صیہونی مفادات کی خاطر یمن کے خلاف امریکہ کی فوجی مہم جوئی

Rate this item
(0 votes)
صیہونی مفادات کی خاطر یمن کے خلاف امریکہ کی فوجی مہم جوئی

 
امریکہ اور برطانیہ نے گذشتہ ہفتے جمعہ کے دن یمن میں 16 مختلف مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جن میں الحدیدہ ایئرپورٹ، کہلان بیس کیمپ، الدیلمی فوجی اڈہ اور زبید کے کچھ علاقے شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ان جارحانہ اقدامات کا مقصد یمن کو آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بنانے سے روکنا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کے ایک اعلی سطحی رہنما نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کے جواب کے طور پر بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں امریکہ کی جنگی کشتیوں پر میزائل حملوں کی صورت میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس جوابی کاروائی کا مقصد دشمن کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کا فیصلہ اپنی جگہ باقی ہے اور ہمارے پختہ عزم میں ذرہ برابر تزلزل پیدا نہیں ہوا۔
 
صنعاء میں باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یمن فوج ایک ہفتہ پہلے سے امریکہ کے ممکنہ جارحانہ اقدامات کا انتظار کر رہی تھی اور اس کیلئے پوری طرح تیار تھی۔ یہ حملے شاید اس وجہ سے ایک ہفتہ دیر سے انجام پائے کہ امریکہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یمن کے خلاف قرارداد منظور کروانا چاہتا تھا۔ باخبر ذرائع کے بقول یمن فوج کا خیال تھا کہ شاید امریکہ فوجی تنصیبات اور انفرااسٹرکچر کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ زمینی کاروائی بھی کرے گا اور یمن میں اپنی پٹھو ملیشیا یا امریکی اور برطانوی کمانڈوز کی مدد سے یہ آپریشن انجام دے گا۔ اسی طرح صنعاء حکومت کی مخالف ملیشیا جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کٹھ پتلی ہے، نے بھی یمن فوج سے ٹکر لینے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ وہ یمن میں دوبارہ فوجی جھڑپیں شروع ہو جانے اور اس کے نتیجے میں تناو پیدا ہونے سے پریشان ہے۔
 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنعاء حکومت نے اس ملیشیا کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ جیسے ہی ان کی جانب سے 2022ء میں اسٹاک ہوم جنگ بندی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی سامنے آئے تو ان کے خلاف بڑا فوجی آپریشن شروع کر دے۔ ایسے حالات میں امریکی حکمرانوں نے یمن سے مقابلہ کرنے کیلئے اس ملک کو فراہم کی جانے والی اقوام متحدہ کی غذائی امداد بھی رکوا دی ہے۔ حتی بعض ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق یمن کے مختلف فریقین کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا رہی تھی کہ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں انجام پائیں گے۔ یمن کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے لیڈر کنگ نے بھی انصاراللہ سے ہر قسم کے معاہدے کو غزہ جنگ کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے سے مشروط کیا ہے۔
 
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اب تک انصاراللہ یمن کے ساتھ انجام پانے والے معاہدوں کا پابند رہنے کا فیصلہ کیا ہے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی فوجی اتحاد میں شمولیت سے بھی گریز کیا ہے۔ حتی یورپی ممالک بھی امریکہ کی سربراہی میں یمن مخالف فوجی اتحاد میں شامل ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب تک یمن کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے اور اسے اکیلے ہی یمن کے خلاف فوجی مہم جوئی کا آغاز کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف یمن پر جارحیت کے تین دنوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملے امریکہ اور برطانیہ کے مدنظر اہداف پورا نہیں کر پائے ہیں۔ یمن فوج جسے گذشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب کے وسیع فضائی حملوں کا تجربہ ہو چکا ہے، ایسے حملوں سے بچنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
 
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں یمن کے بارے میں امریکہ کی کمزور انٹیلی جنس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک آگاہ ذریعے کے بقول لکھا کہ یمنیوں کی بہت سی فوجی صلاحیتیں 12 جنوری کے فضائی حملوں کے بعد جوں کی توں باقی ہیں۔ البتہ مغربی ذرائع ابلاغ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کی ناکامی کے ردعمل میں ایران کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور یہ تمسخر آمیز دعوی کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکم پر انصاراللہ یمن اسرائیل مخالف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ یہ دعوی ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یمن اور خطے کے حالات انتہائی درجہ پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر حالیہ جارحیت ان کے اس موقف سے مکمل تضاد رکھتی ہے جس میں وہ دعوی کرتے تھے کہ غزہ جنگ کو علاقائی سطح پر پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی شدت پسندانہ پالیسیوں کی واحد وجہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ہے۔ امریکہ غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام روکنے کیلئے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنا نہیں چاہتا۔ امریکہ اگرچہ بظاہر یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ غزہ جنگ روکنے کا حامی ہے لیکن عمل کے میدان میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کر کے اسے اب تک 24 ہزار سے زائد بیگناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اب یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دے کر پورے خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہا ہے۔ امریکی حکمران توقع رکھتے ہیں کہ پورا خطہ خاموش تماشائی بنا رہے گا اور غزہ میں مسلمانوں کی بھرپور نسل کشی کا تماشہ دیکھتا رہے گا جبکہ دوسری طرف وہ صیہونی رژیم کی بھرپور مالی، فوجی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ یہ متضاد رویہ خطے کی موجودہ صورتحال کا اصل سبب ہے۔

تحریر: علی احمدی

Read 196 times