قرب الٰھی کی اهمیت

Rate this item
(2 votes)

قرب الٰھی کی اهمیت

اھم گفتگو یہ ھے کہ اس کمال نھائی کا مقام و مصداق کیا ھے؟ قرآن کریم اس کمال نھائی کے مصداق کو قرب الھی بیان کرتا ھے جس کے حصول کے لئے جسمانی اور بعض روحی کمالات صرف ایک مقدمہ ھیں اور انسان کی انسانیت اسی کے حصول پرمبنی ھے اور سب سے اعلی،خالص، وسیع اور پایدار لذت،مقام قرب کے پانے سے حاصل ھوتی ھے،قرب خدا کا عروج وہ مقام ھے جس سے انسان کی خدا کی طرف رسائی ھوتی ھے اور رحمت الھیسے فیضیاب ھوتاھے، اس کی آنکھ اور زبان خدا کے حکم سے خدائی افعال انجام دیتی ھیں۔ منجملہ آیات میں سے جو مذکورہ حقیقت پر دلالت کرتی ھیں درجہ ذیل ھیں:

۱۔إِنَّ المُتَّقِینَ فِی جَنّاتٍ وَ نَھَرٍ فِی مَقعَدِ صِدقٍ عِندَ مَلِیکٍ مُقتَدرٍ

بے شک پرھیزگار لوگ باغوں اور نھروں میں پسندیدہ مقام میں ھر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاھوں میں ھوں گے۔

۲،<فَاَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَ اعتَصَمُوا بِہِ فَسَیُدخِلُھُم فِی رَحمَةٍ مِّنہُ وَ فَضلٍ وَ یَھدِیھِم إِلَیہِ صِرَاطاً مُّستَقِیماً>

پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اسی سے متمسک رھے تو خدا بھی انھیں عنقریب ھی اپنی رحمت و فضل کے بیخزاں باغ میں پھونچا دیگا اور انھیں اپنی حضوری کا سیدھا راستہ دکھا دے گا۔

اس حقیقت کو بیان کرنے والی روایات میں سے منجملہ حدیث قدسی ھے:

”ما تقرب إلیّ عبد بشیٍ احبّ إلیّ ممّا إفترضت علیہ و انّہ لیتقرب إلی بالنافلةحتیٰ احبہ فإذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ

الذی یبصر بہ و لسانہ الذی ینطق بہ و یدہ التی یبطش بھا“

کوئی بندہ واجبات سے زیادہ محبوب شی کے ذریعے مجھ سے نزدیک نھیں ھوتا ھے،

بندہ ھمیشہ(درجہ بہ درجہ) مستحب کاموں سے(واجبات کے علاوہ) مجھ سے نزدیک ھوتا ھےحتی کہ میں اس کو دوست رکھتا ھوں اور جب وہ مرا محبوب ھوجاتا ھے تواسکا کان ھوجاتا ھوں جس سے وہ سنتا ھے اور اس کی آنکھ ھوجاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ھے اور اس کی زبان ھوجاتا ھوں جس سے وہ گفتگو کرتا ھے اور اسکا ھاتھ ھوجاتا ھوں جس سے وہ اپنے امور کا دفاع کرتا ھے۔

قربت کی حقیقت

اگر چہ مقام تقرب کی صحیح اور حقیقی تصویر اور اس کی حقیقت کا دریافت کرنا اس مرحلہ تک پھونچنے کے بغیر میسر نھیں ھے لیکن غلط مفاھیم کی نفی سے اس کو چاھے ناقص ھی سھی حاصل کیا جاسکتا ھے،

کسی موجود سے نزدیک ھونا کبھی مکان کے اعتبار سے اور کبھی زمان کے لحاظ سے ھوتاھے، یہ بات واضح ھے کہ قرب الٰھی اس مقولہ سے نھیں ھے اس لئے کہ زمان ومکان مادی مخلوقات سے مخصوص ھیں اور خداوندعالم زمان و مکان سے بالاتر ھے،اسی طرح صرف اعتباری اور فرضی تقرب بھی مد نظر نھیں ھوسکتا اس لئے کہ اس طرح کا قرب بھی اسی جھاں سے مخصوص ھے اور اس کی حقیقت صرف اعتبار کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے اگر چہ اس پر ظاھر ی آثار مترتب ھوتے ھیں، کبھی قرب سے مراد دنیاوی موجودات کی وابستگی ھے منجملہ انسان خداوندعالم سے وابستہ ھے اور اسکی بارگاہ میں تمام موجودات ھمیشہ حاضر ھیں جیسا کہ روایات و آیات میں مذکور ھے:

