امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ اور یوم قدس

Rate this item
(0 votes)
امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ اور یوم قدس
ایک بار پھر ہم لوگ یوم قدس منانے کی تیاری کر رہے ہیں، یوم قدس ایسا دن ہے، جب ہم تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اسرائیل کے خلاف پرزور احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن افسوس مسلمان اسی بات پر متحد ہیں کہ آپس میں افتراق کا شکار رہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ فلسطین کا تعلق عرب خطے سے ہے، لیکن آج عربی ممالک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں جبکہ ایک عجمی ملک نے اسرائیل کے خلاف احتجاج اور مظلوموں کی حمایت کا پرچم ہاتھوں میں بلند کیا ہوا ہے۔ یہی چیز ہمیں اسلام کی حقانیت کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے کہ اسلام کسی خاص جغرافیے یا خطے سے مخصوص نہیں، یہ فطرت کی ایسی آواز ہے، جو بھی اس پر لبیک کہے گا، یہ اس کے وجود کے اندر انقلاب بپا کر دے گی، پھر وہ دنیا میں کسی ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اسلام اہم ہوگا، ظالم کے خلاف وہ ڈٹے گا، کیونکہ اسلامی تعلیمات ہی یہی ہیں، اسے خطے یا جغرافیا سے کچھ لینا دینا نہیں ہوگا۔ وہ یہ دیکھے گا کہ اسلامی قلمرو کیا ہے، جہاں بھی توحید کے نغمے ہوں گے، وہاں اسے اپنے وجود کا احساس ہوگا، وہ توحید کے سایے میں آگے بڑھے گا، توحید کے پرستاروں کو اپنا بھائی سمجھے گا، چاہے انکا ملک کہیں ہو، وہ کسی خطے سے متعلق ہوں، اس کے اپنے ہوں گے۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ مسئلہ فلسطین کو ایک اسلامی اور انسانی مسئلہ کی صورت بیان کرنا ہے۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فلسطین کے مسئلہ کو ایک اسلامی مسئلہ کے طور پر پیش کیا، جبکہ بعض ممالک اسے ایک عربوں کے مسئلہ کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ایک بنیادی کام کیا کہ اسے عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا اور اسے ہر ایک مسلمان سے جوڑ دیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسرائیل کو نہ صرف امت مسلمہ کا مسئلہ بنا دیا بلکہ مسلمانوں اور عربوں کے نزاع سے بھی اسے نکال کر انسانی مسئلہ بنا دیا ِجبکہ یوم قدس کے طور پر احتجاجی اعلان سے قبل فلسطین کو ایسے مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس کا تعلق عربوں اور یہودیوں کے درمیان نزاع و اختلاف سے ہے، اسی وجہ سے اگر آپ اسرائیل و عرب ممالک کی جنگ کو دیکھیں تو ملے گا کہ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ مسلمان ممالک و اسرائیل کے مابین ہوئی بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہوئی۔

یعنی اس معاملہ کو ایک عربی نزاع کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، جبکہ امام خمینی (رہ) نے اسے ایک الگ شناخت دی، الگ نام دیا۔ آپ نے کہا یہ اسرائیل و عرب کی جنگ نہیں ہے بلکہ آپ اس سے بھی آگے بڑھے اور آپ نے کہا کہ یہ مسلمانوں اور یہودیوں یا مسلمانوں اور اسرائیل کی جنگ بھی نہیں ہے بلکہ یہ مستضعفین و مستکبرین کی جنگ ہے۔ فلسطین میں محض مسلمان ہی نہیں رہتے ہیں یا اسرائیل میں محض یہودی ہی نہیں بستے ہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین میں مسلمان، یہودی اور عیسائی سب مشترکہ طور پر رہتے ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے مسئلہ فلسطین کو ایک عمومی مسئلہ کے طور پر پیش کیا اور اسی بنیاد پر آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا، تاکہ دنیا کے تمام مستضعفین مستکبرین کے خلاف اٹھیں اور اپنی آواز بلند کریں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسرائیل کے خلاف لوگوں میں بیداری لانے کے لئے یوم القدس کے طور پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا، جس سے ظلم کے خلاف ایک عمومی و ایک اجتماعی مخالفت سامنے آسکے۔

