قرآن کریم کا اعجاز

Rate this item
(1 Vote)

قرآن کریم کا اعجاز

قرآن کریم کے اعجاز کا ایک پہلو یہ ہے کہ غیب کی باتوں کا اعلان کر تا ہے اوربعض وقت کئی برس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں پیشنگوئی کرتاہے ۔جیسے روم سے حکومت ایران کی شکست کے بارے میں اس وقت خبر دی تھی جب چھ سو پندرہ عیسوی میں ایران میں ساسانیوں کی حکومت نے روم کو شکست دی تھی جس کی قرآن کریم نے پیشنگوئی کی تھی کہ آیندہ چند برسوں میں روم ایران کوشکست دے گا۔تاریخ کے مطابق ایسا ہی ہوا جیسے قرآن کریم نے خبر دی تھی ۔خدا وند عالم سورہ روم میں ارشاد فرماتا ہے کہ روم والے مغلوب ہوگئے اور نزدیک ترین علاقے میں شکست سے دو چار ہوئے ، لیکن یہ مغلوب ہوجانے کے بعد عنقریب پھر غالب ہوجائیں گے اور چند برسوں کے اندر ہی غلبہ حاصل کریں گے ، اول و آخر ہر کام کا اختیار خداکے ہاتھ میں ہے اور اسی دن صاحبان ایمان خوشی منائیں گے۔ قرآن کریم کی پیشنگوئیوں کاایک مصداق سورہ کوثر میں خداکے وعدے کا پورا ہونا ہے ۔چونکہ پیغمبر اسلام کے بیٹے کا انتقال ہوچکا تھا اور پیغمبر اسلام کی دوسری اور کوئی اولاد نہيں تھی ۔ اس لئےبعض جاہل مشرکین آپ کو مقطوع النسل کہنے لگے ۔ قرآن کریم نے خود ان لوگوں کو جو پیغمبر اسلام کو مقطوع النسل کہتے تھے مقطوع النسل کہا ہے اور قرآن کریم کی یہ خبر صحیح ثابت ہوئی ۔کیونکہ وہ شخص جو اس وقت صاحب اولاد تھا ،تدریجا دوایک نسل کے بعد اس کے خاندان کا خاتمہ ہوگیا ،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کا شجرہ طیبہ آپ کی دختر گرامی کے ذریعہ پھولتا پھلتا گیااور آج بھی باقی ہے ۔سورہ کوثر میں آیا ہے کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں یقینا آپ کادشمن بے اولاد اور مقطوع النسل ہے۔

موسیقی

آج ہم قرآن کریم کی ایسی غیبی باتوں کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مغربی ملک کے ایک عیسائی دانشور کی تقدیر ہی بدل گئی۔ آپ نے موریس بوکائے کا نام ضرور سنا ہوگا ، ہم اسی سلسلے وار پروگرام میں ان کا ذکر کر چکے ہیں ۔یہ ایک فرانسیسی دانشور ہیں جو علم طب اور جراحی میں مہارت رکھتے تھے اورعیسائی ماحول میں پلے بڑھے ہیں ۔ان کی علمی کاوش کا واقعہ بہت دلچسپ ہے جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا اور ان کی راہ حق کی طرف ہدایت کی ۔

گویندہ؛

فرانس ایک ایساملک ہے جہاں کے رہنے والے آثار قدیمہ کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں ۔فرانس کے سابق صدر فرانسوامیتران کے دور میں فرانس نے مصر سے کہا کہ وہ فرعون کی مومیائی شدہ لاش کو بعض تحقیقات کی انجام دہی کے لئے فرانس منتقل کرے ۔جب فرعون کی مومیائی شدہ لاش لیکر ہوائی جہاز فرانس کے ائیرپورٹ پر اترا تو اس وقت فرانس کے بہت سے حکام منجملہ صدر اور کابینہ کے وزراء ائیر پورٹ پہونچے اور انھوں نے فرعون کی لاش کا اس طرح سےاستقبال کیا کہ گویا فرعون زندہ ہے اور مصر پر فرمانروائی کر رہا ہے ۔ استقبالیہ تقریبات کے بعد فرعون کی لاش کو فرانس کے آثار قدیمہ کے مرکز میں منتقل کردیا گیا تاکہ آثار قدیمہ کے ماہرین فرانس کے پوسٹ مار ٹم کرنے والے ماہر ڈاکٹروں کی مدد سے فرعون کی لاش کے بارے میں تحقیقات انجام دیں اور اس میں موجود بعض اسرار کا انکشاف کریں ۔

