رہبر معظم انقلاب اسلامی، حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۱۴ جنوری ۱۹۸۴ کو عشرہ فجر کے ایام میں ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دنوں کی یادوں کا تازہ کرتے ہوئے کہا:
میں ایک دلچسپ بات بتاوں آپ کو سن کر تعجب ہو گا:
۲۲ بھمن (انقلاب اسلامی کی کامیابی کا دن) کے کچھ دن گذرنے کے بعد میں اس فکر میں تھا کہ کیا میں سو رہا ہوں یا جاگ رہا ہوں۔ و میں کوشش کر رہا تھا کہ اگر سو رہا ہوں تو اٹھ جاوں۔ ایک ایسی خوشگوار خواب کی طرح جسے انسان چاہتا ہے کہ دیکھتا رہے اگر جگ گیا تو وہ منظر نہیں دیکھ پائے گا۔ اتنا یہ مسئلہ حیرت انگیز تھا۔
سجدہ شکر۔۔۔
اس وقت جب ریڈیو نے سب سے پہلی مرتبہ کہا: ’’انقلاب اسلامی کی آواز‘‘ میں گاڑی میں تھا کارخانہ سےرہائشگاہ امام کی طرف جا رہا تھا، ایک کار خانہ تھا جس میں کچھ فتنہ پرور افراد جمع تھے اور ایک ہنگامہ وہاں کھڑا کر رکھا تھا انقلاب کے شروع کے دن تھے شاید سترہواں اٹھارہوں دن تھا، مشکلات اپنی اوج پر تھیں۔ ابھی کوئی بھی کام انجام نہیں پایا تھا۔ کچھ بلیکمیل کرنے والے لوگ وہاں کارخانہ میں جمع تھے اور کچھ ھنگامہ کھڑا کرنے جا رہے تھے، ہم وہاں گئے تاکہ انہیں سمجھا بجھا کر ادھر ادھر کریں۔ تو واپسی پر میں گاڑی میں تھا ڈرائور نے ریڈیو چلایا تو ایک مرتبہ ’’ انقلاب اسلامی کی آواز‘‘ ریڈیو سے نشر ہوئی۔ میں نے فورا گاڑی کو رکوایا اور نیچے اتر کر سجدہ شکر بجا لایا۔ یعنی اس قدر ہمارے لیے ناقابل تصور تھا یہ مسئلہ۔ نا قابل یقین تھا۔ اس وقت کا ہر لمحہ ایک یادگار ہے۔ مثلا اگر میں چاہوں انقلاب کے پہلے بیس دنوں کی یادوں کو بیان کروں تو میں بیان نہیں کر پاوں گا، اس احساس کو بیان نہیں کر سکوں گا جو احساس ان دنوں میں ہمارے وجود میں پایا جاتا تھا۔
امام کا ایران میں داخل ہونا
جس دن امام کو آنا تھا ہم یونیورسٹی میں بند تھے ہم وہاں سے نکلے اور راستے میں گاڑی میں لوگ خوش ہو رہے تھے ہنس رہے تھے لیکن میں امام کی وجہ سے نگران تھا کہ کبھی کوئی برا حادثہ نہ ان کے ساتھ پیش نہ آ جائے اس لیے کہ کچھ افرد نے دھمکیاں دی تھیں اس وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
ہم ایئرپورٹ میں داخل ہوئے امام اس عظیم استقبال کے ساتھ ایران میں داخل ہوئے جب امام کو میں نے آرام و سکون کے ساتھ آتے ہوئے دیکھ لیا تو میں بھی مطمئن ہو گیا۔ میرا اضطراب ختم ہو گیا۔ اور شاید بہت سارے دوسرے لوگ بھی جو مضطرب تھے مطمئن ہو گئے ہوں گے۔
کئی سال بعد بھی جب میں امام کی زیارت کرتا تھا تو وہ لمحات میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جاتے تھے۔
اس کے بعد جب ایئرپورٹ سے شہر میں داخل ہوئے تو وہ کیسا منظر تھا جو سب کو یاد ہو گا کوئی بھی اسے بھول نہیں سکتا ہے اس کے بعد بھشت زہرا میں گئے اور امام کی تقریر کے بعد آقائے ناطق نوری انہیں آرام کرنے کے لیے ایک نامعلوم جگہ لے گئے چونکہ امام پچھلی رات سے مسلسل جاگ رہے تھے بالکل آرام نہیں کیا تھا۔
