امام خمینی 20 جمادی الثانی ۱۳۲0ہجری قمری مطابق30 شہریور۱۲۸۱ہجری شمسی مصادف۲۴ستمبر۱۹۰۲عیسوی کو ایران کے شہر خمین میں جگر گوشہ رسول حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب و طاہر نسل کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انھیں شہید کردیا ۔
اس طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کمسنی کے عالم سے ہی رنج یتیمی سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت میں گزارا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پھوپھی محترمہ صاحبہ خانم کے دامن میں پرورش پائی جوایک دلیراور باتقوی خاتون تھیں لیکن ابھی آپ پندرہ سال کے ہی تھے کہ آپ ان دونوں شفیق اور مہربان ہستیوں کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔
جب 1340 ہجری قمری میں آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی تو اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے ۔
اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہی شروع کردی اور اس جدوجہد کو آپ کی علمی اور معنوی ترقی کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ایران کے سماجی اور اسلامی دنیا کے سیاسی حالات نے اس جذبہ کو اوربھی پروان چڑھایا۔ 3 اسفند1299 ہجری شمسی کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد و ثبوت اور تاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اور جس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کا خاتمہ کردیا اور کسی حد تک زمینداروں کی طوائف الملکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیر سایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگئےاور پہلوی خاندان کی آل اولاد زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لے بیٹھے۔
شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑا دی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب ولہجہ بہت ہی تند اور انتباہی تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئیین کی پیروی کرواور قرآن، علماء قوم اور مسلمان زعماء کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئیین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب مملکت کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علماء اسلام تمالرے بارے میں اپنے نظریہ بیان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہا گیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔
شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علماء کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہو رہا تھا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے ۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے 12 اردیبہشت1342 شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علماء اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی۔
1342 ہجری قمری کا محرم جو خرداد کے مہینے کے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوامی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں انتہائی تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک دن اگر لوگ چاہیں کہ تو چلا جا تو سب لوگ تیرے جانے پر شکرادا کریں ... اگر تجھے ڈکٹیٹ کرکے پڑھنےکو کہا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغورکر... سن لے میری نصیحت ... شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک (شاہ کی خفیہ پولیس) کہتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت بولو... کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟
شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔ سب سے پہلے 14 خرداد (۳جون) کی شام کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور پھر15 خرداد (4 جون) کی صبح ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا گیا ۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد آپ کو فوجی افسروں کی جیل میں بند کردیتے ہیں تاہم اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ 15 خرداد (4 جون) کی صبح ہی تہران سمیت مشہد، شیراز اور دیگر شہروں میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیدا ہوگئی ۔
18 فروردین 1343 کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو آزاد کردیا گیا اور قم میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا ۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور مدرسہ فیضہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایا گیا ۔
13 مہر 1343 کو امام خمینی (رح) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرماتے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جلد وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔
نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ 2 مہر 1357 ہجری شمسی کو بعثی حکومت کے کارندوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا ۔ 12 مہر کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہ ہوئے۔ کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ رح کی ہجرت کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور 14 مہر کو آپ پیرس پہنچ گئے۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان تقدیر ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بالآخر امام خمینی (رح)12 بہمن1357ہجری شمسی مطابق یکم فروری1979 کو14 چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔
13 خرداد 1368ہجری شمسی مطابق 3 جون1989 کی رات 10 بجکر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا۔ اس دل نے دھڑکنا بند کر دیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا ۔