صیہونی حکومت عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس خطرے کی بڑی وجہ غزہ میں نسل کشی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں اس کا شامل نہ ہونا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جنرل کانفرنس کا 68 واں سالانہ اجلاس 16 سے 20 ستمبر 2024ء آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں منعقد ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی جنرل کانفرنس ایجنسی کے اہم پالیسی ساز اداروں میں سے ایک ہے، جو تمام رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ یہ کانفرنس ہر سال ستمبر میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر ویانا میں منعقد ہوتی ہے اور اس میں رکن ممالک کے اعلیٰ حکام اور رکن ممالک کے نمائندے بعض امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اس اجلاس میں تاکید کی ہے کہ "اسرائیلی حکومت کا این پی ٹی میں شمولیت سے انکار اور اپنی ایٹمی تنصیبات کو ایجنسی کے تحفظ میں رکھنے سے انکار بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔" بلا شبہ صیہونی حکومت آج عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے اہم خطرہ ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں: یہ حکومت 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری بین الاقوامی اداروں اور دنیا کے اکثر ممالک کے لوگوں نے غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے جرم کی مذمت کرتے ہوئے اسے نسل کشی کی مثال قرار دیا ہے۔
تاہم، یہ حکومت اس نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور یہاں تک کہ مغربی ایشیائی خطے میں جنگ کو وسعت دینے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جنرل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں کہا: اس وقت دنیا کو سنگین اور تشویشناک چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں صیہونیوں کے جرائم بھی شامل ہیں۔ فلسطین میں یہ حکومت حالت جنگ میں ہے اور اس نے غزہ میں 41000 سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ یہ ناجائز حکومت امریکہ اور بعض ممالک کی حمایت سے اپنے جرائم اور نسل کشی کو ڈھٹائی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے ہمیشہ بین الاقوامی ضابطوں، معاہدوں اور دستاویزات کا مذاق اڑایا ہے۔ بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی قانونی دستاویزات میں مسلح تصادم کی دفعات بیان کی گئی ہیں، ان حقوق میں سے طبی، تعلیمی، خواتین، بچوں اور عام شہریوں پر حملہ کرنا ممنوع ہے، لیکن صیہونی حکومت ان ممانعتوں کو کھلے عام نظر انداز کرتی ہے۔ اس کے میزائلوں اور ٹینکوں نے نہ صرف عوامی اہداف کے بلکہ طبی مراکز، ہسپتال، اسکول اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کے ضوابط کی صریح اور کھلی خلاف ورزی کو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) میں شامل ہونے سے صیہونی حکومت کا انکار غاصب حکومت کی جانب سے عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کی ایک اور مثال ہے۔ صیہونی حکومت نے اس معاہدے کی توثیق کے بعد ایٹمی ہتھیار حاصل کیے اور آج تک اس معاہدے سے متعلق اضافی پروٹوکول میں شامل ہونے سے بھی انکار کیا ہے۔ یہ حکومت مغربی ایشیائی خطے میں واحد ریاست ہے، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اس سلسلے میں ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے اس بات پر زور دیا کہ ایٹمی تخفیف اسلحہ بین الاقوامی برادری کی اہم ترجیح ہے اور موجودہ حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک زون تشکیل دیا جائے۔ مغربی ایشیائی خطے میں ہتھیاروں پر کنٹرول اس لئے بھی اہم ہے کہ صرف پچھلے ایک سال میں، بچوں کو مارنے والی صیہونی حکومت کے حکام نے متعدد مواقع پر ایران کی عظیم قوم اور غزہ کے مظلوم عوام کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے ڈرایا ہے۔
تحریر: سید رضا عمادی