جناب مختار ١٠ ہجری میں شہر طائف کے ایک محترم گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔
باپ ابو عبید اور ماں دومہ بنت وہب ابن عمر ابن مُعَتِّب تھیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد خدا کے دین کے فروغ و استحکام میں اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اہم مقام حاصل کیا۔
ولادت سے قبل ماں نے خواب دیکھا تھا: ''تمہارا بچہ قبل اس کے کہ سن بالا کو پہنچے حوادث کی آغوش میں پل کر شجاع اور بے خوف ہو جائے گا اور بہت سے لوگ اس کی ہمراہی کریں گے''۔ ماں کی زبانی یہ مژدہ سن کر پورا گھر سرور و شادمانی میں ڈوب گیا۔
جناب مختار کا قبیلہ'' ثقیف'' شہر طائف کے سرداروں میں دولت و ثروت ، شجاعت و جواں مردی اور عزت و وقار میں شہرت رکھتا تھا اور ایک خاص احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور عربوں کے درمیان مکہ کے قریش کے بعد طائف کے قبیلہ ثقیف کو دوسرے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔
قبیلہ ثقیف میں سب سے پہلے اسلام لانے والے عروہ ابن مسعود ہیں جو جناب مختار ثقفی کے چچا تھے آپ جنگ حنین کے بعد جب لشکر اسلام نے طائف کا محاصرہ ترک کر دیا تو خود سے نبی اکرمۖ کی خدمت میں آکر اسلام لائے اور کچھ عرصے بعد مدینہ سے طائف واپس آکر اسلام کی تبلیغ شروع کی
جناب مختار کے والد ابو عبید نے اپنی بھائی عروہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا لیکن خلافت کے دوسرے دور میں طائف سے مدینہ آئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ (بلاذری ''انساب الاشراف'' ج ٥ ص ٢١٤ ، مسعودی ''مروج الذہب'' ج ٢ ص ٣١٥)
جناب مختار کی ماں دومہ بنت وہب جو صاحب ''اعلام النساء'' عمر رضا کحالہ کے بقول: تاریخ اسلام کی ایک ممتاز شخصیت ، اچھی خطیب اور تدبر و دانائی کی مالکہ تھیں اور حسن کردار کی بنا پر ''دومۃ الحسناء'' کے لقب سے معروف تھیں۔
ایسے بہادر باپ اور دلیر ماں کے فرزند مختار ثقفی کے حالات زندگی مسلمانوں کی بے توجہی کا شکار رہے ہیں ، بچپن سے متعلق تاریخ خاموش ہے پھر بھی تاریخی اوراق میں چند واقعات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
بحارالانوار کے حوالے سے کتاب "مختار ثقفی" میں ملتا ہے کہ ایک دن باپ کے ہمراہ علی ابن ابی طالب کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو علی علیہ السلام نے ان کو اپنے زانو پر بٹھایا اور سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا: ''یا کیس یا کیس''
یعنی اے ذہین و ہوشیار ! بعض نے ''کیّس'' تشدید کے ساتھ لکھا ہے جو بہت زیادہ ذہین کے معنی میں ہے ۔بہر حال یہ خطاب مستقبل میں جناب مختار کی ذہانت و فراست کی علامت ہے۔
بچپن میں جناب مختار حسنین علیہما السلام خصوصاً جناب مسلم ابن عقیل سے بہت زیادہ مانوس تھے۔
تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں باپ کے ساتھ ایران کے خلاف جنگی مورچے پر بھی موجود تھے۔
ایران کے خلاف جنگ کے بعد مختار اپنے وطن طائف واپس نہیں گئے ، مدینہ منورہ میں جوار قبر پیغمبرۖ میں رہنا پسند کیا اور بنی ہاشم سے انسیت پیدا ہو گئی ، چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں باریاب ہوکر قرآن کریم ، نبی اکرمۖ کی احادیث اور تعلیمات اہلبیت سے بھرپور استفادہ کیا ۔
جس وقت مغیرہ ابن شعبہ کو کوفہ کی گورنری سونپی گئی جناب مختار معارف اہلبیت سے آشنائی کے لئے مدینہ گئے اور خاندان پیغمبرۖ خصوصاً محمد حنفیہ سے بہت قریب رہے اور اہلبیت کے فضائل میں بہت سی حدیثیں سنیں اور یاد کیں اور جب کوفہ واپس ہوئے تو فضائل اہلبیت خصوصاً امام حسین کی حقانیت کی باتیں کرنے لگے وہ کہا کرتے تھے کہ:
جناب مختار امام حسین کی شہادت کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت پر یقین و اعتبار رکھتے تھے ، آیۃ اللہ محمد تقی مدرسی کے بقول: مختار نے امام سجاد(ع) کے دور امامت میں انقلاب برپا کیا ، تاریخی شواہد کی بنیاد پر مختار امام زین العابدین علیہ السلام سے گہرا ارتباط رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ امام علیہ السلام کی جزئیات زندگی سے آگاہ تھے۔
جناب مختار کے یہاں خود اعتمادی اپنے پورے وجود کے ساتھ جلوہ گیر تھی ، جو کام کرتے سوچ سمجھ کر کرتے اور ہر مسئلے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے اسی لئے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اور اپنے زمانے کے تمام گروہوں اور جماعتوں میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا خوارج توابین ہوں یا مجاہدین بڑی حد تک مقبول و موثر قرار پائے۔
''حیات الامام الحسین'' کے مؤلف باقر شریف قرشی نے جناب مختار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
''مختار تاریخ اسلام میں عرب کی ممتاز ترین و مشہور ترین شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں، اپنے زمانے کے سیاسی اور معاشرتی حوادث میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے"
وہ عقل و درایت اور تدبر و فراست سے مالامال کسی ماہر سیاست داں کی طرح معاشرہ شناس اور دور اندیش تھے اور اپنے تبلیغی اور تشہیراتی وسائل سے کام لے کر پورے معاشرے میں تحرک و بیداری ایجاد کر دینے کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔
علاوہ ازیں طبری کے حوالے سے ڈاکٹر کربوتلی نے لکھا ہے: مختار ایک مرد متقی و پرہیزگار اپنے دینی آداب کے پابند تھے اور خود ان کی بیوی کے بقول: دنوں میں روزہ دار اور شبوں میں بیدار رہتے تھے۔
مسعودی نے مروج الذہب میں بھی اس کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ جس وقت مصعب ابن زبیر کو عراق پر قبضہ حاصل ہوا انہوں نے جناب مختار کی دونوں بیویوں کو اسیر کر لیا اور مختار پر لعن و نفرین کرنے کا حکم دیا تو بیویوں نے مصعب کو جواب دیا : ہم کیسے مختار پر لعن اور بیزاری کا اظہار کر سکتے ہیں جب کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پر بھروسہ کیا ، دن میں روزہ رکھتے اور رات میں عبادت اور نماز و دعا اور پروردگار سے مناجات کیا کرتے تھے اور اپنی جان راہ رسولۖ میں ان کے اہلبیت سے وفاداری اور خون کا انتقام لینے میں قربان کی ہے
مختار نے جب امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لے لیا اور ان کے شرمناک کاموں کی سزا دے کر انہیں ان کے انجام تک پہنچا دیا تو اکثر دنوں میں شکرانہ کا روزہ رکھتے تھے ، چنانچہ جس وقت مختار نے حضرت علی اصغر کے سنگ دل قاتل حرملہ کو اس کے اعمال کی سزا دے دی تو گھوڑے سے اترے اور دو رکعت نماز ادا کی اور ایک طولانی سجدہ شکر کیا۔
پارسائی و بندگی کے علاوہ جناب مختار کی کامیابی کی ایک وجہ مورخین نے ان کا سخی و بردبار ہونا بھی نقل کیا ہے ، وہ اپنے ساتھیوں کی مدد میں ہمیشہ پیش قدم رہے وہ دیگر حکام وقت کے برخلاف بیت المال اپنے عزیز و اقارب میں تقسیم کرنے کے مخالف تھے حتی اپنے لئے یا اپنے اہل و عیال کے لئے بھی بیت المال میں ہاتھ نہیں لگاتے تھے، اس سے مستحقین کی مدد کرتے ، فوجی امور میں یا سپاہیوں پر خرچ کرتے تھے ، علاوہ ازیں خاندان رسولۖ کی خبرگیری جناب مختار اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے ۔
مختار کی ایک اور خصوصیات یہ تھی کہ اپنے مولا ؤ آقا علی ابن ابی طالب کی تاسی میں ، عرب کے مالدار شرفاء کے برخلاف شخصی کام خود کرتے اور روزی روٹی کے لئے کھیتی اور آب یاری میں مشغول رہتے تھے ان کے کھیت کوفہ کے قریب محلہ خُطَرنیہ میں تھے جو ان کے چچا سعد ابن مسعود نے خریدے تھے ، سعد کو حضرت علی نے مدائن کا گورنر بنایا تھا امام حسن علیہ السلام کے زمانہ میں بھی وہ اسی عہدے پر فائز رہے جب امام حسن پر لوگوں نے ہجوم کیا تو امیر شام سے صلح کے بعد امام حسن سعد کے گھر مہمان رہے اور معالجہ ہوا ، اسی جرم میں امیر شام نے مدائن کی گورنری سے معزول کر دیا اور سعد نے کوفہ کے قریب زمین خرید کر وہیں رہائش اختیار کر لی تھی ، چنانچہ جناب مختار والد کی شہادت کے بعد چچا کے ہمراہ رہتے اور ان ہی کے کھیت میں کھیتی کرتے تھے البتہ کچھ موالی بھی کھیتی میں جناب مختار کی مدد کرتے تھے۔ (مختار ثقفی ص ٢٧)
جناب مختار کو اللہ نے فصاحت و بلاغت میں بھی ممتاز قرار دیا تھا ، چنانچہ جوش و جذبے سے معمور تقریروں سے وہ لوگوں کو منقلب کر دیا کرتے تھے ان کے خطابات دوستوں کو جوش و ولولہ عطا کرتے تو دشمنوں کے حوصلے پست کر دیا کرتے تھے ان کے تیز و تند لب و لہجے سے بنی امیہ کے درمیان خوف و ہراس پھیل جاتا تھا۔
مؤرخین نے لکھا ہے:
عبدالملک ابن مروان کا گورنر حجاج جب مختار کا ذکر آتا تو اپنی تمام تر دشمنی کے باوجود فصاحت و بلاغت کی تعریف کرتا تھا اور مختار سے سنے ہوئے خوبصورت جملے نقل کیا کرتا تھا۔ (انساب الاشراف ج ٥ ص ٢١٦ ، ماہیت قیام مختار ص ٥٨ و ٥٩)