دسویں امام معصوم حضرت امام علی النقی الہادی علیہ السلام سنہ 212 ہجری ـ اور دوسری روایت کے مطابق سنہ 214 ہجری کو مدینہ کے اطراف کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔
امام(ع) سنہ 220 ہجری میں امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی شہادت کے بعد، 6 یا 8 سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ تقریبا 21 سال تک مدینہ میں رہے اور پھر حرم نبوی کے امام جماعت "بریحہ عباسی" کی [چغل خوری اور] متوکل عباسی کی نام مسلسل خط و کتابت کے نتیجے میں، عباسی بادشاہ کے حکم پر آپ کو سامرا منتقل کیا گیا۔ بریحہ نے اسے لکھا تھا کہ "اگر حرم کو چاہتے ہو تو علی بن محمد کو یہاں سے نکالو، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور ایک بڑی تعداد ان کی پیروی کررہی ہے"۔ بریحہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ امام(ع) مدینہ میں اپنے وکلاء کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔
امام علی بن محمد الہادی النقی علیہ السلام تقریبا 21 سال تک عباسیوں کی کڑی نگرانی میں سامرا میں مقیم رہے، حتی کہ ایک قول کے مطابق تین رجب المرجب سنہ 254 ہجری کو 42 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے۔
جنیدی کا اعتراف
یہ درست ہے کہ امام ہادی علیہ السلام 6 یا 8 سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے لیکن چونکہ آپ سے قبل امام جواد علیہ السلام بھی اسی عمر میں اس منصب پر فائز ہوئے تھے، چنانچہ آپ کی امامت پر اس حوالے سے کوئی پیچیدگی سامنے نہیں آئی۔
امام جواد علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے شیعہ بزرگوں کو تزلزل و تذبذب کا سامنا کرنا پڑا اور وہ آہستہ آہستہ امام کے علم و دانش اور عصمت کا یقین کرلیا، صغیرُالسِّن امام نے لوگوں کے علمی اور شرعی مسائل حل کئے، تو وہ آپ کی امامت کے سلسلے میں مرحلۂ یقین و ایمان تک پہنچے اور یہ مسئلہ اسی وقت شیعیان اہل بیت(ع) کے لئے حل ہوگیا؛ چنانچہ امام ہادی علیہ السلام کی امامت ان کے لئے پہلے سے حل ہوچکا تھا اور تسلیم شدہ تھا، اور سابقہ مسائل دوبارہ سامنے نہیں آئے۔
بہرصورت عباسی بادشاہی نظام نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے ایک استاد مقرر کیا جن کا نام الجنیدی تھا۔ وہ اہل سنت کے نامی گرامی عالم تھے۔ شاہی خاندان نے جب دیکھا کہ امام جواد علیہ السلام شہید ہوچکے ہیں اور امام ہادی کم سن ہیں، تو اس نے منصوبہ بنایا کہ امام ہادی کو اپنی مرضی کی تعلیم دلوا دے؛ لیکن یہی جنیدی صاحب کچھ عرصہ بعد اس قدر کم سن امام (ع) کے علم میں محو ہوئے، اور اس قدر متاثر ہوئے کہ مذہب تشیّع اختیار کرگئے اور کہا: "امام (ع) ایسے علوم و معارف کے حامل ہیں کہ مجھ پر واجب ہے کہ ان کی شاگردی اختیار کروں"۔
ہم عصر عباسی بادشاہ
امام ہادی علیہ السلام متوکل، معتصم اور واثق عباسی کے ہم عصر تھے۔ مؤخر الذکر دو خلیفہ فکری لحاظ سے مامون کی طرح معتزلی مسلک تھے۔ چنانچہ امام جواد علیہ السلام کے دور کی نسبت آنجناب پر سرکاری دباؤ کچھ کم تھا۔ چنانچہ امام ہادی علیہ السلام نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور اپنے مکتب حقۂ اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کے سلسلے میں آباء و اجداد علیہم السلام کی قابل قدر اور ظرافتوں پر استوار فعالیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان فعالیتوں کو جاری رکھتے ہوئے نتیجے تک پہنچایا۔
