
سلیمانی
سپاہ پاسداران کو خلیج فارس میں دو یونانی آئل ٹینکر قبضے میں لیا گیا
تہران، ارنا- سپاہ پاسداران انقلاب نے خلیج فارس کے پانیوں میں دو یونانی آئل ٹینکر قبضے میں لیا۔
سپاہ نیوز کے مطابق؛ آئی آر جی سی کے شعبہ تعلقات عامہ نے اعلان کیا کہ جمعہ کے روز خلیج فارس میں دو یونانی آئل ٹینکر کو خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ضبط کیا گیا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ سپاہ پاسداران کی بحریہ نے جمعہ کے روز خلیج فارس کے آبی پانیوں میں خلاف ورزیوں کی وجہ سے یونان کے دو آئل ٹینکرز کو قبضے میں لے لیا۔
دہشت گردی مغرب کا پیدا کردہ اور سیاسی رجحان ہے نہ کہ مذہبی، شیخ الازہر
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مصر کے شیخ الازہر جناب احمد الطیب نے ایک اجلاس میں برٹش اسکول آف ڈیفنس اسٹڈیز اور برطانوی وزارت دفاع سے منسلکہ بورڈ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ایک سیاسی رجحان ہے نہ کہ مذہبی۔
انہوں نے کہا: دہشت گردی کو بعض مغربی سیاسی دھڑوں نے تخلیق کیا اور اسے دنیا میں پھیلایا ہے اور پھر اسے یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے منسلک کر دیا تاکہ اس طرح ان کی انتہائی پیچیدہ سرگرمیوں اور مذموم منصوبوں کو پورا کیا جا سکے۔
شیخ الازہر جناب احمد الطیب نے مزید کہا: الازہر یونیورسٹی نے اپنے نصاب میں انتہا پسندی اور تکفیر سے مقابلہ کرنے جیسے مسائل کو شامل کرتے ہوئے "دارالسلام اور دارالحرب" کے تصور، مسلمانوں کےایک دوسروں کے ساتھ تعلقات اور تعصب اور نفرت اور انتہا پسند گروہوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے مسائل کو بیان اور پیش نظر اظہارات و خیالات کے ساتھ موجودہ دور کے حقائق کا جواب دیا ہے۔
انہوں نے کہا: الازہر نے اپنے طالب علموں کو کم عمری میں ہی ایک علمی طریقہ کے ساتھ ذہنی اور فکری طور پر تربیت کرنے کے لیے اقدام کیا ہے جس کے ذریعے انہیں ان گروہوں کے نظریات سے آشنا کرایا جاتا ہے اور پھر ان کے باطل نظریات کو رد کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے اشارہ کیا: الازہر نے انتہا پسندانہ فکر کے خلاف جنگ میں مذہبی رہنماؤں کے درمیان یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ایک مصری ادارے کے قیام کے ذریعہ معاشرے کے وہ مسائل جو مسلم و عیسائی تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں، کے حل کے لئے ایک پروگرام اور طرز فکر تیار کو کیا ہے۔
بعض علاقائی اور غیرعلاقائی ممالک تکفیری دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کر رہے ہیں: ایڈمیرل شمخانی
تہران، ارنا – ایرانی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بعض علاقائی اور غیرعلاقائی ممالک تکفیری دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کر رہے ہیں۔
یہ بات ایڈمیرل علی شمخانی نے جمعہ کے روز تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقدہ افغانستان پر علاقائی سلامتی کے مذاکرات کے چوتھے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے خطے کی صورتحال بالخصوص افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی پیش رفت اور اس ملک سے امریکی افواج کی شکست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے افغان عوام اور خطے کے عوام کی ضرورت کے طور پر افغانستان میں سلامتی، امن اور استحکام کے قیام پر زور دیا ہے۔
ایڈمیرل شمخانی نے کہا کہ ایران کئی دہائیوں سے تقریباً 50 لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے جو کہ بین الاقوامی امداد کی عدم موجودگی اور ہمارے ملک پر عائد غیر منصفانہ پابندیوں کی وجہ سے ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ کے ساتھ ساتھ یوکرائن کی حالیہ جنگ کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی غلط توسیع پسندانہ پالیسیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغان عوام کا پیسہ نہ صرف جاری کرے بلکہ افغانستان کو ہونے والے نقصانات کی تلافی بھی کرے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے کی سلامتی کی صورتحال ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے لہذا افغانستان میں سلامتی، امن اور استحکام کا حصول خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ جو سلامتی کی صورتحال کو بہتر بناتی ہے اور سلامتی اور استحکام کو غیر مستحکم کرنے والے فوکس کی تشکیل کو روکنے کے لیے مشترکہ مزاحمتی موقف اختیار کریں۔
ایرانی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک مستحکم اور جامع حکومت کی ضرورت ہے، اگر افغان قومیتیں اور جماعتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ ملک کے انتظام و انصرام میں موثر شراکت دار ہیں، تو بہت سے مسائل دور ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کو محدود کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو افغان عوام کے مسائل بالخصوص اقتصادی مسائل کے حل کے لیے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
ایران میں سویڈش ناظم امور کی طلبی
یونانی پانیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پرچم تلے مال بردار جہاز کو پکڑے جانے کے بعد تہران میں یونانی سفارت خانے کے ناظم الامور (سفیر کی غیر موجودگی میں) کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور انہیں ایران کی حکومت کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا گیا۔
