قرآن میں انسان کی تشبیہ حیوان سے

Rate this item
(4 votes)

قرآن میں انسان کی تشبیہ حیوان سے

پروردگار متعال نے انسانوں کی خلقت کچھ اس طرح سے کی ہے کہ وہ فطرتا اور اپنے باطن میں حقیقت کی شناخت کا طالب ہے ۔ اور پیہم اپنی اس گمشدہ شے کی تلاش میں رہتا اور اس سلسلے میں مختلف سوالات اور موضوعات اس کے ذہن میں وجود میں آتے ہیں ۔ اسی بناء پر انسان نے علوم ومعارف میں اب تک نمایا ں پیشرفت کی ہے اور انسان مختلف علوم و فلسفے اور خاص علوم میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ہی علم کی ایجاد کر رہا ہے ۔ اور اس طرح سے جدید انکشافات اور ایجادات انسان کی زندگي کا خاصہ بن گئے ہیں ۔ حقیقت پسندی، ایک فطری اور باطنی رجحان اور میلان ہے جو ہر انسان کے باطن میں موجود ہے جسے کبھی تجسس کی فطرت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس رجحان کو ہم جو بھی نام دیں حقیقت میں انسان کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے جو انسان کی سرشت اور اسکے وجود کی گہرائی میں موجود ہے ۔ انسانیت اور کمال انسانی کا یہ تقاضا ہے کہ حقائق کی جستجو اور ان کا ادراک کرے اور اگر اس کام ميں وہ کوتاہی کرے گا تو در حقیقت اس نے اپنی انسانیت کو نقصان پہنچایاہے اور اس طرح سے وہ حیوانیت کی حد بلکہ اس سے بھی زیادہ گرجائے گا ۔ خداوند عالم سورۂ فرقان کی آيت 44 میں اس سلسلے میں ایک مثال پیش کرتاہے اور ارشاد فرماتا ہے کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گم کردۂ راہ ہیں ۔ یہ مثال ان کفار و مشرکین کے بارے میں ہے جو پیغمبر اسلام (ص) سے دشمتی برتتے تھے اور اپنے باطل عقیدوں پر اس طرح سے اصرار کرتے اور اس پر ڈٹے رہتے ، اور اپنی خواہشات نفسانی کے تابع تھے کہ ان سے قوت ادراک سلب ہوگئی تھی ۔ اسی بناء پر خداوند عالم نے ان کی تشبیہ جانوروں بلکہ جانوروں سےبھی بدتر شی سے دی ہے ۔

اس آيت سے ما قبل کی آيات ، پیغمبر اسلام (ص ) پر کفار کے بیہودہ اور نازیبا الزامات اور تنقیدوں سے متعلق ہیں درحقیقت ان آیات میں خداوندعالم کی جانب سے انسان کو جانوروں سے تشبیہ دیئے جانے کی وجہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ گذشتہ پیغمبروں اور رسولوں کے مقابلے میں مستکبروں اور خواہشات نفسانی کے پیروکاروں کا رد عمل، ان پیغمبروں کا تمسخر اور مذاق اڑانا تھا اور یہ مسئلہ مختلف مواقع پر اور مختلف پیغمروں کے ساتھ پیش آيا ، مثلا فرعون کہ جو خدائی کا دعویدار تھا حضرت موسی (ع) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتاہے " جو پیغمبر تمہاری جانب بھیجا گیا ہے وہ مسلم طور پر دیوانہ ہے " ۔ دوسری جانب حضرت محمد (ص) کے خلاف کفار کا تمسخر اور مذاق اڑانے کا انداز یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر اسلام ، وہی پیغمبر ہے کہ جسے خداوند عالم نے پیغمبر کے طور پر انتخاب کیا ہے ؟ اور کہتے تھے کہ وہ اگر خدا کا رسول ہے تو کیوں وہ دیگر انسانوں کی مانند کھانا کھاتا ، راستہ چلتا ، باتیں کرتا اور لباس پہنتا ہے اور مختصر یہ کہ ديگر انسانوں اوراس میں کوئی فرق نہيں ہے جبکہ ان کی نظر میں خدا کے رسول کو فرشتوں میں سے ہونا چاہئے تھا ۔ اس قول کا باطل ہونا واضح ہے کیوں کہ رسول خدا کو چاہئے کہ اسی قوم اور افراد میں سے ہو کہ جن کے درمیان اسے تبلیغ کے لئے بھیجا گيا ہے تاکہ وہ ان کے درد و رنج کو سمجھ سکے اور ان کی مشکلات کا مناسب حل نکال سکے جبکہ اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو انسانوں کی مشکلات اور تکالیف کو درک اور محسوس نہیں کرسکتے تھے ۔اور پھر اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو کوئی بھی انسان ان کی بات پر توجہ نہیں دیتا اور اس وقت وہ یہ اعتراض کرتا کہ یہ فرشتہ جو اس طرح کی باتیں کررہا ہے تو یہ باتیں تو اسی جیسے فرشتوں کے لئے اچھی ہیں کہ جو شہوت نہیں رکھتے اور عصمت کے حامل ہیں ۔ لیکن ہم کہ جو معصوم نہیں ہیں اور شہوت و خواہشات نفسانی میں مبتلا ہیں ، ہم تو ان کی طرح عمل نہیں کرسکتے لیکن اگر اللہ کا رسول ، انسانوں ميں سے ہی ہوگا تو ان کا یہ بہانہ ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح سے خداوند عالم نے کفارکی بہانے بازیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر کفار کی صفات کی بنیاد پر ان کو جانوروں اور چوپایوں سے تشبیہ دی ہے ۔

