ایشیا ٹائمز نے ایک رپورٹ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی تازہ پابندیوں کو اقتصادی جنگ سے تعبیر کرتےہوئے کہاہے کہ یہ جنگ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو اور امریکہ اسرائيل لابی ایپیک کے براہ راست حکم سے امریکی صدر باراک اوباما نے شروع کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی حکومتوں نے بھی اپنے ملکوں میں تیل کے بے نہایت ذخائر پر اطمئنان کرتےہوئے ایران کے تیل کا بائیکاٹ کرنے کا بات کی ہے تاہم ابھی انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہےکہ ایران کے تیل کا بائیکاٹ کب سے شروع ہونا چاہیے۔ یورپی یونین کے اس فیصلے کی خبریں تیل کی عالمی منڈیوں تک پہنچ چکی ہیں جس کے نتیجے میں تیل کی قیمت تقریبا چودہ ڈالر فی بیرل ہوچکی ہے۔
یورپی یونین کے ممالک چین کے بعد ایرانی تیل کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اس کےباوجود یورپی یونین کے انرجی کمیشن کے سربراہ گونتر اوتنیگر نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب ایران کے تیل کی کمی پوری کرسکتا ہے اور بازار میں تیل بھر سکتا ہے۔ تیل کی عالمی منڈیوں پر نظر رکھنےوالا ہر شخص یہ کھ سکتا ہےکہ سعودی عرب ایران کے تیل کی کمی کو پورا کرنے کی توانائي نہیں رکھتا اس کے علاوہ اسلامی بیداری کی تحریک سے خوفزودہ سعودی دربار کو اپنے تیل کی بے حد ضرورت ہے تاکہ وہ ہر تحریک کوکنٹرول کرنے کےلئے اپنے عوام کو رشوت دے سکے۔ ان امور کے علاوہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی ایران کی دھمکی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دنیا کی ضرورت کے تیل کا چھٹا حصہ اس آبی راستے سے ہوکر جاتا ہے۔ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کردیا تو تیل کی یہ بھاری مقدار اور اوپک کے ملکوں کی ستر فیصد پٹرولیم مصنوعات دنیا کی منڈیوں تک نہیں پہنچ سکیں گی بنابریں اس بات پر کوئي تعجب نہیں ہے کہ تیل کے بیوپاری زیادہ سے زیادہ تیل خرید رہے ہیں، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو دوہزآر آٹھ کی طرح تیل کی قیمت ایک بار پھر ایک سو پچاس ڈالر فی بیرل ہوجائے گي۔ ان حالات کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہےکہ اسرائيل نے جو کھیل شروع کیا تھا اب وہ ایک مہلک کھیل میں تبدیل ہوچکا ہے جس سے عالمی اقتصاد بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
ایران کی پارلمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ کی دھمکی کو کوئي عقل مند انسان نظر انداز نہيں کرسکتا جو انہوں نے کہا تھا کہ مغرب ایران کے تیل کا بائيکاٹ کرکے اسٹراٹیجیک غلطی کررہا ہے۔ اگر مغرب کی ہٹ دھرمی جاری رہی تو دوہزار بارہ کو عالمی معیشت کے جمود کا سال قراردیا جاے گا۔
ایشیا ٹائمز کے مطابق نئي پابندیوں سے ایران کو کچھ مسائل تو ضرور پیش آ ئيں گے لیکن اسکے بعد امریکی کانگریس کے غیر ذمہ دار اراکین آخر کار یہ باور کرنے پر مجبور ہوجائيں گے کہ عالمی منڈیوں سے پچیس لاکھ بیرل تیل کے غائب ہونے کے نہایت ہی خطرناک نتائج ہونگے۔
ایشیائي ملکوں میں تیل کی ضرورت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور یہ ممالک اکثر ایران سے تیل خریدتے ہیں۔ ایران کے تیل کے بائيکاٹ سے تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گي بنابریں یہ سوال کیا جاسکتا ہےکہ امریکی صدر اوباما نے کس بناپر ایران کے تیل کے بائیکاٹ کے قانون پر دستخط کئےہیں؟ اوباما کی انتطامیہ کے لئے اگلے صدارتی انتخابات نہایت اہمیت رکھتے ہیں، ری پبلیکن امیدوار متفقہ طور پر ایران پرحملوں اور جنگ کی بات کررہے ہیں اور امریکی عوام تو ظاہر سی بات ہے دنیا کے حالات سے بے خبرہے اور ان باتوں پر یقین کرلیتی ہے۔اسکے باوجود شاید ہی کوئي انسان اس بات پر یقین کرسکے کہ رواں برس میں امریکہ اور یورپ کی معیشتوں میں تھوڑی بہت بہتری کے باوجود یہ ممالک تیل کی ایک سوبیس ڈالر فی بیرل قیمت کے ساتھ اپنی معیشت کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔
یورپ میں اقتصادی بحران کے شکار اور نیٹو کے رکن ملکوں کے علاوہ کوئي بھی ایران کے تیل کے بائيکاٹ پر راضی نہیں ہے۔ روس نے پہلے سے ہی ان پابندیوں کی مخالفت کردی ہے اور ہندوستان، ترکی کے ہالک بینک کے ذریعے ایران کے تیل کا پیسہ ادا کررہا ہے اور چين نے ایران سے مزید تیل کی خریداری کے مذاکرات شروع کردئےہیں۔ چین، ایران کے تیل کی قیمت یورو میں ادا کرتا ہے اور عنقریب یوان میں ادا کرنے لگے گا ۔ دونوں ملکوں نے یوان میں معاملے کرنے کے لئے مذاکرات شروع کردئے ہیں۔
لاطینی امریکہ میں بھی ونزوئيلا نے ایران کے ساتھ دوہزار نو میں بائي نیشنل بینک قائم کیا تھا جس کے ذریعے ایران لاطینی امریکہ سے تجارت کرتا ہے۔ امریکہ کے روایتی حلیف جیسے ترکی ایران سے تیس فیصد ضرورت کا تیل خریدتےہیں وہ بھی ان پابندیوں سے مستثنی ہونے کا مطالبہ کریں گے۔
ادھر جنوبی کوریا ہے اسکی بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے وہ روزآنہ ایران سے دو لاکھ بیرل تیل خریدتا ہے وہ بھی اپنی اس ضرورت کے مد نظر امریکی پابندیوں سے مستثنی ہونے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ہندوستان چین اور جنوبی کوریا کے ایران کے ساتھ پیچیدہ تجارتی تعلقات ہیں۔ مثال کے طور پر ایران اور چین کے تجارتی لین دین کی شرح تین ارب ڈالر سے بڑھنے ہی والی ہے۔ یہ تجارتی تعلقات محض امریکہ اور تیل ابیب کی نادانیوں کی بناپر ختم نہیں ہونگے بلکہ ترقی پذیر ملکوں کے نجی بینک ایران کے تیل کی خریداری میں عجلت ہی دکھائيں گے۔
امریکہ، چین کے بینکوں پر پابندیاں عائد کرنے کی توانائي نہیں رکھتا۔
ایشیا ٹائمز لکھتا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی شجاعت اور دانشمندی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ امریکہ اور اسرائيل نے اس کے متعدد ایٹمی سائنس دانوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، سائنس دانوں کو اغوا کیا، سیستان وبلوچستان صوبے میں دہشتگردانہ کاروائياں کروائيں، اسرائيل نے سائبر حملوں کے ذریعے اس کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کی کوشش کی، امریکہ نے ڈرون طیارے بھیج کر جاسوسی کرنے کی کوشش کی اور روزآنہ کی حملوں کی دھمکیاں اپنی جگہ جاری ہیں اور سعودی عرب کو ساٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار دینے کا معاہدہ کیا ان تمام سازشوں کے باوجود ایران اپنی جگہ اٹل ہے اور اپنا کام کررہا ہے۔
تہران نے حال ہی میں اپنے کروز میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور جب تہران مغرب کے کبھی نہ ختم ہونے والے پروپگينڈوں کاجواب دیتا ہے تو اس پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ایشیا ٹائمز لکھتا ہےکہ ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےکہ ایران کو مشکلات پیش آئيں گي اسی طرح سے یورپ میں بھی مشکلات کا دور دورہ ہوگا اور ساتھ ساتھ امریکی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا اور تہران جب یہ دیکھے گا کہ مغرب کا جنون بڑھتا ہی جارہا ہے توتہران ایسے اقدامات کرنےکا حق اپنے لئے محفوظ رکھے گا جن سے تیل کی قیمتوں میں نہایت شدید اضافہ ہوجاے گا، تہران میں یہ توانائي ہے۔ یہ اخبار لکھتا ہےکہ تہران کی حکومت اپنا تیل فروخت کرتی رہےگي اور یورینیم کی افزودگي بھی جاری رکھے گي اور سب سے اہم بات یہ کہ تہران کی حکومت ہرگز نہیں گرے گي۔ یہ اخبار لکھتا ہےکہ امریکہ کی یہ پابندیاں افغانستان میں شادی کی تقریب پر گرنے والے ہیل فائر میزائل کی طرح بری طرح سے ناکام ہوجائيں گي لیکن بعد از خرابی بسیار جو خود مغرب میں پھیلے گي۔