آپ نے بیت المقدس کی اور فلسطین کی یوں تو ہمیشہ ہی حمایت کی، آخری ماہ مبارک رمضان کو قدس کے طور پر منائے جانے کا اعلان کرکے آپ نے پوری دنیا کے حریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی جو کوشش کی، وہ بے نظیر ہے۔ خاص طور پر اس لحاظ سے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو پوری امت مسلمہ کی کوشش ہوتی ہے کہ نماز میں حاضر ہو، ماہ مبارک رمضان کی بنا پر روح و دل آمادہ ہوتے ہیں کہ حق و صداقت کا ساتھ دیں، لہذا اس سے بہتر کیا ہوگا کہ درونی شیطان سے مقابلہ کے بعد ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو بیرونی شیطانوں سے مقابلہ کے دن کے طور پر منایا جائے۔ آپ نے صہیونیت کے خلاف صرف نعرے بازی سے کام نہیں لیا، بلکہ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاسی حکمت عملی کو بھی تبدیل کیا اور اسی کے تحت ان لوگوں سے تعلقات کم یا ختم کر دیئے، جو صہیونی حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے 1979ء میں مصری حکومت سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے اور کہا کہ ہم اس لئے مصر سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر رہے ہیں کہ مصر نے اسرائیل سے تعلقات کی نئی داغ بیل ڈالی ہے۔

اگرچہ موجودہ دور میں بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں، جن کے اسرائیل سے گہرے تعلقات ہیں، جیسے سعودی عرب، امارات و۔۔۔۔۔ لیکن کسی کے تعلقات کھلم کھلا نہیں ہیں، سب ڈھکے چھپے ہیں۔ اقتصادی، عسکری اور سکیورٹی ہر شعبے میں اسرائیل سے بعض اسلامی ممالک کے مخفیانہ تعلقات ہیں، لیکن اس دور میں مصر نے کھلم کھلا و علنی طور پر تعلقات بنائے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی صداقت ہے کہ نہ کل اور نہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے اسرائیل سے تعلقات کبھی قائم نہ ہوسکے اور نہ ہی ان ممالک سے کبھی تعلقات اچھے رہے، جن کے تعلقات اسرائیل سے گہرے اور دوستانہ ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ کا ایک اور کام ایک ایسی اصطلاح کو رائج کرنا ہے، جو بین الاقوامی طور پر بہت اہم ہے اور وہ ہے اسرائیل کے ساتھ غاصب کی اصطلاح، اس اصطلاح کے ذریعہ آپ نے یہ بتانا چاہا کہ دنیا میں چاہے کتنے ہی ممالک تمہارے ساتھ کیوں نہ آجائیں، لیکن تم غاصب ہی کہلاو گے، اگر اس غاصب کے لیبل کو ہٹانا ہے تو فلسطین سے نکلنا ہوگا۔

صرف یہ اصطلاح ہی نہیں، آپ نے ایک اور بات کی وضاحت کی کہ اسرائیل یوں خود ہی اکیلے بل پر غاصب نہیں ہے بلکہ یہ استعمار کے ہاتھوں کا پروردہ ہے اور مشرق و مغرب کے استعمار نے اسے خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لئے اپنی بیساکھیوں پر کھڑا کیا ہے اور خطے میں انہوں نے یوں ہی اسرائیل کو کھڑا نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ اسلام کا درخشاں تمدن ہے۔ آپ کے سامنے اسلامی تمدن کے مختلف مراحل ہیں، آپ کے سامنے اس اسلامی تمدن کا زوال بھی ہے، اگر غور کریںگے تو نظر آئے گا کہ ہر اس جگہ جہاں پر اسلامی تمدن انحطاط کا شکار ہوا ہے،  صہیونیوں اور یہیودیوں کے ہاتھ نظر آرہے ہیں۔ اسلامی تمدن کی گفتگو اگرچہ ایک بڑی اہم گفتگو ہے، اس کی جگہ یہاں نہیں ہے، ہم صرف اشارہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ اگر بہت سرسری طور پر دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اسلامی تمدن کی بنیاد مدینہ النبی میں حضور سرور کائنات کے ذریعہ پڑی اور پہلی صدی سے پانچویں صدی تک  اس کا عروج نظر آتا ہے، اس کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے۔

