سال گذشتہ سات اکتوبر کے دن حماس نے اسرائیل کے اندر جا کر طوفان الاقصیٰ آپریشن کیا، جس نے دنیا کا منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا، یہ آپریشن ایسا چونکا دینے والا تھا کہ اسرائیل کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور موساد کی خفیہ طاقت، کارروائیوں اور ریکارڈ سے باخبر لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ گویا حماس نے دنیا کو ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور یہ آپریشن مکمل ہوا۔ اس آپریشن طوفان الاقصٰی کے بعد اسرائیل نے مسلسل اہل فلسطین کو بالعموم اور اہل غزہ جو حماس کے حامیوں کا مرکز شمار ہوتا ہے، پر ہر دن اور رات میں قیامت ڈھا دی، اس نے سول اور پرامن رہائیشی آبادیوں سے لے کر اسپتالوں، درسگاہوں، مساجد، مکاتیب، مدارس، کالجز، ڈسپینسیریز، سفارتی مراکز، اقوام متحدہ کے دفاتر، مراکز صحت، اسکولز، عالمی ریڈ کراس کے مراکز اور ہر ممکنہ جگہ جہاں اسے زندگی کے آثار دکھائی دیئے، اس کو بمباری اور مہلک بارود سے برباد کر دیا۔
اس ایک سال میں غزہ برباد ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے، شاید ہی کسی کے پاس رہائش کی جگہ بچی ہو۔ شاید ہی کسی کا گھر محفوظ رہا ہو، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں شہادت نہ ہوئی ہو۔ بعض فیملیز اور خاندان مکمل طور پر نابود ہوچکے ہیں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد گذشتہ پچھتر برس میں شہید نہیں ہوئی ہوگی، جتنی بڑی تعداد میں اس ایک سال میں معصوم پھول اور کلیاں مرجھا گئیں۔ ظلم کی جو داستانیں اور مناظر دنیا نے اس ایک سال میں دیکھے، اس کا تقاضا تھا کہ مہذب کہلانے والی دنیا، اپنی تہذیب کا مظاہرہ کرتی اور اسرائیل کے خلاف عالمی قوانین، انسانی و بشری حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے کھلے ارتکاب اور امن عالم کو خطرہ پہنچانے کے جرم میں نیتن یاہو، اس کی کابینہ، اس کے عسکری قایدین اور ناجائز ریاست پر سخت ترین پابندیاں لگاتے، مگر ہم نے دیکھا کہ اس جنگی مجرم کو عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔
اگرچہ مسلمان ممالک سے زیادہ اہل مغرب نے اسرائیل کے جنگی جرائم بالخصوص بچوں کے قتل عام کو لے کر شدید مظاہرے کیے، حتی امریکی یونیورسٹیز تک میں طالب علموں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھا گیا، مگر عملی طور پر اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، لہذا وہ آج غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے لبنان پر حملہ آور ہے، اب غزہ کی تاریخ لبنان میں دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ روز سات اکتوبر کی سالگرہ کے دن بھی بہت سے مغربی ممالک میں جہاں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز اس موضوع پر ہونے والے احتجاج پر شدید ردعمل دکھاتی آ رہی ہیں، وہاں بھی ایک سال کے مظالم کو لے کر عوام باہر نکلے ہیں اور اپنا ردعمل دکھایا ہے، جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے طوفان الاقصیٰ ٰکو ایک سال ہونے پر ایک بیان تک بھی نہیں دیا۔
