سلیمانی

سلیمانی

یمنی سرکاری خبررساں ایجنسی سبأ کے مطابق یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کے دہشتگرد تنظیم قرار دیئے جانے کی مذمت کی ہے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کا اقدام امریکی و اسرائیلی حکم کی تعمیل ہے کیونکہ یہ امریکہ و اسرائیل ہی ہیں جو اپنے حق کی جدوجہد لڑنے والی اقوام کے دشمن ہیں۔

یمنی حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے اپنے بیان میں غاصب صیہونی رژیم کے مقابل حزب اللہ لبنان کے مزاحمتی کردار پر روشنی ڈالی اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جرمنی کے عالمی سطح کے مقام پر منفی اثر ڈالنے والے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یمنی حکومت کے ترجمان نے جرمن قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کو تو اپنے حق و آزادی کی جنگ لڑتی اقوام کی حمایت کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد ملک میں حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی


روایات میں دعا کی اہمیت:
جس طرح خداوند متعال نے قرآن کریم میں  دعا کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا اسی طرح معصومین علیهم السلام سے بہت سی روایات موجود ہیں جن میں دعا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند روایات کو ذکر کریں گے۔ رسول خدا ﷺ نے ایک مقام پر دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دے دیا کہ جس طرح جب انسان پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو انسان مادی ہتھیار سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح جب معنوی طور پر دکھ مصیبتیں اور بلائیں انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں تو انسان اپنے معنوی ہتھیار دعا کے ذریعے انکا مقابلہ کر سکتا ہے اور دوبارہ فرمایا "دعا مومن کے لیے دین کا ستون ہے"۔ يعنی دعا مومن کے ایمان کے لیے ایک ستون کا مقام رکھتی ہے. جس طرح ایک خیمہ کے لیے ستون کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ایک مومن کے ایمان کے ستون، دعا کا ہونا ضروری ہے۔

یعنی بندے کا خدا کے ساتھ دعا کے ذریعے جتنا رابطہ مضبوط ہو گا ایک انسان مومن اتنا ہی معنوی طور پر مضبوط ہو گا۔ تقرب خدا کے لیے بہترین ہتھیار دعا ہے۔ رسول خدا صلی نے ایک مختصر اور جامع حدیث میں ارشاد فرمایا :"الدُّعا سِلاحُ الْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ الدّینِ وَ نُورُ السَّماواتِ وَ الْارْضِ"؛ دعا مؤمن کا ہتھیار، دین کا ستون، اور آسمان و زمین کا نور ہے۔1 اس حدیث سے دعا کی اہمیت و  فضیلت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس نعمت خدا سے اکثر محروم رہتے ہیں۔ ہمارے پیشوا وہ ہیں جنہوں نے ہمیں دعا کا ڈھنگ سکھایا۔ ہمیں بتایا کہ کس طرح اس مالک حقیقی سے سوال کیا جاتا ہے. کس طرح اس رحمان سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مقام پر دعا کو رحمت خدا کی چابی قرار دیا اور دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی قرار دے دیا۔ یعنی جب انسان کے گناہوں کی وجہ سے اس پر اپنے پروردگار کی رحمت کے دروازے بند ہو جائیں تو اس وقت دعا وہ چابی ہے جس کے ذریعے رحمت خدا کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں.

اور جب انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے گمراہی کے اندھیروں میں چلا جاتا ہے اور راہ حق کو گم کر دیتا ہے، اس وقت دعا ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو گمراہیوں کے اندھیروں سے نکال کر، حق کی روشنی کی طرف لاتی ہے۔ جب کثرت گناہ کی وجہ سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے تو اس وقت دعا ہی کے ذریعے دل کو نور ایمان سے منور کیا جا سکتا ہے۔ دعا وہ روشنی ہے جو انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر خداوند متعال کے قریب لاتی ہے۔ دعا ہی ہے جو عبد اور معبود کے درمیان قربت کا سبب بنتی ہے۔ دعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کو پختہ کرتی ہے۔ امير المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:"الدُّعا مِفْتاحُ الرَّحْمَةِ وَ مِصْباحُ الظُّلْمَةِ"دعا رحمت کی چابی اور (دنیا و آخرت) تاریکی کے لیے روشنی ہے۔ یعنی دعا دنیا و آخرت کی تاریکیوں کے لیے روشنی ہے، جس طرح اس دنیا میں انسان کو نور ھدایت کی ضرورت ہے اسی طرح آخرت میں بھی انسان کو نور رحمت کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہ دعا دنیا میں انسان کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ھدایت کی طرف لاتی ہے، اسی طرح آخرت میں جس دن انسان مایوسی و نامیدی کے اندھیرے میں سرگردان ہو گا تو یہ دعا اس وقت بھی انسان کی مونس و مددگار ہو گی۔

ایک مقام پر رسول اللہ نے انسان کے تمام نیک اعمال اور واجبات کو عبادت کا نصف قرار دیا اور نصف عبادت دعا کو قرار دیا۔ یعنی اگر انسان تمام واجبات کو انجام دے، جس میں نماز بھی ہے، روزہ بھی ہے، حج بھی ہے، زکوۃ بھی ہے، حتٰی کہ جہاد کہ جس متعلق خود خدا نے فرمایا :کہ "شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر نہیں گرتا کہ میں اس کے تمام کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہوں"۔ ان عبادات کو انجام دینے کے بعد بھی یہ عبادت کا آدھا ہیں، عبادت کا آدھا دعا کو قرار دے دیا۔ ارشاد فرمایا: "عَمَلَ الْبِرِّ کلُّهُ نِصْفُ الْعِبادَةِ وَ الدُّعا نِصْفٌ" انسان کے تمام نیک اعمال اس کی عبادت کا نصف ہیں اور دوسرا نصف دعا ہے۔ اس حدیث سے دعا کی اہمیت و فضیلت اور دعا کی برکات روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :"عَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فَإِنَّكُمْ لَا تَقَرَّبُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَا تَتْرُكُوا صَغِيرَةً لِصِغَرِهَا أَنْ تَدْعُوا بِهَا إِنَّ صَاحِبَ الصِّغَارِ هُوَ صَاحِبُ الْكِبَارِ". میں آپ کو دعا کی سفارش کرتا ہوں، کوئی چیز بھی اس دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے، اور کسی چھوٹے کام کے چھوٹا ہونے کی خاطر اس کے لیے دعا کو ترک نہ کرنا، چونکہ چھوٹی حاجات بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں، جس کے ہاتھ میں بڑی حاجات ہیں۔3 اس حدیث میں اگر دقت کی جائے تو اس میں کافی ظریف نکات موجود ہیں۔