ارنا رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں محکمہ خارجہ کے سربراہ برائے بحیرہ روم کے امور نے تکنیکی خرابی کی وجہ سے مذکورہ جہاز کے ہنگامی طور پر رکنے کی وجہ سے یونانی حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو یاد دلاتے ہوئے امریکہ کے غیر قانونی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو ناقابل قبول قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے جھنڈے تلے جہاز کو پکڑنا؛ بین الاقوامی بحری قزاقی کی ایک مثال ہے، جس کی ذمہ داری یونانی حکومت اور غیر قانونی قبضے کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قانونی حقوق سے دستبردار نہیں ہو گا اور یونانی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جہاز رانی کے میدان میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے۔
در این اثنا یونانی سفارت خانے کے ناظم الامور نے کہا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے احتجاج کو فوری طور پر اپنے ملک کے حکام تک پہنچائیں گے۔
سلام فرماندہ کا نیا ریکارڈ، تہران میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے ایک ساتھ ترانہ پڑھا
تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے ترانہ سلام فرماندہ کمانڈر پڑھ کر ریکارڈ درج کردیا۔ ایک لاکھ افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد نے اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ حصہ لیا۔ اس موقع پر بچوں اور ان کے والدین کا جوش و جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔یہ تاریخی ترانہ فرزند رسول امام مہدی علیہ السلام سے اظہار عقیدت اور آپؑ سے اعلان وفاداری کے لئے تیار کیا گیا ہے جس کو ایران کے معروف مداح ابوذر روحی نے بڑے منفرد انداز میں پڑھا ہے۔ اس ترانے نے منظر عام پر آتے ہی سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا دیا اور اب یہ ترانہ ایران کی سرحدیں پار کرتا ہوا دنیا کے مختلف ممالک تک جا پہنچا ہے
امام صادق ؑ کی علمی عظمت
اسلامی قوانین اور احکام الٰہی کی روح اور بقا کا اصلی راز فکری آزادی ہے۔ بحث و مباحثہ اور احکام الٰہی پر تحقیقات سے افکار اور کمالات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور محققین کے لئے مزید علمی دریچیت روشن ہو جاتے ہیں۔ علم و دانش اور دانشمندوں کے افکار سے صحیح استفادہ کی روش امام صادقؑ کے علمی درسگاہ کی ایک عظیم خصوصیت ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ’’لو علم الناس ما فی طلب العلم لطلبوہ ولو بسفک الدماء‘‘ (۱) اگر لوگوں کو حصول علم کے فضائل معوم ہو جائیں تو وہ ضرور علم حاصل کریں گے،چاہے اس کے لئے خون سل بہانا پڑے۔
امام صادقؑ کی وسعت علہمی دوسرے مکلاتب فکر کے مقابلے میں امامؑ کے کارنامہ علمی سے واضح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت نے علمی دریا اس طرح بہائے کہ ہر صاحب عقل و منطق آپ کے ادلۂ علمیہ کے سامنے سر بسجو نظر آتا ہے۔ آپ نے مکتب امامت و فقاہت کے علمی و اعتقادی اصول کی تشریح کے ذریعے اسلام کے سچے اعتقادات واضح کئے اور اسلام کی فکری تحریک کو آفات و حوادث سے محفوظ رکھا۔ انحرافات کے حدود کی تعیین اور ایسے اصول پیش کئے جو اسلامی قانون کا منبع قرار پایا۔ آج بھی فقہ اور اصول فقہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے قواعد موجود ہیں جن دے ہزاروں فقہی مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر قواعد ایسے ہیں جو امام جعفر صادقؑ کے ان ارشادات سے مأخوذ ہیں جن کا سلسلہ رسول خداؐ تک پہونچا ان قواعد کی کامل تشریح ’’القواعد الافقہیۃ‘‘ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (۲)
امام جعفر صادقؑ کے زمانہ میں اسلامی فقہ کی تدوین ہوئی۔ ایسے قواعد فقہی وضع کئے گئے جو ہر زمانہ میں فقہی مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں۔ مثلاً احکام میں قاعدۂ ’’عدم عسر و حرج‘‘ قاعدۂ ’’الضرورات قبیح المحذورات‘‘ قاعدۂ ’’دفع‘‘ وغیرہ۔
اسلامی قوانین میں قاعدۂ فراغ، تجاوز، اوفوا العقود․․․ ان کے علاوہ متعدد قواعد ہیں جن کی قواعد فقہی سے متعلق کتب میں بحث ہوتی ہے۔
علم حدیث و رجال میں امام صادقؑ نے بخاری و مسلم اور دوسرے اسلامی محدثین سے ایک صدی پہلے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے ایک کامل معیار قائم کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اسے قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جو قرآن کے خلاف ہو اسے ٹھکرا دو۔ (۳)
آپ کے علمی مکتب کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت کا وسیع علمی و عریض علمی مکتب صرف فقہ و اصول، حدیث و کلام اور اس کے فروعات کی تعلیمی حد تک محدود نہ تھا بلکہ فقہ و حدیث وغیرہ کے پہلو بہ پہلو فلسفہ اور علوم ما وراء طبیعت پر بھی توجہ دی گئی۔ چنانچہ فلسفہ میں آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ہر شئی کی حقیقت اس کی صورت ہے نہ کہ مادہ یا ہر دو۔ (۴)
