خداوند متعال نے انسان کو فطرتاً علم دوست خلق کیا ہے اور یہ انسان ہمیشہ سے علم کی طرف میل و رغبت رکھتا آ رہا ہے علماء میں رفت و آمد کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا رہا ہے اور یہ رجحان نوع بشر کو دیگر تمام موجودات سے ممتاز کرتا ہے اور علم ہی کی بنیاد پر آدم کو ملائکہ پر فضیلت دی گئی اور ملائکہ نے آدم پر تعظیمی سجدہ بجالایا، رسول خدا نے اہمیت علم کے ذیل میں فرمایا: اطلبوا العلم ولو بالصين».[وسائل الشيعه، ج ۲۷، ص ۲۷.] "علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔" دین اسلام کی علم کے سلسلے میں تمامتر تاکیدات کے باوجود انسانی معاشرہ علم و دانش سے دور نظر آرہا تھا گویا اس نے جہالت کا لبادہ اوڑھ لیا ہو ،یا حکومتیں مانع ہو رہیں تھیں جیسا کہ نقل احادیث پر پابندی عائد کی گئی یا خود لوگ بغض وعداوت کی وجہ سے خلاف فطرت علم سے دور ہو رہے تھے، آفتاب علم موجود تھا لیکن لوگ علم کی شعاعیں سےمستفید نہیں ہو رہے تھے ،جھالت کو دور کرنے کے لئے اسلام کا دغدغہ تھا لیکن ایک مستقل دانشگاہ، یونیورسٹی یا درسگاہ کا وجود نہ تھا جو دین اسلام کو نابود کر نے کے لئے دشمنان اسلام کے پاس ایک غنیمت موقع تھا، ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارے ائمہ علیہم السلام موقع کے تلاش میں تھے کہ علوم کو نشر کیا جائے لہذا بنی عباس کا قیام اور بنی امیہ کے ساتھ جنگ، یہ امام صادق علیہ السلام کو ایک سنہرہ موقع دستیاب ہوا اور امام نے اس موقع کا بھرپور استفادہ کیا ایک یونیورسٹی کو تشکیل دیا جس میں ۴ ہزار سے زائد مختلف فرقوں کے افراد زیر تعلیم تھے امام کے اس کارنامے کے بعد انسانی معاشرہ کبھی پھیچے موڑ کر نہیں دیکھا ،اسلامی تہذیب و تمدن ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی اور انسانیت کامیابی کے مراحل میں جاری و ساری ہے ،آج جو دنیا ترقی کر رہی ہے یہ امام صادق علیہ السلام کی دین ہے اور پوری انسانیت ان کی مدیون منت ہے۔
اس سے پہلے کہ اس بحث کا آغاز کیا جائے ضروری ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے حالات زندگی پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تاکہ امام کے اقدامات بطور احسن درک ہو سکیں۔
سیاسی حالات:
