بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اس دعوے کی واضح وجوہات ہیں۔ غزہ جنگ کے 200 سے زائد دنوں میں اطلاعات کے مطابق صیہونی حکومت نے اجتماعی قتل کے 3,025 واقعات کا ارتکاب کیا ہے، جن میں 41,000 سے زیادہ شہید یا لاپتہ ہوئے ہیں، جن میں سے 34,000 شہداء کی لاشوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور 7,000 تاحال لاپتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 77 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہداء میں سے 14 ہزار 778 بچے ہیں اور 30 بچے قحط سے جاں بحق ہوئے۔ شہداء میں 9752 خواتین ہیں۔
اس بنیاد پر غزہ کے 72 فیصد شہداء خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ پٹی میں 17 ہزار بچے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو کھو چکے ہیں۔ شہداء میں سے 485 طبی عملہ کے افراد ہیں۔ اس دوران 140 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ 11 ہزار زخمیوں کو ضروری طبی خدمات حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر بھیجنا ہوگا اور غزہ میں کینسر کے 10 ہزار مریض موت کی کشمکش میں ہیں۔ نقل مکانی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے ایک لاکھ 90 ہزار باشندے متعدی امراض میں مبتلا ہیں اور غزہ کی پٹی میں 60 ہزار حاملہ خواتین بھی طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ 350 ہزار لاعلاج مریض ہیں، جنہیں میڈیسن کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے خطرے کا سامنا ہے۔
ان تمام جرائم میں سے صرف ایک بھی جرم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (جس کی عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے)، کے لیے ایکشن لینے کے لیے کافی تھا، اقوام متحدہ نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کے جرائم کے خلاف رکاوٹ نہیں بنی، بلکہ اس کی بے عملی ان جرائم کے تسلسل کا بنیادی عنصر بن گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی چار قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس کارروائی کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کو اپنی وسیع سیاسی، مالی اور یقیناً فوجی حمایت کے ساتھ، امریکہ نے ان جرائم کے تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس جنگ میں بائیڈن نیتن یاہو کا اہم ساتھی بن گیا ہے۔
ان جرائم کی وسیع تر کوریج نے عالمی رائے عامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کے 95 فیصد سے زیادہ لوگ اس محاذ آرائی میں فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگرچہ عالمی طاقت کی راہداریوں میں مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن انسانی ضمیر کی بیداری نے بالخصوص امریکہ میں ایک الگ مرحلہ طے کیا ہے اور اس نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک تبدیلی کا ایک بے مثال واقعہ دیکھ رہی ہے۔ امریکہ میں فلسطینی قوم کے کاز کی حمایت اور "فلسطین کو آزاد ہونا چاہیئے" اور "فلسطین سمندر سے دریا تک" امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں خصوصاً اس ملک کی فرسٹ کلاس یونیورسٹیوں کے طلباء کا بنیادی مطالبہ بن چکا ہے۔
اس حوالے سے کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ نے ویتنام جنگ کے بعد طلبہ کی تحریک کی سب سے بڑی لہر دیکھی ہے۔ ڈرانے، دھمکانے، یونیورسٹیوں کو بند کرنے، ورچوئل کلاسز کا انعقاد اور درجنوں طلباء کو گرفتار کرنے سمیت کئی اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن یہ تمام دباؤ نہ صرف اس لہر کے خلاف رکاوٹ نہیں بنے ہیں بلکہ اسرائیل کے جرائم کے خلاف امریکہ کے عملی اور علمی حلقوں میں ہونے والے مظاہروں اور بائیڈن حکومت کی اس تحریک کے خلاف احتجاج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