اسی طرح آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے مختلف علوم و فنون (جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا، اور جومیٹری وغیرہ) میں تبحر اور تخصص پیدا کر کے کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘ ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔
علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔
حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ان ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔
مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔ (۵)
امام جعفر صادقؑ کے دوسرے بزرگ شاگردوں کے تذکرہ کی اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے شائقین حضرات کتب تراجم و رجال کی طرف رجوع فرمائیں۔ (۶)
مختصر یہ کہ امام صادقؑ نے اسلام و مسلمین کے مرکز ’’مدینۃ الرسولؐ‘‘ میں جس یونیورسٹی کی بنا رکھی اس میں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علم، مختلف علوم سے سیراب ہوئے۔
جہاں پر ظلم و بربریت اور آل محمدؐ کے خلاف مسلسل سازشیں ہوں وہاں امام صادقؑ کا اتنیہ کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت کرنا معجزہ اور کرامت سے کم نہیں ہے۔ گویا اپنے جد امجد حضرت محمد مصطفےٰؐ کی طرح صداقت میں اس قدر مشہور و معروف ہوئے کہ آپ کے زمانہ کے تمام لوگوں نے متفقہ طور پر آپ کو صادق آل محمدؐ کا لقب دیا۔ (۷)
آفاق عالم نے آپ کی شہرت کا قدم چوما، علمی اور فکری نشستوں میں آپ کو غیر معمولی احترام سے دیکھا جاتا تھا، دوست اور دشمن سبھی آپ کے فضائل کے معترف ہو گئے، سخت سے سخت دشمن بھی آپ کے فضائل و مکارم کا انکار نہیں کر سکے ’’والفضل ما شھدت بہ اعداء‘‘ اور فضیلت وہی ہے جس کی گوہی دشمن دیں۔
حضرت کی علمی شخصیت کے بارے میں دانشمندوں کے اعترافات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کا ذکر اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں ہے صرف چند اقوال قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کی علمی شخصیت اجاگر ہو سکے:
(۱) مالکی مذہب کے امام مالک بن انس کہتے ہیں:’’و لقد کنت أتیٰ جعفر بن محمّد و کان کثر المزاح․․․‘‘ جب میں امام جعفر صادقؑ کی خدمت با برکت میں حاضر ہوتا تھا تو دیکھتا تھا کہ آپ مزاح فرما رہے ہیں لبوں پہ مسکراہٹ رہتی تھی جب بھی آپ کے سامنے رسول اللہؐ کا نام لیا جاتا تھا آپ کا چہرہ پہلے سبز پھر زرد ہو جاتا تھا۔ اپنی تمام زندگی میں حضرت کو تین حالتوں میں سے کسی حال میں پاتا تھا، یا تا حضرت نماز پڑھتے ہوتے، یا روزہ رکھے ہوتے، یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے۔ میں نے عبادت و ریاضت میں اور علم و دانش کے حوالے سے کسی کو امام جعفر صادقؑ سے بہتر نہیں دیکھا۔ (۸)
(۲) اہل سنت کے امام اعظم ابو حنیفہ کہتے ہیں: ’’ما رأیت افقہ من جعفر بن محمّد و انہ اعلم الامۃ‘‘ میں نے امام جعفر بن محمد(صادقؑ) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا بے شک آپ امت محمدیؐ میں سب سے زیادہ علم و فضل کے مالک ہیں۔ (۹)
مزید لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے مجھ سے کہا: ’’لوگوں کو جعفر بن محمدؑ سے عقیدت ہو گئی ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہیں اور تم کو یہاں اس لئے لایا ہوں کہ تم جعفر بن محمدؑ سے مناظرہ و مباحثہ کے لئے اپنے کو آمادہ کرو، اور کچھ اہم اور مشکل مسائل تیار کرو مجھے امید ہے کہ جعفر بن محمدؑ تمہارے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے تو خود بخود لوگوں کی نظروں سے ان کا وقار ختم ہو جائے گا۔ ابو حنیفہ لکھتے ہیں: میں نے منصور کے کہنے پر چالیس اہم اور مشکل مسائل تیار کئے پھر حیرہ کے مقام پر خلیفہ (منصور) کے سامنے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت نے ہر مسئلہ کے جواب میں فرمایا: اس مسئلے کے بارے میں اہل عراق کا نظریہ یہ ہے، اہل مدینہ کا جواب یہ ہے اور ہم اہل بیت کی نظر میں اس کا جواب یہ ہے۔ یعنی حضرت نے اختلاف اقوال کے تمام موارد ذکر کرتے ہوئے ان مسائل کے ایسے جواب دئے کہ سب کو آپ کی علمی شخصیت کا اعتراف کرنا پڑا اور ابو حنیفہ کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا ’’ان اعلم الناس، اعلمہم باختلاف الناس‘‘ (۱۰) یعنی سب سے بڑا دانشمند وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف آراء کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔
اسی لئے تو وہ ہمشیہ کہا کرتے تھے ’’میں نے جعفر بن محمد صادقؑ سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔ (۱۲)
(۳) سفیان ثوری (جو اپنے زمانہ کے مشہور فقہاء میں سے ایک ہیں اور اہل سنت کے یہاں علم و زہد و پرہیزکاری کے حوالے سے بہت مشہور ہیں) نے بھی امام جعفر صادقؑ کی شاگردی اور آپ سے علمی اور اخلاقی میدان میں کسب فیض کیا ہے ۔(۱۲) اور امام صادقؑ سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں۔ (۱۳)
(۴) عمر بن مقدام کہتے ہیں کہ ’’جب بھی جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہو جاتا تھا کہ آپ رسول اللہؐ کی نسل سے ہیں۔ (۱۴)
(۵) ابن حجر ہیثمی، امام کی علمی شخصیت کے بارے میں لکہتے ہیں: ’’یحییٰ بن سعید بن جریح، امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور ایوب فقیہ جیسی شخصیتوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ (۱۵)