امام صادق علیه السلام کا دور دیگر ائمہ علیہم السلام کے ادوار سے مختلف و منفرد تھا کیونکہ سیاسی طور پر وہ دور اموی حکومت کی کمزوری و تزلزل اور عباسیوں کی طاقت میں اضافے کا دور تھا اور ایک مدت سے ان دونوں میں کشمکش رہی اور یہ دونوں آپس میں لڑتے رہے. ہشام بن عبدالملک کے زمانے سے عباسیوں کی تبلیغی اور سیاسی مہم شروع ہوئی اور ١٢٩ ھجری میں مسلح فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوا اور آخر کار ۱۳۲ ھجری میں بنی امیہ کو ایک طرفہ شکست دے کر خود اقتدار پر قابض ہو گئے ۔ چونکہ اس دور میں بنی امیہ بہت سے سیاسی مشکلات میں دوچار تھی ،اس لئے انہیں امام اور شیعوں پر پابندی عائد کرنے اور سختی برتنے کا موقع نہیں ملا ۔عباسیوں نے بھی کیونکہ خاندان رسول کی حمایت کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا لہذا حکومت کو اور محکم اور استوار کرنے کے لئے امام پر دباؤ ڈالا نہیں گیا۔اس لئے یہ دور امام صادق علیہ السلام اور شیعوں کے لئے نسبتاً امن و آزادی کا دور تھا اور امام کی علمی سرگرمیوں کے لئے ایک بہترین موقع فراہم ہوا۔(سیرہ پیشوایان ص ٣٦٥)
ثقافتی صورتحال:
فکری اور ثقافتی لحاظ سے امام صادق علیہ السلام کا دور فکری اور ثقافتی تحریک کا دور تھا۔اس وقت اسلامی معاشرے میں علمی جوش و خروش ایجاد ہوا اور مختلف علوم جیسے: علم قرئت قرآن،علم تفسیر،علم حدیث،علم فقہ،علم کلام یا دنیاوی علوم جیسے: علم طب ،فلسفہ ،ریاضیات، علم نجوم اور علم کیمیا وغیرہ وجود میں آئے ،اس بناپر معاشرہ میں علمی تشنگی کا احساس بڑھتا گیا اور امام صادق علیہ السلام نے ایک یونیورسٹی کو تشکیل دے کر معاشرہ کو مختلف علوم سے سیراب فرمایا ۔(حمید احمدی ،تاریخ امامان شیعه ص ١٩٠)
اقدامات امام صادق علیہ السلام:
(١) امام صادق علیہ السلام موقع شناس تھے آپ اپنے دور کے تمام حالات سے با خبر تھے آپ نے دیکھا کہ نشر علوم کے لئے بہترین موقع ہے لہذا امام نے بے ثمر فعالیت سے اجتناب کیا، اس وقت کئی مقامات پر بنی امیہ کے خلاف قیام بپا کئے گئے لیکن امام ان میں شریک نہیں ہوئے اور اپنے شیعوں سے بھی سکوت اور قیام سے دوری کے لئے سفارش کرتے رہے اور اسی طرح بنی عباس نے بھی آپ کو خلافت کے لئے دعوت دی آپ نے اس سے انکار کیا جیسا کہ ابو مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے بیعت کرنے کی تجویز پیش کی اور ایک خط میں لکھا:"آپ اگر خلافت کے لئے راغب ہیں تو آپ سے بہتر کوئی نہیں ۔امام نے جواب میں لکھا " ما اَنْتَ مِنْ رجالی وَ لا الزَّمانُ زَمانی "نہ تم میرے یاران میں سے ہو اور نہ یہ زمانہ میرا زمانہ ہے(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص ۱۵۴)۔ اس طرح امام نے غنیمت موقع کو ضایع ہونے نہیں دیا ۔
(٢) امام صادق علیہ السلام نے نشر و حفظ علوم کے لئے اور اسے نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے کتابت و تدوین کا آغاز کیا درحالی کہ امام سے پہلے مسلمانوں میں ایک مدت تک احادیث کی تدوین پر ممانعت رائج تھی.
