ایران کے حالیہ انتخابات کے بارے میں چند نکات

Rate this item
(0 votes)
ایران کے حالیہ انتخابات کے بارے میں چند نکات
 انتخابات غیر یقینی نتائج تک پہنچنے کا ایک خاص معین طریقہ ہے۔ ایران میں مذہبی جمہوریت کے عمل کے طور پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اقتدار و طاقت کی سطح کے تعین کے لیے عوامی ووٹوں کے ذریعے صحت مند، سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل قدر نظام ہے۔ چودھویں صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ نتائج کے بارے میں بدخواہوں اور دشمنوں کی قیاس آرائیاں حقائق سے میل نہیں کھاتیں۔ نتائج نے پابندیاں عائد کرنے والوں اور دھوکہ دہینے والوں کے دعووں کو اسکینڈلائز کر دیا اور انتخابات میں 50% کی شرکت نے ان کے تمام شکوک کو باطل کر دیا ہے۔ انقلاب کے بعد یہ پہلا الیکشن تھا، جس میں مخالف نے گارڈین کونسل کی توہین نہیں کی اور نگرانی و صوابدید کا مذاق نہیں اڑایا۔ شکست کھانے والے نے انتخابات کی سالمیت پر اعتماد، نظام کی امانت داری پر یقین اور دھاندلی کا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے مسعود پزشکیان کی جیت کا اعلان جہاں اس اعتماد  یا ’’ٹرسٹ‘‘ پر مہر تصدیق تھی، وہاں نظام کے نظریئے پر اعتراف کا عملی نمونہ تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ایران میں انتخابات منصفانہ اور آزادانہ نہیں ہیں۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ یہ "منصفانہ" بھی ہیں اور "آزاد" بھی۔ امریکیوں نے منافقوں اور شاہ پرستوں کو  آگے کرکے بیرون ملک ووٹ دینے والوں کو مارنے اور گالیاں دینے جیسے گھٹیا اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا۔ امریکیوں کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ جمہوریت کو سمجھنے کا ان کا طریقہ نہ تو ’’آزاد‘‘ ہے اور نہ ہی منصفانہ۔

 جناب مسعود پزشکیان امام خامنہ ای کی طرف سے صدارت کے عہدے کی تنفیذ کے بعد سرکاری طور پر ملک کے قانونی اور شرعی صدر ہونگے۔ وہ نہ صرف ان لوگوں کے صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ دیا تھا بلکہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ان کے حریف تھے اور وہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جو کسی بھی وجہ سے ووٹ دینے سے قاصر رہے۔ انتخابی مہم کے دوران منتخب صدر نے جو آیات اور احادیث پڑھی ہیں، ان کے مطابق وہ خود کو اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا پابند سمجھتے ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق وہ آئین کے دائرے اور قیادت کی عمومی پالیسیوں کے دائرے میں اور ساتویں پلان کے قانون پر عمل درآمد کریں گے۔

آئین کے آرٹیکل 121 کے مطابق انہیں پارلیمنٹ میں عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کے ارکان کی موجودگی میں یہ کہنا ہے کہ وہ
A۔ سرکاری مذہب، اسلامی جمہوریہ کے نظام اور آئین کے محافظ ہونگے۔
B۔ مذہب اور اخلاق کی ترویج، حق کی حمایت اور انصاف کو پھیلائیں گے۔
C۔ اسے عوام کی خدمت اور خود مختاری سے بچنے کے لیے خود کو وقف کرنا ہے۔
D۔ وہ افراد کی آزادی اور وقار کی حمایت کریں گے۔
E۔ وہ ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سرحدوں اور آزادی کے تحفظ کا  حلف اٹھائیں گے۔

ان پر خدا اور عوام کا فرض واضح ہے اور اس آئین اور اس حلف کے دائرے میں ان کے لیے عوام کا فرض اور ذمہ داری بھی واضح ہے۔ جو لوگ خدا کے اس حق و فرض کو چھوڑ کر کوئی اور خلا پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ دشمن کی صف میں شامل ہونگے۔ اگر وہ یہ کام کرتے ہیں کہ جیسے کوئی بھوت آیا اور پری چلی گئی یا کالا آیا اور سفید چلا گیا تو وہ صحیح سمت میں نہیں ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی جماعت یا گروہ کے رکن نہیں ہیں اور انہوں نے حمایت کرنے والے حقیقی اور قانونی افراد سے غیر قانونی و غیر آئینی کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔
 
 
تحریر: محمد کاظم انبارلوی
Read 61 times