حسن البنا ايك مقام پر كہتے ہيں كہ اسلام ہماري زندگيوں ميں دو كام انجام ديتا ہے۔ اس كا پہلا كام فرد كي ذات پر ہے۔ يہ كسي بهي فرد كو عقيدہ اور اعلٰي انساني اخلاق كے قالب ميں ڈهال كر ايك نيا وجود بخشتا ہے۔ پهر ان افراد كو الہي اور صالح معاشروں كے قيام كے ليے استعمال كرتا ہے۔ آپ كا نظريہ تها كہ اسلام ايك عقيدے كے ساته ساته ايك قوميت بهي ہے، تاہم زميني قوميتوں كے برعكس اسلامي قوميت كي بنياد ايمان پر ہے۔ پس يہ قوميت قبل ازيں ذكر كردہ قوميت كے مقابلے ميں بہت مضبوط ہے۔
كچه لوگوں كي ظاہري زندگي چاہے كتني ہي مختصر كيوں نہ ہو ان كا وجود اس كائنات ميں يوں امر ہو جاتا ہے كہ جس كو بهلانا يا مٹانا ممكن نہيں رہتا۔ مصر كے علاقے محموديہ ميں پيدا ہونے والا حسن البنا بهي كچه اسي قسم كے انسانوں ميں سے ايك ہے۔ اپني زندگي كي ابتداء نہايت مختصر وسائل سے كرنے والا عالم اسلام كا بطل جليل، آج عرب دنيا ميں امام كے لقب سے پكارا جاتا ہے۔ اخوان المسلمين كے نام سے دنيائے عرب ميں جاني جانے والي تنظيم اسي حسن البنا كي كوششوں اور كاوشوں كا نتيجہ ہے۔ حسن البنا نے 1906ء ميں ايك امام مسجد كے گهر آنكه كهولي، مذہبي تعليم و تربيت ابتدا ہي سے آپ كي زندگي كا لازمہ رہي۔ اعلٰي تعليم كے ليے دارالعلوم قاہرہ ميں داخل ہوئے اور فارغ التحصيل ہونے كے بعد اپنے علاقے ميں ہي درس و تدريس ميں مشغول ہو گئے۔ حسن البنا مصر كے مختلف قصبوں اور شہروں ميں سفر كرتے اور لوگوں كو قرآن و سنت پر عمل كرنے كي ترغيب ديتے، تاہم آپ نے كبهي بهي درس و تدريس كے اس عمل كو اپنے روزگار كا ذريعہ نہ بنايا۔ حسن البنا گهڑيوں كي مرمت كا كام كرتے اور اسي سے اپنا گزر اوقات كرتے۔
حسن البنا نے”الاخوان“ تنظيم كي بنياد مصر كے معروف شہر اسكندريہ ميں ركهي، جس كا ہيڈ كوارٹر حسن البنا كي قاہرہ كي جانب ہجرت كے ساته ہي قاہرہ منتقل ہو گيا۔ ياد رہے كہ يہ وہ دور تها جب مصر پر برطانيہ اپنے زرخريد غلاموں كے ذريعے حكومت كر رہا تها۔ حسن البنا كے دروس كا سلسلہ جب بڑها اور تبليغي سرگرميوں كو منظم كرنے كي نوبت آئي تو آپ نے اپنے چند ساتهيوں كے ہمراہ ايك گروہ كي بنياد ركهي۔ اس تنظيم كي تاسيس كے بارے ميں حسن البنا كہتے ہيں:
”ميں نے اپني زندگي كو بچپن سے ہي ايك مقصد كے ليے مختص كر ركها تها اور وہ تها لوگوں كو اسلام كي حقيقي تصوير سے روشناس كرانا، تاہم يہ مقصد ميرے ذہن ميں ہي رہا، جس پر ميں وقتاً فوقتاً سوچتا رہتا تها۔ ميں اپنے اردگرد كے لوگوں سے كبهي كبهي اس سلسلے ميں بات كرتا، جس كا ذريعہ ميرے دروس اور ليكچرز ہوتے تهے۔ ميں نے اپنے علماء دوستوں كو تشويق دلائي كہ وہ تبليغ اسلام كے عمل كو بڑهائيں، تاكہ لوگوں تك اسلام كي حقيقي تعليمات كو پہنچايا جا سكے۔ ميں نے اس سلسلے ميں معاشرے كے مقتدر لوگوں سے بهي بات كي، تاہم مجهے كوئي تسلي بخش جواب نہ ملا۔ جب ميں نے محسوس كيا كہ ميري كوششيں بے سود جا رہي ہيں تو پهر ميں اپنے ديني بهائيوں كي جانب متوجہ ہوا، جن كے ساته ميرا قلبي تعلق بهي تها اور احساس ذمہ داري ميں بهي وہ ميرے رفيق تهے۔