درحقیقت انسان کی نفسانی خواہشات نے کفار کے دلوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے ۔ اس طرح سے کہ وہ حقائق کو درک کرنے سے عاجز ہے ۔ بت پرستی ، نفس پرستی ، دولت پرستی ، مقام پرستی اور اسی جیسی چیزیں ، ایسے حجاب کا باعث بنتی ہیں جو کفار کے ادراک میں مانع بنتی ہیں اور یہ وہ موانع اور رکاوٹیں ہیں جو عذاب الہی کے ذریعے ہی برطرف ہوتی ہیں ۔ بہر صورت ، جب خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت غرور و جہل کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور اس وقت کفار یہ سمجھتے ہیں کہ کتنی گہری گمراہی میں وہ گرفتار تھے ۔

خداوند عالم اس آيت میں مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے حق کی آواز اور خداوند عالم کی نشانیوں سے پوری دنیا لبریز ہے اور ہر سمت اس کی نشانیاں ہيں لیکن حق کی آواز سننے کے لئے ، سنائی دینے والے کانوں اور حق کے آثار کا مشاہدہ کرنے کے لئے ، دیکھنے والی آنکھوں اور عقل کی ضرورت ہے جس سے کفار محروم ہیں ۔چنانچہ اگر سورج کی روشنی پوری دنیا پر چھاجائے پھر بھی نابینا انسان کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر ایک بہرہ انسان جو سمندر کے ساحل کے کنارے پر کھڑا ہو اور اس کی تلاطم خیز موجوں کو دیکھ بھی رہا ہو ، پھر بھی وہ ان موجوں کی لہروں کی آواز نہیں سن سکتا ۔ کفار بھی ایسے ہی ہیں ، نہ وہ حق کو دیکھتے ہيں نہ ہی حق کی آواز سن سکتے ہیں بلکہ وہ جانوروں کی مانند ہیں اور اس سے بھی پست تر ہیں ۔ اس بناء پر مشرکین حق کی آواز سننے سے عاجز اور ان کے ادراک سے ناتواں ہيں جس طرح سے کہ جانور یہ صفات نہيں رکھتے ۔

