سلیمانی

سلیمانی

صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو فوجی، سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے لحاظ سے ناقابل تلافی شدید ضرب کھانے کے بعد غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف بھیانک جرائم اور ان کے نسلی تصفیے کو اپنا ایجنڈا بنا لیا۔
     

چونکہ 7 اکتوبر کے آپریشن میں صیہونیوں کی سیکورٹی اور انٹیلیجنس برتری، جس پر وہ برسوں سے فخر کرتے چلے آ رہے تھے، پوری طرح مٹی میں مل گئي اس لیے تل ابیب کے حکام نے غزہ میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کے نسلی تصفیے کے علاوہ ایک اور اسٹریٹیجی اختیار کی اور وہ مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، جسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، صیہونیوں نے مزاحمتی محاذ کے کئي رہنماؤں اور کمانڈروں کو شہید کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی مزاحمتی معاشرے کے خلاف ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی مثال نہیں ملتی تاکہ اس معاشرے کو مزاحمتی محاذ سے الگ کر سکیں۔ ان جرائم میں غزہ کے مختلف علاقوں خاص طور پر شمالی غزہ کے شدید محاصرے سے لے کر لبنان میں پیجروں کے دھماکے تک گوناگوں مجرمانہ اقدامات شامل ہیں۔

بڑی واضح سی بات ہے کہ  صیہونی حکومت اس پالیسی کے ذریعے ایک بنیادی ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ چیز کچھ دن پہلے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کی دلیرانہ شہادت کے بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوآف گالانت کے بیان میں بھی پوری طرح عیاں ہے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت پر، جو میدان جنگ میں اور ٹینک کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے، خوشی کے نشے میں چور گالانت نے بڑے متکبرانہ لہجے میں فلسطینی مزاحمت کے جانبازوں کو مخاطب کر کے کہا تھا: "اپنے ہاتھ اوپر کرو اور ہتھیار ڈال دو۔ قیدی بنائے گئے ہمارے لوگوں کو رہا کرو اور گھٹنے ٹیک دو۔"(1) حماس تحریک کے پولیت بیورو کے سربراہ کی شہادت کے بعد جنگی جرائم کے ارتکاب کا حکم دینے والے اس شخص کا لہجہ اور الفاظ، صیہونیوں کی طرف سے صرف ایک پیغام پہنچاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی موت کے بعد اس گروہ کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا، صیہونیوں کی خام خیالی اور خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟

حماس کے تنظیمی ڈھانچے کا کسی فرد پر منحصر نہ ہونا

اپنے ایک جنگي ہدف یعنی حماس سے ہتھیار رکھوانے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے قریب ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی صیہونیوں کی کوشش ایسے عالم میں ہے کہ جب اس مزاحمتی گروہ کا ایک بڑا ہی منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے اور یہ ڈھانچہ بنیادی طور پر افراد پر منحصر نہیں ہے کہ ان کے چلے جانے سے اس کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ وہی بات ہے جس کی جانب سیاسی مسائل کے ماہر  فؤاد خفش اشارہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: "اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی طاقت، اس کے منظم تنظیمی ڈھانچے میں نہاں ہے۔ یہ ڈھانچہ افراد پر نہیں بلکہ خود پر منحصر ہے۔" یہ سیاسی تجزیہ نگار، حماس کی راہ جاری رہنے پر یحییٰ سنوار کی شہادت کے اثرات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں: "جو ڈھانچہ کسی فرد پر ٹکا ہوا نہیں ہے وہ فطری طور پر سنوار کی شہادت کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح اپنا راستہ جاری رکھے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمی ڈھانچہ کئي عشرے پرانا ہے اور اپنی حیات کا یہ طویل عرصہ طے کرتے کرتے وہ بہت زیادہ مستحکم ہو چکا ہے۔ پچھلی کئي دہائيوں کے دوران اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود حماس جیسے گروہ کے پوری مضبوطی سے قائم رہنے کی وجہ اس کے ڈھانچے کی مضبوطی ہے۔"(2) فؤاد خفش حماس کے بعض کمانڈروں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: "اگر ہم تحریک حماس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی جیسے رہنماؤں کی شہادت ہمیں نظر آئے گی، اُس وقت سے لے کر اب تک حماس نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوئي ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہی ہوئي ہے۔"

چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے سائے میں مزاحمت کا مضبوط بنے رہنا

"فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود، مزاحمت کے شعلے بدستور بھڑک رہے ہیں اور انھیں بجھایا نہیں جا سکتا۔" یہ بات سیاسی امور کے محقق سعید زیاد نے یحییٰ سنوار کے قتل کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی صورتحال کے بارے میں کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کی موجودہ طاقت و استحکام سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کمانڈروں کے قتل سے مزاحمت کے شعلے خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ فلسطینی مزاحمت کے لڑنے کے طریقۂ کار کو بھی ایک دوسری وجہ بتاتے ہیں جو یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ کو کوئي خاص نقصان نہ پہنچنے کی موجب ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت اور خاص طور پر حماس کافی عرصے سے صیہونی دشمن کے ساتھ چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے مرحلے میں داخل ہو گئي ہے اور کمانڈروں کی شہادت سے یہ حکمت عملی تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔(3)

"سوچ" کو قتل نہیں کیا جا سکتا

غالبا صیہونیوں کو بھی معلوم ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کی اسٹریٹیجی، ذہنوں اور دلوں میں جڑ پکڑ چکی سوچ اور فکر کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود شاید ان کے پاس بوکھلاہٹ کی وجہ سے مزاحمت کے خلاف "ڈرٹی وار" کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر قتل کی پالیسی کو جاری رکھنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ مصر کی قومی دفاع کی کونسل کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل ابراہیم عثمان ہلال کہتے ہیں: "غاصب صیہونی، قتل، جاسوسی کی اطلاعات اکٹھا کرنے، نفسیاتی جنگ، ہوائي، توپخانے اور اسپیشل زمینی فورسز کی فائرنگ کی طاقت کے ذریعے حماس کو سوچ، جدت عمل اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کا قتل، اسرائيل کے لیے ایک فوجی کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب تک سوچنے، کمان سنبھالنے اور قیادت کرنے کے لیے افراد موجود ہیں، رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل سے، مزاحمت ختم نہیں ہوگي۔"(4)