(۶)جاحظ، تیسری صدی کے نامور علما میں جن کا شمار ہوتا ہے لکھتے ہیں ’’امام صادقؑ ایک ایسی علمی شخصیت تھی جن کے علم و فقاہت کا چرچا پوری دنیا میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری آپ کے شاگردوں میں سے تھے جو آپ کی عظمت علمی کے بیان کے لئے کافی ہے۔ (۱۶)
(۷)ابو زہرہ، ’’الامام الصادقؑ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’علماء اسلام باوجودیکہ مختلف نظریات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے اختلاف رأی رکھنے کے باوجود امام صادقؑ کے علمی مقام و عظمت اور بزرگی کے بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ (۱۷)
(۱۲) قاہرہ یونیورسٹی، میں شعبہ ادبیات کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حنفی، عراقی دانشمند اسد حیدری کی کتاب ’’الامام اصادقؑ والمذاہب الاربعۃ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا کہ میں تاریخ فقہ و علوم اسلامی میں محقق کی حیثیت رکھتا ہوں ار زمانۂ تحقیق سے نسل نبوت کی پاک و پاکیزہ اور با کرامت اور علمی شخصیت حضرت امام جعفر صادقؑ نے مجھے بے حد متأثر کیا۔ میرا عقیدہ ہے حضرت ترقی پسند رہبروں میں سے تھے اور آپ اسلامی علوم کے موجد اور سب سے ذمہ دار مفکر ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور سنی دانشمندوں کا مرکز رہے ہیں اور رہیں گے۔ (۱۸)
(۹) حسن بن وشاء، ایک مشہور اسلامی متکلم اور فلسفی کہتے ہیں: میں نے اس مسجد کوفہ میں نو سو سے زیادہ ایسے اساتذہ دیکھے ہیں جو کہا کرتے تھے ’’حدثنی جعفر بن محمدؑ‘‘ہم سے جعفر بن محمدؑ نے حدیث بیان کی ہے(۱۹)
(۱۰) قاموس الاعلام، کے مؤلف ’’امسترش‘‘ دائرہ المعارف نامی کتاب میں لکھتے ہیں جعفر بن محمدؑ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں آپ امام محمد باقرؑ کے سب سے بڑے فرزند تھے علم و فضل میں یگانۂ زمان تھے آپ کے درس میں امام ابو حنیفہ نے زانوئے ادب تہہکیا اور آپ کے ظاہری اور باطنی علوم سے فیض حاصل کیا امام جعفر صادقؑ علم الجبرا و کیمیا اور ان کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی تبحر رکھتے تھے جن وگوں نے آپ کی صحبت سے کسب فیض کیا ہے ان میں ’’الجبرا‘‘ کے مشہور ماہر جابر بن حیان بھی تھے۔ (۲۰)
(۱۱) فرید و جدی، لکھتے ہیں امام جعفر صادقؑ کا خانۂ علم و دانش روزانہ عظیم دانشوروں سے پر رہتا تھا علماء اور دانشمند حضرات آپ سے حدیث، تفسیر، فلسفہ و علوم کلام کا درس حاصل کرتے تھے اکثر اوقات ان کی تعداد دو ہزار ہوتی تھی اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علماء آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے۔ (۲۱)
(۱۲) بطرس بستانی، کا بیان ہے کہ ’’امام جعفر صادقؑ سادات اور بزرگان اہل بیتؑ میں سے تھے۔ راستگوئی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق قرار پایا۔ ان کا فضل و شرف بہت عظیم ہے۔ علم کیمیا اور جبر میں آپ کے خاص نظریات ہیں۔ آپ کے مشہور شاگرد جابر بن حیان نے ایک کتاب لکھی ہے جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ (۲۲)
(۱۳) منصور دوانیقی، جو امام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا لیکن اسے بھی اعتراف ہے کہ امام صادقؑ خیر و برکات اور نیکیوں کے ویسے ہی پیشرو تھے جس طرح قرآن نے فرمایا ہے۔ (۲۳)
(۱۴) شیخ مفید، لکھتے ہیں ’’امام جعفر صادقؑ رسول اکرمؐ کے پر وقار اور با عظمت فرزندوں میں سے تھے آپ کے مانند کسی دوسرے سے اس قدر علوم و آثار و احادیث نقل نہیں ہوئے۔ آپ سے جن لوگوں نے حدیث نقل کی ہے ان کی تعداد چار ہزار افراد بتائی جاتی ہے۔ (۲۴)
حضرت کے بارے میں دانشمندوں کے تمام اقوال نقل کرنے کیل لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
پوری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ امام صادقؑ جیسی علمی شخصیت نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ و فقاہت میں ان سے بڑا بھی ہوگا۔
حوالے:
۱) اصول کافی، ج،۱ ،ص،۹۸، محمد یعقوبی کلینی ترجمہ و شرح محمد باقر کمرہ ای انتشارات اسوہ چاپ سوم، ۳۷۵ش ’’کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم و المتعلم۔
۲)جیسے القواعد الفقہیہ میرزا حسین بجنوردی، والقواعد والفواید، شہید اول
۳)اصول کافی ج،۱ ص،۲۰۰-۲۰۲، کتاب فضل العلم باب الأخذ بالسنّہ و شواہد الکتاب
۴) امام صادقؑ پیشوا و رئیس مذہب ص،۱۰۸، عقیقی بخشایشی، سازمان تبلیغات اسلامی چاپ ۸ ۱۳۹۰ھ
۵) اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۵
۶) اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی) ص،۱۲۸، رجال طوسی ص،۱۴۲- ۳۴۲ مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ۱۳۸۰ھ
۷) عقایقی بخشایشی، امام صادقؑ پیشوا و رئیس مذہب ص،۳۰
۸) الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱، ص،۵۳، دار الکتاب العربی، بیروت، چاپ،۲ ۱۳۹۰ھ؛ الامام المالک (ابو زہرہ) ص۹۴-۹۵ دار الفکر العربی، بی تا، مصر
۹) تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، ج،۱ ص،۱۶۶، دار احیاء التراث العربی، بی تا؛ الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، ص،۲۲۴ج،۱، بحوالہ جامع اسانید ابی حنیفہ، ج،۱ ص،۲۲۲؛ والامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰ دار الفکر العربی، چاپ مصر، بی تا
۱۰) امام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۲ ص،۵۳