امام مدرسہ رفاہ میں
ہم مدرسہ رفاہ میں کچھ انتظامات کرنے کے لیے پہلے سے گئے ہوئے تھے امام کے آنے سے پہلے ہم وہاں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور امام کے قیام و ان کے آنے کے بعد کے بارے میں پروگرام ترتیب دے رہے تھے ان دنوں میں ایک عجیب احساس تھا۔
ان دنوں میں ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں بعض خبریں چھاپتے تھے اسی مدرسہ رفاہ سے سے یہ رسالہ نکلتا تھا۔ میں واپس آیا کہ دیکھوں کیا خبر ہے حالات کی عکاسی کروں اور اس رسالہ میں خبر دوں۔ امام آرام کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ رات کے تقریبا دس بج رہے تھے میں خبریں ترتیب دینے میں مشغول تھا اتنے میں دیکھا کہ اسی مدرسہ رفاہ کے سامنے گلی کے سرے سے ہا ہو کی آوازیں آ رہی تھیں میں نے سوچا خدا نہ کرے کوئی حادثہ ہو گیا ہو میں اور ایک اور صاحب اٹھ کر کھڑکی سے دیکھنے لگے اتنے میں دیکھا کہ امام اکیلے مدرسہ میں داخل ہوئے کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ صرف چند سپاہی جو وہاں باہر تھے انہوں نے جونہی امام کو دیکھا تو وہ بھی مبہوت ہو گئے کہ کیا کریں صرف امام کو اطراف سے گیر لیا۔ امام پورے دن کی تمام تھکاوٹ کے باوجود ان سے کھڑے ہو کر باتیں کر رہے تھے انہوں نے امام کے ہاتھ چومے۔ شاید وہ دس پندرہ افراد تھے سارے، امام اسی طرح مدرسہ میں داخل ہوئے اور پہلے طبقہ کے زینہ پر پہنچے زینہ چڑھنے کے بعد پہلا وہی کمرہ تھا جہاں میں کام کر رہا تھا میں کمرہ سےنکل کر ہال میں آیا جہاں چند مدرسہ کے لڑکے تھے اور امام انہیں دیکھ کر ان کی طرف چلے گئے سب نے امام کے ہاتھ چومنا شروع کر دئے۔
میں بھی نزدیک ہو کر ہاتھ چومنا چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر کہ مزید امام کے لیے مزاحمت ہوجائے گی نزدیک نہیں گیا۔ میں کنارہ پر کھڑا ہو گیا اور امام میرے سامنے سے گذر گئے۔
میں نزدیک نہیں گیا چونکہ دیکھا کہ امام کو پہلے سے لڑکوں نے گیرے میں لے رکھا ہے اور اسی آرزو اور احساس کو میں ایئرپورٹ پر بھی رکھتا تھا لیکن وہاں بھی نزدیک نہیں جا پایا۔ اپنے آپ کو روک لیا کہ امام کے لیے مزید مزاحمت ایجاد نہ کروں دوسروں کو بھی نزدیک جانےسے روک رہا تھا۔
امام زینہ چڑھ کر اوپر جانا چاہتے تھے لیکن یکدم وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور تیس چالیس لوگ جو اطراف میں تھے سب بیٹھ گئے ایک طالبعلم نے نامنظم طریقہ سے خیر مقدم پیش کیا چونکہ امام بغیر کسی پروگرام کے اچانک مدرسہ میں داخل ہو گئے تھے کسی کو یہ تصور بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد کچھ منٹ امام نے گفتگو کی اس کے بعد اوپر جا کر ایک کمرہ میں آرام کرنے لگے۔