وہ سبق جو صیہونیوں کے لیے کبھی عبرت نہیں بنے

صیہونی حکومت کے رویے اور مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں اس کے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کی ہے۔ ماضی کے واقعات گواہ ہیں کہ صیہونی جس چیز میں اپنی فتح سمجھتے تھے، اس میں انھیں شکست اٹھانی پڑی۔ مثال کے طور پر سنہ 1982 میں جب صیہونی حکومت نے بیروت کا محاصرہ کر لیا جس کی وجہ سے پی ایل او کے مجاہدین کو لبنان سے نکل کر تیونس جانا پڑا تو اس پر صیہونیوں نے فتح کا احساس کیا لیکن یہ موہوم احساس کبھی بھی صیہونی حکومت کے لیے امن و سلامتی کا سبب نہیں بن سکا کیونکہ اس واقعے کے بعد ہی لبنان میں ایک مزاحمتی گروہ کی حیثیت سے حزب اللہ کی تشکیل ہوئي اور وہ صیہونیوں کی خوش خیالی سلب کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن گئی۔ دوسری مثال جنین کیمپ کے محاصرے اور انتفاضۂ دوم کے دوران سنہ 2000 میں اسے تباہ کر دینے کی ہے۔ جنین میں اس تشدد آمیز اور وحشیانہ پالیسی پر عمل درآمد کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئي سال بعد جنین، غرب اردن میں مزاحمت کے جانبازوں کے اصل مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بنابریں حماس کے رہنماؤں کا قتل، اسرائيل کو فتح نہیں دلا سکتا جس طرح سے کہ عزالدین القسام، ابو جہاد، ابو علی مصطفیٰ، شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز الرنتیسی، صالح العاروری اور اسماعیل ہنیہ کا قتل، حماس کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت شاید فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کو قتل کر کے ایک وقتی فتح حاصل کرلے لیکن آخر میں اسے شکست اٹھانی ہی پڑے گی۔ اسی بات کی طرف لبنان کی تجزیہ نگار زینب الطحان اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: "شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ جیسے رہنماؤں کے قتل کے بعد بھی حماس زندہ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ صیہونیوں نے کمانڈروں کو قتل کر کے ٹیکٹکل طور پر ایک وقتی نتیجہ حاصل کر لیا لیکن اسٹریٹیجی کے لحاظ سے انھیں شکست ہوئي ہے۔"(5)

جب ہم مذکورہ تمام پہلوؤں کو، حماس کے رہنماؤں کے قتل کے بعد اس کی صورتحال کے سلسلے میں ایک ساتھ رکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا ہے: "حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي۔"(6)

 

[1] https://www.skynewsarabia.com/middle-east/1748712-%D8%BA%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%AA-%D9%8A%D8%AF%D8%B9%D9%88-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84%D9%8A-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%84%D9%84%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B1

2 https://alqaheranews.net/news/100465/%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%86%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%86%D8%B8%D9%8A%D9%85%D9%8A%D8%A9-%D9%84%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%83%D9%8A%D9%81-%D8%AA%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D9%88%D8%B2-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D9%83%D8%A9-%D8%AE%D8%B3%D8%A7%D8%B1%D8%A9-%D9%82%D9%8A%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%AA%D9%87%D8%A7

3 https://www.aljazeera.net/politics/2024/10/18/%D9%85%D8%A7-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%AD%D9%87%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B3%D9%83%D8%B1%D9%8A-%D8%A8%D8%B9%D8%AF

4 https://www.youm7.com/story/2024/10/17/%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%88%D8%A7%D8%A1-%D8%A5%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%87%D9%8A%D9%85-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%BA%D8%AA%D9%8A%D8%A7%D9%84-%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%A9-%D9%84%D8%A7-%D9%8A%D8%B9%D8%AA%D8%A8%D8%B1-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%B3%D8%A8%D8%A9/6745261

5 https://www.alahednews.com.lb/article.php?id=75217&cid=185

6 https://urdu.khamenei.ir/news/7744

 
 

، اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین کے خلاف صہیونی جارحیت کے بعد، جبکہ یورپی ممالک نے یا تو خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا اسرائیل کی اپارتھائیڈ ریاست کا ساتھ دے رہی ہیں، دنیا بھر سے اسرائیل کی اس حرکت پر مذمتی پیغاموں کا سلسلہ جاری ہے۔

دنیا بھر کے ممالک، حکومتی دہشت گردی سے عاری دنیا کے خواہاں

حکومت یمن

یمن کی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اعلی کے خلاف صہیونی اقدام کے خلاف مسلم امہ اور عرب دنیا کو متحد ہونے کی اپیل کی۔ یمن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کا یہ اقدام پورے علاقے پر جارحیت کے مترادف ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن کی حکومت ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی جو فلسطین اور لبنانی عوام اور ان کے حقوق کے دفاع کے لیے صہیونی حملوں کی زد میں آئے ہیں۔

مصر

مصر کی وزارت خارجہ نے اپنے باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ ہر اس اقدام کی مذمت کی جاتی ہے جس سے علاقے کی سیکورٹی اور استحکام متاثر اور جھڑپوں میں اضافہ ہو۔ مصر کی وزارت خارجہ نے علاقے اور دنیا کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے والے ہر جھڑپ کے سلسلے میں بھی خبردار کیا۔

اردن

اردن کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی جارحیت کو، تہران کے اقتدار اعلی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اردن کی وزارت خارجہ کے بیان میں ایران پر صہیونیوں کے جارحانہ حملے کو ایک خطرناک اقدام قرار دیا گیا ہے جس سے علاقے میں موجودہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔

سعودی عرب

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی ریاست کے ناجائز حملے کی مذمت کی اور اسے ایران کے اقتدار اعلی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

قطر

قطر کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونیوں کی فوجی جارحیت کی مذمت کی اور ایک باضابطہ بیان بھی جاری کیا۔ اس بیان میں خطے میں کشیدگی بڑھنے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی اور تمام فریقوں سے درخواست کی گئی کہ صبر و تحمل سے کام لیں۔

متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات نے خلیج فارس کے اطراف کے دیگر ممالک کی طرح ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی۔

سوئٹزرلینڈ

سوئٹزرلینڈ کی وزارت خارجہ نے ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری ہونے والے اپنے بیان میں ہفتے کی صبح ایران پر ہونے والی صہیونی جارحیت کی مذمت کی اور کشیدگی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