اسرائیل کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ حماس نے اس کے جن لوگوں کو قیدی بنایا تھا، وہ انہیں رہا کروانے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس ایک سال میں اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کی جتنی کوشش کی، اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید مزاحمت سے اس کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک محدود پٹی میں گھرے ہوئے استقامت کے استعارہ مجاہدین نے اس کی ایک نہیں چلنے دی۔ بس اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، جس کے ذریعے یہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرتا ہے، وہ ہوائی بمبارمنٹ ہے۔ اسے بلا شبہ یہ برتری حاصل ہے، جس سے یہ فوائد اٹھا رہا ہے۔ اہل غزہ کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے، وہ اسی فضائی بمباری سے ہوا ہے۔ غزہ کے زیر زمین مجاہدین نے بہت بڑی تعداد میں ٹنل بنا کر اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل سیٹلایٹ اور دیگر جدید ترین آلات و زمینی جاسوسوں کے وسیع جال کے ہوتے ہوئے ان ٹنلز اور اس کے سسٹم کو ختم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی قیدی انہیں ٹنلز میں رکھے گئے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر بمباری کے بعد حماس نے بتایا کہ فلان بمباری میں اسرائیل کے اتنے شہری مارے گئے ہیں، اگر اس طرح کارپٹ بمباری کی جاتی رہی تو اس کے قیدی شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات رہینگے۔ اس میں شک نہیں کہ صیہونی موت سے ڈرتے ہیں، ان کو موت کا ڈر ہی تو ہے کہ جنگی طیاروں سے بمباری کرکے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کسی رہائیشی عمارت، اسپتال، اسکول، سڑک، بازار، مسجد، مکتب پر بمبارمنٹ کرکے اسے زمین بوس کر دینے سے ان کی بہادری اور شجاعت نہیں دکھتی بلکہ یہ سفاکیت اور درندگی ہے، جو نہتے اور پرامن لوگوں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنا کر دکھانا چاہتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ عالمی اداروں، انسانی و عدالتی فورمز اور دنیا کو ایک ضابطے کا پابند کرنے کے معاہدے کرنے والوں کیلئے شرمندگی اور فکر و غور کا مقام ہے، جو ایک بدمعاش، ایک ناجائز وجود، ایک غاصب، ایک ظالم، ایک سفاک، ایک جنگی مجرم کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
افسوس اگر اس سے ایک فی صد بھی کسی مسلمان ملک نے ایسا کیا ہوتا یا کرتا تو اس کا وجود ختم کرنے کیلئے سارا عالم کفر اکٹھا ہو جاتا اور ہمارے مسلمان حکمران بھی ان کے ساتھ کاندھا ملا کے کھڑے ہوتے۔ افغانستان، لیبیا، عراق، پاکستان، شام اور یمن اس کی مثالیں ہیں، جہاں عالمی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے چیمپئنز نے جھوٹ اور مکر و فریب سے جنگیں مسلط کیں اور مرضی کے حکمران لانے کی سازشوں پر عمل کیا۔ ایسے میں لاکھوں انسان جان سے گئے، ان میں سے کئی ممالک کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوا۔ لیبیا کو دیکھیں، آج تک اس کی حالت قابل رحم ہے۔ افغانستان کے لوگوں نے گذشتہ چالیس برسوں میں انہی طاقتوں کے کھیل میں جتنی جانیں گنوائیں ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اب بھی وہاں لوگ انجانے سے خوف میں جیتے ہیں اور دنیا بھر میں مہاجرین کی بڑی تعداد اب بھی افغانستانیوں کی ہے، یہ سب امریکہ اور اس کے استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے۔
یمن پر قابض ہونے کیلئے سعودیہ نے اکتالیس ملکی اتحاد بنایا اور امریکہ، برطانیہ کیساتھ مل کر تباہی لائی۔ بہت ہی خطرناک بمبارمنٹ گذشتہ نو برس سے جاری ہے، مگر وہاں کی قیادت نے استقامت دکھائی، قیادت و عوام نے اپنے ملک، اپنی زمین پر غیروں کا تسلط برداشت نہیں کیا اور مزاحمت و مقاومت سے گذشتہ آٹھ نو برس سے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، بلکہ غزہ کی موجودہ جنگ میں حماس اور فلسطینیوں کی جتنی مدد اور کمک یمنیوں نے کی ہے، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت اور سنہرا باب ہے، جسے تا دیر یاد رکھا جا ئے گا۔ بحرہ احمر سے لیکر اسرائیل کے اندر تل ابیب تک ان کی اپروچ اور میزائلوں کی بھرمار نے ان کی صلاحیتوں اور شجاعت و بہادری کے ابواب کھول دیئے ہیں۔ یمنی مقاومت، دوسرے مقاومتی گروہوں کی طرح کبھی گھبراتے نہیں، ہچکچاتے نہیں، ردعمل سے ڈرتے نہیں۔