<وَ نَحنُ اَقرَبُ إِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ>

اور ھم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ھیں۔

قرب کا یہ معنی بھی انسان کے لئے کمال نھائی کے عنوان سے ملحوظ نظر نھیں ھے اس لئے کہ یہ قرب تو تمام انسانون کے لئے ھے،

دوست،نزدیک تراز من بہ من است وین عجیب ترکہ من از وی دورم

”دوست مرے نفس سے زیادہ مجھ سے نزدیک ھے لیکن اس سے زیادہ تعجب کی یہ بات ھے کہ میں اس سے دورھوں“

بلکہ مراد یہ ھے کہ انسان اس شائستہ عمل کے ذریعہ جو اس کے تقویٰ اور ایمان کا نتیجہ ھے اپنے وجود کوایک بلند ی پر پاتاھے اور اسکا حقیقی وجود استحکام کے بعد اور بھی بلند ھوجاتاھے، اس طرح کہ اپنے آپ کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ھے اور اپنے نفسانی مشاھدے اور روحانی جلوے نیز خدا کے ساتھ حقیقی روابط اور خالص وابستگی کی بنا پر الہٰی جلوے کا اپنے علم حضوری کے ذریعہ ادراک کرتا ھے:

< وُجُوہٌ یَومَئِذٍ نَاضِرَةٌ . إلَیٰ رَبِّھَا نَاظِرَةٌ >۔

اس روز بہت سے چھرے حشاش و بشاش اپنے پروردگار کو دیکھ رھے ھوں گے۔

قرب الٰھی کے حصول کا راستہ

گذشتہ مباحث میں بیان کیا جا چکا ھے کہ انسانی تکامل،کرامت اکتسابی اور کمال نھائی کا حصول اختیاری اعمال کے زیر اثر ھے،لیکن یہ بات واضح رھے کہ ھر اختیاری عمل،ھرانداز اورھرطرح کے اصول کی بنیادپر تقرب کا باعث نھیں ھے بلکہ جیسا کہ اشارہ ھواھے کہ اس سلسلہ میں وہ اعمال، کار ساز ھیں جو خدا،معاد اور نبوت پر ایمان رکھنے سے مربوط ھوں اور تقوی کے ساتھ انجام دیئے گئے ھوں۔ عمل کی حیثیت ایمان کی حمایت کے بغیر ایک بے روح جسم کی سی ھے اور جو اعمال تقویٰ کے ساتھ نہ ھوں بارگاہ رب العزت میں قابل قبول نھیں ھیں:<إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ المُتَّقِینَ> (خدا تو بس پرھیزگاروں سے قبول کرتا ھے)لہٰذا کھا جا سکتا ھے کہ خداوندعالم سے تقرب کے عام اسباب وعلل،ایمان اور عمل صالح ھیں،اس لئے کہ جو عمل تقوی کے ھمراہ نہ ھو خداوندعالم کے سامنے پیش ھونے کی صلاحیت نھیں رکھتا اور اسے عمل صالح بھی نھیں کھا جاسکتاھے۔

گذشتہ مطالب کی روشنی میں واضح ھوجاتا ھے کہ جوچیز حقیقت عمل کو ترتیب دیتی ھے وہ در اصل عبادی عمل ھے یعنی فقط خدا کے لئے انجام دینااور ھر عمل کا خدا کے لئے انجام دینا یہ اس کی نیت سے وابستہ ھے ”إنّما الاعمال بالنیات“ آگاہ ھو جاو کہ اعمال کی قیمت اس کی نیت سے وابستہ ھے اور نیت وہ تنھا عمل ھے جو ذاتاً عبادت ھے لیکن تمام اعمال کا خالصةً لوجہ اللہ ھونا، نیت کے خالصةً لوجہ اللہ ھونے کے اوپر ھے، یھی وجہ ھے تنھا وہ عمل جو ذاتاً عبادت ھوسکتا ھے وہ نیت ھے اور تمام اعمال، نیت کے دامن میں عبادت بنتے ھیں اسی بنا پرنیت کے پاک ھوئے بغیر کوئی عمل تقرب کا وسیلہ نھیں ھوسکتا ھے، یھی وجہ ھے کہ تمام با اختیار مخلوقات کی خلقت کا ھدف عبادت بنایا گیا ھے: <وَ مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَ الإنسَ إِلا لِیَعبُدُونَ> (اور میں نے جنوں اور آدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ھے کہ وہمیری عبادت کریں۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ قرآن کی زبان میں مقام قرب الٰھی کو حاصل کرنا ھر کس و ناکس، ھر قوم و ملت کے لئے ممکن نھیں ھے اور صرف اختیاری ھی عمل سے(اعضاو جوارح کے علاوہ)اس تک رسائی ممکن ھے۔