۱۱) الامام الصادقؑ(ابو زہرہ) ص،۲۲۴، الامام ابو حنیفہ (ابو زہرہ) ص،۷۰
۱۲) تذکرۃ الحفاظ ج،۱ ص۱۹۷
۱۳) ادوار فقہ ج،۳ ص،۵۷۶ محمود شہابی چاپ دوم وزارت ارشاد و فرہنگ اسلامی ۱۳۶۸ھ
۱۴) تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی ج،۲ ص،۸۸ دار الفکر بیروت چاپ اول ۱۴۰۴ھ
۱۵) الصواعق المحرقہ ابن حجر ھیثمی ص،۱۰۲ مکتبۃ القاہرہ مصر چاپ دوم ۱۳۸۵ھ
۱۶) رسائل الجاحظ ص،۱۰۶،الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۵۵، الامام الصادقؑ (ابو زہرہ ص،۳۶
۱۷) مام الصادقؑ (ابو زہرہ) ص،۶۶
۱۸)الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ اسد حیدری ج،۲ ص،۵۳
۱۹) الملل و النحل عبد الکریم شہرستانی ج،۱ ص،۱۳۲ بحوالۂ تاریخ کوفہ
۲۰) دائرۃ المعارف ج،۳ ص،۱۸۲۱، سترش
۲۱) دائرۃ المعارف فرید وجدی ج،۳ ص،۱۰۹
۲۲)دائرۃ المعارف، فریدی وجدی ج،۶ ص،۴۶۸
۲۳) تاریخ یعقوبی، ج،۳ ص، ۱۱۷، دار صا بیروت، بی تا
۲۴) الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی عبادہ، محمد بن محمد بن نعمان (شیخ مفید) ج،۲ص،۱۷۹ مؤسسہ آل البیتؑ قم ۱۴۱۳ھ ، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ ج،۱ ص،۶۹۔
- مؤلف:
- محمود حسین حیدری
- ذرائع:
- مجلہ :آئنیہ
٭٭٭٭٭
موجودہ مسائل اور مشکلات کو خلوص ، مجاہدت اور تلاش و کوشش سے حل کیا جاسکتا ہے
مہر خبررساںایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: موجودہ مسائل اور مشکلات کو خلوص ، مجاہدت اور تلاش و کوشش سے حل کیا جاسکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے آج حسینہ امام خمینی (رہ) میں ایرانی پارلیمنٹ کی تاسیس کی مناسبت سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے انقلابی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کی اکثریت انقلابی افراد پر مشتمل ہے۔ انقلابی ہونا اور انقلابی بننا آسان ہے لیکن انقلابی باقی رہنا بڑا مشکل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم حقیقت بیان کرتے ہیں بعض لوگ اس سے خوشحال ہوتے ہیں اور بعض ناراض ہوتے ہیں۔ ہم نے سپر انقلابی افراد کو بھی دیکھا ہے جو بعد میں منحرف ہوگئے اس لئے نمائندوں کے لئے انقلابی باقی رہنا اہمیت کا حامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی تینوں قوا کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ برسوں میں تینوں قوا کے درمیان عدم ہم آہنگی رہی ہے جس سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ قوہ مقننہ ، مجریہ اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے اس سے ملک کی پیشرفت اور ترقی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے فرعی اور اصلی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب تک اصلی مسائل موجود ہیں تب تک فرعی مسائل کی نوبت نہیں آتی ۔ پہلے اصلی مسائل کو حل کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ ملکی مسائل کو اصلی اور فرعی میں تقسیم کرنا چاہیے۔ اصلی مسائل کے ہوتے ہوئے فرعی مسائل کی طرف جانا جائز نہیں ہے۔ ملک کے موحودہ مسائل اور مشکلات کو خلوص ، مجاہدت اور تلاش و کوشش کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے۔
مغربی طاقتیں شیعہ اور اہلسنت کے درمیان تفرقہ اور اختلاف ایجاد کرنے کے درپے ہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے متولی آیت اللہ سید محمد سعیدی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں منعقدہ ایران کے صوبہ کردستان کے اساتذہ اور یونیورسٹیز اور حوزہ علمیہ کی مربی خواتین کے ساتھ ایک ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: آپ جس علاقے میں ہیں وہ مذہب اور قرآن و سنت کی مختلف تشریحات کے لحاظ سے انتہائی حساس اور اہم علاقہ شمار ہوتا ہے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل میں مختلف نسلی گروہوں اور مذاہب کے کردار اور مرحوم امام (رح) اور انقلاب اسلامی کے اہداف اور نظریات کے حصول کے لیے ان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: حضرت امام خمینی (رح) نے جو کچھ مکتبِ اہل بیت علیہم السلام سے سیکھا تھا اسی بنیاد پر انہوں نے ایسا کام کیا کہ لوگوں کا اتحاد و اتفاق برقرار رہے۔
حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے متولی نے کہا: ہم انقلاب اسلامی کی فتح کو کسی خاص دھارے کے مرہون منت نہیں کہہ سکتے چونکہ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے کچھ حصے اپنے مذہب کی بنیاد پر کسی اور راستے پر بھی جا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے آپس میں اتحاد و یگانگی سے اس تحریک کو فتح تک پہنچایا۔
انہوں نے کہا: انقلاب ِ اسلامی کی کامیابی کے بعد جب دفاع مقدس کا وقت ہوا تو دشمنوں نے میدان جنگ اور اندرون ملک اس باہمی اتحاد کی صفوں کو پارہ پارہ کرنے اور شیعوں اور سنیوں کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن دنیا شاہد ہے کہ ہمارے سنی بھائیوں نے دفاعِ مقدس میں کس طرح اس نظام اور انقلاب کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور شہید ہوئے۔
