فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر "یحییٰ السنوار" کا انتخاب صیہونی حکومت کے لیے حیرت اور دہشت کا باعث بنا ہے۔ "یحی ابراہیم السنوار" حماس کی سکیورٹی سروس کے بانی ہیں، جس کا نام "مجد" ہے، جو داخلی سلامتی کے معاملات سے نمٹتا ہے۔ صیہونی حکومت ابھی ان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر یحییٰ السنوار کے انتخاب کو خطے اور دنیا میں مختلف ردعمل کا سامنا ہے۔ بعض نے اس انتخاب کو مزاحمت کو تقویت دینے اور شہید اسماعیل ہنیہ کے راستے کو جاری رکھنے کے لیے بہترین آپشن قرار دیا ہے۔
تحریک حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس انتخاب پر ردعمل کا اظہار کیا اور اس نازک مرحلے اور پیچیدہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات مین اپنے رہنماء کے طور پر "ابو ابراہیم" (عرف السنوار) کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔حماس کے سینیئر ارکان میں سے ایک اسامہ حمدان نے اس حوالے سے کہا: "سیاسی بیورو کے نئے سربراہ کے طور پر السنوار کا فوری انتخاب حماس کی متحرکیت اور فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔" حمدان نے زور دے کر کہا: "حماس کا پیغام یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کیا ہے، جو غزہ میں 300 دنوں سے زیادہ عرصے تک جہاد اور میدان جنگ میں لڑنے کا امین و معتمد ہے۔"
السنوار کے انتخاب کو علاقے کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے اور دوسری جانب صہیونی حکام نے حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کے قتل کے مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔ صیہونی حکومت نے السنوار کی برطرفی کو غزہ کے خلاف جنگ کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے، لیکن اب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ سنہ 1989 میں مقبوضہ علاقوں کی ایک عدالت میں السنوار کو چار بار عمر قید کی سزا یعنی 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن آخرکار انہیں 22 سال قید کے بعد 2011ء میں صیہونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔ وہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کا نام امریکہ کی جانب سے مبینہ طور پر مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر ایسے حالات میں منتخب کیا گیا، جب وہ صیہونی حکومت کی نسل کشی کے باوجود غزہ میں مقیم ہیں۔ السنوار کو منتخب کرنے کے حوالے سے حماس کی حالیہ کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ اب بھی صیہونیوں کے خلاف مزاحمت اور کھڑے ہونے کو اپنا اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کا اہم آپشن سمجھتے ہیں۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کی صیہونی حکومت کے خلاف لڑائی کی ایک طویل تاریخ ہے اور یحییٰ السنوار کا ذکر "الاقصیٰ طوفان" آپریشن کے ڈیزائنر اور رہنماء کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔
بہرحال غزہ جنگ میں پیش رفت کا عمل فلسطینی عسکریت پسند گروپوں میں زیادہ استحکام اور یکجہتی کا باعث بنا ہے۔ ایسی صورت حال میں السنور کا انتخاب صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے زیادہ اتحاد اور تعاون کا باعث بنے گا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کی کامیابیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور لڑائی کو تیز کر دیا ہے۔ بہرحال صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے السنوار ایک بہترین انتخاب ہے، جو مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو مزید مستحکم کریں گے۔
تحریک حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس انتخاب پر ردعمل کا اظہار کیا اور اس نازک مرحلے اور پیچیدہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات مین اپنے رہنماء کے طور پر "ابو ابراہیم" (عرف السنوار) کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔حماس کے سینیئر ارکان میں سے ایک اسامہ حمدان نے اس حوالے سے کہا: "سیاسی بیورو کے نئے سربراہ کے طور پر السنوار کا فوری انتخاب حماس کی متحرکیت اور فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔" حمدان نے زور دے کر کہا: "حماس کا پیغام یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کیا ہے، جو غزہ میں 300 دنوں سے زیادہ عرصے تک جہاد اور میدان جنگ میں لڑنے کا امین و معتمد ہے۔"
السنوار کے انتخاب کو علاقے کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے اور دوسری جانب صہیونی حکام نے حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کے قتل کے مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔ صیہونی حکومت نے السنوار کی برطرفی کو غزہ کے خلاف جنگ کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے، لیکن اب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ سنہ 1989 میں مقبوضہ علاقوں کی ایک عدالت میں السنوار کو چار بار عمر قید کی سزا یعنی 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن آخرکار انہیں 22 سال قید کے بعد 2011ء میں صیہونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔ وہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کا نام امریکہ کی جانب سے مبینہ طور پر مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر ایسے حالات میں منتخب کیا گیا، جب وہ صیہونی حکومت کی نسل کشی کے باوجود غزہ میں مقیم ہیں۔ السنوار کو منتخب کرنے کے حوالے سے حماس کی حالیہ کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ اب بھی صیہونیوں کے خلاف مزاحمت اور کھڑے ہونے کو اپنا اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کا اہم آپشن سمجھتے ہیں۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کی صیہونی حکومت کے خلاف لڑائی کی ایک طویل تاریخ ہے اور یحییٰ السنوار کا ذکر "الاقصیٰ طوفان" آپریشن کے ڈیزائنر اور رہنماء کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔
بہرحال غزہ جنگ میں پیش رفت کا عمل فلسطینی عسکریت پسند گروپوں میں زیادہ استحکام اور یکجہتی کا باعث بنا ہے۔ ایسی صورت حال میں السنور کا انتخاب صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے زیادہ اتحاد اور تعاون کا باعث بنے گا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کی کامیابیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور لڑائی کو تیز کر دیا ہے۔ بہرحال صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے السنوار ایک بہترین انتخاب ہے، جو مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو مزید مستحکم کریں گے۔
تحریر: احسان شاہ ابراہیم