ان پر اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، سعودیہ اور ان کے اتحادی بھی فضائی حملے کرتے ہیں، یمن کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ عجیب سخت قوم ہے، جو پھٹے پرانے لباس، بنا جوتوں کے میدان میں مشین گنیں اٹھا کر دشمن پر شیروں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ ان کا رعب، ان کی بہادری، ان کی جراتمندی سے انہیں فتح ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق اور طاقت کا تقابل کیا جائے تو اب تک یمنیوں کو سرنگوں ہو جانا چاہیئے تھا کہ ان کا مقابلہ اکتالیس ملکی اتحاد، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ جیسی قوتوں کیساتھ براہ راست ہے اور ان کو اتنے برس ہوچکے ہیں۔ غزہ جنگ میں یمنیوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسرائیل، امریکہ، اس کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں اور کشتیوں کو میزائلوں سے تباہ کرنا ان کا ہی کام ہے۔ یہ جرءات کسی اور میں نہیں کہ امریکہ کو للکارے۔
ایک گولی بھی چلانا بدترین حماقت سمجھا جاتا ہے، جبکہ یمنیوں نے امریکہ کے جدید ترین جاسوسی ڈرونز جن کی مالیت بیسیوں ملینز امریکی ڈالرز ہے، انہیں کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اور خاک یمن پر اتارا ہے۔ یمنیوں نے اس ایک سال میں شاید گیارہ قیمتی ترین جدید امریکی ڈرونز اتارے ہیں، ان ڈرونز کی مالیت کیساتھ ان کی مارکیٹ بھی خراب کر دی ہے، ایسے ڈرون جنہیں یمن جیسا پسماندہ ملک بلکہ ایک تنظیم باآسانی اتار لے، ان کو خریدنے میں کسے دلچسپی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے مقابل ایران کے ڈرونز کی شاہد سیریز نے روس کو یوکراین میں کامیابیوں سے حیران کر دیا، جس کا نتیجہ کئی ممالک کا ایران سے یہ ڈرون جاسوسی طیارے خریدنے کیلئے رجوع کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ایک سال میں غزہ برباد ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے، شاید ہی کسی کے پاس رہائش کی جگہ بچی ہو۔ شاید ہی کسی کا گھر محفوظ رہا ہو، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں شہادت نہ ہوئی ہو۔ بعض فیملیز اور خاندان مکمل طور پر نابود ہوچکے ہیں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد گذشتہ پچھتر برس میں شہید نہیں ہوئی ہوگی، جتنی بڑی تعداد میں اس ایک سال میں معصوم پھول اور کلیاں مرجھا گئیں۔ ظلم کی جو داستانیں اور مناظر دنیا نے اس ایک سال میں دیکھے، اس کا تقاضا تھا کہ مہذب کہلانے والی دنیا، اپنی تہذیب کا مظاہرہ کرتی اور اسرائیل کے خلاف عالمی قوانین، انسانی و بشری حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے کھلے ارتکاب اور امن عالم کو خطرہ پہنچانے کے جرم میں نیتن یاہو، اس کی کابینہ، اس کے عسکری قایدین اور ناجائز ریاست پر سخت ترین پابندیاں لگاتے، مگر ہم نے دیکھا کہ اس جنگی مجرم کو عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔
اگرچہ مسلمان ممالک سے زیادہ اہل مغرب نے اسرائیل کے جنگی جرائم بالخصوص بچوں کے قتل عام کو لے کر شدید مظاہرے کیے، حتی امریکی یونیورسٹیز تک میں طالب علموں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھا گیا، مگر عملی طور پر اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، لہذا وہ آج غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے لبنان پر حملہ آور ہے، اب غزہ کی تاریخ لبنان میں دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ روز سات اکتوبر کی سالگرہ کے دن بھی بہت سے مغربی ممالک میں جہاں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز اس موضوع پر ہونے والے احتجاج پر شدید ردعمل دکھاتی آ رہی ہیں، وہاں بھی ایک سال کے مظالم کو لے کر عوام باہر نکلے ہیں اور اپنا ردعمل دکھایا ہے، جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے طوفان الاقصیٰ ٰکو ایک سال ہونے پر ایک بیان تک بھی نہیں دیا۔
اسرائیل کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ حماس نے اس کے جن لوگوں کو قیدی بنایا تھا، وہ انہیں رہا کروانے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس ایک سال میں اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کی جتنی کوشش کی، اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید مزاحمت سے اس کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک محدود پٹی میں گھرے ہوئے استقامت کے استعارہ مجاہدین نے اس کی ایک نہیں چلنے دی۔ بس اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، جس کے ذریعے یہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرتا ہے، وہ ہوائی بمبارمنٹ ہے۔ اسے بلا شبہ یہ برتری حاصل ہے، جس سے یہ فوائد اٹھا رہا ہے۔ اہل غزہ کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے، وہ اسی فضائی بمباری سے ہوا ہے۔ غزہ کے زیر زمین مجاہدین نے بہت بڑی تعداد میں ٹنل بنا کر اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل سیٹلایٹ اور دیگر جدید ترین آلات و زمینی جاسوسوں کے وسیع جال کے ہوتے ہوئے ان ٹنلز اور اس کے سسٹم کو ختم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی قیدی انہیں ٹنلز میں رکھے گئے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر بمباری کے بعد حماس نے بتایا کہ فلان بمباری میں اسرائیل کے اتنے شہری مارے گئے ہیں، اگر اس طرح کارپٹ بمباری کی جاتی رہی تو اس کے قیدی شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات رہینگے۔ اس میں شک نہیں کہ صیہونی موت سے ڈرتے ہیں، ان کو موت کا ڈر ہی تو ہے کہ جنگی طیاروں سے بمباری کرکے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کسی رہائیشی عمارت، اسپتال، اسکول، سڑک، بازار، مسجد، مکتب پر بمبارمنٹ کرکے اسے زمین بوس کر دینے سے ان کی بہادری اور شجاعت نہیں دکھتی بلکہ یہ سفاکیت اور درندگی ہے، جو نہتے اور پرامن لوگوں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنا کر دکھانا چاہتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ عالمی اداروں، انسانی و عدالتی فورمز اور دنیا کو ایک ضابطے کا پابند کرنے کے معاہدے کرنے والوں کیلئے شرمندگی اور فکر و غور کا مقام ہے، جو ایک بدمعاش، ایک ناجائز وجود، ایک غاصب، ایک ظالم، ایک سفاک، ایک جنگی مجرم کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
