امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

Rate this item
(1 Vote)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جائزہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جائزہ لینے سے قبل اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ اہل بیت علیھم السلام نے اپنی سیاسی اور اجتماعی تعلیمات میں انفرادی اور سماجی تعلقات ، عدل و انصاف کی برقراری اور ظلم و ناانصافی سے مقابلے جیسے امور پر خصوصی توجہ دی ہے۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ص اور آپ کے اہل بیت علیھم السلام کے نزدیک سیاسی اقتدار اور سماجی عہدے عدل و انصاف کی برقراری حقوق کی بازیابی اور احکام الہیہ کے نفاذ کا ذریعے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہستیوں کی ساری کوشش عدل و انصاف کی برقراری ، اور الہی و انسانی اقدار کے احیاء کے لۓ ہوتی تھی۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سماجی تعلقات کو صحتمند بنانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ اہل بیت علیھم السلام کے مکتب میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کے مقاصد کے حصول کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کردار اور اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کو بیان کیا گيا ہے یہاں تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے ہی مسلمانوں کو سب سے بہترین امت قرار دیا گيا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ایک سو دس میں ارشاد ہوتا ہے۔

" تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لۓ منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو "

اس آیت کے مطابق مسلمان اس وقت تک بہترین امت ہیں جب تک وہ نیکیوں کی طرف دعوت اور برائیوں سے مقابلے کی اپنی ذمےداری کو فراموش نہیں کریں گے اور جس دن اس نے اپنا یہ فرض بھلا دیا تو پھر وہ بہترین امت نیہں ہوں گے۔ اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم ص کو بھی امر بالمروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ جو شخص بھی یہ فرض انجام دیتا ہے رسول خدا ص کے فرمان کے مطابق اس نے انبیائے کرام ع کی عظیم رسالت کی انجام دہی میں ان کا ساتھ دیا ہے۔

انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ اس کی تقدیر کا تعلق اس معاشرے کی تقدیرکے ساتھ ہوتا ہے جس میں وہ زندگي گزارتا ہے۔ انسان جو کام انجام دیتا ہے اس کا فائدہ اور نقصان خود اس انسان کو بھی ہوتا ہے اور معاشرے پر بھی اس کے کام کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسروں کے اعمال بھی اس کی زندگي پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے اعمال و کردار کا ذمےدار ہوتا ہے اسی طرح وہ اس معاشرے کے اعمال کا بھی ذمےدار ہوتا ہے جس میں وہ زندگي بسر کرتا ہے۔ خدا کے بندوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو اصلاح کی تحریکیں چلائيں ان کا مقصد بھی برائیوں کا خاتمہ اور بھلائیوں کی ترویج ہی تھا۔

اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان شخص کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش بھی کرنی چاہۓ۔ دوسروں کے اعمال اور تقدیر سے بے اعتنائی درحقیقت اپنی تقدیر سے بے اعتنائی برتنے کے مترادف ہے۔ اگر معاشرے میں گناہ اور برائی پھیل جائے تو معاشرے کے تمام افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس قدر اہم ہے کہ حضرت علی ع نے فرمایا ہے کہ امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں تمام نیک اعمال اور راہ خدا میں جہاد کی حیثیت وہی ہے جو ایک وسیع و عریض سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی حیثیت ہے۔

امر بالعروف اور نہی عن المنکر انسانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے علاوہ ان کی سعادت پر مبنی زندگي کا بھی ضامن ہے۔ پیغمبر اکرم ص نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ نکتے کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

" لوگوں میں ایک گناہ گار شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جو چند لوگوں کے ساتھ کشتی پر سوار ہو اور جب کشتی سمندر کے وسط میں پہنچ جائے تو کلہاڑی کے ذریعے اس جگہ سوراخ کرنا شروع کر دے جہاں ہو بیٹھا ہوا ہے۔ اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہنا شروع کردے کہ میں اپنی جگہ سوراخ کر رہا ہوں ۔ اگر دوسرے افراد اسے اس خطرناک عمل سے نہ روکیں تو زیادہ دیر نہ گزرے گي کہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے گا اور سب کے سب سمندر میں ڈوب جائيں گے۔ "

پیغمبر اکرم ص نے اس دلچسپ مثال کے ذریعے امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے منطقی ہونے کو بیان کیا۔ آپ اجتماع پر فرد کی نگرانی کو ایک فطری حق جانتے ہیں۔ اس طرح اسلام نے اپنے پیرووں سے کہا ہے کہ وہ معاشرے کے سلسلے میں فرض شناسی کا مظاہرہ کریں۔ ظلم اور گناہ کو دیکھنے کے بعد خاموشی اختیار نہ کریں۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دیں اور برائیوں سے منع کریں۔ اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں جو تاکید کی ہے اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلام معاشرے کو صتحمند رکھنے اور برائیوں کے مقابلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اس فرض کے بارے میں فرمایا ہے کہ