گویندہ؛

تحقیقاتی گروپ کے سربراہ پروفیسر موریس بوکائے تھے ۔ انھوں نے دوسرے ڈاکٹروں کے برخلاف جو فرعون کی لاش میں ترمیم کرنا چاہتے تھے ،فرعون کے مرنے کے راز کا انکشاف کرنا چاہا ۔ ڈاکٹر بوکائے نے رات گئے تک فرعون کی لاش کا معاینہ کیا اور تحقیقات انجام دیتے رہے وہ اس کی لاش پر باقی ماندہ نمک سے سمجھ گئے کہ وہ دریا میں غرق ہوکر مرا ہے ۔ فرعون جب مرگیا تو اس کی لاش کو دریا سے نکال کر مومیائی کیا ہے ۔لیکن جو چیز پروفیسر بوکائے کی حیرت کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ فرعون کی لاش دوسری لاشوں کے مقابلے میں کیسے صحیح وسالم باقی رہی ہے۔ موریس بوکائے فرعون کے مرنے کی علت کے بارےمیں اپنی آخری رپورٹ تیار کررہے تھے ۔اور ان کی تحقیقات سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ دریا میں غرق ہوکر مرا ہے ۔اسی وقت وہاں پر حاضر لوگوں میں سے ایک نے ان کے کان میں آہستہ سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ تحقیقات کا نتیجہ شائع کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،کیونکہ فرعون کے غرق ہونے کے سلسلے میں آپ کی تحقیقات اور مسلمانوں کا نظریہ ایک ہے۔بوکائے نے اس خبر کی تردید کی اور اسے بعید جانا ،کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کسی بڑے نتیجہ تک پہونچنا ممکن نہیں ہے ،مگریہ کہ انسان علمی ترقی، جدید اور دقیق ترین کمپیوٹرکی مددسے کسی ایسے بڑے نتیجہ تک پہونچ جائے۔ ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم نے فرعون کے غرق ہونے اور اور اس کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کی خبر دی ہے ۔ یہ سن کر ڈاکٹر بوکائے کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا اور وہ تعجب میں پڑگئے ۔ وہ مرتب یہ سوچتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے اور کیسےایک عقلانی امر ہوسکتا ہے ؟ صدر اسلام کے دور کے لوگو ں کو مصر میں فرعونوں کی لاشوں کو مومیائی کئے جانے کا علم نہیں تھا ۔