کڑی سرکاری نگرانی
جس وقت امام ہادی علیہ السلام مدینہ منورہ میں تھے، تو آپ نے عالم اسلام کے گوشوں گوشوں میں اپنے نمائندے روانہ کئے اور اپنے آباء و اجدا کی کوششوں کو بارآور کیا اور ان کے بوئے ہوئے بیج کو پرثمر درخت میں تبدیل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب تشیع امام ہادی علیہ السلام کے دور میں اس قدر وسعت پا گیا کہ آپ کو ـ شرعی مسائل کا جواب دینے اور کلامی و اعتقادی مسائل حل کرنے کے لئے ـ ان کے درمیان اپنے نمائندے مقرر کرنا پڑے۔ یہ نمائندے ان مسائل کو بھی حل کرتے تھے، امام(ع) کی ہدایات کو بھی لوگوں تک پہنچا دیتے تھے اور ان سے شرعی وجوہات (خمس وغیرہ) بھی جمع کرکے امام (ع) کے لئے روانہ کرتے تھے۔
"علی بن جعفر، حسن (ابراہیم) بن عبده، علی بن بلال اور ابوعلی بن راشد" امام(ع) کے وکلاء میں شامل تھے۔ علی بن جعفر ـ امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند تھے جنہوں نے طویل عمر پائی تھی اور یہی وہی شخصیت ہیں جنہیں عباسی خلیفہ متوکل نے کئی سالوں تک قید رکھا۔ اور جب رہا ہوئے تو امام ہادی علیہ السلام کی ہدایت پر حرم مکہ میں رہائش پذیر ہوئے۔
امام (ع) وکلاء کے ساتھ مکاتبہ کرتے تھے اور ان خطوط کی ترسیل اور تبادلے کے لئے تمام حفاظتی تدابیر کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور امام(ع) اور وکلاء کے قاصدین نہایت امین افراد میں سے چنے جاتے تھے۔ امام (ع) کے خطوط عام طور پر آپ کی ہدایات اور نمائندوں کے لئے عام راہنمائیوں پر مشتمل ہوتے تھے۔
ان وکلاء میں بعض علماء اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب اور شاگرد تھے۔ ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو امام(ع) کے نائبین کے طور پر آپ کی طرف سے شرعی مسائل کا جواب دیتے تھے۔ ان میں سے بعض اس قدر عظيم تھے کہ امام(ع) دوسرے نمائندوں سے فرماتے تھے کہ "ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے"۔ یہ درحقیقت امام(ع) کے ساتھ شیعیان اہل بیت(ع) کے اتصال کا ذریعہ تھے۔ یہ وکلاء ان پیروان اہل بیت(ع) کو مطمئن کرنے کے سلسلے میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے جو امام کی کمسنی کی وجہ سے آپ کی امامت کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہوئے تھے۔
بالآخر امام علیہ السلام کے منظم رابطے حکومت وقت کے جاسوسوں کی نظروں سے اوجھل نہ رہے، چنانچہ آپ کو مدینہ سے جلاوطن کرکے سامراء پہنچایا گیا۔ ویسے بھی، متوکل عباسی جب تخت سلطنت پر بیٹھا تو اس نے اپنے بھائی الواثق باللہ کی نسبت زیادہ سختگیری سے انتظام حکومت چلانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ امام کے بعض وکلاء کا سراغ لگایا گیا اور انہیں مختلف شہروں سے گرفتار کیا گیا اور بعض کو طویل المدت قید کاٹنا پڑی۔ امام ہادی علیہ السلام ہر وکیل کی گرفتاری کے فورا بعد نیا وکیل مقرر فرماتے تھے تا کہ امت اور امام کا رابطہ برقرار رہے۔ اس وقت سامرا میں امام(ع) کی کڑی نگرانی ہورہی تھی۔ چنانچہ وکلاء نے بھی اپنی روش بدل دی اور بعض وکلاء تاجروں، پھیری والوں اور چل پھر کر مال و اسباب بیچنے والوں کے بھیس میں امام(ع) سے رابطہ کرتے تھے، اور ہدایات بالمشافہ حاصل کرکے اپنے علاقوں کے عوام تک پہنچا دیتے تھے۔