گارڈین اخبار کے مطابق "کولمبیا" یونیورسٹی میں طلباء پر جبر اور درجنوں طلباء کی گرفتاری کے بعد امریکہ بھر میں طلباء نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج شروع کیا اور یونیورسٹی حکام سے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کریں۔ تاہم، رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج صرف طلباء تک محدود نہیں ہے، گارڈین کے مطابق، ایک نیا کیمپ قائم کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کے سینکڑوں فیکلٹی ممبران احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس کے خلاف بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ہیں۔ اسی میدان میں ایک اور پیش رفت میں امریکن قلم ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب اس وقت منسوخ کر دی گئی، جب اس انجمن کے درجنوں ادیبوں اور نامزد افراد نے غزہ جنگ میں امریکی شرکت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ سالانہ تقریب 29 اپریل کو منعقد ہونی تھی۔ جن 10 مصنفین کو امریکن پین ایسوسی ایشن کے بک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، ان میں سے نو انجمن کی جانب سے فلسطینی مصنفین کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے تقریب میں شرکت سے دستبردار ہوگئے۔ ایک ایسے ملک میں جس کا بنیادی نصب العین آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی حمایت ہے اور اس ملک کی حکومتوں نے اس بہانے کئی ممالک پر حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا ہے، اب وہ فلسطین کی حمایت نہیں کرتا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں جنگ کے خلاف لہر شدت پکڑ رہی ہے۔۔ امریکی حکومت کا ان مظاہروں کی مخالفت کا بہانہ یہود دشمنی قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ مظاہرین یہودی مذہب اور یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ صہیونی حکومت کے جرائم کے خلاف ہیں اور موسیٰ کے قانون کے نام پر انتہاء پسند ربیوں کے نظریئے کے خلاف ہیں۔
صہیونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انتہاء پسند ربی جنگی علاقوں میں موجود رہ کر اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیل کے جرائم اور فلسطینی بیانیے کے ساتھ ملوث ہونے کی مذمت کیوں کرتی ہیں۔؟ اس سوال کے جواب میں شاید غزہ میں انسانی تباہی کی شدت اور انسانی ضمیر کے بیدار ہونے کو اس لہر کے شروع ہونے کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب صحیح اور غلط کی دو قسموں کا ساتھ ساتھ سامنا ہو جائے تو عقل سچ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔
امریکہ کے مین سٹریم میڈیا کی طرف سے غزہ جنگ کے بارے میں ایک بیانیہ تیار کرنے اور ظالم اور مظلوم کو مخلوط کرنے کے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے باوجود امریکی علمی طبقے کا ضمیر حکومتی بیانیے کے ساتھ نہیں چلا اور تاریخ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ اس ملک کے علمی و دانشگاہی حلقوں میں پیدا ہونے والی وسیع لہر کو اس مسئلے کا بہترین ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔غزہ میں گذشتہ 200 دنوں سے جاری جنگ نے اچھی طرح ظاہر کیا ہے کہ گذشتہ برسوں کی بظاہر خاموشی کے باوجود امریکی معاشرہ اس ملک کے مرکزی دھارے کے سیاسی اور میڈیا سے بالکل مختلف راستے پر گامزن ہے اور جبر کے خلاف حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلسطین کا دفاع کر رہا ہے۔
مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف اس ملک میں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے موقع ملا تو یہ ایک طاقتور لہر بن سکتی ہے۔ اس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی سیاسی، تجارتی، فوجی، سکیورٹی اور تکنیکی اشرافیہ نے "کولمبیا" جیسی باوقار یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور اگر اسرائیل آنے والے سالوں میں امریکہ کی علمی و سائنسی برادری میں اپنی حمایت کھو دیتا ہے تو اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔
صیہونی مخالف تحریک امریکی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تکنیکی اداروں تک پھیل سکتی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا حامی آنے والے سالوں میں اسرائیلی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی موجودہ نسل آنے والے سالوں میں امریکہ کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی اداروں میں داخل ہوگی، اس طرح یونیورسٹی کے ادارے میں صیہونیت مخالف تحریک کی تشکیل کا براہِ راست اثر امریکی سوسائٹی پر مرتب ہوسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کے حوالے سے امریکہ میں آنے والے عشرے میں یقیناً منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر اس وقت تک اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
تحریر: سید محمد امین آبادی