انقلاب کے بعد تہران کا خطبہ جمعہ بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ انقلاب کی آواز بنا رہا اور آج بھی ہے۔ یہاں سے ایران کے مسائل پر بالخصوص اور امت کے مسائل پر بالعموم بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔ یہاں خطبہ دینے والی شخصیات دراصل ایران اور انقلاب کی بڑی قدآور شخصیات ہوتی ہیں۔ ایران سے اور بعض مواقع پر بیرون ممالک سے بھی لوگ ان نماز ہائے جمعہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس جمعہ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق امت کو درپیش چیلنجز کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ یہاں دیئے جانے والے خطبات پر ایران میں مفصل ڈیبیٹس ہوتی ہیں۔ جنگ کے دوران رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام عزہ خطبہ دے رہے تھے، ایسے میں منافقین خلق کی طرف سے بم حملہ کیا گیا۔ زور دار دھماکہ ہوا اور کچھ افراتفری کا ماحول پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ ایسے میں ایک مکبر آگے بڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں، آغا خامنہ ای دام عزہ خطبہ جاری رکھیں گے۔
جشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید سب کے سامنے کھڑا خطبہ جمعہ دے رہا ہے اور بم دھماکے کا دھواں بھی اٹھ رہا ہے۔ یہ عام حالات نہیں تھے، تہران میں شہید مطہریؒ جیسی عظیم شخصیات ان ظالموں کے ظلم کا نشانہ بن چکی تھیں۔ ایران میں پارلیمنٹ تک کو اڑایا جا چکا تھا، ایسے میں یہ سید بزرگوار اپنا خطبہ جاری رکھتا ہے۔ یہ دلیرانہ انداز اہل اسلام کو آج بھی یاد ہے۔ تہران میں اسماعیل ہانیہؒ کی شہادت اور اب سید المقاومہ سید حسن نصراللہؒ کی شہادت نے اسلامی مزاحمتی محور کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کی اسرائیلی پالیسی، جو بربریت پر مبنی ہے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہو کر طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں کر رہے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا تھا کہ ایران کے اندر سے اٹھنے آوازوں کو سنا جائے اور مزاحمتی تحریکوں کی براہ راست مدد کی جائے۔اسرائیل کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے، جس سے اسے ظلم سے باز رکھا جا سکے۔
اسلامی جمہوری ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے اسرائیل کے دفاعی نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اسلام میں بے گناہ انسان کو قتل کرنا درست نہیں ہے، اس اسلامی حکم پر عمل کرتے ہوئے صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا دفاعی نظام اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس حملے سے اہل غزہ کے بجھے چہروں پر بھی خوشی نظر آئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کی صورت میں ہمارا جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ اگرچہ اسرائیل کے عزائم یہی بتا رہے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا، جس سے خطے پر اس کی مصنوعی دھاک برقرار رہے۔
اس حملے کے بعد مغربی اور ان کی پیروی میں پاکستانی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ رہبر معظم کسی محفوظ مقام میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس سے اسرائیل کی برتری اور اس سے خوف کا اظہار کرنا تھا۔ ایسے میں سید نے خود جمعہ پڑھانے کا اعلان کر دیا۔ تین دن پہلے اعلان کیا گیا اور زیر آسمان اسی روایتی مصلی پر خطبہ دیا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھ لو ہم پوری طرح سے میدان میں موجود ہیں۔ کئی ملین لوگ براہ راست اس نماز جمعہ میں شریک ہوئے اور کئی ملینز نے لائیو اس خطبہ جمعہ کو سنا۔ آپ کا پورا خطاب اہم تھا، اس میں چند امور بڑے پالیسی ساز ہیں۔ رہبمر معظم نے کہا کہ اسرائیل کو خطے سے یورپ تک توانائی کی برآمد کا راستہ بنانا مقصود ہے، اسرائیل کبھی بھی حزب اللّٰہ اور حماس پر فتح یاب نہیں ہوگا، خطے میں مزاحمت پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی حکومت کے جرائم اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ اسرائیل سے یورپ کا رومانس اسی لیے ہے کہ وہ مشرق میں واقع ہے اور مغرب کی پالیسی کو نافذ کرنے والا ہے۔