مارچ 1928ء ميں چه برادران جن ميں حافظ عبد الحامد، احمد الحوثري، فواد ابراهيم، عبد الرحمن حسب اللہ، اسماعيل عز اور زكي المغربي شامل تهے ميرے پاس آئے۔ ہم نے عہد كيا كہ ہم بهائيوں كي طرح زندگي گزاريں گے اور اپني زندگياں اسلام كے نام پر مختص كرتے ہوئے اس راہ ميں جدوجہد كريں گے۔ ہم ميں سے ايك نے كہا: ہميں اپنے آپ كو كس نام سے پكارنا چاہيے؟ آيا ہميں كوئي كلب تشكيل دينا چاہيے؟ يا كوئي تنظيم بناني چاہيے؟ ميں نے جواب ديا كہ نہيں ہميں تكلفات ميں نہيں پڑنا، آئيے عملي چيزوں پر توجہ مركوز ركهيں۔ ہم وہ بهائي ہيں جو اسلام كے ليے كام كرتے ہيں، پس ہم اخوان المسلمون ہيں، يہ الاخوان كا پہلا گروہ تها۔ ان چه افراد اور اسلامي تعليمات كي كامل آگہي كے ساته ہم نے اپنے كام كا آغاز كيا۔”
امام حسن البنا نے اپني تحريك كي بنياد كچه اصولوں پر استوار كي۔ ان كي نظر ميں مندرجہ ذيل دس اصول انتہائي اہميت كے حامل تهے۔
1۔ وحدت ہدف
2۔ چهوٹے چهوٹے اختلافات كو پس پشت ڈالتے ہوئے لوگوں كو اسلام كے بنيادي اصولوں پر اكٹها كرنا۔
3۔ اختلاف كي صورت ميں اخلاق اسلامي كي حقيقي پيروي۔
4۔ اختلاف ركهنے والے افراد كے بارے ميں حسن ظن۔
5۔ استبداديت اور مطلق العنانيت سے اجتناب۔
6۔ ايك ہي مسئلے كے ليے دو يا دو سے زيادہ درست راہوں كے امكان كا ادراك۔
7۔ اتفاق رائے پر تعاون اور اختلاف سے صرف نظر كرنا۔
8۔ تمام مسلمانوں كو مشتركہ دشمن كے خلاف مجتمع كرنا۔
9۔ كام اور فعاليت كي حوصلہ افزائي كرنا۔
10۔ وہ لوگ جو بے مقصد مارے گئے انكے لئے بغض كے بجائے رحم دلي كے جذبات ركهنا۔
حسن البنا ان اصولوں كے بارے ميں كہتے تهے كہ اے بهائيو! ہمارے عہد كے دس ستون ہيں، ان كو كبهي فراموش مت كرنا۔ وہ آگہي، اخلاص، كام، لگن، قرباني، اطاعت، مستقل مزاجي، وحدت ہدف، بهائي چارے اور اعتماد پر بہت زور ديتے۔ حسن البنا ايك مقام پر كہتے ہيں كہ اسلام ہماري زندگيوں ميں دو كام انجام ديتا ہے۔ اس كا پہلا كام فرد كي ذات پر ہے۔ يہ كسي بهي فرد كو عقيدہ اور اعلٰي انساني اخلاق كے قالب ميں ڈهال كر ايك نيا وجود بخشتا ہے۔ پهر ان افراد كو الہي اور صالح معاشروں كے قيام كے ليے استعمال كرتا ہے۔ آپ كا نظريہ تها كہ اسلام ايك عقيدے كے ساته ساته ايك قوميت بهي ہے، تاہم زميني قوميتوں كے برعكس اسلامي قوميت كي بنياد ايمان پر ہے۔ پس يہ قوميت قبل ازيں ذكر كردہ قوميت كے مقابلے ميں بہت مضبوط ہے۔
حسن البنا اور ان كے اخوان كي كوششوں سے مصر ميں تبليغ كا يہ سلسلہ اس قدر تيز رفتاري سے پهيلا كہ برطانوي حكومت اور ان كے گماشتے ششدر رہ گئے۔ چند ہي سالوں ميں لاكهوں افراد اخوان المسلمين كا حصہ بن گئے۔ 1930ء تك اخوان المسلمين كي شاخيں مصر كے ہر صوبے ميں پهيل گئيں۔ ايك دہائي بعد فقط مصر ميں اس تحريك سے منسلك افراد كي تعداد پانچ لاكه ہو گئي، علاوہ ازيں اس تحريك كي شاخيں ہمسايہ ممالك تك بهي پهيلنے لگيں۔ اسلامي تعليمات سے اخذ كردہ حسن البنا كے پيغام نے بيك وقت مصري معاشرے كے ساته ساته ديگر عرب معاشروں ميں بهي سرمايہ دارانہ نظام، كميونسٹ رجحانات، استعماريت، سماجي ناہمواريوں اور عرب قوميت سے مقابلہ كيا۔
عرب اسرائيل جنگ ميں اخوان المسلمين كے مجاہدين كي بهرپور شركت اور مصر كي شاہي حكومت سے اختلافات، حسن البنا شہيد كي شہادت كا باعث بنے۔ شاہي حكومت نے ايك حكم نامے كے تحت اخوان المسلمين كو كالعدم قرار ديتے ہوئے اس كے تمام اثاثوں كو منجمد كر ديا اور مركزي قيادت كو گرفتار كر ليا گيا۔ مصر ميں افواہيں پهيلائي گئيں كہ اخوان المسلمين حكومت كا تختہ الٹنے كا ارادہ ركهتي ہے۔ اسي تنگ تاريك ماحول ميں 12 فروري 1949ء كو حسن البنا كو جامع الشعبان المسلمين كے سامنے گوليوں كا نشانہ بنايا گيا۔ يوں اسلام كا يہ سر بكف مجاہد اپني زندگي كے بياليسويں سال ميں اپنے خالق حقيقي سے جا ملا۔