امام (ع) کے ان رابطوں کی بھی نگرانی ہورہی تھی۔ سرکاری جاسوسوں کو ان رابطوں کے حوالے سے شبہہ ہؤا تھا، اور انھوں نے کئی بار بادشاہ یا خلیفہ کے کان پر کرکے اس کو امام کی نسبت بدظن کردیا تھا۔ کہتے تھے کہ امام(ع) کے رابطے مشکوک ہیں؛ کافی اموال و اسباب آپ کو پہنچائے جاتے ہیں اور مختلف شہروں کے عوام کی ہدایت و راہنمائی میں مصروف ہیں۔ جاسوس اور بدخواہ افراد کہتے تھے کہ امام(ع) محض شرعی احکام ہی بیان نہیں کرتے بلکہ سیاسی حوالے سے بھی مصروف عمل ہیں اور حکمران نظام کے خلاف ایک منظم اور مربوط سیاسی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔
بادشاہ نے ایں و آں کی پہنچائی گئی خبروں اور چغلیوں کے زیر اثر کئی مرتبہ پیشگی اطلاع کے بغیر آپ کے گھر پر ہلہ بولنے کی ہدایات دیں تا کہ کچھ ہتھیار یا مال و اموال برآمد ہو اور آپ پر الزام دھرا جاسکے لیکن یہ چھاپے امام(ع) کی کیاست کے بموجب، سارے کے سارے ناکام اور سرکاری گماشتے نامراد ہوئے۔
بہر امر مسلّم یہ ہے کہ امام(ع) کو سامرا میں شدید مشکلات کا سامنا تھا، عباسی دربار کی طرف سے شدید نگرانی ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود آپ معاشرے کی ہدایت سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہوئے۔
بنیادی سوال: امام ہادی علیہ السلام کے بارے میں ہماری معلومات اتنی کم کیوں ہیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری علیہم السلام کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ جس کے اسباب و عوامل مختلف ہیں۔ ہم آج ان بزرگواروں کے بارے میں معلومات کی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ اور ان مظلوم ائمہ ـ بالخصوص امام ہادی علیہ السلام ـ کے بارے میں تاریخی تذکروں کی قلت کے اسباب حسب ذیل ہیں:
1۔ ان بزرگواروں کی عمر دوسرے ائمہ کی نسبت بہت کم تھی اور یہی مسئلہ ان کی نسبت ہماری معلومات کی قلت کا سبب بنا ہے۔ یہ مسئلہ امام جواد اور امام عسکری علیہما السلام کے سلسلے میں بھی درپیش ہے۔ امام جواد علیہ السلام 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے اور امام عسکری علیہ السلام 28 سال کی عمر میں۔
2۔ یہ ائمہ علیہم السلام محصور تھے، ان کی کڑی نگرانی ہوتی تھی اور عوام کے ساتھ معمول کے مطابق رابطہ نہیں کرسکتے تھے؛ چنانچہ ان سے منقولہ احادیث و روایات و احکام و ہدایات بھی محدود ہیں۔ یہ نگرانی اس قدر شدید تھی کہ امام ہادی علیہ السلام کے وکلاء اور لوگوں کے ساتھ امام(ع) کے رابطین غیر معروف طریقوں سے اور پھیری والوں اور چل پھر کر مال و اسباب بیچنے والوں کے بھیس میں شدید احتیاط کے ساتھ آپ کے گھر تک پہنچ جاتے تھے اور اپنے سوالات پوچھتے تھے اور آپ سے احکامات و ہدایات وصول کرتے تھے۔