یورپ کی ترقی کی بنیاد جس توانائی پر ہے، اس توانائی کی بلا تعطل فراہمی اسرائیل کے ڈنڈے کے ذریعے کرانے کا پروگرام ہے۔ اپنوں کی نااہلیوں کی وجہ سے عملی طور پر ایسا ہی ہے اور مزید ایسا ہونے جا رہا تھا، یہ تو درمیان میں طوفان الاقصی آگیا، جس کی وجہ سے انہیں وقتی ناکامی ہوئی ہے۔ رہبر معظم نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان مظلوم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کریں، مسلمان قوموں کو افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانا ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو جارح کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران کا دشمن فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے، فلسطینی حق پر ہیں اور ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، قرآن کا درس ہے کہ مسلم اقوام متحد رہیں، امتِ مسلمہ کے دشمن مشترکہ ہیں، قرآن میں مومنین کے اتحاد سے مراد رحمتِ الہٰی ہے۔
یہ بہت اہم بات ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی لائن کھینچیں، ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح ہر مسلمان ملک کو الگ الگ کرکے مارا جاتا رہے۔ جن ممالک کے رہبر معظم نے نام لیے ہیں، یہ براہ راست مغربی استعماری حملوں کا شکار رہے ہیں۔ اسرائیل اور مغرب رکنے والے نہیں ہیں، وہ ایک ایک کرکے تمام اہم مسلمان ممالک کو شکار کریں گے۔ جاوید چوہدی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے: "دوسرا سوال کیا پاکستان اسرائیلی جارحیت سے بچ جائے گا؟ جی نہیں، ایران اور ترکی کے بعد پاکستان کی باری ہے، اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے، لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا، پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے، یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہوسکے، بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔"
عقل مند وہ ہوتا ہے، جو آنے والے وقت کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ وطن عزیز کے درپے ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج سے تیاری کریں اور دشمن کو دشمن سمجھیں کہ وہ ہمارے پیچھے ہیں اور ہم نے اس سے اپنا اور اپنی امت کا دفاع کرنا ہے۔ رہبر معظم کا خطاب آنے والے وقت کی ہلکی سے جھلک دکھا رہا ہے، باقی مستقبل کا منظر نامہ ہم نے خود سمجھنا ہے۔ رہبر معظم کے اس خطبے کو سن کر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اقبال کی خواہش، جو اقبال نے شعر کی صورت کہی لکھی ہے:
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!
جشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید سب کے سامنے کھڑا خطبہ جمعہ دے رہا ہے اور بم دھماکے کا دھواں بھی اٹھ رہا ہے۔ یہ عام حالات نہیں تھے، تہران میں شہید مطہریؒ جیسی عظیم شخصیات ان ظالموں کے ظلم کا نشانہ بن چکی تھیں۔ ایران میں پارلیمنٹ تک کو اڑایا جا چکا تھا، ایسے میں یہ سید بزرگوار اپنا خطبہ جاری رکھتا ہے۔ یہ دلیرانہ انداز اہل اسلام کو آج بھی یاد ہے۔ تہران میں اسماعیل ہانیہؒ کی شہادت اور اب سید المقاومہ سید حسن نصراللہؒ کی شہادت نے اسلامی مزاحمتی محور کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کی اسرائیلی پالیسی، جو بربریت پر مبنی ہے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہو کر طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں کر رہے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا تھا کہ ایران کے اندر سے اٹھنے آوازوں کو سنا جائے اور مزاحمتی تحریکوں کی براہ راست مدد کی جائے۔اسرائیل کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے، جس سے اسے ظلم سے باز رکھا جا سکے۔
اسلامی جمہوری ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے اسرائیل کے دفاعی نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اسلام میں بے گناہ انسان کو قتل کرنا درست نہیں ہے، اس اسلامی حکم پر عمل کرتے ہوئے صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا دفاعی نظام اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس حملے سے اہل غزہ کے بجھے چہروں پر بھی خوشی نظر آئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کی صورت میں ہمارا جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ اگرچہ اسرائیل کے عزائم یہی بتا رہے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا، جس سے خطے پر اس کی مصنوعی دھاک برقرار رہے۔