1)۔ امام علیہ السلام نے سب سے پہلے فرمایا کہ میں تمہیں دعا کی سفارش کرتا ہوں۔ امام معصوم کا ایک چیز کے متعلق سفارش کرنا یہ خود اس چیز کی اہمیت پر بہت بڑی دلیل۔ گويا امام علیہ السلام کے نزدیک دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ خود اپنے ماننے والوں کو دعا کی سفارش کر رہے ہیں.
2)۔  دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر خدا کے قریب کرنے والی نہیں ہے۔ یعنی خداوند متعال  کا قرب حاصل کرنے کے لیے سب سے آسان راستہ دعا ہے۔ دعا کے ذریعے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ خدا سے راز و نیاز کا وسیلہ دعا ہے۔ البتہ تمام نیک اعمال خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ تمام نیک اعمال تقرب الھی کا موجب ہیں لیکن جس چیز کی معصوم نے سفارش کی ہے وہ دعا ہے۔
3)۔ تیسرا نکتہ امام علیہ السلام نے فرمایا: دعا کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات میں بھی ترک نہ کرو۔ یہاں پر معصوم علیہ السلام ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ ہمیشہ اپنے خدا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھو، ایسا نہ ہو کہ ہم جب کسی بڑی مشکل میں مبتلا ہو جائیں تو پھر خداوند متعال کی بارگاہِ میں دعا کریں، توسل کریں۔ بلکہ انسان کو اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات میں بھی خداوند متعال کے ساتھ متوسل رہنا چاہیئے، تاکہ وہ عبد اور معبود، خالق اور مخلوق والا رابطہ برقرار رہے۔ جس طرح انسان بڑی بڑی مشکلات اور حاجات میں خدا کا محتاج ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی مشکلات اور حاجات میں بھی خدا کا محتاج ہے۔

4)۔   چوتھا نکتہ یہ ہے  امام علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح بڑی بڑی حاجات کو پورا، اور بڑی بڑی مشکلات کو رفع کرنی والی ذات، ذات خدا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی حاجات کو پورا، اور چھوٹی چھوٹی مشکلات کو رفع کرنے والی خداوند متعال کی ذات ہے۔ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں یہ نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر انسان خیال کرے کہ فقط بڑی بڑی مشکلات میں ہی خداوند متعال سے دعا اور توسل کرنا چاہیئے، چھوٹی چھوٹی مشکلات میں ہم اس کے محتاج نہیں ہیں تو یہ تصور غلط ہے. انسان ہر وقت، ہر حال میں رحمت الھی کا محتاج ہے، لطف پرودگار کا نیازمند ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات کو بھی اس مہربان پروردگار کے سامنے پیش کریں تاکہ ہمارا رابطہ اپنے مالک حقیقی کے ساتھ برقرار رہے اور اس کی رحمت و لطف ہمارے شامل حال رہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "ما اَحدٌ أَبغضُ اِلَی اللهِ عزّوجَلَّ مِمَّن یستكبِرُ عَن عِبادَتِه و لا یسأَلُ ما عِندَهُ"۔ خداوند کے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی مبغوض (قابل نفرت) نہیں جو تکبر کی وجہ سے خدا کی عبادت نہیں کرتا اور خدا سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ دعا کی اہمیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کی وجہ سے خدا کسی سے نفرت کرتا ہے ان میں سے ایک خدا سے سوال (دعا) نہ کرنا ہے۔ بس دعا ہی ایک ایسا وسیلہ جس کے ذریعے خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے. اور غضب خدا سے بچا جا سکتا ہے.
 
قبولیت دعا کی شرائط:

دعا انسان کا خالق حقیقی کے ساتھ معنوی رابطے کا نام ہے۔ دعا عبد کی معبود کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔ دعا مخلوق کو خالقِ حقیقی کے ساتھ ملانے کا وسیلہ ہے۔ جب گناہوں کی وجہ سے خالق اور مخلوق کے درمیان پردے حائل ہو جاتے ہیں تو دعا کے ذریعے ہی ان حجابوں کو دود کیا جا سکتا ہے، چونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ دعا باقی عبادات کی طرح ایک عبادت ہے لہٰذا جس طرح باقی تمام عبادات کے خاص احکام اور شرایط ہیں، اسی طرح دعا کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ انسان مومن کو چاہیئے کہ جب دعا کرے تو ان شرائط کا لحاظ کرے، تاکہ اس کی دعا مرحلہ استجابت تک پہنچ جائے۔ بسا اوقات ہم دعا تو بہت زیادہ کرتے ہیں، لیکن چونکہ دعا کی شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا، اس لیے بسا اوقات ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہم یہاں پر دعا کی چند شرائط کو اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے۔ ان شرائط میں سے...

1۔ خداوند متعال کی عظمت اور قدرت پر ایمان:
دعا کی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کی ذات تمام موجودات پر قدرت رکھتی ہے اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ خداوند متعال کے لیے کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے. میں جس چیز (جائز) کا بھی سوال کروں خدا کی ذات اسے عطا کر سکتی ہے۔ وہ اس چیز کو عطا کرنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ خدا کے علاوہ کسی پر، کسی قسم کی امید نہ رکھے۔ اس کی تمام امید خداوند کی ذات اقدس ہو۔ خداوند متعال نے خود قرآن میں ارشاد فرمایا: "و من یتوکل علی اللّه فهو حسبه" ترجمہ: جو بھی اپنے امور میں خدا پر توکل کرے گا بس خدا اس کے لیے کافی ہے۔ علی بن سوید سائی کہتا ہے، اس آیت کے متعلق امام رضا علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "و من یتوکل علی الله فهو حسبه" يعني: "التوکل علی الله درجات: منها أن تتوکل علی الله فی أمورک کلها فما فعل بک کنت عنه راضیا تعلم أنه لا یألوک خیرا و فضلا".... . توکل کے درجات اور مراتب ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تو اپنے تمام امور میں خداوند متعال پر توکل اور اعتماد کرے، اور جو کچھ وہ تیرے لیے انجام دے تو اس پر راضی رہے اور تو جان لے، یقین رکھ کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے فضل و خیر اور کرم سے تیرے حق میں کوتاہی نہیں کرے گا۔6