آیت اللہ سعیدی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دشمن بالخصوص انگریز و مغربی طاقتیں شیعہ اور اہلسنت کے درمیان تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کے درپے ہیں، کہا: اہل سنت سے سامنا کرتے وقت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت ایسی تھی کہ وہ انہیں اپنی طرف جذب کیا کرتے تھے ایسے تھے اور حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے مکتب میں اہلسنت کی میزبان ہوا کرتےاور وہ سب بھی امام علیہ السلام کی درسگاہ سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے اور ان کی نمازِ جماعت اور ان کے جنازوں میں شرکت کیا کرتے اور ان کے بیماروں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔
انہوں نے کہا: رہبر معظمِ انقلابِ اسلامی نے بھی دوسروں کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے اور ان سے دوری نہ اختیار کرنے پر تاکید فرمائی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان اور طرز عمل سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے کیونکہ ضد اور اختلافاتی مسائل کو چھیڑنا اور ایک دوسرے کو مذہبی مسائل پر اکسانا درست نہیں ہے اور آج عالم اسلام پر باہمی اختلافات پیدا کرنے کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
امام جمعہ قم نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمیں اندھے تعصب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے ساتھ اپنے سلوک میں اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و آداب کی پیروی کرنی چاہیے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے سفارش کی کہ "اللہ تعالیٰ اس بندے پر اپنی رحمت فرمائے جو ہمیں لوگوں میں محبوب و مقبول بنائے اور ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ ہم سے دور ہوں"۔
انہوں نے مزید کہا: جو مبلغین شیعہ اور سنی مشترکہ علاقوں میں موجود ہیں انہیں سنیوں کے ساتھ مل کر اتحاد قائم کرنا چاہیے اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو اچھی طرح اور خوش اخلاقی سے فروغ دینا چاہیے اور کسی سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہر کوئی ان کی باتوں کو قبول کرے گا بلکہ ہر حال میں اپنے درمیان اتحاد و وحدت کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ اتحاد وقت کے اہم ترین فرائض اور ضروریات میں سے ایک ہے۔
امریکی گن کلچر نے پھر ستم ڈھایا، اسکول میں فائرنگ، 18 بچے جاں بحق
امریکی ریاست ٹیکساس کے اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں اٹھارہ کمسن بچوں سمیت اکیس افراد ہلاک ہوگئے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ملزم کی فائرنگ سے دو سیکورٹی اہلکاروں سمیت چودہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسکول میں فائرنگ کرنے والے اٹھارہ سالہ نوجوان سیلواڈور راموس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
بعض ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد اکیس جبکہ بعض نے انیس بتائی ہے۔ مرنے والوں میں اٹھارہ اسکولی بچے اور ایک ٹیچر شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسکول میں فائرنگ سے پہلے حملہ آور کا بارڈر پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق فائرنگ کے بعد اٹھارہ برس کا حملہ آور اسکول میں چھپ گیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکہ میں فائرنگ کی وارداتوں میں سالانہ کئی ہزار افراد ہلاک و زخمی ہو جاتے ہیں۔ اسلحے کی خرید و فروخت اور اُسے کھلے عام لے کر پھرنے کی آزادی کو امریکہ میں فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات میں اضافہ کی اہم وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے قانون ساز ادارے طاقتور اسلحہ لابی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے تاحال، گن کنٹرول قوانین وضع کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
ایرانی صدر کے دورہ مسقط پر ایک جھلک؛ عمان اور پڑوسی سفارت کاری کے سائے میں شراکت داری کا نیا باب
ارنا رپورٹ کے مطابق، سید ابراہیم رئیسی 23 مئی بروز پیر کو بادشاہ عمان کی سرکاری دعوت پر ایک اعلیٰ سیاسی و اقتصادی وفد کی سربراہی میں دارالحکومت مسقط پہنچ گئے جہاں "ہیثم بن طارق آل سعید" نے ان کا پرتپاک استقبال کیا؛ مسقط کے دورے کو 13ویں حکومت کی پڑوسی پالیسی کے نفاذ میں ایک نیا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسی پالیسی جو دنیا کے ممالک بالخصوص اپنے پڑوسیوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات میں ایران کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہو۔
مسقط میں صدر رئیسی کا پرتباک استقبال
جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کو لے جانے والا طیارہ مسقط ائیر پورٹ پراترا وہاں بادشاہ عمان حاضر تھے۔ نیز پروٹوکول کے برعکس استقبالیہ کا طریقہ؛ جیسا کہ قطر کے ایرانی صدر کے دورے اور اس ملک کے امیر کے استقبال کے دوران ہوا تھا؛ یہ سب کے سب صدر رئیسی کے دورہ عمان کی کامیابی کی علامت ہے۔
ایرانی صدر مملکت، بادشاہ عمان کے مہمان کے طور پر پیر کی صبح مسقط کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے جہاں عمانی وزیر خارجہ نے اعلی ایرانی حکام کے لیے ایک پروقار استقبالیہ تقریب میں شرکت کی جس کے بعد صدر کا سرکاری طور پر العلم محل پر آل سعید کا استقبال ہوا اور دونوں فریقین نے مذاکرات کیے۔
