انسان اپنی پاکیزہ فطرت اور قلب سلیم کے ساتھ ہمیشہ سعادت اور خوش نصیبی کے راستےپر گامزن ہوتے ہیں۔ لیکن ان کو اس راستے پر ایک ایسے بدترین دشمن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمیشہ ان کو خدائي راستے سے روکنے کے لۓ منصوبے اور سازشیں تیار کرتا رہتا ہے۔ جب اللہ تعالی نے شیطان کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے اپنے غرور و تکبر کی وجہ سے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ اللہ تعالی نے اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ اس وقت سے اس نے انسانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا اور اللہ تعالی سے کہا: " اگر تو نے مجھے قیامت تک کی مہلت دے دی تو میں ان کی ذریت میں سے قلیل تعداد کے سوا سب کو گمراہ کردوں گا۔ "
اللہ تعالی نے بھی جواب میں فرمایا : " جا جس پر بھی بس چلے اپنی آواز سے گمراہ کر اوراپنے سوار اور پیادوں سے حملہ کر دے اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے خوب وعدے کر کہ شیطان سوائے دھوکہ دینے کے اور کوئي سچا وعدہ نہیں کرسکتا ہے۔ "
شیطان تخلیق کے آغاز سے قیام قیامت تک انسان کا ایمان اس سے چھیننے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اس کے ایمان کو کمزور کرنے کی تگ و دو کرتا ہے اور اگر وہ یہ بھی نہ کرسکےتو پھر بدعنوانی اور فساد وغیرہ کے ذریعے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اگر فرشتہ انسان کی ترقی و تکامل کے سلسلے میں انسان کا خادم ہے تو شیطان رہزن ہے۔
شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لۓ بہت سے جال بچھاتا ہے۔ وہ انسانوں کے کاموں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اس طرح خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے کہ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اس کے مدنظر جو کام ہے وہی اچھا ہے۔ شیطان انسانوں کی نفسیات اور افکار و خیالات کے پیش نظر ان کے لۓ مختلف طرح کے جال بچھاتا ہے۔ وہ تمام افراد کے لۓ ایک جیسا عمل انجام نہیں دیتا ہے۔ شیطان افراد کو فریب دینےکے لۓ جو اقدامات انجام دیتا ہے ان میں وسوسے میں مبتلاء کرنا ، گناہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا، عمل کو ضائع کرنا، نسیان سے دوچار کرنا ، فساد پھیلانا اور جھوٹےوعدے کرنا وغیرہ شامل ہے۔ ان کے علاوہ بھی وہ ہزاروں طریقوں سے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ شیطان اپنے اقدامات اور کاموں کو صحیح ظاہر کرنے کے لۓ انسانوں کو لمبی امیدوں ، دنیا پرستی اور خواہشات نفسانی میں مبتلاء کردیتا ہے۔ اگر انسان ایک لمحے کے لۓ بھی غفلت سے کم لے اور شیطان کے شر سے خدا تعالی کی پناہ میں نہ جائے تو وہ شیطان کے جال میں پھنس کر ہلاک ہوجاتا ہے۔
شیطان کی کمین گاہیں بہت زیادہ ہیں۔
قرآن کریم کے مطابق شیطان کا ایک کام انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے سورۂ ناس میں فرمایا ہے کہ
" ان سے پناہ چاہتا ہوں ] جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے "
وسوسہ کے معنی بہت آہستہ آواز میں کسی چیز کے پڑھنےکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذہن میں آنے والے برے خیالات کو وسوسے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ گویا وہ انسان دھیمی آواز کے ساتھ شیطان کا سب سے پہلا کام وسوسہ ہے اور شائد اس کے دوسرے کاموں کی بازگشت بھی اسی کام کی جانب ہوتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو اس نے حضرت آدم اورحضرت حوا علیھماالسلام کے سلسلے میں بھی انجام دیا تھا۔ شیطان ان کو ممنوعہ پھل کھانے کا وسوسہ کرنے کے ذریعے جنت سے ان کے باہر نکالے جانے کا باعث بنا۔
خدا تعالی انسانوں کی پاکیزہ فطرت کے پیش نظر اس حال میں بھی اپنے بندوں سے کہا ہے کہ اگر انھوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو وہ بارگاہ الہی میں توبہ کریں۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ایک سو پینتیس میں ارشاد ہوتا ہے :
" یہ لوگ وہی ہے کہ جب کوئي نمایاں گناہ کرتے ہیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کر کے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ اپنے کۓ پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے "
جب یہ آیت نازل ہوئی تو شیطان پریشان ہوگیا ، وہ مکے کےایک بلند پہاڑ پر گيا اور اس نے بلند آواز میں اپنے ساتھیوں اور اولاد کو پکارا۔ وہ اس کے گرد اکٹھے ہوکر اس سے اس پریشانی کا سبب پوچھنے لگے تو شیطان نے کہاکہ خدا تعالی نے یہ آیت اپنے نبی پر نازل کی ہے۔ اور گناہ گار انسانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ توبہ کے ذریعےان کے گناہ معاف کردے گا۔ جس کے نتیجے میں ہماری تمام کوششیں خاک میں مل جائيں گي۔ میں نے تم کواس لۓ بلایا ہے تاکہ یہ جان سکوں کہ تم میں سے کون اس کا توڑ پیش کرسکتا ہے؟
ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم انسانوں کو مختلف گناہوں کی دعوت دے کر اس آیت کو بے اثر کردیں گے۔
ابلیس نے کہا کہ ہم اس کام میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک نے کوئي نہ کوئی تجویزپیش کی۔ لیکن شیطان نے کوئی ایک تجویز بھی قبول نہ کی۔
کافی دیر کے مشورے کے بعد خنّاس نامی ایک کہنہ مشق شیطان آگے بڑھا اور کہنے لگا میں یہ مسئلہ حل کرسکتاہوں۔ شیطان نے پوچھا وہ کیسے؟
خنّاس نے کہا کہ میں انسانوں کو میٹھے وعدوں اور لمبی آرزوؤں میں مبتلا کردوں گا۔ اور ان کے ذہن سے توبہ اور خدا کی جانب پلٹنے کا خیال بھی نکال دوں گا۔ شیطان بہت خوش ہوا اور اس نے یہ تجویز قبول کر لی۔ خنّاس کو گلے لگالیا اور اس کی پیشانی چوم کر کہنے لگا کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے میں اس کام کو تمہیں سونپتا ہوں۔
شیطان فریب اور چال کے ساتھ کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے وسوسے مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ جو کہ ہر انسان کے حال کے مطابق ہوتے ہیں۔ مثلا دشمن ایسا وسوسہ بھی کرتا ہے جو وہ اس وقت کرتا ہے جب انسان کسی اچھے کام کا ارادہ کرتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر ع نے فرمایا ہے۔ جب بھی کوئي شخص نیک کام کا ارادہ رکھتا ہو وہ اس کی انجام دہی میں جلدی کرے۔ کیونکہ جس کام میں دیر ہوجائے تو شیطان اس کے بارے میں غور اور وسوسہ کرتا ہے تاکہ انسان اس کام سے دستبردار ہوجائے۔ شیطان خود اعتراف کرتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام سے کہتا ہے کہ جب بھی آپ صدقہ دینے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اس کام کو انجام دیں کیونکہ جب بھی کوئي انسان صدقہ دینے کا ارادہ کرتا ہے تو میں خود سرگرم ہوجاتا ہوں اور صدقے اور اس شخص کے درمیان حائل ہوجاتا ہوں ۔
البتہ جو شخص وحدہ لاشریک خالق کو اپنا ولی اور سرپرست جانتا ہے اور اسی پر توکل کرتا ہے تو وہ شیطان کے فریب سے دور رہتا ہے۔ لیکن جو شیطان کو اپنا دوست اور سرپرست قرار دیتا ہے تو وہ اخروی عذاب کے علاوہ اس دنیا میں بھی نا قابل تلافی نقصان اٹھاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان اس کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ اور اسے لمبی آرزوؤں میں مبتلاء کر دیتا ہے تاکہ وہ شخص خداتعالی کی عبادت اور کمال الہی سے دور ہوجائے۔ مثلا جب بھی انسان دنیوی وسائل کی آرزو کرتا ہے تو ان کی ایک تصویر اپنے ذہن میں تیار کرتا ہے۔ اکثر آرزوئیں سراب جیسی ہوتی ہیں۔ شیطان کو اس طرح کی لمبی اور پرفریب امیدوں کا مرقع کھینچنے میں مہارت رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے:
" اور جو خدا کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست اور ولی بنائے گا وہ کھلے ہوئے خسارے میں رہے گا ۔ شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے اور انھیں امیدیں دلاتا ہے اور وہ جو بھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا انجام جہنم ہے اور وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ہیں "
شیطان کی ایک اور چال کہ جو اس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے ، انسانوں کی نظروں میں برائیوں کو مزین کر کے پیش کرنا ہے۔ یعنی شیطان خواہشات نفسانی سے فائدہ اٹھا کر انسان کے برے اعمال کواس کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرتا ہے۔ انسان جو بھی برا کام انجام دیتا ہے وہ اسے درست اور صحیح نظر آتا ہے۔
انسان کے ساتھ وعدے کرنا اور اسے برائیوں کی دعوت دینا بھی انسان کو گمراہ کرنے کے سلسلے میں شیطان کی ایک چال ہے۔
جب گناہ گار انسان دوزخ میں جائیں گے تو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا کریں گے اور ہر شخص دوسرے کو اس سلسلے میں قصوروار قرار دے گا ۔ دریں اثناء سب کہیں گے کہ شیطان قصور وار ہے اور وہ اپنے دوزخ میں جانے کا ذمےدار شیطان کو گردانیں گے لیکن شیطان ان سے کہے گا:
" میرا تہمارے اوپر کوئي زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کر لیا۔ "
شیطان کی جانب سے انسانوں کے گمراہ کۓ جانے کی کوشش کبھی بھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ قرآن کریم اور روایات میں اس کی گونا گوں مخفی اور آشکار چالوں سے پردہ اٹھایا گيا ہے۔ قرآن کریم اور روایات کی جانب رجوع کرنے سے انسان شیطان اور اس کے ساتھیوں سے آگاہ ہوسکتا ہے ۔ شیطان انسان کی سعادت کا دشمن ہے۔ اس لۓ وہ انسان کی سعادت کے راستے پرگھات لگا کر بیٹھا ہے تاکہ اسے فریب دے رک اپنے جال میں پھنسا لے۔