2۔ توجه قلبی سے دعا کرنا:
دعا کی شرائط میں سے دوسری شرط توجہ قلبی ہے، دعا کرنے والے کو چاہیئے کہ مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ اپنی حاجات کو خداوند متعال سے طلب کرے. دعا کرتے وقت متوجہ ہو کہ کس سے ہمکلام ہو رہا ہے۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "فادعواللّه مخلصین له الدین" ترجمہ: فقط خدا کو پکاریں اور اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کریں۔7 یعنی دعا اور درخواست خالص ہونی چاہیئے۔ ایک مقام پر امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، "لا یَقْبَلُ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ دُعاءَ قَلْبٍ لاهٍ؛...،خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل دعا کرتے وقت غافل اور مشغول ہو۔ 8۔ امير المومنین کے اس نورانی کلام سے واضح ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے توجہ لازم ہے، ورنہ دعا استجابت کے مرحلے تک نہیں پہنچے گی۔ خداوند متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُونَنا رَغَبا وَ رَهَبا وَ کانُوا لَنا خاشِعینَ" ترجمہ: انہوں نے ہم کو امید اور ڈر سے پکارا اور ہمارے لئے خشوع کیا۔9 معلوم ہوا دعا کی قبولیت دعا کرنے والے سے وابستہ ہے، اگر دعا کرنے والا توجہ اور خلوص کے ساتھ دعا نہ کرے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔

3۔ شر اور خیر کی پہچان:
دعا کی شرائط میں سے تیسری شرط خیر اور شر کی پہچان ہے۔ انسان راہ نجات اور راہ ہلاکت کو جانتا ہو. کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی ہلاکت کی آپ ہی دعا کر رہا ہو. یہ تب مشخص کر پائے گا جب خیر اور شر کی پہچان ہو گی۔ خداوند متعال نے سورہ اسرا میں ارشاد فرمایا: "وَ یَدْعُ الاِنْسانُ بِالشَرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الانْسانُ عَجُولاً" ترجمہ: انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیئے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔10 اس آیت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "وَ اعْرِفْ طُرُقَ نَجَاتِکَ وَ هَلَاکِکَ کَیْلَا تَدْعُوَ اللَّهَ بِشَیْءٍ مِنْهُ هَلَاکُکَ وَ أَنْتَ تَظُنُّ فِیهِ نَجَاتَکَ قَالَ اللَّهُ عزّوجلّ وَ یَدْعُ الْإِنْسانُ بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالْخَیْرِ وَ کانَ الْإِنْسانُ عَجُولًا وَ تَفَکَّرْ مَا ذَا تَسْأَلُ وَ کَمْ تَسْأَلُ وَ لِمَا ذَا تَسْأَلُ" تیرے اوپر لازم ہے کہ نجات اور ھدایت کے راستوں کو پہچان، تاکہ دعا کرتے وقت خدا سے ایسی چیز کا سوال نہ کرے جس میں تیری ہلاکت ہو، اور تو گمان کر رہا ہو کہ اس میں میری نجات ہے۔ 11بس معلوم ہوا دعا سے پہلے انسان سوچے کہ کس سے مانگ رہا ہے، اور کیا مانگ رہا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خیر کے بجائے شر طلب کر رہا ہو، اگر انسان خیر اور شر میں تشخیص کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو پھر اسے چاہیئے خدا سے اس طرح دعا کرے، کہ خدایا ہر وہ چیز جو میرے لیے خیر اور مصلحت رکھتی ہے، وہ مجھے عطا کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1]  (کافى، جلد ۲، ص ۴۶۸.)
[2] (بحارالانوار،ج۹۰، ص ۳۰.)
[3] (كافى (ط-الاسلامیه) ج 2، ص 467، ح 6)
[4] (وسائل، ج ٤، ص ١٠٨٤)
[5] سوره طلاق 3
[6] وسائل الشیعه، ح. ۲۰۳۰۷؛ بحار ۶۸: ۱۲۹ ح. ۵
[7] غافر آیت. 14
[8] الکافي؛ ج 2، ص 473
[9] انبیاء 9
[10] سورہ اسرا 11
[11] مستدرک الوسلنگرایل، ج۵، ص،۲۷۱

تحریر: ساجد محمود

Monday, 27 April 2020 07:58

کیا یہ وہی ایران ہے؟

تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ دنوں ایران نے اپنے ملک میں تیار ہونے والی سیٹلائیٹ نور کو اپنے ہی ملک میں تیار ہونے والے لانچر کے ذریعے کامیابی سے فضا میں پہنچا دیا، سیٹلائیٹ نے لانچ ہونے کے نوے منٹ بعد اپنے زمینی مرکز پر سگنل دینے شروع کر دیئے تھے۔ ویسے تو خلا میں کئی ایک ممالک کی سیٹلائٹس موجود ہیں، تاہم ہر ملک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیٹلائیٹ کو خود خلا میں بھیج سکے۔ اس مقصد کے لیے غریب ممالک کو اکثر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایران نے اس سیٹلائیٹ کو فضا میں بھیجنے کے لیے اس سے قبل دو تجربات کیے تھے، جن میں اسے ناکامی ہوئی تھی، تاہم اس مرتبہ وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نور اگرچہ فوجی سیٹلائیٹ ہے، لیکن اس کو غیر فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کو مدار میں پہنچانے کے لیے جو لانچر استعمال کیا گیا ہے، اس کے بارے مین یہ اطلاعات ہیں کہ اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹھوس ایندھن کو لانچر میں استعمال کرنے کی استعداد دنیا میں گنے چنے ممالک کے پاس ہے۔ ایران ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایندھن کے استعمال کے لیے پیچیدہ ٹیکنالوجی درکار ہے۔ نور کے کامیاب تجربہ سے یہ چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ ایران نے یہ پیچیدہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔

ایران نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو میزائل سسٹم میں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تاہم یہ بات ایک حقیقت ہے کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو اس لانچنگ پر تشویش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ سیٹلائیٹ لانچ کرکے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ویسے امریکہ بہادر تو اپنے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے لانچ کی جانے والی سیٹلائیٹ کو عالمی قوانین کے مطابق نہیں سمجھتا، اسی لیے اس نے چین اور جنوبی کوریا کو بھی متعدد مواقع پر ایسی ہی دھمکیاں دی ہیں، جنہیں یہ ممالک اب زیادہ قابل اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ میرا حیرت سے بھرپور سوال واقعاً دنیا کے اعلیٰ دماغوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے کہ ایران جو امریکا، یورپ، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ تین دہائیوں سے پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں میزائل ٹیکنالوجی، توانائی، سائنس کے مختلف شعبہ جات، فوجی اداروں اور شخصیات، بینکوں، کرنسی، کاروبار، ہوائی انڈسٹری، بحری انڈسٹری اور دیگر کئی ایک شعبوں پر عالمی پابندیاں ہیں، جس کی معیشت کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا گیا، اس نے کیسے سیٹلائیٹ بنائی اور پھر اسے خود ہی مدار میں پہنچا دیا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پورا ایران کرونا کی زد پر ہے اور اس کے سینکڑوں شہری اس آفت سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایران نے اس سے قبل بھی دنیا کو متعدد مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، کبھی امریکی ڈرون اتار کر، کبھی پیچیدہ ترین ڈرون کو فضاء میں تباہ کرکے، کبھی عراق میں امریکوں اڈوں کو نشانہ بنا کر۔ تاہم اس بار تو ایران نے سبھی حدیں ہی عبور کر دیں اور دنیا کو بتایا کہ ایران کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ایرانی قوم کی پیشرفت اور ترقی کا سفر کسی حال میں بھی نہیں تھم سکتا ہے۔ اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا، جو اتنے عرصے سے مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ فی الحال فضا میں غبارے چھوڑنے سے اوپر جا سکا ہوتا۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نیز اس کے فیصلہ سازوں نے دنیا کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی اور خود انحصاری کا فیصلہ کر لے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس قوم کے ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ ایرانیوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ معاشی، اقتصادی، علمی پابندیاں ترقی کی رفتار کو سست تو کرسکتی ہیں، تاہم مکمل طور پر روکنا ان پابندیوں سے بس سے باہر ہے۔