انسان اور جانور کے درمیان اصلی فرق ، مطالب اور مضامین کا درک کرنا ہے ۔ حیوان میں کسی مسئلے کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے کیوں کہ ان میں عقل و فہم نہیں ہوتی اور ان کے سارے کام ، غریزے اور ان کے شعور کے تحت ہیں ۔ اس بناء پر کفار کی تشبیہ جانوروں اور چوپایوں سے دینے کا سب یہ ہے کہ کفار، کائنات کو وجود میں لانے خدا کے بارے میں ادراک اور شعور کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے وہ نور حقیقت کی تجلی کو نہيں دیکھ سکتے ۔ دوسری جانب حیوان میں ذمہ داری کا احساس نہيں ہوتا ہے ۔ حیوان اپنے مالک کے کھیت اور دوسرے کے کھیت میں تشخیص نہیں دے سکتا وہ حلال وحرام کو نہیں سمجھ سکتا اور ان مسائل کے مقابلے میں خود کو ذمہ دار نہيں سمجھتا ۔ اس بناء پر عدم ذمہ داری کا احساس ، اس کے عدم ادراک کی علامت ہے ۔ کفار بھی حیوانوں کی مانند کسی ذمہ داری کا احساس نہيں کرتے ۔ دوسری جانب حیوانات ، منطق کے تابع نہیں ہیں اور استدلال کو نہيں سجھ سکتے اسی طرح کفار بھی ، مختلف مسائل کے بارے میں قرآن کے سادہ بیان اور قوی و مستحکم دلائل کے باوجود مختلف امور خاص طور پر توحید ، نبوت اور قیامت کو درک کرنے سے عاجز ہیں اور صرف اپنی ہی بات پر اڑے رہتے ہيں اور اسی کی تکرار کرتے ہيں ۔ اسی طرح حیوانات ، مستقبل پر نظر نہیں رکھتے اور وہ کبھی اپنے نفع اور نقصان کو نہيں پہچانتے اسی بناء پر کبھی وہ خطرناک راستوں پر نکل جاتے ہیں اور غیر منطقی اور غیر عاقلانہ کام انجام دیتے ہیں کیوں کہ وہ محاسبہ نہیں کرسکتے ۔ کفار و مشرکین بھی اسی طرح سے ہیں اور وہ اپنی راہ سعادت کو حاصل نہیں کرپاتے ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بتوں کی عبادت ، اور نفسانی خواہشات کی پیروی ان کے فائدے میں نہیں ہے اور عزت و سعادت اور فلاح و نجات توحید کے سائے ميں ہے ۔ مشرکین ان باتوں کو نہیں سمجھتے اسی لحاظ سے مشرکوں اور حیوانوں میں تشبیہ دی گئی ہے ۔

اگر چوپائے کچھ نہيں سمجھتے اور حقائق کے مقابلے میں سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں یا بالفاظ دیگر بصیرت و بصارت سے عاری ہیں تو اس کی دلیل ، عدم استعداد ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ وہ انسان ، بیچارہ ہے کہ جس میں سعادت و کامیابی تک رسائی کا مادّہ پوشیدہ ہے اور خدا نے اس قدر اسے استعداد عطا کی ہے کہ وہ روی زمین پر خدا کاخلیفہ اور نمائندہ قرار پاسکتا ہے ۔ لیکن اس کا کام اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ حیوانیت کی حد سے بھی گذر جاتا ہے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور استعداد کو تباہ کردیتا ہے ۔ البتہ ظاہر ہے کہ قرآن کافروں کے عدم ادراک اور حیوانوں سےان کا موازنہ کرتے ہوئے جو کچھ فرمارہا ہے وہ دنیوی مسائل کے بارے ميں نہيں ہے ۔ لوگ چاہے بی دین ہوں یا دیندار ، دنیوی امور کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے ميں سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جو بعض دانشور اور مفکرین خداوند عالم پر اعتقاد نہيں رکھتے اور وہ سائنس و ٹکنالوجی میں سب سے پیش قدم بھی رہے ہیں پھر بھی ان کی یہ فکر اور ان کا علم ، محض ان کی دنیاوی زندگي کے بہتر گذارنے کے لئے تھا۔ اور ایسے افراد اخروی زندگي کو درک کرنے اور خدا کی نشانیوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر اور عاجز رہے ہیں اور انہوں نے اپنی آخرت کے بدلے ، عذاب آور زندگي خریدلی ہے ۔

یہ عرائص جو پیش کی گئيں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انسان اگر اپنے حقیقی مقام ومنزلت تک رسائی کا خواہاں ہے اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرناچاہتا ہے اور حقیقی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہےتو اسے چاہئے کہ پروردگار کی اطاعت اور اس پرایمان کی سمت قدم بڑھائے اور حضرت امام علی (‏ع) کے فرمان کے مطابق " اگر عزت اور شان وشوکت کے طلبگار ہوتو گناہ کی تاریکی سے نکل کر خدا کی عزت آفریں اطاعت کی سمت قدم اٹھاؤ "۔

Read 4597 times