چنانچہ ساتویں اور آٹھویں صدی میں اسلامی تمدن کا انحطاط صاف طور پر دکھتا نظر آتا ہے اور یہ وہ دور ہے، جس میں مغلوں کی یلغار اور صلیبی جنگیں ہیں۔ تاریخ میں یدطولی رکھنے والے افراد اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ ماہرین تاریخ یہ بتاتے ہیں کہ چاہے مغلوں کی جانب سے تاراجی و یلغار کا دور ہو یا صلیبی جنگیں ہوں، دونوں ہی کے پس پشت یہی یہودی رہے ہیں۔ ایک طرف یہودی ثروت مندوں کی پشت پناہی پر عیسائیوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تو دوسری طرف یہودیوں ہی کی تحریک پر عباسی خلافت کو یہودیوں ہی نے تباہ کیا۔ اگرچہ عباسی حکومت ہمارے لئے کبھی قابل قبول نہ رہی، لیکن یہاں پر بات مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔ بطور عموم انہیں توحید سے ہمیشہ خطرہ رہا، چاہے وہ کھوکھلی توحید ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے انہوں نے ہر دور میں کوشش کی کہ کوئی مضبوط اسلامی حکومت قائم نہ رہ سکے، بھلے وہ نام ہی کی کیوں نہ ہو۔

اس دور کے بعد جسے ہم نے بیان کیا، تین اور جہان اسلام میں بڑے تمدن وجود میں  آتے ہیں، ایران میں صفویہ، ترکی میں عثمانی، ہندوستان میں مغل، یہ تینوں تمدن وہ ہیں، جو جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تینوں کا باہمی تعلق اسلامی تمدن کی ایک نئی تاریخ رقم کرسکتا تھا، لیکن اسی دور میں استعمار کی بنیاد پڑتی ہے اور سب کا سب تباہ ہو جاتا ہے اور اسی دور میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آتا ہے، جہاں اسرائیل کے ایک ملک کی صورت وجود میں آنے کی فضا فراہم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب دوسری عالمی جنگ میں برطانوی سلطنت ضعف و اضمحلال کا شکار ہو جاتی ہے تو اب اس کے لئے ضروری ہے کہ یوں ہی علاقے کو چھوڑ کر نہ نکل بھاگے بلکہ اپنے لئے کوئی جگہ بنا کر جائے۔ لہذا اگر ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل نے ہزار جتن کرکے کیوں علاقے میں اسرائیل کے وجود کو اپنے لئے ضروری جانا تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ دیکھیں وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے امریکہ کو بنایا اور دوسرے علاقوں سے امریکہ کی طرف ہجرت کی، تاکہ کچھ  ایسا کرسکیں کہ ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہے اور دوسروں کو غارت کرتے رہیں۔

جب ہم امریکہ کے قیام کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے قیام میں یہودی ثروت مندوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ خاص طور پر روچیلڈ خاندان جس نے جہان اسلام خاص طور پر برصغیر میں بھی استمعاری حربوں کو خوب خوب استعمال کیا، یہ روچیلڈ خاندان عالمی جنگ میں ایک ہی محاذ پر ہے اور اس نے امریکہ کے وجود میں آنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ پھر یہی اسرائیل کے پیچھے بھی نظر آتا ہے اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ اس کا ہم و غم بھی یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنی ایک جگہ بنائی جا سکے، جہاں اپنے لئے انہیں ایک قیام گاہ کی ضرورت تھی۔ یہ وہ چیز ہے، جسے امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے وجود میں برطانوی اسستعمار کا ہاتھ واضح ہے۔ لہذا کوئی یہ نہ سوچے کہ یہ دینی معاملہ ہے، یہودیوں کی اپنی زمین کا مسئلہ ہے، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ قطعاً ایسا نہیں یے، یہودی اپنی سرزمین پر جانا چاہتے ہوں اور ایک مستقل ملک انکی ضرورت ہو، بلکہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے۔

