاد میں شامل ممالک کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہفتے کے دن ایک یمنی رہنما نے وارننگ دی کہ جو ملک بھی بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد کا حصہ بنے گا وہ سمندر میں سکیورٹی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یمنی عوام دھمکی آمیز لہجہ ہر گز برداشت نہیں کرتے۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران یمنی رہنماوں نے ثابت کیا ہے کہ انہیں امریکی اور اسرائیلی حکام کی دھمکیوں کا کوئی خوف نہیں ہے لہذا وہ جب چاہتے ہیں بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ حال ہی میں بحیرہ احمر میں امریکی جنگی کشتی کے قریب یمن کی ایک خودکش کشتی دھماکے سے پھٹ گئی۔ یہ انصاراللہ یمن کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وارننگ تھی۔
 
حال ہی میں ڈنمارک کی کمپنی میرسک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت عارضی طور پر بند کر دی ہے۔ اگرچہ امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں سکیورٹی برقرار کر سکتا ہے لیکن دیگر ممالک اس پر اعتماد نہیں کرتے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ آبنائے باب المندب پوری طرح حوثی مجاہدین کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں وہ اس آبنائے کو مکمل طور پر بند کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شدید اقتصادی دھچکہ لگے گا۔ اسرائیلی چینل 12 نے اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو جنگ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی کابینہ کے کچھ دفتر بند کرنا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر جنگ کا دائرہ بحیرہ احمر تک پھیلتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
 
اس وقت بحیرہ احمر پوری طرح انصاراللہ یمن کے کنٹرول میں ہے جبکہ اسے ملک کے اندر یمنی عوام کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے جس کے باعث وہ امریکہ سے ٹکر لینے کیلئے پرعزم ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کیلئے محدود پیمانے پر انصاراللہ کے خلاف فوجی کاروائی کرے۔ ایسی صورت میں بھی اس کے انتہائی نقصان دہ نتائج ظاہر ہوں گے۔ ایسی کاروائیاں نہ صرف انصاراللہ کی جانب سے پسپائی اختیار کرنے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ ان کی جانب سے اسرائیلی کشتیوں اور اسرائیل پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ تناو کی شدت میں اضافے کے باعث بحیرہ احمر اور قریبی سمندرے علاقے کی سکیورٹی متزلزل ہو جائے گی اور مغربی تجارت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بحیرہ احمر اس وقت ایک بارود کی مانند ہے جسے چھوٹی سے چنگاری بڑے دھماکے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا امریکہ اسرائیلی مفادات کی خاطر بحیرہ احمر میں خودکشی کرنے پر تیار ہو گا یا نہیں؟
 
 
تحریر: علی احمدی
Read 199 times