گویندہ؛

ڈاکٹر بوکائے پوری رات فرعون کی مومیائی شدہ لاش کے بارے میں سوچتے رہے اور اپنے دوست کی باتوں پر غور وفکر کرتے رہے کہ قرآن کریم نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کی خبر کیسے دی ہے؟حالانکہ ان کی مقدس کتاب انجیل میں فرعون اور اس کے جسم کے صحیح وسالم ہونے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ انھوں نے دل میں کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مومیائی شدہ فرعون وہی ہے جو جناب موسی علیہ السلام کا تعقب کر رہا تھا؟ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہزار برس قبل کے اس واقعہ سے آگاہ تھے؟ ڈاکٹر بوکائے پریشان تھے،انھوں نے توریت وانجیل منگوائی اوران کاپھر سے مطالعہ کیا۔ انھوں نے توریت میں پڑھاکہ فرعون اوراس کا پورالشکر جب حضرت موسی ‏ علیہ السلام کے پیچھے دریائے نیل میں داخل ہوا تو پانی نے پلٹ کر اسے اس کے تمام لشکر والوں کے ساتھ غرق کردیا۔ ڈاکٹر بوکائے حیرت میں پڑ گئے کیونکہ انجیل نے فرعون کی لاش اور اس کے صحیح وسالم باقی رہنے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کا تھا۔حکومت فرانس نے کچھ دنوں کے بعد فرعون کی لاش کو شیشے کے ایک خوبصورت تابوت میں رکھکر مصر واپس بھیجا۔ لیکن موریس بوکائے ذہنی طور پر پریشان تھے لہذاانھوں نے اسلامی ممالک کا سفر کیا تاکہ فرعون کی لاش کے بارے میں قرآن کی باتوں کی تحقیق کر کے اطمینان حاصل کیا جائے۔ انھوں نے سعودی عرب میں طب سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں پوسٹ مارٹم کے ماہر کئی ڈاکٹر موجود تھے ۔ بوکائے نے کانفرنس میں فرعون کی لاش کے غرق ہونے کے بارے میں اپنی تحقیقات بیان کیں۔ایسے میں ایک مسلمان کھڑا ہوا اور اس نے قرآن کریم کو کھولا اور سورہ یونس کی آیت نمبر بانوے کی تلاوت کی جس میں ارشاد ہوتاہے کہ خیرآج ہم تیرے بدن کوبچالیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بن جائے اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔قرآن کریم کی اس صریح آیت نے بوکائے کو بہت زیادہ متائثر کیا اور وہ کانپنے لگے ۔اچانک کھڑے ہوگئے اور سب کے سامنے بلند آواز میں کہا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور قرآن کریم پر ایمان لے آیا ہوں ۔ اس مو‏قع پر قرآن کریم کی حقانیت ایسی نمایاں ہوئی کہ اجلاس میں موجود لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ان کے دل منقلب ہوگئے ۔ اس طرح موریس بوکائے فرانس واپس پلٹ کرآئے حالانکہ وہ فکری لحاظ سے بلکل منقلب ہوچکے تھے ۔ وہ اپنی تحقیقات کے نتائج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے فرعون اور دوسرے افراد کی لاشوں کی طرف جو دریائے نیل کے اس طرف اس وقت کے بادشاہوں کے مقبروں میں موجود تھیں ،اشارہ کیا ہے لیکن لوگوں کو ان کی خبر تک نہیں تھی ۔بعد میں فرعون کی لاش کا انکشاف ہوا اور آج یہ مومیائی شدہ لاش قاہرہ کے عجائب گھر ميں رکھی ہوئی ہے ۔ بوکا‎ئے برسوں جدید علمی انکشافات اور قرآن کریم کی آیات کے بارے میں تحقیق اور آپس میں مطابقت کرتے رہے لیکن انھوں نے حتی ایک مورد بھی علمی حقائق کے خلاف یا متضاد نہیں پایا۔جس کی وجہ سے ان کے ایمان میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا اور وہ قرآن کی طرف سے بلکل مطمئن ہوگئے کہ اس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس فرانسیسی دانشور کی برسوں کی تحقیق کے نتیجہ میں قرآن، توریت ، انحیل اور علم کے نام سے ایک کتاب مرتب ہوئی ، انھوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کے علمی پہلوؤں نے مجھے بہت زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔میں کبھی بھی فکر نہیں کرتا تھا کہ قرآن کریم نے مختلف موضوعات کواتنی باریکی کے ساتھ بیان کیا ہوگا۔ ایسے مطالب جو مکمل طور پر جدید علمی انکشافات کے مطابق ہیں اور وہ بھی چودہ سو سال قبل بیان کئے گئے ہیں ۔بوکائے کی کتاب نے مغربی ممالک کو ہلاکر رکھدیا اور دانشوروں کوحیرت میں ڈال دیا ہے ۔یہ کتاب پہلی اشاعت کے بعد ہی نایاب ہوگئی جس کے بعد اس کے ہزاروں نسخے پھر سے شائع کئے گئے۔اس کتاب کا انگریزی ،عربی، فارسی ،ملایو ،صربیائی ،یوکراینی،ترکی، اردو، اور جرمنی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مغرب کے بعض افراد نے بوکائے کی اس کتاب کو مسترد کرنے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے اس کتاب کے مضمون میں دقت کی اور قرآن کریم کے علمی اعجاز سے آشنا ہوئے تو عظمت قرآن کا اعتراف کرلیااور کلمہ شہادتین اپنی زبانوں پر جاری کیا۔

موریس بوکائے نے کانفرنس میں مصری مومیائی سے متعلق تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں کہا کہ میرے عزیز دانشوروں ، میں فرعون کی لاش کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا،صرف خدائے واحد کے اس کلام کو پڑھ سکتا ہوں کہ جس میں وہ ارشاد فرما رہا ہے کہ کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں کہ اگروہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون کی لاش قدرت الہی کی ایک علامت تھی ۔جس نے اعجاز قرآن کو ثابت کرنےکے علاوہ بوکائے کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی ۔

Read 4284 times