افسوس اگر اس سے ایک فی صد بھی کسی مسلمان ملک نے ایسا کیا ہوتا یا کرتا تو اس کا وجود ختم کرنے کیلئے سارا عالم کفر اکٹھا ہو جاتا اور ہمارے مسلمان حکمران بھی ان کے ساتھ کاندھا ملا کے کھڑے ہوتے۔ افغانستان، لیبیا، عراق، پاکستان، شام اور یمن اس کی مثالیں ہیں، جہاں عالمی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے چیمپئنز نے جھوٹ اور مکر و فریب سے جنگیں مسلط کیں اور مرضی کے حکمران لانے کی سازشوں پر عمل کیا۔ ایسے میں لاکھوں انسان جان سے گئے، ان میں سے کئی ممالک کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوا۔ لیبیا کو دیکھیں، آج تک اس کی حالت قابل رحم ہے۔ افغانستان کے لوگوں نے گذشتہ چالیس برسوں میں انہی طاقتوں کے کھیل میں جتنی جانیں گنوائیں ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اب بھی وہاں لوگ انجانے سے خوف میں جیتے ہیں اور دنیا بھر میں مہاجرین کی بڑی تعداد اب بھی افغانستانیوں کی ہے، یہ سب امریکہ اور اس کے استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے۔
یمن پر قابض ہونے کیلئے سعودیہ نے اکتالیس ملکی اتحاد بنایا اور امریکہ، برطانیہ کیساتھ مل کر تباہی لائی۔ بہت ہی خطرناک بمبارمنٹ گذشتہ نو برس سے جاری ہے، مگر وہاں کی قیادت نے استقامت دکھائی، قیادت و عوام نے اپنے ملک، اپنی زمین پر غیروں کا تسلط برداشت نہیں کیا اور مزاحمت و مقاومت سے گذشتہ آٹھ نو برس سے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، بلکہ غزہ کی موجودہ جنگ میں حماس اور فلسطینیوں کی جتنی مدد اور کمک یمنیوں نے کی ہے، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت اور سنہرا باب ہے، جسے تا دیر یاد رکھا جا ئے گا۔ بحرہ احمر سے لیکر اسرائیل کے اندر تل ابیب تک ان کی اپروچ اور میزائلوں کی بھرمار نے ان کی صلاحیتوں اور شجاعت و بہادری کے ابواب کھول دیئے ہیں۔ یمنی مقاومت، دوسرے مقاومتی گروہوں کی طرح کبھی گھبراتے نہیں، ہچکچاتے نہیں، ردعمل سے ڈرتے نہیں۔
ان پر اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، سعودیہ اور ان کے اتحادی بھی فضائی حملے کرتے ہیں، یمن کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ عجیب سخت قوم ہے، جو پھٹے پرانے لباس، بنا جوتوں کے میدان میں مشین گنیں اٹھا کر دشمن پر شیروں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ ان کا رعب، ان کی بہادری، ان کی جراتمندی سے انہیں فتح ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق اور طاقت کا تقابل کیا جائے تو اب تک یمنیوں کو سرنگوں ہو جانا چاہیئے تھا کہ ان کا مقابلہ اکتالیس ملکی اتحاد، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ جیسی قوتوں کیساتھ براہ راست ہے اور ان کو اتنے برس ہوچکے ہیں۔ غزہ جنگ میں یمنیوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسرائیل، امریکہ، اس کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں اور کشتیوں کو میزائلوں سے تباہ کرنا ان کا ہی کام ہے۔ یہ جرءات کسی اور میں نہیں کہ امریکہ کو للکارے۔
ایک گولی بھی چلانا بدترین حماقت سمجھا جاتا ہے، جبکہ یمنیوں نے امریکہ کے جدید ترین جاسوسی ڈرونز جن کی مالیت بیسیوں ملینز امریکی ڈالرز ہے، انہیں کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اور خاک یمن پر اتارا ہے۔ یمنیوں نے اس ایک سال میں شاید گیارہ قیمتی ترین جدید امریکی ڈرونز اتارے ہیں، ان ڈرونز کی مالیت کیساتھ ان کی مارکیٹ بھی خراب کر دی ہے، ایسے ڈرون جنہیں یمن جیسا پسماندہ ملک بلکہ ایک تنظیم باآسانی اتار لے، ان کو خریدنے میں کسے دلچسپی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے مقابل ایران کے ڈرونز کی شاہد سیریز نے روس کو یوکراین میں کامیابیوں سے حیران کر دیا، جس کا نتیجہ کئی ممالک کا ایران سے یہ ڈرون جاسوسی طیارے خریدنے کیلئے رجوع کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