ایران کا حملہ یا انتباہ

Rate this item
(1 Vote)
ایران کا حملہ یا انتباہ

14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر انتباہی حملہ کرکے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ نہ کرکے اس کے کسی قونصل خانہ کو نشانہ بنائے گا، جس طرح اسرائیل نے براہ راست ایران پر حملہ نہ کرکے دمشق میں موجود اس کے قونصل خانہ پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے یہ حملہ اندھیرے میں نہیں کیا بلکہ دشمن کو آگاہ کرکے اس کی پوری توانائی کو ناکام بناتے ہوئے کیا۔جس وقت اسرائیل کی اتحادی فوجیں اسرائیلی فضائی حدود کا محاصرہ کئے ہوئے تھیں، ایران نے حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نیٹو افواج کی طاقت سے خوف زدہ نہیں ہے۔ البتہ بعض اس حملے کی تعریف کر رہے ہیں اور بعض تنقید۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے مجموعی طور پر تقریباً ایک سو ستّر ڈرونز، تیس سے زائد کروز میزائل اور ایک سو بیس سے زائد بیلسٹک میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب فائر کئے۔

ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو نیٹو افواج نے مشترکہ طور پر روکنے کی کوشش کی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر نیٹو افواج کی حمایت حاصل نہ ہو تو اسرائیل کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے مطابق انہوں نے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کر دیا لیکن وہ بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایرانی میزائلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈیوڈ ہگاری نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران نے اسرائیل کی طرف 170 ڈرونز اور 30 کروز میزائل داغے، جن کو اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیلی فضائی حدود میں پہنچنے سے پہلے تباہ کر دیا۔ ان میں سے بعض نے نواٹیم ائیر بیس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اس ائیربیس کو معمولی نقصان پہنچا۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کبھی اپنے نقصان کی صحیح معلومات فراہم نہیں کرے گا، جیسا کہ حماس کے حملوں میں ہوئے نقصان کی صحیح معلومات کو مسلسل چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسرائیل نے میڈیا کو بھی محدود پیمانے پر کوریج کی اجازت دے رکھی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو ہونے والے نقصان کی صحیح جانکاری نہیں ہوپاتی۔ اس لئے حماس، حزب اللہ، انصاراللہ اور ایران کے حملے میں ہوئے نقصان کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ایک امریکی چینل "اے بی سی" نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ایران کے کم از کم 9 میزائلوں نے دو اسرائیلی ائیربیس کو نشانہ بنایا، جس میں تل ابیب کو کافی نقصان پہنچا۔ اس چینل کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ 4 ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے نیگیو ائیربیس کو تباہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 5 مزید میزائل نواٹیم ائیربیس پر گرے، جس کے نتیجے میں ایک c-130 ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے کم از کم 9 میزائل داغے اور ان میزائلوں نے دو فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا اور کافی نقصان پہنچایا۔

ایرانی فوج کے ترجمان نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ان کا مقصد شہروں یا عوامی مقامات کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ اسرائیلی فوجی مراکز کو ہدف بنایا گیا تھا، جس میں انہیں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ خاص طور پر اس ائیربیس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے ذریعے دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر حملہ ہوا تھا۔بعض وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایرانی حملے کو ناکام بنا دیا گیا اور ایران نے انتہائی کم درجے کے میزائیل اور ڈرونز استعمال کئے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ کم از کم کسی ملک نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرأت کا مظاہرہ تو کیا۔ اس سے پہلے ایران نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی ائیربیس پر حملہ کرکے یہ بتلا دیا تھا کہ خطے میں امریکی فوجی مراکز محفوظ نہیں ہیں، جبکہ اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے زیادہ نقصان نہیں پہنچا، جبکہ عین الاسد ائیربیس اور دیگر فوجی مراکز کی سیٹلائٹ تصویروں نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا تھا۔

یہی صورتحال اسرائیل پر حملے کے بعد معرض وجود میں آئی۔ ناقدین کا یہ کہنا کہ ایران نے امریکہ کو اطلاع دے کر حملہ کیا ہے، اس لئے اس حملے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اول تو ان کے دعوے بغیر دلیل کے ہوتے ہیں اور بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایران نے اطلاع دے کر حملہ کیا ہے تو کیا اس حملے کو حملہ نہیں مانا جائے گا؟ یہ اطلاع امریکہ کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے نہیں تھی، جس کی طرف ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی اشارہ کیا۔ بعض کا یہ کہنا کہ یہ حملہ ایران نے اپنے قونصل خانہ پر ہوئے حملے کے جواب میں کیا تھا، اس کا فلسطین کے دفاع، بیت المقدس کی بازیابی اور غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ کیا وہ بتلا سکتے ہیں کہ دمشق میں موجود ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیل نے حملہ کیوں کیا تھا۔؟

