انسان کی ایک اہم ترین اور بااثر دعا، خدا سے اپنی عاقبت بخیر ہونے کی درخواست کرنا ہے ۔ عاقبت کے معنی کام کا انجام اور اختتام ہے ۔ اور عاقبت بخیر ہونے کامطلب، ان تمام سرگرمیوں اور تمام امور کا بخیر انجام پانا ہے کہ جسے وہ انجام دے رہا ہے ۔ عاقبت بخیر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے فیض و رحمت سے متصل ہونا اور قربت الہی کی اس منزل تک رسائی حاصل کرنا ہے جس سے انسان خدا کی خوشنودی حاصل کرسکے ۔
مجموعی طورپر انسانوں کی تقسیم چار حصوں میں ہوتی ہے : پہلا گروپ ان کا ہے جو اپنی عمر کے آغاز سے انجام تک، نیک کام انجام دیتے اور اچھے اخلاق اور صحیح راستے کو اپنی زندگی کا لائحۂ عمل قرار دیتے ہیں ۔ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں اور ان کی واضح مثال انبیاء و ائمہ اور اولیاء الہی ہیں یہ افراد یقینا نیک انجام کے حامل ہیں.
دوسرا گروہ ان افراد کا ہے جو زندگي کے اوائل میں نیک راستے پر چلنے والے ہیں لیکن نفسانی خواہشات پر عدم تسلط اور ناپسندیدہ صفات میں آلودہ ہونے کے سبب ، رفتہ رفتہ انحراف سے دوچار ہوجاتے ہيں اور آخر کار وہ ایمان کے بغیر اور گناہ میں آلودہ ہوکر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ، اس قسم کے افراد بری عاقبت والے کہلاتے ہیں ۔ لیکن ایک اور گروہ ، جو زندگی کے اوائل میں غفلت و نادانی کے سبب گناہ اور معصیت سے دوچار رہتا ہے لیکن وقت گذرنے اور شعور پیدا ہونے کے ساتھ ہی، دھیرے دھیرے صحیح راستہ پالیتا ہے اور آخر کار اپنے نیک اعمال اور توبہ و استغفار کے سبب ، اس دنیا سے مومن اور عاقبت بخیر اٹھتا ہے ۔
قرآن کریم کی متعدد آيات میں لوگوں سے یہ مطالبہ کیا گيا ہے وہ مسلمان مریں اور ان کا انجام بخیر ہوچنانچہ سورۂ آل عمران کی آيت 102 میں مومنین کو اس طرح سے تلقین کی جارہی ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے اس طرح سے ڈرو جو ڈرنے کاحق ہے اورخبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ ۔ اسی طرح جناب ابراہیم اوریعقوب علیھما السلام اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اپنے فرزندوں کو اسی بات کی وصیت کرتے ہیں اور اپنے ہرفرزند سے فرماتے ہيں ، میرے فرزندوں اللہ نے تمہارے لئے دین کو منتخب کردیا ہے لہذا اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک کہ واقعی مسلمان نہ ہوجاؤ۔ نیک انجام اور عاقبت بخیر ہونے کی اہمیت پر متعدد روایات موجود ہیں پیغمبر اکرم (ص) سے اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں اہل بہشت کا کام کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ جہنمیوں میں سےہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں کا کام انجام دیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اہل بہشت ہے" کیوں کہ بعض افراد بظاہر اعمال نیک انجام دیتے ہیں لیکن اپنی عمرکے آخر میں برے انجام اور عاقبت سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ خداوندمتعال سورۂ کہف کی آيات 103 اور 104 ميں ارشاد فرماتا ہے ۔ پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارے ميں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش، زندگانی دنیا میں بہک گئي ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں ۔
البتہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ صرف گنہگاروں کو ہی عاقبت بخیر ہونے کی دعا اور آرزو کرنی چاہئے ۔ شیطان ترجیح دیتا ہےکہ ہم پوری عمر عبادت کریں اور وہ زندگي کے آخر میں دین وایمان کو تباہ کردے اور ہمیں دوزخ میں لے جائے ۔ اس بناء پر مومنین ہمیشہ برے انجام سے خوف کھاتےہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی ، بیٹے ، دوست ، پڑوسی اور گمراہ ساتھی بھی انسان کی نیک عاقبت سلب ہونے کاباعث بن جاتے ہیں ۔ اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) اپنی نمازوں میں اس دعا کی تلاوت فرمایا کرتے تھے " خدایا مجھے ایک لمحہ بھی میرے حال پر مت چھوڑنا " جب ان کی کسی زوجہ نے آنحضرت کے اعلی مقام و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے اس دعا کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا خداوند عالم نے میرے بھائی یونس کو ایک لمحہ ان کے حال پر چھوڑ دیا تو ان کا کیا انجام ہوا ۔
