غزہ نسل کشی کے مغربی معمار

Rate this item
(0 votes)
غزہ نسل کشی کے مغربی معمار

انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور تنظیموں نے ہمیشہ سے امریکہ اور یورپ کی جانب س اسرائیل کو فراہم کی جانے والی امداد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس مسئلے پر پردہ ڈال کر اسے چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی ذرائع ابلاغ میں گاہے بگاہے اس بارے میں حقائق منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران امریکہ اور جرمنی نے سب سے زیادہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ انہوں نے اب تک اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو ہلکے سے لے کر بھاری تک مختلف قسم کے فوجی ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اب تک اسرائیل کو 100 سے زیادہ فوجی سازوسامان کے پیکج فراہم کر چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ غزہ میں انجام پانے والے جنگی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔
 
امریکی سیاست دان بظاہر غزہ میں جنگ اور عام شہریوں کے قتل عام پر جو تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے رہتے ہیں اس کا واحد مقصد فیس سیونگ اور عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ ہم اس تحریر میں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی سب سے زیادہ فوجی امداد کرنے والے دو مغربی ممالک کا ذکر کریں گے اور اس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کئے گئے فوجی سازوسامان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اصلی ترین حامی کے طور پر امریکہ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔ 2019ء سے 2023ء کے دوران اسرائیل نے جتنا بھی اسلحہ خریدا اس کا 69 فیصد امریکہ نے اسے فراہم کیا ہے۔ یہ اعدادوشمار اسٹاک ہوم کے تحقیقاتی ادارے انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نے شائع کئے ہیں۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023ء کے دن اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی انجام پانے کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کی فوجی امداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
 
طوفان الاقصی آپریشن سے اب تک امریکہ اسرائیل کو 100 فوجی پیکج فراہم کر چکا ہے۔ یہ فوجی پیکجز مختلف قسم کے فوجی ہتھیار جیسے ایئر ڈیفنس سسٹمز، گائیڈڈ بم اور میزائل، توب کے گولے، ٹینک کے گولے اور ہلکے ہتھیاروں پر مشتمل تھے۔ امریکہ نے اسرائیل میں آئرن ڈوم نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کو مضبوط بنانے اور اسرائیل کو زیادہ جدید ایئر ڈیفنس سسٹم سے لیس کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرکاری رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو وسیع پیمانے پر چھوٹے سائز کے انٹیلی جنٹ بم فراہم کرنے کے ساتھ ایسی جدید ٹیکنالوجیز بھی فراہم کی ہیں جن کی بدولت بم اور میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مارا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کئے گئے مختلف ہتھیاروں میں 155 ملی میٹر کے توپ کے گولے، ہیل فائر میزائل، 30 ملی میٹر کے گولیاں اور 120 ملی میٹر کے ٹینک کے گولے بھی شامل ہیں۔
 
اسی طرح کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو رات کو دیکھنے والے آلات اور مورچے تباہ کرنے والے بم بھی فراہم کئے ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2024ء کے آخر تک امریکہ اسرائیل کو ایف 35 جنگی طیارے، آپاچی فوجی ہیلی کاپٹر، بلیک ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، سی ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، مختلف قسم کے ڈرون طیارے، ایم 270 راکٹ لانچر، ایف 16 فیلکن جنگی طیارے اور توپ کے ہزاروں گولے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اسی طرح مارچ 2024ء کے آخر تک بائیڈن حکومت نے 2.5 ارب ڈالر مالیت کے 25 ایف 35 جنگی طیارے اور جنگی طیاروں کے دیگر پرزہ جات جیسے انجن وغیرہ اسرائیل کو فراہم کئے تھے۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کردہ ہتھیاروں میں 1800 عام بم اور 500 گائیڈڈ بم بھی شامل تھے۔
 
اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا دوسرا بڑا مغربی ملک جرمنی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2019ء سے 2023ء تک اسرائیل نے جتنا اسلحہ خریدا اس کا 25 فیصد جرمنی نے اسے فراہم کیا تھا۔ جرمنی اسرائیل کو زیادہ تر سب میرینز، جنگی کشتیاں، مختلف گاڑیوں، جہازوں اور جنگی طیاروں کے انجن اور تارپیڈو فراہم کرتا آیا ہے۔ لیبرز ان فلسطین نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اسرائیل کو فراہم کئے جانے والے ہتھیار اور فوجی سازوسامان کا ایک تہائی حصہ فوجی امداد کی صورت میں اسے دیتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے جرمنی نے اسرائیل کو براہ راست طور پر 326 ملین یورو کا فوجی اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری دے رکھی تھی۔ البتہ جرمنی اسرائیل کو فوجی ٹریننگ کے شعبے میں بھی بہت زیادہ تعاون فراہم کرتا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق جرمن حکومت نے مختلف فوجی ٹیکنالوجیز، الیکٹرونک آلات، جنگی کشتیوں، سمندری ہتھیاروں جیسے بم، تارپیڈو، راکٹ، میزائل وغیرہ اسرائیل کو فراہم کرنے کی بھی منظوری دے رکھی ہے۔
 
جرمنی نے اسرائیل کو مرکاوا 4 ٹینک میں استعمال ہونے والا ڈیزل انجن بھی فراہم کیا ہے۔ یاد رہے غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم مرکاوا 4 ٹینکوں کا وسیع استعمال کر رہی ہے۔ اکتوبر 2023ء کے آخر سے اسرائیل نے غزہ میں شہری آبادی اور مراکز کو مرکاوا 4 ٹینکوں سے نشانہ بنایا ہے۔ جنوری 2024ء میں جرمن اخبار اشپیگل نے رپورٹ دی ہے کہ جرمنی اسرائیل کو 120 ملی میٹر توپ کے گولے فراہم کرنے کی منظوری دے چکا ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے نومبر 2023ء میں جرمنی کو یہ گولے دینے کی درخواست دی تھی۔ البتہ سرکاری رپورٹس میں جن اعدادوشمار کا ذکر ہوا ہے وہ اس مقدار سے بہت کم ہے جو حقیقت میں امریکہ اور جرمنی نے اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ امریکہ اور جرمنی کے علاوہ اٹلی اور برطانیہ بھی اسرائیل کے اصلی فوجی حامیوں میں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر غزہ میں صیہونی جرائم کے خلاف شدید احتجاج اور مخالفت کے باوجود یہ مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تحریر: علی احمدی

Read 126 times