کویت

کویت کی وزارت خارجہ نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور زور دے کر کہا کہ اس حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ تل ابیب اپنی جارحانہ پالیسی اور خطے کے ملکوں کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کے ذریعے علاقے میں خلفشار پھیلانا چاہتا ہے۔

ملائیشیا

ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی حملے پر میں مذمتی بیان جاری کیا۔ ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: ہفتے کی صبح کو ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اسے بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور علاقے کے استحکام کے لئے سنجیدہ خطرہ قرار دیتے ہیں۔

عمان

عمان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کا یہ اقدام ایران کے اقتدار اعلی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور حالات کو مزید کشیدہ کرنے اور تشدد جاری رکھنے کی کوشش ہے اور ان حرکتوں سے علاقے مین قیام امن اور سفارتکاری کی کوششیں ناکام رہ جائیں گی۔

شام

شام کی وزارت خارجہ نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کو قابل مذمت قرار دیا اور کہا کہ صہیونیوں نے ایران اور شام کے اقتدار اعلی اور دونوں ممالک کی ارضی سالمیت اور حرمت کو پامال کیا اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کو کچل کر رکھ دیا۔

پاکستان

پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی گئی اور اسے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے جرائم کو روکنے کے لیے عملی قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

عراق

عراق کی حکومت کے جاری کردہ بیان میں صہیونی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شانہ بشانہ ڈٹے رہنے کا اعلان کیا گیا۔

لبنان

لبنان کی وزارت خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صہیونی جارحیت کو ناقابل قبول اور لائق مذمت قرار دیا۔

افغانستان

افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے غاصب اسرائیلیوں کے حملے کی مذمت کی گئی اور اسے علاقے میں کشیدگی پھیلانے کی کوشش قرار دیا گیا۔

روس

روس کی وزارت خارجہ نے ایران کے خلاف صہیونی ریاست کے جارحانہ حملے کو ناقابل قبول قرار دیا۔ روس کے بیان میں آیا ہے کہ ایران کو اشتعال دلانے کی کوششوں کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح کی کوششیں علاقے کے امن و استحکام کے لیے سنجیدہ خطرہ ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر کی سیاسی شخصیات نے بھی ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی ہے۔

پاکستانی قومی اسمبلی کے اسپیکر

پاکستان کی پارلیمنٹ اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صہیونیوں کے جارحانہ رویے اور تسلط پسندی کی علامت قرار دیا جس نے علاقے کے استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے علاقے میں کشیدگی بڑھنے کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان امن اور سلامتی کی خاطر ایران کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

عمان کے وزیر خارجہ

عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے بھی صہیونیوں کی غاصبانہ پالیسی کے خلاف عالمی قدم اٹھانے پر زور دیا۔

عراق کے سید عمار حکیم

عراق کی حکمت ملی تحریک کے سربراہ سید عمار حکیم نے کہا ہے کہ عالمی برادری صہیونیوں کے جارحانہ رویے کو جو بین الاقوامی منشور اور اصولوں کے خلاف ہے، مل کر روکنے کی کوشش کرے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری پیغام میں لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر (غاصب) اسرائیلیوں کا حملہ، افغانستان کے ہمسایہ اور برادر ملک کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے۔

عراقی صدارتی دفتر

عراق کے صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں صہیونیوں کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور ملکوں کے اقتدار اعلی کی کھلی خلاف ورزی اور علاقے میں بدامنی پھیلانے کے مترادف قرار دیا گیا۔

عراقی صدر تحریک

عراق کی صدر تحریک کے سربراہ سید مقتدا صدر نے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ صہیونیوں کی یہ جارحیت اتنی کمزور تھی کہ اس کے نتیجے میں یہ ریاست اور اس کے حامی حیرت زدہ اور پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔

فلسطین کی مقاومتی کمیٹیاں

فلسطین کی مقاومتی کمیٹیوں نے باضابطہ بیان جاری کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔ اس بیان میں غاصب اسرائیلیوں کے اس حملے کو صہیونی- امریکی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران کے وعدہ صادق کارروائیوں کے بعد صہیونی بری طرح پریشان، آشفتہ حال اور وحشت زدہ ہوگئے تھے اور یوں انہوں نے اس جارحیت کا ارتکاب کیا جو کہ شکست سے دوچار ہوئی اور تل ابیب کی کمزوری اور دفاعی بے بسی پردہ پہلے سے زیادہ چاک ہو گیا۔

حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس"

حماس تنظیم نے صیوہنیوں کے اس اقدام کو شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے ایران کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کو متاثر کرنے اور علاقے میں بدامنی کی آگ بھڑکانے کے مترادف قرار دیا۔

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیان میں کہا ہے: ہم ایران کے دفاع کے حق اور صہیونیوں کو سزا دینے کے حق، کی حمایت کرتے ہیں۔ صہیونی ریاست کو اپنے اہداف کے حصول میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اپنے اور علاقے کی عوام کے دفاع کے لیے ایران کی پوزیشن کو اور بھی مضبوط کردیا ہے۔

تحریک انصار اللہ یمن

یمن کی انصاراللہ تحریک نے فلسطین کی حمایت میں ایران کے ثابت قدم ہونے کو سراہا اور غاصب اسرائیلیوں کے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

مغرب کا منافقانہ رویہ

دوسری جانب سے مغربی حکومتوں کے موقف پر سوالیہ نشان اٹھتا جا رہا ہے جو ایک جانب انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پابندی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں لیکن میدان عمل میں ظالم، جارح اور مجرم ریاستوں اور ٹولوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

برطانیہ

ان میں سے ایک برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر ہے جس نے دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور ایران سے اس حملے پر ردعمل ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی جبکہ وہ اس حملے سے پہلے صہیونیوں کے جارحانہ منصوبوں پر خاموش رہا یا پہلے کی طرح ان کا ہاتھ بٹاتا رہا۔

فرانس

فرانس کی وزارت خارجہ نے صہیونیوں کی جارحیت کی مذمت کئے بغیر، تہران کی جانب صبر کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

یورپی یونین

یورپی یونین کی ترجمان برائے خارجہ امور نبیلہ مسرالی نے صہیونی جارحیت کی مذمت کیے بغیر، تمام فریقوں سے صبر و تحمل کے مظاہرے کی درخواست کی اور صہیونی جارحیت کو محض "جوابی حملہ" قرار دیا۔