مذکورہ تقریب کے عام عوامل کے مقابلہ میں خداوندعالم سے دوری اور بد بختی سے مراد ؛ خواھش دنیا، شیطان کی پیروی اور خواھش نفس(ھوائے نفس) کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ھے،حضرت موسی(ع)کے دوران بعثت،یھودی عالم” بلعم باعور“ کے بارے میں جو فرعون کا ماننے والا تھا قرآن مجید فرماتا ھے:

<وَاتلُ عَلَیھِم نَبَاَ الَّذِی آتَینَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنھَا فاَتبَعَہُ الشَّیطَانُ فَکَانَ

مِنَ الغَاوِینَ وَ لَوشِئنَا لَرَفَعنَاہُ بِھَا وَ لٰکِنَّہُ اَخلَدَ إِلَیٰ الارضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ>

اور تم ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنادو جسے ھم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑااور آخر کار وہ گمراہ ھوگیا اور اگر ھم چاہتے تو ھم اسے انھی آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ھی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواھش کا تابعدار بن بیٹھا۔

تقرب خدا کے درجات

قرب الھی جو انسان کا کمال نھائی اور مقصود ھے خود اپنے اندر درجات رکھتا ھےحتی انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط رکھتا ھوتو انسان کو ایک حد تک خداسے قریب کردیتا ھے اس لئے انسان اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کے اعتبار سے خداوند قدوس کی بارگاہ میں درجہ یا درجات رکھتا ھے، اور ھر فرد یا گروہ کسی درجہ یا مرتبہ میں ھوتا ھے:<ھُم دَرَجَاتٌ عِندَ اللّٰہِ> (وہ لوگ(صالح افراد)خدا کی بارگاہ میں(صاحب)درجات ھیں۔)اسی طرح پستی اور انحطاط نیز خداوندعالم سے دوری بھی درجات کا باعث ھے اورایک چھوٹا عمل بھی اپنی مقدار کے مطابق انسان کو پستی میں گراسکتا ھے، اسی بنا پر انسان کی زندگی میں ٹھھراو اور توقف کا کوئی مفھوم نھیں ھے،ھر عمل انسان کویا خدا سے قریب کرتا ھے یا دور کرتاھے، ٹھھراو اس وقت متصور ھے جب انسان مکلف نہ ھو، اور خدا کے ارادہ کے مطابق عمل انجام دینے کے لئے جب تک انسان اختیاری تلاش و جستجو میں ھے مکلف ھے چاھے اپنی تکلیف کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے، تکامل یا تنزل سے ھمکنار ھوگا۔

<وَ لِکُلِّ دَرَجَ-اتٌ مِمَّا عَمِلُ-وا وَ مَا رَبُّ-کَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعمَل-ُونَ>

اور جس نے جیسا کیا ھے اسی کے موافق(نیکوکاروں اور صالحین کے گروہ میں سے) ھر ایک کے درجات ھیں اور جو کچھ وہ لوگ کرتے ھیں تمھارا پروردگار اس سے بے خبر نھیں ھے۔

انسان کے اختیاری تکامل وتنزل کاایک وسیع میدان ھے؛ایک طرف تو فرشتوں سے بالا تر وہ مقام جسے قرب الہٰی اورجوار رحمت حق سے تعبیر کیا جاتا ھے اور دوسری طرف وہ مقام جو حیوانات و جمادات سے پست ھے اور ان دونوں کے درمیان دوزخ کے بہت سے طبقات اور بھشت کے بہت سے درجات ھیں کہ جن میں انسان اپنی بلندی و پستی کے مطابق ان درجات وطبقات میں جائے گا۔

ایمان ومقام قرب کا رابطہ

ایمان وہ تنھا شی ھے جو خدا کی طرف صعود کرتی ھے اور اچھا ونیک عمل ایمان کو بلندی عطا کرتا ھے:

<إِلَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُہُ>

اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں پھونچتی ھیں اور اچھے کام کو وہ خوب بلند فرماتا ھے۔

انسان مومن بھی اپنے ایمان ھی کے مطابق خداوندعالم سے قریب ھے،اس لئے جس قدر انسان کا ایمان کامل ھوگااتناھی اس کا تقرب زیادہ ھوگا، اور کامل ایمان والے کی حقیقی توحیدیہ ھے کہ قرب الہٰی کے سب سے آخری مرتبہ پر فائز ھواور اس سے نیچا مرتبہ شرک و نفاق سے ملاھوا ھے جو تقرب کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ھے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ھے شرک اور نفاق جلی کا ھے اور کھا جا چکا ھے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ھیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”نیّة الشرک فی امتی اخفی من دبیب النملة السوداءِ علیٰ صخرة الصّافی اللیلة الظلماء“

میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ھے۔

Read 4530 times