" شریعت کی بنیاد اور اس کی حقیقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے "

حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہےکہ احکام الہیہ کے نفاذ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے اسلام کے زندگي بخش قوانین کے نفاذ کے لۓ دوسرے تمام اقدامات کے علاوہ معاشرے کے تمام افراد پر ان قوانین کے نفاذ کی نگرانی کی ذمےداری بھی عائدکی ہے۔ اور ہر فرد اس فرض کو ادا کر کے اسلامی احکام کے صحیح نفاذ میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ حضرت امام باقر علیہ السلام بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ اس قدر وسیع جانتے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں:

" بلاشبہ امر بالعروف اور نہی عن المنکر انبیائے کرام ع کی راہ اور صالحین کی روش ہے۔یہ ایک ایسا عظیم فرض ہے جس کے ذریعے واجبات کو قائم کیاجاتا ہے ، راستے محفوظ ہوتے ہیں ، لوگوں کا رزق جائز قرار پاتا ہے ، افراد کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ، زمینیں آباد ہوتی ہیں، دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور تمام کام سدھر جاتے ہیں۔ "

سامعین جیسا کہ آپ اس بات کی جانب متوجہ ہیں کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے اس گرانقدر فرمان میں انفرادی واجبات کی ادائيگي کے علاوہ بعض اہم سیاسی ، سماجی اور اقتصادی امور کے وقوع پذیر ہونے کو بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر منحصر کیا ہے۔ حضرت امام محمد باقر ع کے فرمان کے مطابق اس عظیم اسلامی فرض کے دائرے میں تمام اعتقادی ، اخلاقی ، اجتماعی اور سیاسی اصلاحات بھی شامل ہیں۔

اہل بیت علیہ السلام نے اسلامی معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت بیان کرنے کے علاوہ اپنے کلام اور عمل کے ذریعے بھی لوگوں کو اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا۔ چونکہ عمل کا اثر کلام کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اس لۓ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

" لوگوں کو زبان کے بغیر نیکیوں کی دعوت دو ۔ "

یہ ہستیاں نیکیوں کی جانب دعوت دینے اور برائیوں سے منع کرتے وقت انسانوں کے شرف و وقار اچھے اخلاق ، وقت اور زمانے کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھتی تھیں تاکہ مخاطبین پر اچھے اثرات مرتب ہوں۔ یہی وجہ ہےکہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب پر واجب ہے ؟ فرمایا کہ یہ فرض اس کے ذمے ہے جو قادر بھی ہو اچھائی اور برائی میں تشخیص بھی دے سکتا ہو۔ اور اس شخص کے کاندھوں پر یہ فرض نہیں ہے جو ناتوان ہو اور کچھ بھی نہ کرسکتا ہو"

اہل بیت علیھم السلام اس بات پر تاکید فرمایا کرتے تھے کہ انسان دوسروں کو کسی عمل کی نصیحت کرنےسے پہلے خود اس پر عمل کرے اور دوسروں کو جس چیز سے منع کررہا ہو پہلے خود اس سے اجتناب کرے۔

حضرت امام کاظم ع نے بھی اپنے ایک شاگرد ہشام بن حکم سے فرمایا:

" اے ہشام یہ تمہاری جہالت کی علامت ہوگي تم دوسروں کو اس کام سے منع کرو جس کو تم خود انجام دیتے ہو۔ مومن باتیں کم اور کام زیادہ کرتا ہے۔

اہل بیت علیھم السلام کی سیرت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس قدر نمایاں تھی کہ حضرت امام حسین ع نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لۓ ہی قیام کیا تھا اور آپ نے اس کے راستے میں شہادت پائی۔ اہل بیت ع کے دوسرے افراد کو بھی اسی اہم فرض پر عمل کی وجہ سے ظالم حکمرانوں کی دشمنی اور کینے کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بھی شہید کردیۓ گے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک مت کرو کیونکہ اس صورت میں ظالم تم پر مسلط ہوجائيں گے اور پھر تم جس قدر بھی دعا کرو گے وہ قبول نہیں ہوگي۔

آپ نے مزید فرمایا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خدائی اخلاق میں سے ہے جو شخص ان دو فرائض کی مدد کرتا ہے خدا تعالی اس کو عزت سے نوازتا ہے۔

Read 3400 times