جب صلیبی جنگوں میں اہل مغرب اسلام اور مسلمانوں سے روبرو ہوئے اور انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اسلامی دنیا میں علم کی ترقی سے آشنا ہوئے تو انہیں بہت حیرت ہوئی اور یہی سامنا مغربی تہذیب کی ترقی کا باعث بھی بنا۔ انہوں نے اسلام اور مشرقی دنیا سے مختلف قسم کے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی استعماری خصلت کے باعث غیر مغربی سرزمینوں پر تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ مغربی دنیا نے ایک طرف اپنی پسماندگی کی وجہ کلیسا کو قرار دیا اور ہیومن ازم اور سیکولرازم کو فروغ دیا جبکہ دوسری طرف مشرقی دنیا، خاص طور پر اسلامی تہذیب سے حاصل ہونے والے علوم کو مزید ترقی دے کر غیر عرب سرزمینوں پر استعماری تسلط پیدا کرنے کے گوناگون ہتھکنڈے فراہم کیے۔ مغربی دنیا میں ہیومن سائنسز سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی تک اکثر علوم کی ترقی اسی استعماری سوچ اور نگاہ سے انجام پائی ہے۔
 
مثال کے طور پر، ہیومن سائنسز کے اینتھروپولوجی اور مشرق شناسی جیسے شعبوں میں اصل مقصد غیر مغربی معاشروں کو اپنا مطیع بنانا تھا جبکہ فوجی اور میڈیا شعبوں میں میں ترقی کا مقصد بھی مختلف ممالک اور قوموں پر استعماری تسلط قائم کرنا تھا۔ پوری جرات سے کہا جا سکتا ہے اور تحقیق بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر آج مغربی تہذیب خود کو اقتصادی لحاظ سے غنی اور سیاسی لحاظ سے طاقتور تہذیب محسوس کرتی ہے تو یہ سب کچھ دیگر قوموں کا خون چوس کر اور انہیں لوٹ کر حاصل کیا گیا ہے۔ دنیا کی مظلوم قوموں کی قتل و غارت سے لے کر ان قوموں کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار تک۔ مغربی تاریخ خون ریزی اور قتل و غارت سے بھری پڑی ہے۔ صلی جنگوں میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر امریکہ میں لاکھوں سرخ پوست انسانوں کی نسل کشی اور افریقہ میں دسیوں لاکھ افراد کو غلام بنا کر ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار۔
 
حقیقت یہ ہے کہ غیر مغرب قوموں کی تاریخ کا بڑا حصہ، مغربی طاقتوں کی جانب سے ان کی قتل و غارت اور لوٹ مار، نیز مغربی طاقتوں کے استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی تحریکوں پر مشتمل ہے۔ حتی اس بارے میں مختلف علمی حلقوں میں مغربی طاقتوں کی جانب سے دیگر اقوام پر استعماری تسلط جمانے کے لیے بروئے کار لائے گئے مختلف ہتھکنڈوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر علمی تحقیقات بھی انجام پا چکی ہیں اور فرانتز فینن اور ایڈورڈ سعید جیسے متعدد مفکرین اور محققین اس بارے میں مختلف نظریات بھی پیش کر چکے ہیں۔ ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات سے سرشار تاریخ کے باوجود، مغربی طاقتیں درپیش حالات میں ہمیشہ اپنی غلط اور یکطرفہ تعبیر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ انتہائی منافقت اور فریبکاری سے اپنی اخلاقی اور ثقافتی برتری کا پرچار بھی کرتی رہتی ہیں۔
 
جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حمایت جیسے خوبصورت اور دل موہ لینے والے نعرے، اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور عمل کے میدان میں وہ ان نعروں کو دوسروں پر ناجائز تسلط کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر ہم مغرب کے سیاسی ڈھانچوں کا گہرائی میں جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ مغرب میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت وجود نہیں رکھتی تھی اور یہ محض ایک دعوا ہے لیکن یہی ہتھکنڈہ دیگر اقوام کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ایسی حکومتوں کو کمزور کرنے اور دبانے کے لیے محض ایک ہتھکنڈہ ہے جو مغربی طاقتوں کی ہمسو نہیں ہوتیں۔ آج تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ مغربی حکمرانوں کی نظر میں کوئی اہمیت اور قدروقیمت نہیں رکھتا۔ آج غزہ اور لبنان میں انسانیت سوز جرائم کی تمام حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ ہزاروں بیگناہ بچے اور خواتین بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں۔
 
ہزاروں ٹن مورچہ شکن بم عام عوام اور اسپتالوں پر گرائے جا رہے ہیں۔ غزہ کا گھیراو کر کے لاکھوں بیگناہ انسانوں کو بھوکا رکھ کر انہیں موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر ایسی رژیم حکمفرما ہے جو صبح شام دوسروں کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہے اور خون ریزی سے اس کا دل نہیں بھرتا۔ اس کے باوجود مغربی ممالک نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں ہلکی سی پریشانی کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ پوری طاقت اور بے باکی سے بچوں کی قاتل غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ دنیا کی مستضعف قوموں کے ہمراہ، مغربی قوموں کا ایک حصہ بیدار ہو چکا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے میں مصروف ہے۔ لیکن اب تک مغربی تہذیب کا ڈھانچہ پوری طرح غاصب صہیونی رژیم کی فوجی، مالی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی مدد کرنے میں مصروف ہے جس کے باعث یہ رژیم انسان سوز جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔
 
موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد بیگناہ انسانوں کے خون پر رکھی گئی ہے۔ مغربی تہذیب کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ استعمار اور لوٹ مار پر استوار ہے۔ مغربی تہذیب کی نظر میں مغربی انسان اور غیر مغربی انسان میں فرق ہے اور وہ علیحدہ طبقے سے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگرچہ غاصب صہیونی رژیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی تہذیب کو ہوئی ہے۔ شہید یحیی سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں وائرل ہونے والی ویڈیو جسے خود صہیونیوں نے جاری کیا ہے، مغرب کی غیر انسانی تہذیب کے خلاف مظلوم قوموں کی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ ایک طرف اسلحہ سے لیس فوجی ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسانوں کی قتل و غارت میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف نہتے انسان ہیں جو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مغربی ایشیا کا آج کا مںظر ایمان اور کفر کی جنگ کا منظر ہے جس میں فتح ایمان کی ہو گی۔