ایران نے نور سیٹلائیٹ کو کامیابی سے مدار میں پہنچانے کا تجربہ کرکے جہاں سائنسی اور علمی میدان میں اپنی پیشرفت اور خود کفالت کا اعلان کیا ہے، وہیں اس نے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایسی ہی ترقی اور پیشرفت کے مواقع روشن کر دیئے ہیں۔ کرونا کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے بہت جلد ایسے انقلابی اقدامات کئے ہیں، جن سے ملک میں اموات کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایران میں کرونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد چین کے بعد سب سے زیادہ ہے، ایران میں اب تک نوے ہزار کرونا کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریبا ستر ہزار کے قریب صحتیاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت ایران میں کویڈ 19 کے تقریباً پندرہ ہزار کیسز موجود ہیں، جبکہ اموات کی تعداد پانچ ہزار سات سو کے قریب ہے۔ ایران کی اس پیشرفت اور خود کفالت کا موازنہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کرنا بالکل غلط ہے، کیونکہ دنیائے اسلام میں بالخصوص اور اقوام عالم میں بالعموم کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے، جو مغربی ممالک کی پابندیوں کا ایران کی مانند سامنا کر رہا ہو اور ان تمام معاشی، اقتصادی، تجارتی، علمی اور سائنسی پابندیوں کے باوجود ایسے معجزات رونما  کرے۔ سائنسی ترقی کے یہ مظاہر اور ان شعبوں میں خود کفالت ایرانی قوم اور اس کی قیادت کا طرہ امتیاز اور ایمان باللہ کی بین دلیل ہے۔ اللہ کریم دنیا کی تمام اقوام اور ریاستوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور عزت و وقار سے جینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔آمین

.بقره 185رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں

 امریکہ کی جنوبی ریاست کنیکٹیکٹ سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ایران کی طرف سے اپنے پہلے دفاعی سیٹیلائٹ "نور" کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کے اقدام پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے اپنے دفاعی سیٹیلائٹ کے کامیابی کے ساتھ خلاء میں پہنچانے کا اقدام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے حوالے سے اختیار کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف ایران کو مضبوط کرنے کا باعث بنی ہے بلکہ اب ایران کا رویہ بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔ کریس مرفی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران مشرق وسطی میں ایران ہر لحاظ سے طاقتور اور امریکہ کمزور ہوا ہے۔

امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں دعوی کیا ہے کہ قبل ازیں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی تب ایران، عراق کے اندر موجود امریکیوں کو نشانہ نہیں بناتا تھا لیکن اب ایران اور اس کی حمایت یافتہ فورسز منظم طور پر امریکی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ امریکی سینیٹر نے لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں کہا تھا کہ (شہید جنرل قاسم) سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایرانی دفاع میں کمزوری کا باعث بنے گی لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سے امریکی فورسز پر حملے بڑھے ہی ہیں کم نہیں ہوئے۔ کرس مرفی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر نے (ایرانی) جوہری معاہدہ توڑ کر ہمیں یہ تسلی دی کہ ایک نئے سسٹم اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے ایران کو مجبور کر کے پہلے سے بہتر ایک نیا معاہدہ طے کر لیا جائے گا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل کر رہ گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کسی (بین الاقوامی فریق) نے ایران پر جدید پابندیاں عائد کئے جانے کی حمایت نہیں کی جبکہ ایران نے اپنا جوہری پروگرام بھی ازسرنو شروع کر لیا ہے درحالیکہ نیا معاہدہ بھی طے نہیں پایا۔

اقوام متحدہ کے لئے ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے اپنے ایک بیان میں ایرانی دفاعی سیٹیلائٹ اور ایرانی فوجی بحری بیڑے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دی جانے والے دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ ایران اپنے ملک و قوم کے دفاع کی خاطر کسی قسم کے اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے امریکی ہفت روزہ اخبار "نیوز ویک" کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے رعب و دبدبے اور دھمکیوں کے سامنے جھکنے والا نہیں اور اپنے ملک و قوم کے دفاع میں ہر قسم کی جارحیت کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھرپور جواب دے گا۔

اقوام متحدہ کے اندر ایران کے مستقل کمیشن کے ترجمان علی رضا میریوسفی نے امریکہ میں کرونا وائرس کی وسیع تباہ کاریوں کے حوالے سے جاری بدترین صورتحال میں امریکی حکومت کی ناکامی اور بین الاقوام سطح پر تناؤ میں اضافے کے امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے وسیع پھیلاؤ کے درمیان جب پوری دنیا کی توجہ اس وبا سے نپٹنے پر مرکوز ہے تو امریکی فوج اپنے ملک سے 7 ہزار کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع خلیج فارس کے پانیوں میں کیا کر رہی ہے؟

واضح رہے کہ ایرانی سمندری حدود کے قریب خلیج فارس میں سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے ایک بیان میں لکھا گیا تھا کہ میں نے امریکی فورسز کو حکم دیے دیا ہے کہ ہر یا تمام ایرانی کشتیوں کی طرف جو سمندر میں موجود ہمارے بحری بیڑوں کو روکنے کی کوشش کریں، فائر کر کے انہیں تباہ کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ امریکی بحریہ کی طرف سے ایرانی سمندر حدود کے نزدیک بین الاقوامی قوانین کی خلاف پر ایرانی سپاہ پاسداران کی طرف سے امریکی فوجی بحری بیڑے کے روکے جانے پر ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ خلیج فارس 2 لاکھ 50 ہزار کلومیٹرز رقبے پر موجود ایک بند سمندر ہے جس میں موجود کسی ایٹمی بحری بیڑے کو اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کم از کم 10 بارہ سال تک وہاں کوئی زندہ چیز یا قابل استعمال پانی باقی نہیں بچے گا جو انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی۔

 ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ملکی ٹیلیویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ خلائی پروگرام کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور مزید طاقت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حکم دے رکھا ہے کہ امریکہ کے شر سے بچنے کے لئے ملکی قوت میں اضافہ کیا جائے اور ہم یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ظاہری رعب داب کے برعکس وہ ایرانی پر حملہ پر حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے امریکی دہشتگردی کی کارروائی میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں موجود سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر ایرانی جوابی کارروائی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ تب امریکی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کی توقع تھی لیکن ایرانی کارروائی کے جواب میں امریکہ کچھ نہیں کر پایا۔ ایرانی ایروسپیس فورس کے کمانڈر نے کہا کہ اگر امریکہ کی طرف سے عین الاسد پر ایرانی کارروائی کا جواب دیا جاتا تو پھر اس کے جواب میں فوری طور پر مزید 400 امریکی اہداف کو نشانہ بنایا جانا تھا جن کی فہرست پہلے سے تیار کی جا چکی تھی۔

تحریر: رضا اصلانی

چند روز پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ فضائی مدار میں قرار دے دیا ہے۔ یہ فوجی شعبے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔ اس فوجی سیٹلائٹ کا نام "نور" ہے اور اسے "قاصد" نامی لانچر کے ذریعے فضا میں بھیجا گیا ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لانچر اور سیٹلائٹ دونوں مکمل طور پر ایران کے تیار کردہ ہیں۔ نور سیٹلائٹ کو زمین سے 425 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مدار میں قرار دیا گیا ہے۔ لانچنگ پیڈ سے فائر ہونے کے 90 منٹ بعد ہی نور سیٹلائٹ نے زمین پر سگنل بھیجنا شروع کر دیے تھے جس سے یقین ہو گیا کہ یہ سیٹلائٹ کامیابی سے اپنے مدار میں چلا گیا ہے۔ اس بارے میں ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ نور سیٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے کیلئے جس لانچر کا استعمال کیا گیا اس کے بالائی حصے میں ٹھوس ایندھن کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لازم الذکر ہے کہ ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے انجن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے اور اس کیلئے اعلی فنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔

اس وقت دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جو فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کیلئے ٹھوس ایندھن والے انجن کے حامل لانچر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حامل چند ایک لانچرز میں سے جاپان کا ایسیلیون لانچر، یورپین اسپیس ایجنسی کا ویگا لانچر اور امریکہ کے پاس موجود فوجی سیٹلائٹس فضا میں بھیجنے کیلئے مینماٹین لانچر قابل ذکر ہیں۔ ٹھوس ایندھن استعمال کرنے والے لانچرز کے شعبے میں جاپان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔ یوں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے کام کرنے والے لانچر "قاصد" کا استعمال فضائی شعبے میں ٹیکنالوجی کی اٹھان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اس سے پہلے دو بار فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی کوشش کر چکا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ دونوں بار اصل مسئلہ لانچر کے بالائی حصے میں تھا۔ لیکن فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے حالیہ کامیاب تجربے کے بعد ایران اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس وقت زمین کے اردگرد مختلف مداروں میں تقریباً دو ہزار سے زائد سیٹلائٹ موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسے سیٹلائٹس کی ہے جنہیں باقاعدہ طور پر فوجی سیٹلائٹ قرار دیا گیا ہے۔

اس وقت جو فوجی سیٹلائٹس فضا میں موجود ہیں ان کی اکثریت امریکہ یا نیٹو نے فوجی مقاصد کیلئے فضا میں بھیج رکھا ہے۔ یہ نکتہ بھی شاید آپ کیلئے دلچسپ ہو کہ فضا میں موجود بین الاقوامی فضائی اسٹیشن بھیجے جانے والے بعض امریکی خلابازوں کو بھی فوجی نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس فضائی اسٹیشن پر امریکی اور روسی انٹیلی جنس، سکیورٹی اور فوجی اداروں نے بھی بڑی تعداد میں جاسوسی کے آلات نصب کر رکھے ہیں۔ ایران کی جانب سے فضا میں بھیجے جانے والا نور سیٹلائٹ اگرچہ فوجی اداروں سے متعلق ہے لیکن محض فوجی مقاصد سے مخصوص نہیں۔ نور سیٹلائٹ غیر فوجی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور قدرتی آفات یا ماحولیات کے بارے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ فضا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کی اجازت درکار ہو۔ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں فضائی ٹیکنالوجی کو اپنے ساتھ مخصوص رکھنا چاہتی ہیں اور دیگر ممالک کو اس شعبے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔ امریکہ اب تک کئی ممالک کی جانب سے فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کی راہ میں رکاوٹیں ایجاد کر چکا ہے جن میں جنوبی کوریا اور چین سرفہرست ہیں۔

امریکہ نے جنوبی کوریا کو فضائی شعبے میں ایک سے زیادہ تجربہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ یہ ایک تجربہ بھی جنوبی کوریا کے دباو اور سیاسی عزم کا نتیجہ تھا۔ دوسری طرف چین نے 2007ء میں اپنا پہلا سیٹلائٹ فضا میں بھیجا۔ چین نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ فضائی شعبے میں ترقی کی راہ پر چلنے کیلئے پرعزم ہے اور اگر امریکہ نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو اسے بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے کامیابی سے پہلا فوجی سیٹلائٹ فضا میں بھیجنا دنیا والوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایران نے جدید ٹیکنالوجی کی چوٹی پر پہنچنے کا عزم راسخ کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے کہ قاصد لانچر میں زیر استعمال ٹیکنالوجی اس کے میزائل پروگرام میں مفید ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصولی طور پر بین البراعظمی میزائلوں کی تیاری ایران کی دفاعی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نور سیٹلائٹ سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں ترقی کیلئے مفید واقع ہو گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود یہ عظیم کامیابی حاصل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

سید ناصر هاشمی

مقدمہ
انسان محبت اور توجہ کا بھوکا ہوتا ہے۔ محبت اور توجہ دلوں کو حیات بخشتی ہے۔ جو انسان خود کو پسند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے پسند کریں۔ محبت و چاہت انسان کو شادمان اور خوشحال کرتی ہے۔ محبت ایک ایسا جزبہ ہے جو استاد و شاگرد دونوں کے دلوں پر مساوی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی کو چاہتا نہیں ہوگا، پسند نہیں کرتا ہوگا تو اس کی تربیت کیسے کر سکتا ہے۔ تربیت اولاد میں محبت کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔

محبت، استاد و شاگرد کے درمیان ارتباط برقرار کرنے میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین رابطہ وہ ہے جس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہو اس لیے کہ یہ ایک فطری اور طبیعی راستہ ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام راستے، جن کی بنیاد زور زبردستی اور بناوٹ وغیرہ پر ہوتی ہے، وہ سب غیر طبیعی اور غیر مفید رابطے ہیں۔
بچوں کی مہمترین روانی و فطری ضرورت محبت، التفات اور توجہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ والدین بچوں کے سب سے پہلے سر پرست اور مربی ہیں لہذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اس فطری ضرورت ہر خاص توجہ مبذول کریں اور انہیں جاننا چاہیے کہ یہی وہ ضرورت ہے جو ان کی تربیت کی اساس اور بنیاد کو تشکیل دیتی ہے لہذا اس ضرورت کا پورا ہونا ان کے لیے روانی و فطری سلامتی، اعتماد بہ نفس اور والدین پر اعتبار کا سبب اور ذریعہ ہونے کی ساتھ ساتھ ان کی جسمانی سلامتی کا بھی باعث ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروا من قبلۃ اولادکم، فان لکم بکل قبلۃ درجۃ فی الجنۃ۔ اپنے بچوں کو بوسے دو اس لیے کہ تمہارا ہر بوسہ تمہارے لیے بہشت کے ایک درجہ کو بڑھا دے گا۔ لہذا والدین تربیت کی بنیاد مہر و محبت پر رکھیں۔ اس لیے کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ارتباط جو بچوں کے رشد و کمال کا سبب بن سکتا ہے، بر قرار نہیں ہو سکے گا اور صحیح طرح سے تربیت نہیں ہو سکی گی جب کہ اگر والدین کا سلوک تندی و سختی لیے ہوءے ہوگا تو وہ بچے کی روحی و روانی ریخت و شکست کا سبب ہو جاءے گا اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاءے گا۔

محبت کی اہمیت و ضرورت
محبت لوگوں میں میل ملاپ اور یکجہتی کا سبب ہے۔ اگر محبت کا جزبہ نہ ہوتا تو لوگوں میں انس و محبت نہ ہوتی، کوءی بھی انسان کسی دوسرے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا اور ایثار و قربانی جیسے لفظوں کا وجود نہ ہوتا۔
محبت و الفت پیدا کرنے والے کام تمام انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی و تربیتی اداروں کے لیے، اس لیے کہ محبت ہی ایسی شی ہے جو جسم و روح کی سلامتی کے ساتھ ساتھ انسان کی اخلاقی براءیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور بہبود روابط کا ذریعہ بنتی ہے۔
خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے:
فان اللہ یحب المتقین (سورہ آل عمران آیہ ۷۶) اللہ متقین کو دوست رکھتا ہے۔
فان اللہ یحب المحسنین (سورہ آل عمران آیہ ۱۳۸) اللہ نیک عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
انسانوں سے رابطہ کی زبان، خاص طور پر بچوں سے رابطہ کی زبان محبت ہونی چاہیے۔ غصہ و تندی و سختی سے کسی کی تربیت نہیں کی جا سکتی۔
تربیت میں محبت کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ محبت، اطاعت سکھاتی ہے اور محبت والے ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: والمرء مع من احب۔ انسان اس کا ساتھ دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے۔
محبت و اطاعت میں معیت (ساتھ رہنا) کا رابطہ پایا جاتا ہے، محبت کے ظہور کے ساتھ اطاعت و ہمراہی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کے دل میں والدین کی محبت بیٹھ گءی تو بچہ ان کا مطیع و فرماں بردار بن جاءے گا اور اس کے اوپر جو ذمہ داریاں ڈالی جاءیں گی وہ ان سے نافرمانی نہیں کرے گا۔
محبت، بچوں کی ذہنی نشو و نما اور روحی تعادل کے مھم اسباب میں سے ہے۔ ان کی ذاتی خوبیاں اور سلوک کافی حد تک محبت کی مرہون منت ہیں جو انہیں اس تربیت کے دوران ملی ہے، گھر کی محبت بھری فضا اور محبت سے مملو ماحول بچوں میں نرم جذبات اور ٖفضاءل کے رشد کا سبب ہے جو بچے محبت بھرے ماحول میں تربیت پاتے ہیں وہ کمال تک پہچتے ہیں ، اچھتے ڈھنگ سے سیکھتے ہیں اور دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور سماج و معاشرہ میں بہتر انسانی اقدار کے حامل ہوتے ہیں ۔ مہر و محبت ہی ہے کہ جو زندگی کو پر لطف اور با معنا بنتی ہے اور بچوں کی استعداد کی شگوفاءی اور ظہور کا سبب بنتی ہیں اور اس میں سعی و کوشش اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتی ہیں۔
محبت کی بنیاد، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کرنا، بنیادی انسانی اور اسلامی طریقوں میں سے ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے:
احبوا الصبیان وارحموھم ۔
بچوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آو ۔
والدین کو چاہیے کہ وہ قلبی طور پر اپنے عمل سے بچوں کو یہ یقین دلاءیں کہ وہ انہیں دوست رکھتے ہیں، ان کی یہ بات بچوں پر مثبت اثر ڈالے گی اور کچھ ہی عرصہ میں اس کا نتیجہ سامنے آ جاءے گا۔
والدین، بچوں میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو ان کی ذات کو تعمیر کرے اور مخصوص اعتقادات ان کے اندر جنم لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کام بغیر محبت اور دوستی کے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ جس کا مقصد انہیں رشد و کمال کی طرف لے جانا ہے۔

