طوفان الاقصیٰ، فتح مبین کا آغاز

Rate this item
(0 votes)
طوفان الاقصیٰ، فتح مبین کا آغاز

گزشتہ سال اکتوبر 2023ء میں برپا ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے واقعات فلسطینی عوام کی مزاحمت اور بہادری کی ایک نئی اور دردناک داستان ہیں۔ ایک سال گزرنے کے باوجود، اس المناک واقعہ کی تلخی اور اس سے حاصل ہونے والے سبق آج بھی تازہ ہیں۔ ایک سال بعد اس کے وسیع تر اثرات سے اس کے مستقبل کی سمت پر مزید روشن ہو گئی ہے۔ حماس اور جہاد اسلامی کیساتھ حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی جرات مندانہ قربانیوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسرائیل ناجائز ریاست کے قیام نے نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کیا بلکہ خطے میں عدم استحکام میں بھی اضافہ کیا۔ 70 سال سے اسرائیلی فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی جا رہی ہے، اب صیہونی ریاست کے دانت کھٹے ہو رہے ہیں۔ لاکھوں افراد شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے اور بنیادی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا۔ علاج کے وسائل کی کمی اور طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات بڑے پیمانے پر انسانی المیے کا باعث بنیں۔ آج بھی غیر ملکی امداد کی نارسائی اور عالمی برادری کی جانب سے  ناقص ردِعمل، صورتِ حال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔

عالم انسانیت کے لئے واقعہ سے حاصل ہونے والے سبق گہرے اور معنی خیز ہیں۔ دنیا اب توجہ دے رہی کہ اس مسئلے کی پیچیدگی اور اس کے طویل مدتی حل کی ضرورت کو واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غیر متناسب طاقت کے استعمال اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نے عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا  کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے اس عمل نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ امن کا راستہ صرف اور صرف ناجائز قبضے کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری کی جانب سے ایک مضبوط اور متحدہ کردار کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کا نتیجہ خیز حل نکالنے کے لیے موثر کوششوں کو بارآور بنائے۔ فلسطینی ترجمان ابوعبیدہ نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد سے حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی جرات اور استقامت  فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ حزب اللہ نے ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس آپریشن میں ان کی شرکت نے فلسطینی مزاحمت کو نئی قوت بخشی ہے۔ ان کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں ہوں گی اور ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کی بہادری اور قربانیوں کا ذکر ہمیں انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی تازہ ترغیب دیتا ہے۔

خطے اور فلسطین کی آزاد ریاست کے لئے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا انتہائی اہم ہے۔ اس کے لیے امت مسلمہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے  ایک جامع اور منصفانہ منصوبہ تشکیل دے۔  فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق، جیسے کہ حق خود ارادیت، زمین، اور عزت نفس کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ناجائز اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بے شک طوفان الاقصیٰ کے بعد کا مستقبل کشمکش اور عدم یقینی سے بھرا ہوا ہے لیکن یہ ایک اہم موقع ہے کہ ملسلمان اس مسئلے کے حل کے لیے ایک نئے سرے سے کوششیں کریں۔ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ امن اور استحکام کا راستہ صرف اور صرف باہمی احترام، عدل اور انصاف کے ذریعے ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری، علاقائی طاقتیں اور امت مسلمہ کے رہنماؤں کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ ایک ایسا حل تلاش کیا جا سکے جو فلسطین کی مکمل آزادی پر منتہج ہو۔ مقاومت کے محاذ کا طول و عرض واضح ہوچکا ہے، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی جرات مندانہ قربانیاں ایک سنگ میل ثابت ہوں گی۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ امن صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول کے لیے سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے جہادِ تبین کے لئے ہدایات اور فرمودات کی روشنی فلسطین کی آزادی انقلاب اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے لئے عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ آج کے دور میں، جہاں جھوٹی خبریں، پروپیگنڈا اور غلط معلومات کا طوفان ہے، سچائی کو عوام تک پہنچانا ایک مشکل لیکن نہایت ضروری ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر حماس کی جانب سے علماء کرام سے جہادِ تبیین کے فریضے کو مزید مضبوطی سے انجام دینے کی درخواست انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جہادِ تبیین صرف ایک مذہبی یا اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی اور عالمی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو قلم اور دانش سے لڑی جاتی ہے اور اس میں فتح کے لیے سچائی، تحقیق اور وضاحت کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور سچائی کو عام کرنے کی ذمہ داری صرف علماء کرام پر نہیں بلکہ ہر فرد پر عائد ہوتی ہے لیکن علماء کرام کی حیثیت اور رسوخ اس کام کو انجام دینے کے لیے انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی دینی علمیت، دانشوری اور اجتماعی اثر و رسوخ سے عوام کو حقائق سے آگاہ کر سکتے ہیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کی مدد سے غلط معلومات کا پھیلاؤ انتہائی تیزی سے ہوتا ہے۔ دشمن اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے امت مسلمہ کو کمزور کرنے، مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے، علماء کرام کو جدید میڈیا کے استعمال میں مہارت کیساتھ وارد ہونا ہوگا اور اپنے پیغام کو موثر طریقے سے عوام تک پہنچانا ہوگا۔ یہ ایک مسلسل اور طویل مدتی جدوجہد ہے، جس میں مسلسل کوشش، جدوجہد اور جدید تکنیکوں کے استعمال کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے علماء کرام کو تربیت یافتہ افراد کی ٹیمیں تشکیل دینی ہونگی جو مختلف پلیٹ فارمز پر فعال ہو اور فوری جوابات دے۔ مسجدِ اقصیٰ صرف ایک مقدس مقام نہیں بلکہ عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے جس کی حفاظت کرنا تمام انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ اس خطرے کے خلاف مزاحمت کو تیز کرنا ناگزیر ہے۔ علماء کرام کو اس مسئلے پر عالمی سطح پر آواز اٹھانا ہوگی، مختلف ممالک کی حکومت اور تنظیموں سے رابطہ کرنا ہوگا،اور بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تناظر میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔

یہ ایک لمبا اور مشکل سفر ہے، لیکن اس میں کامیابی حاصل کرنا ہماری قومی اور عالمی ذمہ داری ہے۔ یہ کام صرف علماء کرام کی کوششوں سے ممکن نہیں بلکہ عام مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی حمایت اور تعاون سے بھی ممکن ہوگا۔ ہمیں آپس میں متحد ہوکر اس عظیم چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ سچائی غالب آئے اور مسجدِ اقصیٰ جیسے مقدس مقامات کی حفاظت ہو سکے۔ طوفان الاقصیٰ کا ایک سالہ قربانیوں بھرا جشن، مزاحمت کا ایک نیا باب نہیں، بلکہ فتح کا ایک آغاز ہے۔ یہ صرف ایک خوشگوار واقعے کا اظہار نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور مربوط جدوجہد کا اعلان ہے۔ یہ بیان فلسطینی مزاحمت کی استقامت اور اس کے مستقبل کے امکانات کو ایک نئی روشنی میں عطا کرتا ہے۔ یہ مزاحمت کے جاری رہنے اور اسے مزید مضبوط کرنے کا ایک واضح حوصلہ افزا پیغام ہے۔ طوفان الاقصیٰ جیسے واقعات، جہاں فلسطینی عوام نے اپنی طاقت اور استقامت کا مظاہرہ کیا، مزاحمت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا آغاز ہے جس میں مزاحمت کی روح کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ منظم، مربوط اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتحال محض جوش و خروش کی بات نہیں ہے، بلکہ طویل مدتی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔

فتح کا آغاز صرف عسکری فتح تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر تصور ہے جس میں سیاسی، معاشی اور سماجی میدانوں میں فتح شامل ہے۔ یہ فتح فلسطینی قوم کی خود مختاری، آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول تک کے سفر کا ایک مرحلہ ہے۔ اس سفر میں فوجی طاقت کا کردار بہت اہم ہے، لیکن یہ صرف ایک جز ہے۔ حالات، واقعات اور تاریخی تجربات یہ واضح کرتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جیسے پیچیدہ اور طویل المدتی تنازعے میں فوجی اور سیاسی طاقت کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ یہ کردار اسلامی جمہوری ایران ہی ادا کر رہا ہے۔ فلسطینی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانا، جدید ترین تکنیکوں کو اپنانا اور اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنا لازمی ہے۔  اسی طرح سیاسی سطح پر موثر حکمت عملی، عالمی برادری میں اپنی آواز کو بلند کرنا اور موثر سفارتی اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر اپنی بات مؤثر طریقے سے پیش کرنے کی مہارت حاصل کرنی ہوگی اور اپنی حقانیت کو عالمی سطح پر تسلیم کروانا ہوگا۔

عالمی برادری کو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے بارے میں آگاہ کرنا اور ان کی حمایت حاصل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ صرف  فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے۔ فلسطین کے مسئلے کی حقیقت کو اجاگر کرنا، اسرائیلی مظالم کی مذمت کرنا اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت کے لیے مہم چلانا اس جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے لیے ہمیں میڈیا سے موثر استفادہ کرنا ہوگا، عالمی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کے اداروں سے تعاون کرنا ہوگا۔ گزشتہ ایک سال، طوفان الاقصیٰ کے واقعات سے بھرا ہوا، ہمارے لیے ایک دردناک یادگار ہے۔  اس المناک واقعہ نے نہ صرف فلسطینیوں کی مظلومیت کو بے نقاب کیا، بلکہ اس نے عالمی سطح پر حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی بھی کی۔ یہ جدوجہد ایک طویل اور مشکل سفر ہوگا۔  فلسطین کی آزادی کی جنگ  کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی طویل جدوجہد ہے جس میں  دشمنوں کی جانب سے ہر ممکن رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ  جنگ سیاسی فوجی اور اقتصادی محاذوں پر لڑی جائے گی اور اس میں  بے شمار قربانیاں دینی پڑین گی۔ مجاہدین کا عزم اور ایمان ہمیں اس مشکل سفر کی آخری منزل، یعنی کامیابی تک پہنچائے گا۔ یہی وہ  قوت ہے جو ہمیں مشکل ترین حالات میں بھی ثابت قدم رکھتی ہے، یہی وہ شعلہ ہے جو ہمارے دلوں میں جلتی رہے گی اور ہمیں ہار ماننے سے روکے گی۔
تحریر: علی واحدی

 
 
 
Read 25 times