تحریر: حمید رضا نظری

 اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی "جارحیت" کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسرائیل کو مناسب ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ تہران کے قریب 3 مختلف مقامات پر حملوں کو ناکام بنانے کے لیے فضائی دفاعی نظام استعمال کیا گیا ہے۔ ایرانی خبر ایجنسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایرانی فوجی حکام نے کہا کہ اسرائیل کو مناسب ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، تہران کے قریب حملوں کو ناکام بنانے کے لیے فضائی دفاع نظام کا استعمال کیا۔ دوسری جانب ایرانی ایئر ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے تہران، خوزستان اور ایلام میں کئی فوجی مقامات پر حملے کیے، اسرائیل کے حملے فضائی دفاعی نظام کے ذریعے کامیابی سے ناکام بنائے گئے۔

ایرانی ایئر ڈیفنس نے کہا ہے کہ صہیونی جارحیت کے نتیجے میں کئی مقامات پر محدود پیمانے پر نقصانات ہوئے۔ اسرائیلی اور امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران پر حملہ 3 مرحلوں میں کیا گیا، دوسرے اور تیسرے حملوں میں ایران کی میزائل اور ڈرون حملے کرنے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر فضائی حملوں کا آغاز کر دیا ہے جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا نے تہران میں دھماکوں کی تصدیق کر دی۔ اسرائیلی فوج نے یکے بعد دیگرے ایران میں فوجی اہداف پر 2 بار کئی فضائی حملے کیے ہیں، اسرائیل نے شام میں بھی متعدد فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے وعدہ صادق میزائل آپریشنز کے ردعمل میں سراسیمگی اور خوف کے عالم میں اسرائیلی جوابی حملے کی ناکامی سے ایران کی اعلیٰ سطح کی ڈیٹرنس پاور (دبدبہ) کا بھرپور اظہار ہوا ہے۔ ایران کے دفاعی نظام پر اسرائیلی حملے کے بعد چند پہلووں پر بات ہو رہی ہے۔ صہیونی دشمن کو محور مقاومت کی جانب سے چند سطحوں پر شدید جنگ کا سامنا ہے۔ پہلی سطح غاصب صیہونی ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر ہی فلسطین اور لبنان سے مزاحمت اور جنگ کا سامنا ہے۔ دوسری سطح دور سے یعنی عراق اور یمن سے شدید دباو اور طاقت کے انوکھے استعمال سے لرزہ دینے والی جنگ درپیش ہے۔ سب سے اہم ایران کیساتھ براہ راست جنگ ہے۔ یہ جنگ کی آخری سطح ہے۔ صیہونی دشمن ایران کے براہ راست جنگ میں محتاط ہے، اس کی وجہ ایرانی طاقت کا خوف ہے، اسی کو ماہرین صیہونی دشمن کیخلاف ڈیٹرنس کی پاور یا دبدبہ قرار دیتے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی حملے اسی وجہ سے محدود ہیں اور اسی تناظر میں اس کو امریکی حکومت سے بڑے پیمانے پر کارروائیاں نہ کرنے کی درخواست سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ایرانی میزائل پاور اور تہس نہس کر دینے والے جنگی ساز و سامان کی وجہ سے جنگ کو براہ راست ایران تک پھیلانے میں خوفزدہ ہے۔ وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میزائل آپریشنز کی وجہ سے صیہونی دشمن کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ایران اسرائیل پر براہ راست حملوں کے ذریعے یہ ثابت کر چکا ہے کہ صیہونی رجیم کے خلاف حملہ نہ کرنیکی باتیں صرف ایک وہم ہے۔ ایران کے اسی خوف کیوجہ سے اسرائیل نے ایک محدود جوابی کاروائی کی ہے، وگرنہ اسی صیہونی ائیر فورس نے کیسے فلسطین اور لبنان کے شہروں کو دیدہ دلیری سے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔

دراصل صیہونی جس محدودیت کی بات کرتے ہیں، وہ ان کی منتخب کردہ نہیں بلکہ ایرانی جنگی تیاریوں کی وجہ سے مجبور ہیں کہ مخصوص دائرے سے باہر نہ نکلیں ورنہ یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ فوجی کاروائی کی بجائے ان کا زیادہ زور نفسیاتی حربوں کے ذریعے خاص ماحول بنانے پر تھا، جس کے لئے انہوں نے ضد انقلاب قوتوں، سوشل میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سافٹ پاور سے کام چلانے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ اسی لئے اسرائیلی حملے کے بعد ضد انقلاب اسرائیل نواز میڈیا آوٹ لیٹس کو ان حملوں کے اھداف اور نقصانات بڑھا چڑھا کر دکھانے کا موقع نہیں ملا، نہ ہی مغربی میڈیا کے پاتھ کچھ آیا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں یہ وجہ ہے کہ ایران کے سامنے نہ ٹک سکنی والی صیہونی قوت دہشت گردی، تخریب کاری اور ففتھ کالم کے ذریعے نقصان پہنچانے میں مہارت کو استعمال کرتی ہے۔

صیہونی دشمن کو اس بات کا پتہ ہے کہ براہ راست تصادم میں ان کے بس میں نہیں، اس لئے اس سے اجتناب ہی میں عافیت ہے۔ اسی تناظر میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی بھی مشرق وسطیٰ میں اس کشمکش کا دائرہ کار محدود رکھنے پر مجبور ہیں تاکہ ان کی موجودگی اور خطے میں مستقر دفاعی طاقت کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ محور مقاومت نے ابھی تک اپنی طاقت کا ایک چوتھائی بھی مکمل طور پر استعمال نہیں کیا۔ امریکیوں کے نزدیک ان عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ نتن یاہو کا پاگل پن جنگ کی سطح اور دائرہ بڑھا سکتا ہے جس سے محور مقاومت کے تمام بازو خطے میں واضح زمینی برتری کو اپنے حق میں استعمال کر کے صیہونی حکومت کی رگ حیات کاٹ سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ کی رائے عامہ کو نہ صرف صیہونی حکومت بلکہ امریکہ کے خلاف مزید بیدار کر سکتا ہے۔ 

اگرچہ کچھ لوگ وائٹ ہاؤس کے اس رویے کو انتخابات کے معاملے تک محدود سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں امریکا مشرق وسطیٰ میں نئی ​​جنگ سے خوفزدہ ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کب تک صیہونی حکومت کی حمایت کر سکے گا، خاص طور پر جب مزاحمتی قوتوں کی موجودگی میں جب ایران اعلی سطح کی جنگی قوت کا حامل ملک ہے۔ ایرانی ائیر ڈیفنس کی کاروائیوں کی تفصیل ابھی آ رہی ہے، لیکن یہ یقنی ہے تہران اور سمیت تمام شہروں مکمل امن ہے، اس سے کسی نہ کسی طرح یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب اس آپریشن میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ رائے عامہ کے میدان میں بھی یہ مسئلہ واضح ہے اور دفاعی لحاظ سے بڑے نقصان کی خبریں نہیں ہیں. بڑی بڑی دھمکیوں اور بڑھکوں کے باوجود اسرائیل ایران کیساتھ براہ راست پنچہ آزمائی سے قاصر ہے اور صرف محور مقاومت کیخلاف فلسطین اور لبنان کے شہروں کا نشانہ بنا رہا ہے۔

ایران کے پاس صیہونی کاروائی کا بھرپور جواد دینے کا واضح جواب ہے۔ نہ صرف صیہونی دشمن نے ایرانی سرزمین کو نشانہ بنایا ہے بلکہ اگر اس درندگی کا جواب نہ دیا گیا تو فلسطین اور لبنان کے عوام کیخلاف یہ مزید بھیانک حملے جاری رکھے گا۔ بے شک ایران کو جلدی نہیں لیکن ایران کی دفاعی طاقت کی موجودگی اور اثبات یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران جب چاہے اس کا دوچند جواب دے سکتا ہے اور دے گا، جیسا کہ گذشہ دو آپریشنز وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔

اسلام ٹائمز

اسرائیل نے  فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ  یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد ان کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں۔

اسرائیل کی جانب سے جاری تصاویر میں  دیکھا جاسکتا ہے کہ  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحے میں اسنائپر رائفل اور مشین گنیں بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ حماس نے اسرائیلی حملے میں یحییٰ سنوار کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔

 

 

عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے تصدیق کی ہےکہ یحییٰ سنوار اسرائیلی فورسز سے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے ہیں۔

خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی تحریک نے مزید جوش پکڑلیا ہے، یحییٰ سنوار کی شہادت غاصب اسرائیل کے لیے تباہی کا پیغام ثابت ہوگی۔ یحییٰ سنوار شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے، وہ اپنی آخری سانس تک قابض فوج کے سامنے ڈٹے رہے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، یحییٰ سنوار ہمارے عظیم شہدا اور قائدین کے قافلےکا تسلسل تھے، جنہوں نے اپنی زندگی قوم کے لیےقربان کر دی۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے غزہ میں ایک عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی موجود تھے۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
فوٹو: سوشل میڈیا
 

بعد ازاں اسرائیلی وزیر خارجہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ رفح میں عمارت پر کیے جانے والے حملے میں حماس سربراہ یحییٰ السنوار کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
 

میڈیا رپورٹس کے مطابق 16 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز جب رفح کے علاقے میں آپریشن کر رہی تھیں تو اس وقت ان پر ایک عمارت سے فائرنگ کی جس کے جواب میں صیہونی فورسز نے ٹینک سے اس عمارت پر فائرنگ اور بمباری کی اور جب عمارت کا جائزہ لینے کے لیے ڈرون کیمرا اندر بھیجا تو ایک شخص تباہ حال عمارت میں زخمی حالت میں صوفے پر بیٹھا تھا۔

اسرائیل نے  یحییٰ سنوار کے پاس سے ملنے والے اسلحےکی تصاویر جاری کردیں
 

 

اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق آپریشن کے دوران حماس کے 3 کمانڈرز مارے گئے جن میں سے ایک کے بارے میں گمان ہوا کہ وہ یحییٰ سنوار ہیں تاہم اس بات کی تصدیق نہ ہو سکی۔

معاملے کے بارے میں معلومات رکھنے والے امریکی حکام نے اس حوالے سے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے لاش کو تحویل میں لیکر دانتوں کے ریکارڈ اور دیگر بائیو میٹرک معلومات کے ذریعے تصدیق کی کہ حملے میں مارے گئے افراد میں یحییٰ سنوار بھی شامل تھے۔

 
Friday, 18 October 2024 21:44

یحییٰ سنوار کون؟

19 اکتوبر 1962 کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحییٰ ابراہیم حسن السنوار نے ابتدائی تعلیم خان یونس کے اسکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5 سال تک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔

یحییٰ سنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011 میں شالت (اسرائیلی فوجی) کی رہائی کی ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحییٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنماؤں میں ہونے لگا۔

یحییٰ سنوار کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

 

یحییٰ سنوار کو حماس کے سیاسی ونگ اور عزالدین القسام بریگیڈ کی لیڈرشپ کے درمیان روابط قائم رکھنے کا ٹاسک دیا گیا اور پھر 2014 میں اسرائیلی جارحیت کے اختتام پر انہوں نے حماس کے فیلڈ کمانڈرز کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کروائیں جس کے نتیجے میں حماس کے کئی بڑے رہنماؤں کو عہدوں سے بھی ہٹایا گیا۔

ستمبر 2015 میں امریکا نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر انچیف محمد الضیف اور سیاسی ونگ کے رہنما راہی مشتہا سمیت یحییٰ سنوارکا نام بین الاقوامی دہشتگردوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔

13 فروری 2017 کو یحییٰ سنوار  اسماعیل ہنیہ کی جگہ غزہ پٹی میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہوں نے خلیل الحیہ کو اپنا نائب مقرر کیا اور پھر یحییٰ سنوار کو پارٹی انتخابات کے ذریعے غزہ پٹی میں حماس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا اور اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعل کا جانشین بنا دیا گیا۔

برطانوی اخبار دی گارجین کی 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یحییٰ سنوار کے حماس میں آنے سے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی اور عسکری ونگ میں اندرونی رسہ کشی ختم ہوگئی اور حماس کی پالیسی کو غزہ کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ سے وضع کیا گیا۔

مئی 2018 میں یحییٰ سنوار نے الجزیرہ پر آکر غیر متوقع اعلان کر دیا کہ حماس پرامن عوامی مزاحمت کی پالیسی اپنائے گی جس کا مقصد ممکنہ طور پر حماس پر بہت سے مملک کی جانب سے لگا دہشتگرد تنظیم کا ٹیگ اتارنا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنا تھا، اس اعلان سے ایک ہفتہ قبل یحیٰ سنوار نے غزہ کے شہریوں سے کہا تھا کہ اسرائیلی زنجیریں توڑ دیں، ہم دب کر مرنے سے شہید ہونے کو ترجیح دیں گے، ہم مرنے کے لیے تیار ہیں اور ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ مریں گے۔

یحییٰ السنوار حماس کے نئے سربراہ بن گئے

 

مارچ 2021 میں یحیٰ سنوار دوسری مدت کے لیے غزہ میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور انہیں غزہ کا ڈی فیکٹو حکمران تصور کیا جانے لگا اور انہیں حماس میں اسماعیل ہنیہ کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص مانا جانے لگا۔

مئی 2021 میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے خان یونس میں یحیٰ اسنوارکے گھر پر بمباری کی گئی تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور پھر حملے کے اگلے ہفتے یحیٰ اسنوارکئی بار عوام میں دیکھے گئے اور پھر 27 مئی 2021 کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے قدموں پر چل کر اپنے گھر جاؤں گا، تمھارے پاس مجھے قتل کرنے کے لیے 60 منٹ ہیں اور پھر وہ اگلے ایک گھنٹے غزہ کی گلیوں میں گھومتے رہے اور سیلفیاں لیتے رہے۔

غزہ میں جاری حالیہ جنگ کے ابتدائی تین ہفتوں کے بعد یحیٰ سنوار نے اسرائیل کو پیشکش کی تھی کہ  یرغمال بنائےگئے تمام اسرائیلیوں کے بدلے قیدی بنائےگئے تمام فلسطینیوں کو رہا کر دیا جائے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے حماس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا جس کا نقصان انہیں مزید اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور فوجی گاڑیوں کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔

 یحییٰ سنوار کو ایرانی دارالحکومت تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد  اگست میں حماس کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

 فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے آج اپنے ایک جاری بیان میں اپنے سربراہ "یحییٰ السنوار" کی شہادت کی خبر دی۔ جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کہا کہ یحییٰ السنوار موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ وہ غزہ میں شہادت کی تلاش میں تھے۔ وہ بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں آخری سانس تک لڑے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یحییٰ السنوار کی آخری تصویر نے جس خوبصورت پیغام کی نشان دہی کی وہ یہ کہ کوئی بھی عنصر ہمارے ہاں رکاوٹ نہیں بلکہ فلسطینی و غیر فلسطینی سمیت سارے خطے میں استقامتی محاذ کے تمام مجاہدین کے لئے "جدوجہد" ایک الہام بخش ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ سید عباس عراقچی نے ان خیالات کا اظہار اس وقت کیا جب وہ اپنے چوتھے علاقائی دورے کے دوران اپنے تیسرے سٹیشن ترکیہ میں موجود ہیں۔ اُن کے اس دورے کا مقصد فلسطین و لبنان کے خلاف صیہونی جارحیت روکنے کے لئے اقدامات کرنا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ساری دنیا میں ہم اور دیگر افراد فلسطینی عوام کی آزادی کے لئے یحییٰ السنوار کی فداکارانہ جدوجہد کو سلام پہنچاتے ہیں۔ اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ شہداء ہمیشہ زندہ ہیں اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو آزاد کرانے کا نصب العین پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہے۔ دوسری جانب حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ شہید یحییٰ السنوار آپریشن طوفان الاقصیٰ کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے پسپائی اختیار کئے بغیر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ اسلحہ اٹھایا اور فرنٹ محاذ پر قابض فوج کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے قابل فخر سرزمین غزہ کا دفاع کیا۔ دوسری جانب گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں "تل السلطان" کے علاقے میں IDF کی استقامت کاروں سے مڈبھیڑ ہو گئی جس کے نتیجے میں حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف "یحییٰ السنوار" شہید ہو گئے۔
 
 
 

مسجد سہلہ اسلام کی بڑی، قدیم ترین اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کی تعمیر اور بنیاد پہلی ہجری میں ہی رکھی گئی اور یہ ابھی تک اسی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، اور یہ لاکھوں زائرین  کی زیارت گاہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی بڑی منزلت ہے اسی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں اور حصوں سے لوگ اس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد وہاں جاتے ہیں۔

یہ مسجد مہدی دوران امام العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے نام سے منسوب ہے، چونکہ یہیں سے آپ حکومت الٰہیہ کا آغاز کریں گے اور یہ مسجدہی آپ کی انقلابی تحریک کا مرکز بنے گی اور آپؑ اپنے اہل وعیال سمیت اسی مسجد میں قیام فرمائیں گے، بلکہ جب تک آپ ؑ کی حکومت باقی رہے گی آپ ؑ کی حکومت کا مرکز یہی مسجد ہی رہے گی۔

یہ عظیم مسجد عراق کے مقدس شہر کوفہ کے نواح میں واقع ہے، کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے کہ جس کو مسلمانوں مجاہدین نے فتح کیا۔ یہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں ۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مسجد مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں واقع ہے، ان دونوں کے درمیان فاصلہ صرف دو کلومیٹر کا ہے۔ یہ مسجد مستطیل شکل میں بنی ہوئی ہے، اس کی لمبائی ۱۴۰ میٹر اور چوڑائی ۱۲۵ میٹر ہے، اور یہ ۱۷۵۰۰ مربع میٹر مساحت  پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے چار کونوں میں نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیج میں مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

یہ مسجد ۱۷ ایوانوں پر مشتمل ہے اورنماز پڑھنے کی جگہ اس کے مرکزی مقامِ مسجد کے جنوب کی طرف ہے، اور اس کے صحن میں بہت سے سی محراب موجود ہیں۔

کوفے میں موجود مساجد میں مسجد سہلہ دوسری بڑی مسجد ہے جو مسجد جامع کوفہ کی نسبت چھوٹی ہے  اور مسجد کوفہ سے دو کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے۔