بچوں میں محبت کی ضرورت
انسان طبیعی اور فطری طور پر محبت کا طلب گار ہوتا ہے اور محبت ایک ایسی منفرد چیز ہے جس سے اسے اسیر کیا جس سکتا ہے اور بلندی کی طرف کی جایا جا سکتا ہے۔ محبت، نفس کی تربیت اور سخت دلوں کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ محبت ہی ہے جس سے کسی دوسرے انسان کے دل و دماغ کو مسخر اور فتح کیا جا سکتا ہے اور اس کے دل کو اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے اور انہیں طغیان و بغاوت اور براءیوں سے روک کر بندگی و حق و صداقت کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
بچوں، نوجوانوں یہاں تک کہ بوڑھوں کو محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا سبب انس، فطرت و طبیعت اور کمزوری و ضعیفی ہے۔ محبت، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے اس لیے کہ اگر وہ اپنے والدین سے محبت دیکھیں گے تو تھوڑی بہت کمیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔
ماہرین علم النفس بہت سی براءیوں، کج رویوں اور انحرافات کا سبب، محبت اور توجہ کی کمی کو قرار دیتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جب تک ان بے توجہی یا کم توجہی کا ازالہ نہ ہو جاءے ان کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔
بچوں اور نو جوانوں کو بوڑہوں سے زیادہ محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح سے کھانا پینا ان کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سے محبت اور توجہ بھی ضروری ہے۔ محبت کے ساتھ ان کے عواطف و احساسات کی بخوبی و با آسانی تربیت کی جا سکتی ہے اور انہیں اچھا انسان بنایا جا سکتا ہے۔ استاد و مربی ان کی اس ضرورت کو نظر انداز کر کے ان سے بہتر تعلقات استوار نہیں کر سکتا اور اپنا تربیتی پیغام اس تک نہیں پچا سکتا۔ پہلے اسے بچے کا دل فتح کرنا پڑے گا تب کہیں جا کر اس کے دل و دماغ تک رساءی ممکن ہوگی۔ جب تک اسے یہ احساس نہ ہو جاءے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔
انسان اسیر محبت ہوتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: الانسان عبید الاحسان،
احسان و اظہار، محبت و دوستی انسان کو بندگی کی سرحد تک لے جا سکتی ہے۔
خدا وند عالم بھی اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے اور اس کی دوستی انسان کے رشد و کمال اور اس کی ترقی کا سبب بنتی ہے اور رذاءل اور براءیوں کو اس سے دور کرتی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کا ذکر کیا ہے جیسا کہ مربی کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:
و القیت علیک محبہ منی و لتصنع علی عینی (سورہ طہ آیہ ۳۹)
میں نے اپنی محبت تمہارے دل میں ڈال دی تا کہ تم میری آنکھوں کے سامنے تربیت پاءو ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم کی محبت اس طرح سے انسان کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے:
اذا احب اللہ عبدا الھمہ الطاعۃ والقناعۃ و فقھہ فی الدین ۔
جب پروردگار عالم اپنے بندہ کو دوست رکھتا ہے:
۱۔ اپنی طاعت و فرمانبرداری اس کے دل مین ڈال دیتا ہے۔
۲۔ اسے قناعت کی توفیق عنایت کرتا ہے۔
۳۔ اسے دین کی عمیق فہم عطا کرتا ہے۔
ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ بنا سکیں اور ان میں خوشی، امید اور جزبے جو زندہ رکھ سکیں تو وہ اپنی تربیت میں کامیاب ہیں اور تربیت کا یہ نسخہ نہایت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
قال موسی علیہ السلام یا رب ای الاعمال افضل عندک؟ قال: حب الاطفال فانی فطرتھم علی توحیدی ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا: خداہا کون سا عمل تیرے نزدیک افضل و برتر ہے؟ ارشاد ہوا: بچوں کو دوست رکھو اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام اور توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس منا من لم صغیرنا و لم یوقر کبیرنا
جو شخص بچوں پر مہربانی اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔
تربیت کی سب سے اہم اور موثر روش محبت ہے۔ محبت، جاذبیت، کشش اور مقصد پیدا کرتی ہے اور طاغی و باغی انسانوں کو رام کر دیتی ہے اور گھر کے نالایق و نافرمان بچوں کو آرام اور سکون بخشتی ہے۔ بچے گھروں میں قانون اور رعایتوں سے زیادہ محبت و عطوفت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان کی روح کی سلامتی و سعادت مندی کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب گھر کی فضا اور ماحول میں الفت و عطوفت، مہر و محبت قاءم و استوار ہو لہذا اگر والدین بچوں کی اس ضرورت ہر قادر نہ ہوں تو ان کے یہاں احساس کمتری پیدا ہو جاءے گا جو انہیں آگے جا کر فردی و معاشرتی زندگی میں مشکلوں سے دچار کرے گا۔
گھر کے ماحول کو محبت سے پر ہونا چاہیے تا کہ بچوں کے لیے اس میں سعی و کوشش کی راہ ہموار ہو سکے۔ محبت، تعلیم و تربیت کے بہت سے موانع اور مشکلات کو بر طرف کرتی ہے۔ خاص طور پر فکری و ثقافتی امور مین محبت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بہت سے کام ایک تبسم سے حل ہو جاتے ہیں جو بڑی بڑی کوشش اور جانفشانی سے حل نہیں ہوتے۔

علامہ سید اسماعیل بلخی کے بقول:
دل کہ در وی عشق نبود حفرہ تنگ است و بس
بی محبت یک جہان ھم یک نفس است و بس

مولوی کے بقول:
از محبت تلخھا شیرین شود
از محبت مسھا زرین شود
از محبت خارھا گل می شود
از محبت سرکہ ھامل می شود
از محبت مردہ زندہ می شود
و ز محبت شاہ بندہ می شود
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ استاد و شاگرد کے درمیان رعب و خوف کا رشتہ ہونا چاہیے تا کہ تربیت ہو سکے۔ حالانکہ وہ اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ اگر رعب و خوف وقتی طور پر بری عادتوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب تک اس کا اثر انسان پر باقی رہے گا تب تک رعب و خوف بھی باقی رہے گا اور ان کے زاءل نہ ہو نے سے تمام برے صفات اپنی تمام تر براءیوں کے ساتھ خود کو ظاہر کر رہے ہونگے۔

محبت کا اظہار
والدین کی اولاد سے محبت کے باب میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ اپنی دلی محبت پر قناعت اور اکتفا نہ کریں۔ اس لیے کہ محبت تربیت میں اس وقت موثر واقع ہو سکتی ہے جب اس کا اظہار کیا جاءے اور اولاد پر ظاہر کریں کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ صرف دل سے محبت کرنا، محبت کرنے والے کے لیے تو مفید ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے نہیں جس سے محبت کی جا رہی ہے۔ اظہار محبت ایک ایسا نسخہ ہے جس کی تاکید اور سفارش معصومین علیہم السلام نے متعدد مقامات پر کی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا احب احدکم اخاہ فلیعلمہ فانہ اصلح لذات البین۔
اگر تم اپنے بھاءی کو دوست رکھتے ہو اس سے محبت کرتے ہو تو اس کا اسے اظہار کرو۔ اس لیے کہ یہ اظہار تمہاری محبت اور دوستی کے لیے بہتر ہے۔ ایک روز ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام کے حضور میں عرض کیا:
انی لاحب ھذا الرجل فقال لہ ابو جعفر (ع) فاعلمہ فانہ ابقی للمودۃ و خیر فی الالفۃ۔
میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، امام (ع) نے فرمایا: اپنی اس محبت کا اس سے اظہار کرو، اس لیے کہ ایسا کرنے سے تمہارے تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوگا۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ مختلف طریقوں سے اپنی اولاد سے محبت کا اظہار کریں، محبت کا صرف دل میں ہونا کافی نہیں ہے۔
آگاہ اور ماہر والدین وہ ہیں جو نہایت سلیقہ سے اپنی محبت اپنے بچوں تک پہچاءیں، انہیں اپنی محبت کا احساس دلاءیں۔ جب بچے یہ محسوس کریں کہ ان کے والدین ان محبت کرتے ہیں، ان کی بھلاءی چاہتے ہیں، ان کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں اور ان کی ترقی و کامیابی کے لیے کوشان ہیں، ان کے خیر اور اچھی تربیت کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں تو وہ بھی اپنے والدین سے محبت کرنے لگیں گے، ان کی تربیتی باتوں کا اثر لیں گے اور ان پر عمل کریں گے۔

