مسلم ممالک کا اتحاد، ایران سعودی مذاکرات

Rate this item
(0 votes)
مسلم ممالک کا اتحاد، ایران سعودی مذاکرات

آج امت مسلمہ باہمی اختلافات و انتشار کا شکار ہے۔ فتنہ پرور قوتیں ان اختلافات سے سوئے استفادہ کر رہی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ اب اتحاد امت کی سخت ضرورت تھی اور ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم افراتفری اور قتل و غارت گری کے فتنوں میں مبتلا ہیں۔ایسے فتنے قوموں کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے روایت کی ہے کہ ہم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے بہت سے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ ان فتنوں کا ذکر فرمانے کے بعد آپ نے سب سے خطرناک فتنے کا ذکر فرمایا۔ آپ نے بطور خاص "الاخلاص" فتنے کا ذکر فرمایا۔ ایک سائل نے عرض کی یارسول اللہ اخلاص کا کون سا فتنہ ہے؟ "قال ھی ھرب و حزب" فرمایا  "یہ افراتفری اور قتل و غارت کا فتنہ ہے۔" (ابو داؤد السنن 90:4 رقم الحدیث :4242) انسانیت کو متحد کرنا اس امت کا سب سے بڑا مقصد تھا، بلکہ اس امت کا مقصود حیات انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے وحدہ لا شریک کی غلامی اور اس کی اطاعت کی طرف لانا تھا۔ مگر اس امت نے اپنا مقصود حیات دفن کر دیا ہے۔ اپنی زریں روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

یاد رکھیں کہ جب کوئی قوم اپنا مقصود حیات ترک کر دے تو وہ جیتے جی مر جاتی ہے۔ اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
زندہ فرد از ارتباط جان و تن
زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مرگ فرد از خشکی رود حیات
مرگ قوم از ترک مقصود حیات
دین اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جس نے اجتماعیت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ عبادات کا ایک خوبصورت اجتماعی نظام دیا ہے۔ حج بیت اللہ سے لے کر عیدین تک اجتماعیت کی ایک قابل رشک شاہرہ بنا دی، تاکہ مسلمان اس پر چل کر اپنے مقصد حیات کو حاصل کر لیں۔ عالم اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع رہے تو بہت قابل عزت اور فاتح رہے۔ وہ خودار رہے، وہ کسی کے آگے کبھی نہ جھکے تھے۔ آج جو ذلت و رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے امت کی ایمانی روشنی کو ختم کر دیا ہے، وہ ان کا اجتماعیت سے انحراف ہے۔

مسلم ممالک کے باہمی تعلقات کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں اور سب کے سب استعمار کی غلامی میں چلے گئے ہیں۔ وہ ہم سے ایسے فیصلے کرا رہا ہے، جو ہماری اسلامی غیرت و حمیت کے سراسر خلاف ہیں۔ آج پوری دنیا ملاحظہ کر رہی ہے کہ غزہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، اس تباہی کا ذمہ دار میرے مطابق امت مسلمہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ہم نے صیہونی بھیڑیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور وہ ہمارے بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کو چیر پھاڑ کر ان کے جسموں کے ٹکڑے فضا میں بکھیر رہے ہیں۔ اگر ہم متحد ہوتے تو یقیناً ایسا کرنے کی ان درندوں کو کبھی جرات نہ ہوتی۔ الله کے رسول کا فرمان عالی شان ہے: "المومنون ید علی من سواھم۔" ترجمہ: "مومنین دوسروں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ کی مانند ہیں۔۔۔" لیکن بہت افسوس سے لکھ رہا ہوں کہ ہاتھ کی مٹھی کی مانند رہنے والے انسان آج بکھر چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ رسوائی و ذلت  کا شکار ہیں۔

یہ بات بہت قابلِ افسوس ہے کہ عرب ممالک نے دین اور مذہب کو غیر اہم سمجھنا شروع کر دیا ہے، بشمول سعودی عرب کے اب وہ ہر اہم معاملہ کو معاشی مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسلام کی قدر و منزلت ان ممالک میں آئے دن بہت کم ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور چند دیگر عرب ریاستیں امریکہ؛ اسرائیل اور بھارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان عرب ممالک نے آزادی فلسطین کی تحریک کو عملاً بہت شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عرب ممالک کا مسلم ممالک کے حوالہ سے نقطہ نظر تبدیل ہوگیا ہے۔ اسلامی بھائی چارے اور اخوت اسلامی کی اہمیت بالکل ختم ہوگئی ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسلامی جمہوری ایران کے درمیان کشیدگی بہت خطرناک ہے۔ اس کشیدگی میں یہ بدمست ہاتھی ایران کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، لیکن وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔

آج مشرق وسطی کے حالات بہت نازک صورت حال اختیار کرچکے ہیں۔ ہم استعمار کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد و یگانگت کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا عمل بہت درست ہے اور سعودی وزیر دفاع جناب شہزادہ خالد بن سلیمان کا دورہ ایران بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شہزادہ خالد کی ایرانی سپریم لیڈر معظم جناب سید علی خامنہ ای اور دیگر ایرانی اعلیٰ حکام سے ملاقات نہات خوش آیند ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارتی کاوشیں کامیاب نہ ہوئیں تو امریکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صدر کی یہ دھمکی گیدڑ بھبھکی کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن شہزادہ خالد بن سلیمان کا ایران کا دورہ بہت ہی مفید ہے۔

اس وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران نے سعودی وزیر دفاع کو بہت عزتوں سے نوازا ہے۔ ایرانی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری نے بھی انہیں خوش آمدید کہا اور گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ شہزادہ خالد انقلاب اسلامی کے بعد ایران کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی وزیر دفاع ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ سعودی عرب اور اسلامی جمہوری ایران کا ایک دوسرے کے قریب تر آنا دونوں ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لئے بہت سود مند ہے۔ اگر یہ دو اہم مسلم ممالک اپنے اختلافات ختم کرکے ایک دوسرے کے قریب آجائیں تو امت مسلمہ ایک دفعہ پھر ناقابلِ شکست بن سکتی ہے۔

Read 4 times