اس حملے کے بعد مغربی اور ان کی پیروی میں پاکستانی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ رہبر معظم کسی محفوظ مقام میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس سے اسرائیل کی برتری اور اس سے خوف کا اظہار کرنا تھا۔ ایسے میں سید نے خود جمعہ پڑھانے کا اعلان کر دیا۔ تین دن پہلے اعلان کیا گیا اور زیر آسمان اسی روایتی مصلی پر خطبہ دیا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھ لو ہم پوری طرح سے میدان میں موجود ہیں۔ کئی ملین لوگ براہ راست اس نماز جمعہ میں شریک ہوئے اور کئی ملینز نے لائیو اس خطبہ جمعہ کو سنا۔ آپ کا پورا خطاب اہم تھا، اس میں چند امور بڑے پالیسی ساز ہیں۔ رہبمر معظم نے کہا کہ اسرائیل کو خطے سے یورپ تک توانائی کی برآمد کا راستہ بنانا مقصود ہے، اسرائیل کبھی بھی حزب اللّٰہ اور حماس پر فتح یاب نہیں ہوگا، خطے میں مزاحمت پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی حکومت کے جرائم اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ اسرائیل سے یورپ کا رومانس اسی لیے ہے کہ وہ مشرق میں واقع ہے اور مغرب کی پالیسی کو نافذ کرنے والا ہے۔
یورپ کی ترقی کی بنیاد جس توانائی پر ہے، اس توانائی کی بلا تعطل فراہمی اسرائیل کے ڈنڈے کے ذریعے کرانے کا پروگرام ہے۔ اپنوں کی نااہلیوں کی وجہ سے عملی طور پر ایسا ہی ہے اور مزید ایسا ہونے جا رہا تھا، یہ تو درمیان میں طوفان الاقصی آگیا، جس کی وجہ سے انہیں وقتی ناکامی ہوئی ہے۔ رہبر معظم نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان مظلوم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کریں، مسلمان قوموں کو افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانا ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو جارح کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران کا دشمن فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے، فلسطینی حق پر ہیں اور ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، قرآن کا درس ہے کہ مسلم اقوام متحد رہیں، امتِ مسلمہ کے دشمن مشترکہ ہیں، قرآن میں مومنین کے اتحاد سے مراد رحمتِ الہٰی ہے۔
یہ بہت اہم بات ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی لائن کھینچیں، ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح ہر مسلمان ملک کو الگ الگ کرکے مارا جاتا رہے۔ جن ممالک کے رہبر معظم نے نام لیے ہیں، یہ براہ راست مغربی استعماری حملوں کا شکار رہے ہیں۔ اسرائیل اور مغرب رکنے والے نہیں ہیں، وہ ایک ایک کرکے تمام اہم مسلمان ممالک کو شکار کریں گے۔ جاوید چوہدی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے: "دوسرا سوال کیا پاکستان اسرائیلی جارحیت سے بچ جائے گا؟ جی نہیں، ایران اور ترکی کے بعد پاکستان کی باری ہے، اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے، لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا، پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے، یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہوسکے، بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔"
عقل مند وہ ہوتا ہے، جو آنے والے وقت کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ وطن عزیز کے درپے ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج سے تیاری کریں اور دشمن کو دشمن سمجھیں کہ وہ ہمارے پیچھے ہیں اور ہم نے اس سے اپنا اور اپنی امت کا دفاع کرنا ہے۔ رہبر معظم کا خطاب آنے والے وقت کی ہلکی سے جھلک دکھا رہا ہے، باقی مستقبل کا منظر نامہ ہم نے خود سمجھنا ہے۔ رہبر معظم کے اس خطبے کو سن کر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اقبال کی خواہش، جو اقبال نے شعر کی صورت کہی لکھی ہے:
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس