
سلیمانی
برباد ہوئی آرزوئیں
غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی کابینہ نے حزب اللہ لبنان کے خلاف مسلسل شکست کے بعد آخرکار کل رات جنگ بندی کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ لبنان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں صیہونی حکمران دعوی کر رہے تھے کہ ان کا مقصد دریائے لیتانی تک کے علاقے پر فوجی قبضہ برقرار کرنا ہے، لیکن تقریباً ڈیڑھ ماہ کی جنگ میں شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی صیہونی فوج کوئی خاص پیشقدمی نہ کر سکی اور آخرکار صیہونی رژیم جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ لبنان اور صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی آج بروز بدھ 27 نومبر 2024ء سے لاگو ہو گئی ہے۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 60 دنوں میں مرحلہ وار لبنان کے علاقوں سے باہر نکل جائے گی۔
لبنان سے جنگ بندی کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے اور اندرونی حلقوں کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے یہ دباو کم کرنے کے لیے اور یہودی آبادکاروں کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ قطر کے الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے: "لبنان سے جنگ بندی کا مقصد ایران سے درپیش خطرات پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور ہم نے ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔" بنجمن نیتن یاہو نے غزہ اور لبنان میں اپنی کابینہ کی سیکورٹی اور سیاسی ناکامیوں کا ذکر کیے بغیر کہا: "اپنے تمام تر اہداف کے حصول تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔" نیتن یاہو نے گذشتہ چند ماہ کے دوران بارہا کیے گئے دعوے کو ایک بار پھر دہرایا اور کہا کہ حماس کی نابودی جاری رکھیں گے۔
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں یہودی بستیوں کے میئرز سے بھی ملاقات کی ہے جو لبنان سے جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ صیہونی اخبار ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ملاقات اس وقت انجام پائی جب ان میئرز نے لبنان سے جنگ بندی پر شدید تنقید کی۔ صیہونی کابینہ میں شامل کچھ اعلی سطحی حکام جیسے وزیر جنگ اور صیہونی فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ صیہونی کابینہ کی جانب سے جنگ بندی قبول کر لینے پر لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں کافی زیادہ ردعمل سامنے آئے ہیں۔ لبنان میں نگران حکومت کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا: "جنگ بندی کے اعلان کے بعد بیروت پر جارحانہ حملے صیہونی دشمن کا کینہ اور نفرت ظاہر کرتے ہیں۔"
حزب اللہ لبنان کی سیاسی کاونسل کے نائب سربراہ محمود قماطی نے جنگ بندی کے لیے امریکہ کی پیش کردہ شرائط کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں کچھ نکات غلط ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ ان کا نتیجہ لبنان کی خودمختاری متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: "یہ بات ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم ہماری سرحدوں کے اندر آزادانہ فعالیت انجام دے۔" انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی مذاکرات میں مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور ہر گز اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے۔ دوسری طرف لبنان پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ محمد رعد نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر ایسی پیشکش قبول کریں گے جس میں لبنان کی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا۔