استقبالیہ تقریب کا اختتام صدر اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کے اعزاز میں 21 توپوں کی فائرنگ سے ہوا اور آیت اللہ رئیسی نے سلطان عمان محل میں ایک ضیافت میں شرکت کی۔
پھر ایرانی اور عمانی وزراء اور وفود کی دو طرفہ ملاقاتوں کے دوران، سیاسی، نقل و حمل، سفارتی، اقتصادی اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون سے متعلق 12 دستاویزات پر ایران اور عمان کے وزرائے خارجہ، تیل، صنعت، تجارت اور کان کنی کے امور، مواصلات اور شہری ترقی و نیز دونوں ممالک کی تجارتی ترقیاتی تنظیموں کے سربراہوں نے دستخط کیے۔
ایرانی صدر نے عمان کے نائب وزیر اعظم "فہد بن محمود آل سعید" کے ساتھ ملاقات میں طب اور صحت کے شعبے میں ایران کو ملک کے عوام کے لیے ایک اچھا آپشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کیخلاف ہر شعبے میں پابندیاں لگائی گئی ہیں اس نے ان شعبوں میں نمایان ترقی کی؛ جن میں دو شعبوں کا جوہری اور طب بھی شامل ہے۔
عمانیوں نے روایتی طور پر ایک خوبصورت تلوار آیت اللہ رئیسی کو پیش کی، جیسا کہ مہمان نوازی کا رواج ہے۔ فہد بن محمود آل سعید کے تبصرے اور ایران کی ہزار سالہ تہذیب کا حوالہ اور میٹنگ روم میں موجود قالین ہمارے ملک کے صدر اور عمان کے نائب وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات کی چند دلچسپ پہلو تھیں۔
عمان میں ایران چیمبر آف کامرس کا قیام
صدر رئیسی نے مسقط میں مقیم ایرانیوں سے تہران میں تجارت کی سطح کو بہتر بنانے کے بارے میں بات چیت کی اور عمان میں مقیم ایرانیوں اور عمانی اقتصادی کارکنوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو آسان بنانے پر زور دیتے ہوئے اس سلسلے میں ایک اہم فیصلے سے پردہ اٹھایا؛ عمان میں جلد از جلد ایران چیمبر آف کامرس کا قیام، جس کے آغاز سے ایران اور عمان کی باہمی صلاحیتوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ نیز انہوں نے عمانی تاجروں اور اقتصادی کارکنوں سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے لیے کسٹم کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی کوششوں کا اعلان کیا۔
اختتامی بیان میں ایران اور عمان نے تہران اور مسقط کے درمیان نئی اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے اس سفر کو دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تاریخی تعلقات پر مبنی قرار دیا جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان مستحکم دو طرفہ تعلقات اور باہمی احترام کو مضبوط بنانا ہے۔
صدر رئیسی نے تہران سے روانگی سے قبل مہرآباد ایئرپورٹ پر کہا کہ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ تعلقات کی سطح کو بہتر بنایا جائے؛ انہوں نے مزید کہا میرے دورہ عمان کا مقصد سابقہ دوروں کی طرح، ہمسائیگی کے اصول کی بنیاد پر خارجہ تعلقات کو فروغ دینے کا ہے۔ نیز وطن واپسی پر انہوں نے واضح کیا کہ تهران اور مسقط کے موقف بہت سے معاملات پر کافی حد تک متفق ہیں۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری اور خدمات، کام اور روزگار، ماحولیات اور کھیلوں کے شعبوں میں تکنیکی تعاون کے شعبوں میں تعاون کے پروگرام تیار کئے۔ انہوں نے سفارتی مطالعات اور تربیت، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق اور ایجادات، تیل اور گیس، نقل و حمل، لائیو سٹاک اور ماہی گیری، فصلوں کے تحفظ اور قرنطینہ، میٹرولوجیکل تصریحات اور مطابقت کی تشخیص کے شعبوں میں مشترکہ یادداشتوں پر بھی دستخط کیے۔
ایران اور عمان کے تعلقات کی اہمیت
ایران طویل عرصے سے خلیج فارس کے ممالک بالخصوص عمان کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دوطرفہ سیاسی تعلقات، علاقائی اور بین علاقائی مسائل ہمیشہ سے زیادہ اہم رہے ہیں۔
ایرانی کسٹم کے ترجمان سید "روح اللہ لطفی" نے صدر کے دورہ عمان کے موقع دونوں ممالک کے درمیان نان آئل تجارت کے بارے میں کہا کہ گزشتہ سال کے دوران، عمان کے ساتھ ایران کی نان آئل کی تجارت کی مالی شرح 1 ارب 335 ملین 500 ہزار ڈالر تھی جو 4 ملین 390 ہزار ٹن سامان پر مشتمل تھی، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے وزن میں 27 فیصد اور قیمت میں 53فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اس تجارت میں عمان کو ایران کی برآمدات کا حصہ 2 ملین 283 ہزار ٹن ایرانی سامان تھا جس کی مالیت کی شرح 716 ملین ڈالر تھی جس کے وزن میں 14 فیصد اور قدر میں 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے؛ نیز عمان سے ایران کی درآمدات یک ارب 907 ملین ٹن سامان تھی جس کی مالیت 619 ملین 500 ہزار ڈالر تھی جس کے وزن میں 49 فیصد اور قیمت میں 43 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایرانی وزیر برائے مواصلات اور شہری ترقی "رستم قاسمی" نے جو صدر مملکت سے ایک روز قبل عمان کا دورہ کیا تھا، نے بھی ایران اور عمان کے درمیان نقل و حمل کے شعبے میں معاہدوں پر دستخط کرنے کا اعلان کیا جس میں دونوں ممالک کے درمیان شپنگ لائن کے قیام اور سیاحتی پروازیں شامل ہیں۔
اس سلسلے میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر "جعفر قنادباشی" نے کہا کہ عمان ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے اور کہا کہ یہ ملک ہماری اشیا کے لیے بہت اچھا رسیور ہو سکتا ہے اور اور دونوں ممالک کے تعلقات برآمدات اور تجارت کی خامیوں کو دور کر سکتے ہیں۔