اسی طرح روایت میں ہے کہ پیغمبر اعظم (ص) ماہ رمضان کی آمد پر خطبۂ شعبانیہ پڑھنے کے بعد گریہ کرنا شروع کردیتے ہیں تو اس موقع پر حضرت علی (ع) نے عرض کی اے رسول خدا آپ گریہ کیوں کررہے ہیں ؟ فرمایا اے علی میں جو گریہ کررہا ہوں ، وہ اسی ماہ رمضان میں تمہارے ساتھ پیش آنے والے واقعے پرہے ۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ ميں نماز پڑھ رہے ہو اور اسی حالت نماز میں تمہیں ایک شقی ترین انسان ، تمہارے سر پر ضربت مار رہا ہے جس کے باعث تمہاری داڑھی خون سے خضاب ہوجاتی ہے ۔ حضرت علی (ع) فورا سوال کرتے ہیں اے رسول خدا (ص) کیا یہ شہادت اس حال میں ہوگي کہ میرا دین و ایمان سالم رہے ؟ گا پیغمرنے فرمایا ہاں اےعلی تم ایمان کامل کے ساتھ دنیا سے جاؤگے ۔ اسی بناء پر حضرت علی (ع) کو اپنی شہادت سے کوئی خوف نہيں تھا بلکہ مولا علی کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ دنیا سے مومن اور مسلمان اٹھیں ۔ اس لئے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کامیاب زندگی کاہنر یہ ہے کہ انسان اپنے دین و ایمان کا تحفظ اپنی عمر کے آخری لمحات تک کرے اور مسلمان دنیا سے اٹھے ۔ لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نیک انجام سے آراستہ نہ ہونے کی تشویش دنیا کی برگزیدہ اور انسان ساز شخصیتوں ميں بھی پائی جاتی تھی ۔ وہ ایک لمحہ بھی اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ زیادہ سے زیادہ نیک اور اچھے اعمال بجا لانے کی فکر میں رہتے ہیں ۔
زندگی کے سرانجام سے تشویش کا، انسان پر بہت زیادہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔ درحقیقت پروردگار کی محبت کی چاشنی سے فیضیاب ہونے کا سب سے خوبصورت ، آسان اور تیز رفتار راستہ ، اپنے انجام اور عاقبت سے خوف و تشویش لاحق ہونا ہے ۔ جس بندے کو اپنےانجام کا خوف ہوتا ہے وہ مغرور اور اپنے اعمال کا فریفتہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل کو خدا کی پناہ میں آرام اور قرار ملتا ہے اور خداوندعالم بھی اسے آرام و سکون عطا کرتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ کہ انسان مومن ، پیہم اپنے اعمال و افکار کا محافظ ہوتا ہے تاکہ کہیں خدا کی یاد سے غفلت ، اسے برےانجام ميں مبتلا نہ کردے ۔
اسی طرح اپنے انجام کار سے تشویش ، عجب اور غرور کا قلع قمع کردیتی ہے ۔ عجب، انسان کے اچھےاور نیک اعمال کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے ۔ چنانچہ اسی سلسلے میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں ۔ اگر کوئی گناہ نہ کرو پھر بھی میں تمہارے لئے اس چیزسے ڈرتا ہوں کہ جو معصیت اور گناہ سے بدتر ہے اور وہ عجب اور غرور ہے ۔ ( معراج السعادہ ص 199) آنحضرت (ص) کا یہ بیان اس امر کا آئینہ دار ہے کہ عجب ایسی بدترین صفت ہے جو گناہ انجام دینے سے بدتر ہے ۔ عجب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل صالح کو زیادہ اور عظیم شمارکرے اور اس پرخوشحال بھی ہو ۔ جو شخص عجب اور غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ دوسروں کو حقارت اور جہالت کی نظر سے دیکھتا ہے جب کہ پرہیزگار انسان سب سے ، حتی کہ گناہگاروں کے ساتھ بھی مہربان ہوتا ہے اور انہیں بھی اپنے سے کم نہیں سمجھتا ۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان مومن اپنے انجام کار سے مطمئن نہيں ہے ۔ اپنے انجام سے تشویش لاحق ہونے کا ایک بنیادی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہونے کی تشویش کے سبب امید ہے کہ انسان آخر الزمان کے فتنوں سے محفوظ سے رہے اس لئے کہ آخرالزمان میں سقوط اور تباہی کی دلیل ، دین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے ۔ کیوں کہ آخرالزمان میں کہ جب دین کے حوالے سے خطرات بڑھ گئے ہيں ایسے میں اس بات کا زيادہ امکان ہے کہ انسان اپنے ایمان سے دور ہوجائے اس لئے مومن کو ہمیشہ اور خاص طور پر اس آخری زمانے میں دیگر زمانوں سے زیادہ اپنے عاقبت بخیر ہونے کی فکر لاحق ہونی چاہئے ۔
بندگي کا سلسلہ دائمی اور پائيدار ہے جو ایک دن ، ایک مہینے اور ایک سال ميں ختم نہيں ہوتا ۔ اگر اس درمیان کوئی خطا و لغزش انجام پاجائے تو انسان کے اعمال کو نقصان پہنچتا ہے ۔ شیطان ہر لمحہ کمین میں بیٹھا ہوا ہے تاکہ انسان کے دین کو نابود کردے سورۂ مبارکہ حجر کی آیات 39 اور 40 میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ابلیس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں سازو سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے ، جنہیں تونے خالص بنا لیا ہے ۔ انسان جتنا زیادہ بندگي کے مراحل کو طے کرتا ہے شیطان بھی مضبوط حیلوں اور بہانوں سے داخل ہوتا ہے اور کبھی بھی انسان ، اپنے اس قسم خوردہ دشمن سے مکمل طور پر آرام سے نہیں رہے گا۔ اس بناء پر بندۂ مومن اپنی زندگي کے آخری لمحات تک اپنی عاقبت سے تشویش میں مبتلا رہتا ہے اور ہیمشہ خداوندمتعال سے عاقبت بخیر ہونے کی دعا کرتا ہے ۔ انسان اپنے پروردگار کے سامنے جتنا زیادہ خاضع اور متواضع ہوگا اتنا ہی زیادہ محبوب ہوگا اور یہ تواضع اس کو اخروی سعادت اور انجام بخیر ہونے کی ضمانت فراہم کرنے میں موثر ثابت ہوگا ۔ انسان کو ہمیشہ خداوندعالم کی خوشنودی کے حصول میں کوشاں رہنا چاہئے اور نیکی کے راستے پر گامزن رہنے کے لئے اس سے مدد کا طالب ہونا چاہئے ۔