حضرت بلال حبشي کالي رنگت اور خستہ حال بدن والے ايک بےنام و نشان غلام تھے - ان کے والد کا نام «رباح»اور والدہ کا نام «حمامه» تھا - وحدت الہي اور آزادي خواھي کي وجہ سے انہوں نے اميہ بن خلف کے ظلم و ستم کو دل و جان کي گہرائيوں تک محسوس کيا مگر وہ صرف اپنے واحد خدا کا نام لے کر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے - (1(
جس دن حضرت بلال نے رسول خدا (ص) کي جانب سے خدا پر ايمان اور يکتاپرستي کے ساتھ آزادي اور يقين کي روح پرور ہوا کي ٹھنڈي جھونکيں اپني روح کي گہرائيوں ميں محسوس کيں تو بڑي چاہت اور عقيدت کے ساتھ فوري نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوۓ اور بڑے احترام کے ساتھ حبشي زبان ميں يہ شعر پڑھا -
«اَرَه بَرَهْ کَنْکَرَهْ کِرا کِري مِنْدَرَهْ»؛(2(
جس وقت ہمارے ديار ميں بہترين پسنديدہ خوبيوں کے متعلق پوچھا گيا تو ہم آپ کو اپنا شاھد گفتار بنائيں گے -
اذان ہماري ديني عظمت کي نشاني ہے - بلال کے بلند مقام اور کلام کي بزرگي کي بدولت انہيں مؤذن کي ذمہ داري سونپي گئي - (3)
حضرت بلال اذان ميں " شين " کا تلفظ ادا نہيں کر پاتے تھے مگر ان کے جذبے اور چاہت کي وجہ سے انہيں اذان کہنے کي اجازت تھي اور مؤذن کي ذمہ داري انہي کے پاس رہي - (4)
حضرت بلال کي شخصيت ايسي برجستہ تھي کہ فتح مکہ کے موقع پر نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے حکم پر آپ کعبہ کي چھت پر کھڑے ہوۓ اور توحيد و نبوّت کي ندا بلند کي اور جب زمانہ جاھليت کے بعض وارثوں نے اپني تعريف اور حضرت بلال پر تنقيد کي تو فرشتہ وحي لے کر نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوا تا کہ برتري اور بڑائي کے معيار قبيلوں پر نہيں بلکہ قبلہ کي چاہت اور تقوي و پرہيزگاري کي بنياد پر قائم کيے جا سکيں - (5)
جنت ميں حضرت بلال اونٹ پر سوار ہونگے اور اذان کہيں گے - جيسے ہي وہ «اشهَد اَنْ لا اِله اِلاّ اللّه » و «اشهَد اَنَّ محمدا رسولُ اللّه » کے کلمات ادا کريں گے جنت کے لباس ميں سے آراستہ لباس ان کو پہنايا جاۓ گا -
اور اس کے بعد حضرت جبرائيل عليہ السلام نے خودخواہ اميرزادوں کي باتوں کو جھٹلايا جو اپني شرافت کو دوسروں کي حقارت ميں جانتے تھے اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے چاہتے تھے کہ وہ غلاموں اور ماضي ميں ننگے پاؤں رہنے والوں سے دور رہيں تاکہ يہ خود نبي کے قريب بيٹھيں - اس خبر کے ساتھ حضرت بلال کے جسم ميں خوشي کي ايک لہر دوڑ گئي (6) اس کي روح کو اطمينان نصيب ہوا اور اس قدر نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے نزديک ہوۓ کہ بلال کے زانوں نبي (ص) کے پاؤ ں کے قريب ديکھے جا سکتے تھے - پھر اللہ تعالي نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو ننگے پاؤں والے مؤحدوں اور شيفتگان خدا کے ساتھ بردباري اور زيادہ ھمراہي کرنے کي دعوت دي -
«و اصبر نفسک مع الذّين يدْعُونَ رَبَّهم بِالْغَداةِ و الْعَشي يريدُونَ وَجْهَهُ و لا تَعْدُ عَيناکَ عَنْهُمْ تُريدُ زينَةَ الحياة الدنيا ...»؛(7)
اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کي معيت ميں محدود رکھيں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کي خوشنودي چاہتے ہيں اور اپني نگاہيں ان سے نہ پھيريں ، کيا آپ دنياوي زندگي کي آرائش کے خواہشمند ہيں؟
حضرت بلال حبشي کي معارف الہي کے متعلق شناخت اور شائستگي ايسي تھي کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جنت کو حضرت علي ، سلمان، عمّار اور بلال کي مشتاق جانا - (8) اور اذان کے وقت [ سحري کے وقت ] ان کي اذان کو ماہ رمضان ميں کھانے پينے سے باز رہنے کا واحد ثبوت قرار ديا - (9(
جس وقت اھل قريش اسلام کے مقابلے ميں کھڑے ہوا کرتے تھے ، اس وقت حضور اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بلال سے کہا کہ اذان کے بعد خدا سے دعا کريں کہ انہيں قريش کے مقابلہ ميں مدد دے -(10) اور جس دن جنت کا ذکر ہوا تو آپ (ص ) نے فرمايا : جنت ميں حضرت بلال اونٹ پر سوار ہونگے اور اذان کہيں گے - جيسے ہي وہ «اشهَد اَنْ لا اِله اِلاّ اللّه » و «اشهَد اَنَّ محمدا رسولُ اللّه » کے کلمات ادا کريں گے جنت کے لباس ميں سے آراستہ لباس ان کو پہنايا جاۓ گا - (11(