صادق علیہ السلام کی اسی محنت اور کوشش کی وجہ سے آپ کے شاگردوں نے علوم اسلامی کے مختلف مسائل پر مقالات اور کتابیں مرتب کرنا شروع کیں جیسا کہ محمد بن نعمان احول " کتاب الامامۃ و کتاب الرد علی المعتزله فی امامۃ المفضول" یہ کتاب ان کے آثار میں سے ہیں.(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص١٨٧). اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے کتابت کی اھمیت میں فرمایا: "قیدوا العلم بالکتابۃ""علم کو کتابت و تدوین کے ذریعے قید کرو"(محمد بن حسن طوسی،الامالی ،ص ٩٥)
(۳) امام صادق علیہ السلام کا اپنے زمانے میں سب سے نمایاں اقدام نشر علوم کے لئے یہ تھا کہ جس شخص کو جس علم میں شوق و ذوق تھا اسے اسی علم کا ماہر و متخصص بناتے تھے ،امام صادق علیہ السلام کے ایک مناظرہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے ۔" ایک مرتبہ ایک شامی امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام پر سلام کیا ،امام نے جواب دیا اور فرمایا: تمھاری خواہش کیا ہے اور تم یہاں کیوں آئے ہو ؟, شامی نے کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ تمام علوم سے واقف ہیں ،اس لئے میں مناظرہ کے لئے آیا ہوں،امام نے فرمایا: کس مورد میں ؟اس نے کہا: قرآن کے سلسلے میں ،حروف مقطعات کے بارے میں اور اعراب قرآن کے سلسلے میں ،امام نے فرمایا: اس سلسلے میں میرے شاگرد حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو،شامی نے کہا میں آپ ہی سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں دوسروں سے نہیں ،امام نے فرمایا: حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو اگر اس پر غالب آگئے تو گویا مجھ پر غالب آگئے ، پس شامی نے حمران سے مناظرہ شروع کر دیا اور تھک ہار کر بے بس نظر آیا ،امام نے فرمایا:اے شامی ! تم نے اسے کیسے پایا ؟ شامی نے کہا:میں نے حمران کو ماہر و مانوس پایا اور مجھے مکمل جواب ملے ،پھر شامی مرد نے کہا عربی علوم کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے ابان ابن تغلب کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اس سے جو چاہو وہ دریافت کرلو،وہ ابان ابن تغلب کے پاس گیا اور ان سے مناظرہ میں شکست کا سامنا کیا ،پھر امام سے عرض کیا میں علم فقہ میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے اپنے ایک اور شاگرد کا تعارف کروایا جس کا نام زرارہ تھا امام نے شامی سے فرمایا: اس سے بحث کرو ،وہ تمہیں قانع کرے گا ،زرارہ سے شکست کے بعد شامی نے امام صادق علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا اس بار آپ سے علم کلام کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،اس بار بھی امام نے اپنے ایک شاگرد مومن طاق سے فرمایا: دیکھو اس کے اشکالات کیا ہیں ،مومن طاق نے مرد شامی سے مناظرہ کیا اور اس پر غالب آگئے اور اسی طرح ہشام بن سالم کے ساتھ توحید اور خدا شناسی کے سلسلے میں اور ہشام ابن حکم سے امامت و خلافت کے سلسلے میں مناظرہ ہوا اور شامی آدمی کو شکست ہوئی۔
امام صادق علیہ السلام مسکرا رہے تھے ،اس شامی نے کہا : گویا آپ مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آپ کے شیعوں میں ایسے لوگ ہیں جو مختلف علوم سے واقف و ماہر ہیں؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسی طرح سمجھو(۔اختيار معرفة الرّجال : ص 275، ح 494)
اسی خد و خال سے امام نے اپنے تمام شاگردوں کو متخصص و ماہر بنایا اور نشر علوم کے لئے امام کی یہ روش کارگر ثابت ہوئی ۔
(۴) امام صادق علیہ السلام نے نشر علوم کے لئے جو علوم کا مرکز و محور ہے یعنی قرآن مجید کی واقعی تفسیر کو بیان فرمایا، جو اسرار قرآن پنہان تھے ان کو لوگوں کے فہم کے مطابق اجاگر کیا آج جتنی بھی تفاسیر روایی ہیں ان میں بیشتر روایات امام صادق علیہ السلام سے منقول ہیں یہ اقدام امام صادق علیہ السلام کا بے حد متاثر کن رہا اس لئے کہ اگر قرآن کی واقعی تفسیر نہ کی جاتی تو دیگر علوم پایدار و مستحکم نہ ہوتے لہذا امام کا یہ کارنامہ نشر علوم کے لئے ایک محور و مرکز قرار پایا۔