صیہونی رژیم کے داخلہ سیکورٹی کے وزیر اتمار بن غفیر نے لبنان سے جنگ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے سے جنگ کا وہ مقصد پورا نہیں ہو گا جس کے تحت اسرائیل کے شمالی حصوں سے جلاوطن یہودی آبادکاروں کی واپسی یقینی بنانا تھا۔" اتمار بن غفیر نے کہا: "لبنان سے جنگ بندی ایک تاریخی غلطی ہے۔" اسی طرح صیہونی رژیم کے اپوزیشن سربراہ یائیر لاپید نے کہا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو حزب اللہ لبنان سے جنگ بندی پر مجبور ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ حزب اللہ سے جنگ بندی ہماری رفتہ آبرو واپس نہیں لا سکتی اور غزہ سے یرغمالیوں کی آزادی اور شمالی علاقوں سے جلاوطن آبادکاروں کی واپسی ممکن نہیں بنا سکتی۔ لاپید نے مزید کہا: "اسرائیلی کابینہ جنگ بندی پر مجبور ہو گئی ہے اور فوجی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سیاسی کامیابی میں تبدیل نہیں کر پائی۔"
یورپ یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزپ بوریل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لیے دباو ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور فرانس نے اسرائیلی حکمرانوں کو سیکورٹی ایشوز پر مکمل یقین دہانی کروائی ہے لہذا اب ان کے پاس لبنان سے جنگ بندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔ جوزپ بوریل نے کہ کہ جنگ بندی معاہدے کا مسودہ امریکہ نے تیار کیا ہے اور جنگ بندی کمیٹی کی سربراہی بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ فرانس بھی لبنان کی درخواست پر اس کمیٹی میں شامل ہو گا۔ صیہونی رژیم ٹی وی کے چینل 12 نے جنگ بندی کی شرائط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے عمل کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس چینل کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیل کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا جو قابل قبول نہیں ہے۔
تحریر: محمد افضلی
حضرت حجر بن عدی رضوان اللہ تعالی علیہ کا مرقد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر (حا کو ضمہ اور جیم کو ساکن کے ساتھ) بن عدی الکندی کا مقبرہ شہر دمشق کے شمال مشرق میں واقع مرج عذراء شہر میں موجود ہے۔ اور یہ دمشق سے ۳۰کلومیٹر کے فاصلہ پر حمص کی طرف جانے والی سڑک کے دائیں جانب واقع ہے۔ یہ غوطہ دمشق ( دمشق کا وہ خوبصورت مقام جو باغات، میوہ جات، اور پھولوں کی کثرت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے) کا ایک چھوٹا سا قریہ ہے۔ اسے عذاراء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے باشندے دشمنوں کے شرو اور مکروفریب سے محفوظ رہے۔
اس خوبصورت وادی میں بھورے رنگ کے میناروں کے ساتھ ایک بلندوبالا گنبد دیکھائی دیتا ہے جو درحقیقت حجر بن عدی اور آپ کے باعظمت ساتھیوں کی قبور ہیں، اس مقبرہ کا صحن بہت ہی خوبصورت اور وسیع ہے جس کی چاروں اطراف اور تمام دیواریں قیمتی تحائف سے مزین ہیں، اس کی زمین قیمتی اور خوبصورت قالینوں اور جائےنمازوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
مزاحمتی محاذ کے قائدین کی شہادت کے آثار از رہبر انقلاب
شہیدوں کی راہ جاری رہے گی!
استقامتی محاذ کے علمبردار اور مظلوموں کے بہادر محافظ کی شخصیت کا اثر ان کی شھادت کے بعد مزید پھیلے گا۔
جدوجہد میں تیزی آئے گی!
خطے کی اقوام اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد ان کی شھادت کے پیغام یعنی اللہ پر زیادہ سے زیادہ توکل، زیادہ مضبوط اتحاد، صیہونی دشمن کی شکست اور اس کی نابودی تک بنا کسی تردد کے زیادہ طاقت سے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
مومنین کا آپس میں اتحاد، کامیابی کی ضمانت!
آپس میں لگاؤ، ھمدلی اور تعاون پر مبنی مسلمانوں میں دوستی، اللہ کی طرف سے حکیمانہ و کریمانہ مدد کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں دشمنوں پر کامیابی ملے گی اور اس راہ میں آنے والے موانع برطرف ہوں گے۔
ذکر و شکر، روحانی زندگی کے دو اہم ستون
یاد خدا سے غافل نہ ہوں!
ذکر یعنی یاد خدا، یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔ دعا ومناجات اور تلاوت قرآن سے دور نہ ہوں۔ میں ہمیشہ قرآن سے انسیت کی تاکید کرتا ہوں۔ قرآن کی معرفت حاصل کریں۔ اس سے آپ کو اس عظیم راہ میں بہت مدد ملے گی۔
شکر یعنی نعمتِ خدا کی شناخت!