یہ استعماری طاقتیں یہ چاہتی تھیں کہ ایک ایسا ملک مسلمانوں کے قلب میں وجود میں لاسکیں، جس کے چلتے ان کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بڑا خوبصورت جملہ یہاں بیان کیا ہے ’’یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ خطے میں ان کا ایک نگرانی کرنے والا، پہرا دینے والا کتا رہے، علاقے میں ایسا کتا رہے، جو انہیں بھونک بھونک کر با خبر کرتا رہے۔ سید حسن نصر اللہ نے بھی ایک تقریر میں اسی استعماری سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے امام خمینی (رہ) کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا ہے کہ ’’امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے بنیادی کاموں میں ایک کام یہ تھا کہ آپ نے ہمیں یہ سمجھایا کہ اسرائیل کی غاصب حکومت کا معاملہ عربوں یا مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، ہمارا دھیان اس بات پر رہے کہ ایک استعماری کھیل ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہودی اپنے علاقوں میں واپس جانا چاہتے ہوں یا اپنا ایک مستقل ملک چاہتے ہوں، ہرگز ایسا نہیں ہے یہ ایک سیاسی کھیل ہے۔‘‘

امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسرائیل سے نفرت کے اظہار کے لئے ایک اور اصطلاح کا استعمال کیا، جو بظاہر تو بہت سادہ لیکن اپنے اندر مفاہیم کا دریا لئے ہوئے ہے اور وہ ہے اسرائیل کو کینسر کے پھوڑے سے تعبیر کرنے کی اصطلاح۔ جس طرح آپ نے بہت ہی سادے الفاظ میں امریکہ کو شیطان بزرگ کہہ کر اس کی شیطنت کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا، ویسے ہی اسرائیل کو سرطانی غدے یا کینسر کے پھوڑے سے تعبیر کرکے اس کو پیکر اسلام سے کاٹ کر پھینک دینے اور اس کے پورے خطے میں پھیل جانے کی طرف اشارہ کیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا کمال یہ تھا کہ اتنے رسا انداز میں اپنی بات کہتے کہ ہر ایک کی سمجھ میں آجائے۔ امریکہ  شیطان بزرگ ہے، یہ بات معمولی نہیں ہے، ایسی ہے کہ پوری دنیا سمجھ سکتی ہے، کیونکہ ہر ایک شیطان سے واقف ہے، چاہے یہودی ہو، ہندو ہو، عیسائی ہو، بودھشٹ ہو یا زرتشتی و مجوسی ہر ایک جانتا ہے کہ شیطان کسے کہتے ہیں۔

جس طرح آپ نے امریکہ کو شیطان بزرگ کہا، اسی طرح اسرائیل کو کینسر کا پھوڑا کہہ کر اس کے علاج کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ کینسر کا پھوڑا کہیں نکل آئے تو دھیرے دھیرے پھیلتا جاتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے، جتنا جلدی اسے کاٹ کر نکال دیا جائے، اتنا ہی اچھا ہے، ورنہ وہ پورے جسم کو خراب کر دے گا۔ جس طرح کینسر کا پھوڑا پورے جسم میں سرایت کر جاتا ہے، ویسے ہی علاقے میں اسرائیل کا وجود ہے کہ ایسا نہیں ہے، اسے چھوڑ دیا جائے تو ایک جگہ خاموش بیٹھ جائے گا، ایسا نہیں ہے، یہ علاقوں پر علاقے اپنے قبضے میں لیتا رہے گا، جیسا کہ ابھی ہو رہا ہے۔ شہر کے شہر اسرائیلی حکومت اپنے قبضے میں لے رہی ہے، مسلسل اپنی سرحدوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔ شام و لبنان و اردن تک اس کی سرحدیں پہنچ چکیں ہیں، اب تو گولان کی پہاڑیوں کو بھی امریکہ نے قانونی طور پر اسرائیل کے حق میں قبول کر لیا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ نے کتنی زبردست بات کی تھی۔ شک نہیں کہ قرآن کے آئینہ میں یہودیوں کے اوصاف کو دیکھ کر ایک فقیہ ہی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں ڈاکٹر محمدی کے قدس کے سلسلہ سے لکھے گئے مطالب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
 
Read 389 times