عباسی دربار کے با اثر شیعہ حاجب "الرزاقی" کے باوجود امام ہادی علیہ السلام کے ساتھ رابطہ آسانی سے انجام نہیں پاتا تھا۔ یہاں تک بھی منقول ہے کہ امام علیہ السلام کا ایک صحابی امام(ع) کا حال معلوم کرنے کے لئے حاجب کے پاس پہنچا ـ جبکہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ حاجب خود بھی شیعہ ہے ـ اور منتظر رہا تا کہ حاجب کے ارد گرد کے لوگ چلے جائیں۔ حاجب ان کا مقصد سمجھ گیا اور قریب آکر پوچھا: "اپنے مولا کی خبر لینے آئے ہو؟" کہنے لگا: میرا مولا خلیفہ ہے! حاجب نے کہا: خاموش ہوجاؤ، میں بھی تمہارے ہی عقیدے کا آدمی ہوں اور یہ امام بزرگوار میرے اور تمہارے امام ہیں۔
صحابی کہتے ہیں: میں بہت خوش ہؤا جب دیکھا کہ حاجب بھی شیعہ ہے۔
اس کے بعد دونوں نے کچھ انتظار کیا تا کہ مناسب موقع فراہم ہو۔ بعدازاں حاجب نے ایک لڑکے کے ہمراہ ان کو امام(ع) کے پاس روانہ کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات کا جواب دیا، تو ان کو ہدایت کی گئی کہ وہاں سے فوری طور پر چلے جائیں کیونکہ وہاں ان کی موجودگی ان کے لئے خطرناک ہے۔
چنانچہ دربار میں بااثر شیعہ شخصیات کی موجودگی میں بھی امام ہادی علیہ السلام سے رابطہ کرنا بہت ہی مشکل اور خطرات کا باعث تھا۔ یہ ایک اہم سبب ہے اس کا تاریخ میں امام ہادی علیہ السلام کے بارے میں بہت کم معلومات ثبت ہوئی ہیں۔
3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ نویسوں کی اکثریت غیر شیعہ افراد سے تعلق رکھتی ہے، اور اصولی طور پر یہ زمانہ شیعیان اہل بیت(ع) کا زمانہ نہیں تھا۔ عباسی حکومت پوری قوت سے حالات کی نگرانی کررہی تھی اور بہت سے مؤرخین صرف اس شرط پر قلم فرسائی کرسکتے تھے کہ "وہی کچھ لکھیں جو دربار حکومت چاہتا ہے"؛ چنانچہ مؤرخین کو ان کی مرضی کے مطابق لکھنا پڑتا تھا یا پھر نہیں لکھنا پڑتا تھا؛ یعنی دربار کی مرضي اور ہدایات کے مطابق بہت سے مسائل کو نظر انداز کرنا پڑتا تھا۔
اس زمانے میں ایسا کوئی واقعہ قلمبند ہونے پر قدغن تھی جس سے دربار حکومت کے مخالفین کی ترویج و تبلیغ لازم آتی تھی۔ چنانچہ اگر کوئی اہل بیت علیہم السلام ـ اور اس خاص دور میں امام ہادی علیہ السلام ـ کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ کرتا بھی، اس کو دربار حکومت کے خوف سے اپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا تھا۔
4۔ اس دور میں زیادہ تر مؤرخین سیاسی مسائل اور عالم اسلام کے سیاسی حالات کی طرف توجہ دیتے تھے۔ مثال کے طور پر حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی پربرکت زندگی کی زیادہ تر معلومات کا تعلق آپ کی ولیعہدی کے مختصر دور سے ہے، کیونکہ ولیعہدی ایک سیاسی مسئلہ تھا اور اس کا براہ راست تعلق بھی دربار خلافت سے تھا، چنانچہ اس کو توجہ دی جاتی تھی اور اس کے بارے میں قلم فرسائی بھی ہوتی تھی۔ جبکہ اسی امام(ع) کی بقیہ زندگی اور ایام امامت کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات ہم تک پہنچی ہیں اور تاریخ میں آپ کی حیات طیبہ کے ایام امامت کے بارے میں معلومات بہت ہی شاذ و نادر ہیں۔
چنانچہ، اس لئے کہ ہمارے ائمہ (ع) ـ منجملہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام ـ حکومت میں نہیں تھے اور دربار حکومت سے دور تھے، مؤرخین نے ان کے بارے میں معلومات تفصیل سے بیان نہیں کی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر محمد حسین رجبی دوانی
ترجمہ: حسین مہدوی