شکر یعنی خدا کی نعمتوں کو پہچانیں اور انہیں فراموش نہ کریں۔ آپ کو خدا سے عظیم نعمتیں ملی ہیں۔ ایک ایسے نظام کی نعمت جس نے ظلم، سامراج، زور زبرستی، اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جدوجہد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ عظیم ترین نعمت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نعمتیں بھی ہیں۔
معصومینؑ کی دعاؤں میں ذکر و شکر!
مختلف دعاؤں میں یہ جملہ آیا ہے کہ:“لاتجعلنی ناسیا لذکرک فیما اولیتنی ولا غافلا لاحسانک فیما اعطیتنی”۔ (اے خدا جو کچھ مجھے عطا کیا ہے یا مجھ پر احسان کیا ہے اس میں اپنے ذکر و شکر سے عادل نہ کر)۔احسان الہی سے غلفت نہ کریں؛ خدا کی نعمتوں اور مہربانیوں سے غافل نہ ہوں۔
عہد بندگی ، رہبر معظم
اسلامی اور مغربی ثقافت میں خواتین کی آزادی کا تقابلی جائزہ
اسلامی ثقافت میں مثالی خاتون!
اسلامی نظام میں خواتین کو سیاسی سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔ انہیں گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی دیکھ بھال کے فن کا علم ہونا چاہیے۔ انہیں سماجی، سیاسی، سائنسی اور خدمت کے میدانوں میں تقویٰ، پاکیزگی اور عظمت کا مجسم ہونا چاہیے۔
مغربی ثقافت اور انسان کی پستی!
آج مغربی ثقافت پر غور کریں۔ مرد یا عورت کے وقت کا ایک بڑا حصہ خواتین سے متعلق مسائل، خوبصورتی، میک اپ، فیشن، خواتین کی کشش اور مرد اور عورت کے درمیان موجود جنسی ہوس کے مسئلے کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش میں صرف ہوتا ہے۔
حجاب کی پابندی اور خواتین کی آزادی!
یہ ظاہر ہے کہ مغربی ثقافت میں عورت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے، جو غلط اور خطرناک ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس کے لیے پہلی شرط ان کا حجاب کی پابندی ہے۔ کیونکہ حجاب کے بغیر عورت کو وہ ذہنی سکون حاصل نہیں ہوگا جو اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
عہد زندگی ، آیت اللہ العظمی خامنہ ای
ہم صیہونی حکومت کو جواب دینے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے، ایرانی وزیر خارجہ
سید عباس عراقچی نے منگل کے روز پاسداران انقلاب کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے کمانڈروں اور عملے سے خطاب میں کہا کہ ہم نے وعدہ صادق 3 سے متعلق بتا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ کارروائی ایران کے نقطہ نظر سے ایک نئی یلغار ہے۔ اسرائیل کے اس دعوے کے برعکس کہ اسکی کارروائیاں خود دفاعی ہیں، آپریشن وعدہ صادق 1 و 2 پچھلے حملوں پر ہماری طرف سے دفاعی ردعمل تھے۔ ہم نے عالمی برادری کو باضابطہ طور پر بتا دیا ہے کہ صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت ایک نئی جارحیت ہے اور وہ ہمارے جواب کا مستحق ہے۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور صحیح وقت پر اور جس طرح سے ہم مناسب سمجھیں گے جواب دیں گے۔
عراقچی نے کہا کہ پچھلے 12 مہینوں میں اور اس سے پہلے بھی، ہم بہت ہوشیاری اور تدبر سے کام لیتے رہے ہیں۔ ہمارے فیصلے جذباتی نہیں ہیں اور دشمن کی ممکنہ سازشوں سمیت تمام حالات اور امکانات پر غور کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ ہم نے بروقت اور انتہائی ہوشیار اور منظم انداز میں جواب دیا اور جنگ کی آگ کو بھڑکنے سے روک دیا، برخلاف اسکے اسرائیل اس تنازع میں امریکہ کے پاؤں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس مسئلے کو سفارت کاری کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دشمن کو حساب کتاب سے جواب دیں گے تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ اگر وہ اسلامی جمہوریہ پر حملہ کریں گے تو ان کا جواب نہیں ملے گا۔ اگر ہم دشمن کو یہ تاثر دیتے ہیں تو ہم نے کسی نہ کسی طرح انہیں مزید حملہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اور یہ ردعمل صحیح وقت پر تدبیر اور حکمت کے ساتھ کیا جائے گا۔