مسلمانان جہاں کے ہاں اس مسجد کی بڑی عظمت ہے اور یہ کوفہ کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اس مسجد کو بابرکت مسجد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مسجد ظفر ایک بابرکت مسجد ہے، خدا کی قسم اس میں ایک صخرہ خضراء (اونچی جگہ یا سبز چٹان) ہے جس میں تمام انبیاء الٰہی کے چہرہ مبارک کی تصویر بنی ہوئی ہے اور وہ مسجد سہلہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب ہمارا صاحب (امام مہدی) تشریف لائیں گے تو اسی مسجد میں اپنے اہل کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔

یہ مسجد عراق کے فتح کرنے کے بعد تعمیر کی گئی، اوربعد از فتح عراق، عرب اسی کوفہ میں ہی سکونت پذیر رہے، چونکہ ہر گروہ اور ہر قبیلہ مخصوص جگہوں پر قیام پذیر تھے، تو ان میں سے بعض نے اپنے قیام کے دوران عبادت الٰہی کی خاطر مسجدیں بھی تعمیر کیئں، انہیں قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی ظہر تھا، وہ انصار مدینہ کے ظفرنامی شخص سے تعلق رکھتا تھا، اس کا اصل نام کعب بن خزرج، بن نبیت، بن مالک، بن اوس، بن حارثہ، بن ثعلبہ تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام کے دوران اس مسجد کو تعمیر کروائی۔ یہ مسجد مسجدِکوفہ سے دور نہیں ہے۔

ابتداء میں یہ مسجد مسجدِ بنی ظفر کے نام سے مشہور تھی، چونکہ وہ لوگ نماز ، ملکی امور میں تبادلہ خیال، اور باسیانِ شہر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے اسی مسجد میں جمع ہوتے تھے، اور بعد میں مسجد سہلہ کے نام سے یہ مسجد مشہور ہوگئی۔ اس کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے چونکہ مسجد اور ارد گرد کی زمینیں بہت ہی نرم، اور وسیع ہیں اس لیے (سہل یعنی آسانی یا نرمی) سہلہ کہا جاتا ہے۔ سہل لغت میں حزن کے مقابل میں استعمال کیا جاتا ہے اور حزن کے معنی ہیں سخت، اور پریشانی۔ اور احتمال قوی کے مطابق یہی وجہ تسمیہ درست ہے، بازہم سہلہ کہنے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام سہل تھا جو بنی ظفر کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اس وجہ سے سہلہ کہا گیا ہے۔

سہل ایک صحابی تھا کہ جس نے جنگ احد میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی معیت میں جنگ کی۔

جیسا کہ تاریخدان لکھتے ہیں یہ اس مسجد کے سہلہ کے نام سے شہرت پانے سے پہلے دیگر بہت سارے نام تھے، مثلا؛ مسجد البرِ یعنی نیکی والی مسجد چونکہ اس میں بہت سارے نیک امور انجام پاتے تھے، اور اسی خیر اور برکت کی وجہ سے بر کہا جاتا ہے۔ مسجد عبدالقیس بھی کہتے تھے چونکہ یہ بنی عبد قیس کی زمین پر موجود تھی، اور مسجد قریٰ بھی کہتے تھے۔

اس مسجد کے تقدس کے بارے اہل عراق خاص کر اہل کوفہ قدیم زمانہ سے ہی بہت حد باخبر تھے ۔ بنی ظفر اپنے لیے اس مسجد کی تعمیر کی جگہ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مقام پر بہت سارے انبیاء کرام اور صلحاء کے مقامات موجود تھے۔ اور مسجد سہلہ اس زمانے میں کوفہ میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے ایک بڑی مسجد تھی، جسے مسجد کوفہ کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد ہی تعمیر کی گئی۔ 

روایات کے مطابق یہ پہلے بہت سارے انبیاء علیھم السلام کی جائے رہائش و سکونت تھی۔ جیسا کہ صادق آل محمد علیہ السلام  مسجد سہلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر تھی اور آپ اس میں خیاطت کا کام کرتے تھے، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے کپڑے کی سلائی شروع کی اورسیا ہوالباس پہنا شروع کیا۔ جبکہ اس وقت کے لوگ چمڑوں سے بنے ہوئے لباس پہنتے تھے۔

اسی مسجد سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم عمالقہ کی  طرف سفر کیا، یہیں سے حضرت داؤد نے جالوت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے سفر کیا، اس میں ایک سرسبز چٹان ہے کہ جس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصویریں موجود ہیں، اسی صخرہ سے ہی تمام انبیاء کی تخلیق کی مٹی کو چنا گیا۔ یہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کی ملاقات ہوئی۔

اس مسجد کے فضائل بیان کرتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جو مسجد سہلہ میں دو رکعات نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالی اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام مسجد سہلہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ جب بھی کوفہ جائے تو ضرور مسجد سہلہ بھی جائے اور اس میں نماز پڑھیے، اللہ تعالٰی سے دنیوی اور اخروی حاجات طلب کرے، کونکہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام سلائی کیا کرتے تھے، نماز پڑھا کرتے تھے، او رجو شخص بھی اس میں جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اپنی شرعی حوائج کی برآوری کی دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجات برآوری کرتا ہے، اور قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کے مقام کے برابر اس کا مقام بلند کرے گا، اور دنیا کی ناپسندیدہ چیزوں سے اسے دور رکھے گا، اور دشمنوں کے شر اور کید سے محفوظ رکھے گا۔

مسجد سہلہ میں بہت سارے مقدس مقامات ہیں:

جیسے مقام امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ: جو مسجد کے درمیانی حصے میں تھوڑا سا جنوب کی طرف مائل  اور امام سجادؑ اور حضرت یونسؑ کے مقامات کے درمیان واقع ہے۔

مقامِ حضرت امام سجادؑ: جو مسجد کے درمیان میں کمی جنوب مشرق سمت کی جانب مائل ہے۔

مقامِ حضرت امام صادقؑ: جو مسجد کے عین وسط میں واقع ہے۔

مقام ِحضرت خضر علیہ السلام ہے ۔

مقامِ حضرت ادریس علیہ السلام بھی اس میں موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ادریس کا گھر بھی یہی تھا۔ مقامِ صالحین بھی موجود ہے جیسے مقام ِنبیین یعنی حضرت ھود ؑ اور صالحؑ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام بھی موجود ہے، کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا گھر بھی یہی تھا۔