مختلف مواقع پر نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي طرف سے حضرت بلال کا دفاع کرنا ہمارے ليۓ سبق آموز اور تاريخ کي زينت ہے - مثال کے طور پر ايک دفعہ حضور اکرم ص نے جناب ابوبکر سے چاہا کہ وہ بلال اور اس کے دوستوں سے عذر خواھي کريں اور ايک دوسرے موقع پر جب ابوذر نے بلال کي سياہ صورت کے متعلق بات کي تو نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے مختصر الفاظ ميں اسے تنبيہہ کيا اور فرمايا : زمانہ جاہليت کا تھوڑاسا تکبر اب بھي تيرے اندر موجود ہے ؟ ! (12)
اس موقع پر ابوذر نے اپني صورت کو زمين پر رکھا اور بلال سے کہا : سر کو اس وقت تک زمين سے نہيں اٹھاؤں گا جب تک آپ اپنا پاوں ميري پر نہيں رکھتے اور پھر بلال سے ايسا کيا - (13)
بلال بھي صحابي سلمان کي طرح صالح اور برجستہ تھا کہ جن کي حضرت فاطمہ زھرا (س) کے گھر آمد و رفت تھي - بہت سے مواقع پر نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف سے انہيں کسي کام پر مامور کرديا جاتا - ايک دن حضور صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بلال کو پيسے ديۓ اور فرمايا :
"يا بلالُ ! ابتع بها طيبا لابنتي فاطمة "؛(14)
اے بلال ! ان پيسوں سے ميري بيٹي فاطمہ کے جہيز کے ليۓ عطر اور خوشبو کا انتظام کرو -
جب کبھي حضور فاطمہ کے بيٹوں کو ديکھتے کے ليۓ بےتاب ہوتے تو بلال کي طرف منہ کرکے فرماتے :
" يا بلال! ايتني به ولدي الحسن و الحسين " ؛
اے بلال ! ميرے بيٹوں حسن و حسين کو ميرے پاس لاؤ -
ايسي گفتگو بلال پر حضور اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے يقين ، اطمينان اور اعتماد کو ظاہر کرتي ہے -
ايک دن حضرت امام علي عليہ السلام نے حضرت بلال کے متعلق سابقہ پہچان کي بنياد پر انہيں اپنے جيسا قرار ديا اور فرمايا :
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے پانچ افراد ہيں : ميں عرب ميں سب سے پہلے ، سلمان عجم ميں پہلے ، صہيب روم ميں سب سے پہلے ، بلال حبشہ ميں پہلے اور خباب نبط ميں سے سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوۓ تھے -
حوالہ جات :
1- بلال، سخنگوي نهضت پيامبر(ص)، (بلال، تحريک رسول (ص) کے ترجمان) عبدالحميد جودة السحار، فارسي ترجمہ علي منتظمي، ص4 و 3-
2-کشکول شيخ بہائي، عزيزاللّہ کاسب، ص252-
3 -امام حسن عسکري (ع) سے منسوب تفسير ص462؛ علل الشرائع، ص461-
4-عدة الداعي، ص21؛ المحجة البيضاء، ج2، ص310-
5 -حجرات، 13؛ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَيكُمْ- اے انسانو! ہم نے تمہيں ايک مرد اور عورت سے پيدا کيا ہے اور تمہيں مختلف خاندانوں اور قبيلوں ميں قرار ديا ہے اس لئے کہ تم آپس ميں ايک دوسرے کو پہچانو، يقينا تم ميں زيادہ عزت والا اللہ کے يہاں وہ ہے جو تم ميں زيادہ پرہيزگار ہو- (رجوع کريں: تفسير الميزان، ج18، ص325؛ تفسير اطيب البيان، ج12، ص231؛ تفسير البرہان، ج4، ص210؛ تفسير نمونہ، ج22، ص196؛ تفسير القمي، ج1، ص179، سے)-
6 -انعام، 52؛ وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ - اور انہيں پاس سے دھتکاريے نہيں جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہيں کہ اس کي رضا کے طلب گار ہيں- آپ پر ان کے حساب کتاب کي کچھ ذمہ داري نہيں ہے، نہ آپ کے حساب کتاب کي ذمہ داري کچھ ان پر ہے، جو آپ انہيں دھتکار ديں تو ہو جائيں گے ظالموں ميں سے- (ر-ک: تفسير الميزان، ج7، ص99؛ بيان السعاده، ج2، ص132؛ روح المعاني، ج7، ص158)-
7 -سورہ کہف، 28-
8 -شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد، ج10، ص104؛ عوالم العلوم، ج14، ص308-
9-بحارالانوار، ج83، ص131؛ نهاية الاحکام، ج1، ص422 و 524-
10 -تاريخ تحول دولت و خلافت، ص107، نقل از التراتيب الاداريۃ، ج1، ص79-
11 -بحارالانوار، ج84، ص116؛ ر-ک: مجمع الرجال، ج1، ص281-
12 -مختصر تاريخ دمشق، ج5، ص261-
13 -شرح نهج البلاغه، ج11، ص198-
14-بحارالانوار، ج104، ص88؛ دلائل الامامه، ص87-