طوفان الاقصیٰ آپریشن اور بالخصوص سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد خطے کی پیش رفت میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی ناقابل تردید پوزیشن مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ غزہ میں بے دفاع خواتین اور بچوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کے بعد صیہونی حکومت نے ماضی کی طرح ایک بار پھر ریاستی دہشت گردی کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہوا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صیہونیوں کا اس جھوٹے تصور کو کہ وہ لبنان سمیت خطے کے مزاحمتی گروہوں کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لیں گے، اسے آج مزاحمتی تحریک نے ناکام بنا دیا ہے۔ صیہونیوں کی مجرمانہ کارروائی اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے قتل نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف فلسطین میں بلکہ پورے خطے میں مزاحمت کی تحریک مزید ابھر کر سامنے ائی ہے۔ صیہونیوں کی طرف سے مزاحمتی قیادت کو ختم کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ اس پھل دار درخت نے اپنی جڑیں ہر جگہ پھیلا رکھی ہیں اور مقاومت و استقامت صیہونی دشمن کے مقابل میں استوار و سربلند ہے۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد عالم اسلام میں ہمدردی، یکجہتی اور رفاقت کی لہر میں اضافہ ہوا ہے اور لبنان اور خطے کے مختلف ممالک میں بہت سے نوجوانوں نے ریلیوں اور یادگاری تقریبات کا انعقاد کرکے حزب اللہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ خطے میں نیوز نیٹ ورکس نے بھرپور آواز اٹھائی اور مغرب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ مزاحمتی تحریک کی جڑیں عوام بالخصوص نوجوان نسل میں مضبوط اور مستحکم ہیں۔ صیہونی مجرموں اور ان کے امریکی اور مغربی حامیوں کے خلاف ڈٹ جانا، صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں عوام کی حفاظت اور اپنی سرحدوں کی حفاظت جیسے اہم عوامل نے خطے کی مساوات میں اسلامی مزاحمت کے مقام اور کردار کو نمایاں کردیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ، یمن کی انصاراللہ نیز عراق اور فلسطین کے دیگر مزاحمتی گروہوں نے حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت کے خلاف استقامت اور جرأت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ صیہونی ریاست حالیہ مہینوں میں اس استقامت اور مقاومت کی طاقت پر حیران و پریشان ہے۔ صیہونی مزاحمت کے سامنے اپنی نااہلیت کو تسلیم کرتے نظر آرہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 4 اکتوبر کو نماز جمعہ کے بیانات میں شہید حسن نصراللہ کی شخصیت، ان کی روح، ان کے طریقے اور ان کی آواز کو پائیدار قرار دیا اور فرمایا: وہ ظالم اور جابر شیاطین کے خلاف مزاحمت کا ایک بلند پرچم تھے۔ وہ ایک فصیح زبان اور مظلوموں کے بہادر محافظ اور مجاہدین اور حقوق کے متلاشیوں کے لیے حوصلہ اور عزم کا ذریعہ تھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: سید حسن نصراللہ عالم اسلام کے ترجمان تھے۔ ہم سید حسن نصراللہ کے لئے سوگوار ہيں، لیکن ہمارا سوگ مایوسی کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرح ہے، یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے۔ سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان نہيں ہے، لیکن ان کے افکار، ان کی جدوجہد اور ان کی روح ہمارے درمیان ہے۔ ان کے اثرات کا دائرہ لبنان و ایران سے بہت آگے تھا۔ اب ان کی شہادت سے اس اثر میں اضافہ ہوگا۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا آپ اپنی کوشش اور طاقت میں اضافہ کریں، اپنی یکجہتی کو دوگنا کریں۔ جارح دشمن کے خلاف ایمان اور توکل کو مضبوط کرکے اسے شکست دیں۔ ہمارے شہید سید اپنی قوم، مزاحمتی بلاک اور پوری امت اسلامیہ سے یہی چاہتے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نتائج نے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ نے صیہونیوں کے ساتھ مختلف محاذوں پر جدوجہد اور لڑائی کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ حالیہ پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صیہونی حکومت نے مزاحمتی گروہوں کا براہ راست مقابلہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب منظم دہشت گردی کی طرف رخ کر لیا ہے، لیکن ان مجرمانہ اقدامات سے صیہونیوں کے زوال کی تیزی اور سرعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان شاء اللہ
تحریر: احسان شاہ ابراہیم