عراغچی نے مزید کہا کہ جو چیز جنگ کے وقوع کو روکتی ہے وہ دراصل جنگ کی تیاری ہے۔ واضح رہے کہ اگر خوف کی معمولی سی علامت بھی ایسی صورت حال میں دکھائی دیتی ہے جہاں جنگ کا خطرہ ہو تو سمجھ لیں کہ جنگ آپ پر طاری ہے۔ جنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی طاقت اور تیاری کا واضح طور پر اعلان کریں اور یہ بتائیں کہ آپ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر چھوٹی سی کمزوری ظاہر ہو جائے جو جنگ کی تیاری کی کمی کو ظاہر کرتی ہو تو تم پر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔ دھمکیاں دینے والے دشمن درحقیقت دوسری طرف سے کمزوری کے آثار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس لیے نازک اور خطرناک حالات میں مضبوط اور ثابت قدم رہنا بہت ضروری ہے تاکہ آپ جنگ کو ہونے سے روک سکیں۔
عالمی یوم اطفال/ غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے: ترجمان وزارت خارجہ
اسماعیل بقائی نے اپنے ایکس پیج پر لکھا کہ 20 نومبر، عالمی یوم اطفال، امن اور سلامتی میں رہنے کے تمام بچوں کے حق کی یاد دلاتا ہے۔ یہ غزہ کے بچوں کے رنج و الم کو یاد کرنے کا موقع بھی ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ غزہ بمباریوں کے تلے، بچوں کے قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک سال کے اندر 17000 فلسطینی بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، ہزاروں بچے غائب ہو چکے ہیں، دسیوں ہزار بچے زخمی ہیں اور بغیر بیہوشی دیے ہوئے ان کے زخمی اعضا کو کاٹا گیا ہے۔ 35000 سے زیادہ یتیم اور ان میں سے بہت سوں کے تمام اہل خانہ شہید ہوچکے ہیں۔ 4000 سے زیادہ بچے بھوک کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بے شمار تعداد کی جان کو بھوک، بیماری، آوارہ وطنی اور ابتدائی ضرورتوں کی قلت کی وجہ سے سنجیدہ خطرہ لاحق ہے۔
اسماعیل بقائی نے اپنے اس پیغام میں لکھا کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی رپورٹر فرانچیسکا آلبانیز نے رپورٹ دی ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سیکڑوں بچوں کو صیہونی حکومت نے اغوا کیا ہے یا پھر یرغمال بنایا ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام اور ان پر تشدد نے انسانیت کے جسم پر گہرے زخم ڈال دیے ہیں اور اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعوے دار اداروں نے ان زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے اپنی بے عملی اور لاپرواہی سے ان گہرے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
اسماعیل بقائی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ دنیا، فلسطینی بچوں پر گھناؤنے مظالم ڈھانے والے مجرموں کی سزا سے رہائی کو ختم کرے۔
حزب اللہ نے تل ابیب میں واقع صیہونی فوج کے جاسوسی کے مرکز کو نشانہ بنایا
اس حملے میں یونٹ 8200 کو نشانہ بنایا گیا جو کہ صیہونی فوج کی خفیہ آپریشنز کی ذمہ دار ہے۔
غاصب فوج کا یہ جاسوسی مرکز لبنان کی سرحدوں سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
حزب اللہ کے اعلان کے مطابق یہ حملہ خاص نوعیت کے میزائل سے کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گلیلوت فوجی مرکز غاصب صیہونی فوج کا انتہائی اہم اور حساس مرکز سمجھا جاتا ہے جہاں فوجی انٹیلی جنس کے مرکز "آمان" اور فوج کا انٹیلی جنٹ سگنل اور سائبر مرکز یونٹ 8200 واقع ہے۔ اس کے علاوہ یونٹ9900 بھی اسی مرکز میں واقع ہے جو کہ ویژول انٹیلی جنس کا مرکز ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ نے منگل کی صبح سے لیکر اب تک 17 کارروائیاں کرکے صیہونی فوج کے مراکز اور صیہونی کالونیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ حملے مسلسل جاری ہیں۔