اگر وہ اس سوال کا صحیح جواب تلاش کر لیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ ایران کے قونصل خانہ پر اسرائیل کا حملہ غزہ کی حمایت کی بنیاد پر تھا۔ غزہ میں حماس کی مقاومت، لبنان کی سرحدوں پر حزب اللہ کی جانفشانی، بحر احمر میں حوثیوں کی دلیرانہ کارروائیاں اور شام و عراق میں مزاحمتی گروپوں کی استقامت، تنہاء ایران کی مرہون منت ہے۔ حماس اور مزاحمتی محاذ علیٰ الاعلان ایران کی حمایت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حقیقت کو دیکھنا نہیں چاہتے، وہ اب بھی مسلکی عناد کے بھنور میں الجھے ہوئے ہیں، جبکہ وہ اردن اور دیگر نام نہاد مسلمان ملکوں کی مذمت نہیں کرتے، جنہوں نے ایرانی حملوں کو روکنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کیا۔ ایران کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اب تک اسرائیلی حماس اور حزب اللہ سے عاجز تھے، کیونکہ غزہ اور لبنان اسرائیلی سرحدوں پر واقع ہیں۔

انہیں ایران کے براہ راست حملے کی توقع نہیں تھی۔ انہیں اسرائیل کے دفاعی نظام اور اپنی فوج کے بلند بانگ دعووئوں پر بہت اعتماد تھا، لیکن ایران نے ان کے بھرم کو پاش پاش کر دیا۔ اس وقت اسرائیل داخلی انتشار کا شکار ہے اور اس کے شہری اپنی فوج اور حکومت پر عدم اطمینان میں مبتلا ہیں۔ اس کو بھی ایران کی نمایاں کامیابی تصور کرنا چاہیئے کہ اس نے اسرائیل کے سیاسی اور سماجی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ اب تک اسرائیل اپنے جاسوسوں کے ذریعہ ایران میں داخلی انتشار کو فروغ دیتا رہا ہے، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب اسرائیل کے شہری اپنی فوج کی طاقت اور حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ انہیں باور کرا دیا گیا ہے کہ اب اسرائیل ان کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ جس طرح فلسطین کو اس کے شہریوں کے لئے غیر محفوظ بنا دیا گیا، بالکل وہی صورتحال اسرائیل میں رونما ہوچکی ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کا حملہ اندھا دھند اور انتہائی خطرناک تھا، جبکہ ابتدا میں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک بالکل برعکس بیان دے رہے تھے۔ یہ تمام بیانات اور صورتحال اسرائیلی شہریوں کے سامنے ہے۔ اگر ایران کا حملہ کمزور اور ناکام ہوتا تو اسرائیل کے اتحادی ممالک کب کا ایران پر حملے کا فیصلہ کرچکے ہوتے، اس بات کو دنیا سے زیادہ اسرائیلی شہری سمجھ رہے ہیں۔ آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کا یہ حملہ اسرائیل کے لئے ایک انتباہ تھا۔ ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی فضائی حدود کو چھید کرسکتا ہے اور مختلف سمتوں سے اسرائیل پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسرائیل کسی بھی سطح پر محفوظ نہیں ہے۔ اب تک یہ بھی سوال کیا جاتا تھا کہ کیا ایران اسرائیل پر براہ راست حملہ کرسکتا ہے۔؟اس نے عالمی طاقتوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا اور حملہ کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو واضح انتباہ بھی۔ کیونکہ ایران کے حملوں کے روکنے کے لئے امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج نے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا۔

یعنی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے بوتے پر ایرانی حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے اس کے تمام اتحادیوں نے مل کر اسرائیل کا دفاع کیا۔ دوسرے ایران نے اپنے سستے اور سست ڈرونز کا استعمال کرکے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق تنہاء اسرائیل کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، جس کی بنیاد پر اس کے اقتصادی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو میزائل ایران نے داغے، وہ بھی جدیدترین میزائل نہیں تھے، کیونکہ انتباہی حملے میں اپنی پوری توانائی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے۔ حماس جس نے بہت پہلے اسرائیلی دفاعی نظام کا پول کھول دیا تھا، ایران نے مختلف سمتوں سے حملہ کرکے اس کے اتحادیوں کو ہائی الرٹ پر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام اتحادیوں نے متفقہ طور پر اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کرنے سے منع کیا، کیونکہ اس کے نتائج سنگین ثابت ہوں گے، جس کا اندازہ اسرائیل سے زیادہ اس کے اتحادیوں کو ہے، کیونکہ جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ملک مل کر ایران کے سستے ڈرونز اور میزائلوں کو اسرائیل پہنچنے سے نہیں روک سکے، تو پھر اندازہ کیجیے، جب ایران اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوگا تو انجام کیا ہوگا۔

تحریر: عادل فراز
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read 344 times