پچاس سال کے پرامن اور پرامن سیاسی تعلقات نے مسقط کو تہران کے لیے ایک قابل اعتماد پڑوسی اور شراکت دار بنا دیا ہے جس پر تاریخی حوالوں سے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ایران کے سلسلے میں مغرب کے اثر و رسوخ کی کمی اور ایک طرف مغربی پڑوسی کے ساتھ مشترکہ مفادات اور دوسری طرف خطے کی ضروریات کو سمجھنا اس اعتماد کو بڑھانے میں موثر تغیرات ہیں۔
عمان کا نام ایرانی سیاسی ادب میں ثالثی کے تصور کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ایرانیوں میں اس ملک کے بارے میں مثبت نظریہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کاروں نے صدر کے دورہ مسقط کو جوہری مذاکرات اور جوہری معاہدے کی بحالی کے سلسلے میں تشخیص کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ سیاسی اعتماد، جو کہ صدر رئیسی کے مطابق، ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، بہتر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور علاقائی اور بین علاقائی غلط فہمیوں کو دور کر سکتا ہے۔
ہر ملاقات میں مشرق وسطیٰ اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک کے صدور اور حکام کی دو طرفہ ملاقاتوں کا ایک اہم حصہ اس جغرافیہ کے نامکمل مسائل کا جائزہ ہے۔
بادشاہ عمان اور ایران کے صدر کے درمیان حالیہ چیت میں بھی خطہ، پہلی ترجیح رہا۔ جنوب مغربی ایشیا بین علاقائی مداخلتوں کے سنڈروم کا شکار ہے اور خطے کے ممالک کے تعاون کے بغیر اس مصیبت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔
خطے کے ممالک کے درمیان بعض غلط فہمیوں سے صیہونی ریاست کی منافع خوری، امریکہ کے درمیان اختلافات کے ساتھ ساتھ اس بیماری کی ایک وجہ ہے۔
بادشاہ عمان یا قطر کے امیر اس مرض کی نشوونما کو خطے کے ممالک کی دوستی کے سائے میں دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہیثم بن طارق آل سعید نے ایرانی صدر سے ملاقات میں کہا کہ کہ ہم پڑوسی ملک اور برادر ملک ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اورہ رئیسی نے بھی آل سعید کا ہاتھ ہلا کر عمان کو ایران کے لیے ایک ایماندار اور قابل اعتماد پڑوسی سمجھا۔
مسقط میں تعینات ایرانی سفیر "علی نجفی خوشرودی" نے کہا کہ عمان اپنے خارجہ تعلقات میں متوازن پالیسی پر عمل پیرا ہے؛عمان نے مختلف اوقات میں مختلف مسائل اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی اصولی پالیسی کے مطابق اس طرح کے تعمیری کردار کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ مشاورت اور تعاون خطے میں مسائل اور مسائل کو کم کرنے اور خطے میں امن، سلامتی اور اقتصادی خوشحالی کو مضبوط بنانے میں مزید مددگار ثابت ہوگا۔
ایرانی تیرہویں حکومت میں پڑوسی سے تعلقات کے فروغ کی پالیسی کا نفاذ
تاجکستان، ترکمانستان، روس، قطر اور اب عمان گزشتہ نو مہینوں میں صدر کے پانچ غیر ملکی دوروں کی منزلیں رہے ہیں، دو ہمسایہ دارالحکومتوں، دو خطے کے ممالک اور ایک اسلامی جمہوریہ کے اتحادی کے طور پر روس کا دورہ؛ ان سب میں پوشیدہ مقصد اور محرک ایک چیز تھی: اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کی صلاحیتوں کو بروئے لانے سمیت مغرب اور امریکہ کے اقدامات کیلئے انتظار اور تاخیر کا خاتمہ۔
ویانا اور کوبرگ سے کسی معجزے کی آمد کے بیکار انتظار کی جگہ کو متحرک سفارت کاری نے لیا ہے اور یہ پڑوسیوں، خطی اور غیر خطی دوستوں کے ساتھ ایک ترجیح ہے۔
ایرانی صدر صدر کے بقول، "دنیا خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ، تعلقات کے بارے میں ایران کا نقطہ نظر، کوئی حکمت عملی کا مسئلہ نہیں بلکہ اسٹریٹجک مسئلہ ہے" ایک ایسا نقطہ نظر جس کا ہمسایہ ممالک نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔
قطر کے امیر شیخ "تمیم بن حمد آل ثانی" کا مئی میں تہران کا دورہ اور اس سفر کی کامیابیوں سے واپسی پر ان کا اطمینان، ہمارے وزیر خارجہ" حسین امیر عبداللہیان" کی اپنے علاقائی ہم منصبوں کے ساتھ متعدد مذاکرات اور مختلف مشاورتیں، سیاسی امور کے نائب وزیر خارجہ "علی باقری" کی ایران قطر سیاسی مشاورتی کمیٹی کے دائرہ کار میں قطری وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل "احمد بن حسن الحمادی" سے ملاقات اور باہمی تعلقات کے فروغ پر زور سے خطے کے ممالک کی صورت حال کا ادراک ظاہر ہوتا ہے۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے خلیج فارس کے امور "علیرضا عنایتی" نے ارنا سےایک انٹرویو میں۔ ایران اور خلیج فارس تعلقات کی ترقی کے لیے وسیع تر اقدامات اور صلاحیتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا یقین ہے کہ اہم علاقائی مسائل کا حل سیاسی مذاکرات اور سیاسی حل سے ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیرہویں حکومت کے بعد سے ہم نے خلیج فارس ریاستوں کے ساتھ اقتصادی، قونصلر اور سرحدی تعلقات کی توسیع کے حوالے سے بات چیت کی ہے اور ہم ان مذاکرات پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعمیری اور موثر کردار ادا کرنے والے ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے سیکشن میں، ہمارے ملک کے صدر اور عمان، کویت، قطر اور عراق کے صدور کے درمیان اچھی بات چیت ہوئی۔