نامه اعمال کیسی کتاب ؟
آیت 13، سورہ مبارکہ اسراء کی مجموعی آیات میں سے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:«وَ كُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَ نُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً اقْرَأْ كِتابَكَ» اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا ہے، اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جو وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ (اس سے کہا جائے گا:) 'اپنی کتاب پڑھو۔'
اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر انسان کے تمام اعمال، تفصیلات کے ساتھ، ایک کتاب میں درج کیے گئے ہیں، اور قیامت کے دن اگر وہ نیکوکار ہے تو اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر بدکار ہے تو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
یہ کتاب عام کتاب یا دستاویز نہیں ہے، اسی لیے کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ نامۂ اعمال دراصل "انسان کی روح" ہے جس میں تمام اعمال کے اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں، اس کا ہماری روح اور شخصیت پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
قرآنی آیات اور روایات میں نامۂ اعمال کی تفصیل اور تشریح کا بنیادی مقصد تربیتی اثرات پیدا کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ علم ہو کہ ہر وقت ایک ریکارڈر اور کیمرہ اس کے اعمال اور اقوال کو ریکارڈ کر رہا ہے، چاہے وہ خلوت میں ہو یا جلوت میں، اس کے باطن اور ظاہر کو محفوظ کر رہا ہے اور بالآخر قیامت کے دن یہ تمام ریکارڈز ایک عظیم عدالت میں پیش کیے جائیں گے، تو یقیناً ایسا شخص اپنی زندگی میں احتیاط کرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا۔
نامۂ اعمال پر ایمان، جس میں ہر چھوٹا اور بڑا عمل درج ہے، اور ان فرشتوں پر ایمان جو دن رات انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، قیامت کے دن جب یہ نامہ اعمال سب کے سامنے کھول دیا جائے گا اور تمام چھپے گناہ ظاہر ہو جائیں گے، یہ سب باتیں گناہوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح نیکوکاروں کا نامۂ اعمال ان کے لیے باعثِ عزت اور فخر ہوگا، اور اس کا اثر عام ریکارڈنگ یا فلم سے بھی زیادہ ہوگا، اور یہی چیز نیکی کے اعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ البتہ بعض اوقات ایمان کی کمی یا غفلت کے حجاب کی وجہ سے انسان ان حقائق سے دور ہو جاتا ہے، ورنہ اس قرآنی حقیقت پر ایمان ہر انسان کی تربیت کے لیے کافی ہے۔
اکثر صہیونی حماس سے معاہدہ چاہتے ہیں
ایکنا نیوز، نیوز عرب 48 کے مطابق، اسرائیل کی چینل 12 کے سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل جنگ کے باعث صہیونی شہریوں کی ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں۔
اس سروے کے مطابق، 69 فیصد صہیونیوں کا ماننا ہے کہ اس وقت سب سے اہم مقصد غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہے، جبکہ 20 فیصد کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ کو جاری رکھنا سب سے اہم مقصد ہے۔
جب بات نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے موازنے کی آتی ہے، تو بینیٹ نے سروے میں شامل افراد میں سے 37 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ صرف 35 فیصد نے نیتن یاہو کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے بہتر انتخاب سمجھا۔
نیتن یاہو کو اسلامی مزاحمت کا سامنا کرنے میں ناکامی اور غزہ اور لبنان میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے باعث ایک طرف صہیونیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے، اور دوسری طرف غزہ اور لبنان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے سبب انہیں بین الاقوامی عدالت کی طرف سے بھی مذمت کا سامنا ہے۔/