محبت میں افراط و تفریط
تربیت کی راہ میں محبت کی روش اس وقت مفید و موثر ہو سکتی ہے جب حد اعتدال سے خارج نہ ہو اور افراط و تفریط تک نہ پہچے جبکہ عدم توجہ اور محبت کی کمی، بچوں کو غلط راہ پر ڈال دیتی ہے۔ ایسی محبت جو بچوں کے رشد و ارتقاء کا سبب بن سکتی ہے وہ وہ محبت ہے جس میں اعتدال و واقعیت ہو، جو تکلف و تصنع سے عاری اور ان کی عمروں، حالتوں سے مناسبت رکھتی ہو۔
بچوں کی ذہنی و روحی تربیت میں محبت کا کردار غذا کی طرح ہے جس طرح سے غذا کی کمی و زیادتی اس کء جسم کے اوپر مثبت و منفی اثر ڈال سکتی ہے اس طرح سے محبت و توجہ کی کمی و زیادتی اس کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
جس طرح سے گزشتہ زمانوں میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے بہت سے غلط اصول و ضوابط مثلا ان سے تحقیر آمیز سلوک کرنا، انہیں سخت کاموں کے لیے ہدایت دینا، برا بھلا کہنا، گالی دینا، خلاصہء کلام یہ کہ ان کی شخصیت کو درک نہ کرنا، وغیرہ پر عمل کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ تند خویی و اضطراب، بدبینی، کینہ توزی اور براءیوں کے ارتکاب کی شکل میں سامنے آتا کرتا تھا۔ عصر حاضر میں علوم کی ترقی اور علم النفس وغیرہ کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے سے، جس کے تحت بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی روش میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ ان سے محبت آمیز سلوک ہو تا کہ ان سے گزشتہ زمانوں والی براءیوں کا ارتکاب سامنے نا آءے۔ مگر والدین کے افراط اور بیجا لاڈ پیار سے اس طرح کی دوسری نازیبا باتیں بچوں میں جنم لینے لگتی ہیں جو ان کی غلط تربیتی روش کا نتیجہ ہیں اور جس کے نتیجہ میں پر توقع، خود سے راضی، کمزور، جلدی ناراض ہو جانے والے بچے وجود میں آتے ہیں جو زندگی میں پیش آنے والی ہلکی سی سختی اور تنگی میں مایوسی، کینہ توزی، ذہنی و روانی امراض، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تعلیمی و تربیتی و معاشرتی زندگی میں شکست سے دچار ہو جاتے ہیں۔
لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دل کی گہراءیوں سے چاہیں مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کی براءیوں پر بھی نظر رکھیں اور نہایت ہوشیاری سے ان کی اصلاح کریں۔ بے شک جنسی خواہشات اور شہوات فطری ہیں، محبت و عشق فطری ہے مگر اس کے مقابلہ میں ہمارا رد عمل اور ہوشیاری دکھنا بھی ضروری پے۔ بچوں کی جایز و نا جایز باتوں پر بغیر قید و شرط کے ہاں کہنا صحیح نہیں ہے، ڈانٹ بھٹکار کے بجای پیار کرنے سے نہ صرف یہ کہ نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا بلکہ ان کی شخصیت پر ایسا منفی اثر ڈالے گا کہ جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔

محبت میں برابری و مساوات
قابل ذکر نکتہ اس باب میں بچوں سے مہر و محبت میں عدالت و مساوات کا خیال رکھنا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے محبت میں کسی طرح کی تبعیض اور فرق کے قاءل نہ ہوں، اس لیے کہ یہ کام نہ چاہتے ہوءے بھی سبب بنے گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے احترام کے قاءل نہیں نہیں رہیں گے اور بچے گھر کے ماحول سے دور ہو جاءیں گے۔
معصومین علیہم السلام کی سیرت اس سلسلہ میں بچوں میں عدالت اور مساوات کی رعایت کرنا رہی ہے، خاص طور پر وہ حضرات بچوں سے محبت میں فرق کے قاءل نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب سے محو گفتگو تھے کہ ایک بچہ بزم میں وارد ہوا اور اپنے باپ کی طرف بڑھا، جو ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، باپ نے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے داہنے زانو پر بیٹھا لیا، تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی وارد ہوءی اور باپ کے قریب گءی، باپ نے اس کے سر پر بھی دست شفقت پھیرا اور اپنے قریب بیٹھا لیا، آنحضرت (ص) نے جب اس کے دوسرے سلوک کو ملاحظہ کیا تو فرمایا: اسے تم اپنے دوسرے زانو پر کیوں نہیں بیٹھایا؟ تو اس شخص نے بچی کو اپنے دوسرے زانو پر بیٹھا لیا تو آپ (ص) نے فرمایا:
اعدلوا بین ابناءکم کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البر و الطف۔
اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے پیش آءو، جس طرح سے تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ نیکی اور محبت میں مساوات کے ساتھ سلوک کی اجاءے۔ لہذا بچوں کے درمیان عدالت و مساوات کے ساتھ پیش آنا، تربیت کے مہم نکات میں سے ایک ہے، جس کی رعایت نہ کرنے سے برے آثار و نتایج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

محبت کے فواید و آثار
بچوں سے محبت کے بہت سے آثار و فواید ہیں، جن میں بعض کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:
۱۔ محبت، شادابی و نشاط کا سبب ہے لہذا جو والدین اپنے بچوں سے زیادہ محبت کریں گے وہ انہیں زیادہ خوش اور مطمءن رہنے میں مدد کریں گے۔
۲۔ بچے اس روش سے یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں سے کیسے محبت کی جاءے، جو بچے محبت سے محروم رہتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ جسمی و روحی و روانی اعتبار سے مشکلوں کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ دوسروں سے محبت آمیز سلوک میں بھی الجھنوں سے دچار ہو جاتے ہیں اور آءندہ وہ بہتر اور مناسب سلوک سے معذور ہو جاتے ہیں۔
۳۔ محبت سے بچوں میں اعتماد بنفس پیدا ہوتا ہے، جن بچوں میں کانفیڈینس اور اعتماد بنفس پایا جاتا ہے وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے دوسروں کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنی بلند ہمتی اور مضبوط ارادے کے ساتھ وارد عمل ہو جاتے ہیں اور جب تک ھدف اور مقصد تک نہیں پہچ جاتے، سعی و کوشش کرتے رہتے ہیں۔
۴۔ بچوں میں کچھ کرنے کا جزبہ پیدا کرنے والے اسباب میں سے ایک اصول کلی یہ ہے کہ جو بچے محبت پاتے ہیں وہ زیادہ محنت کرتے ہیں اور محبت، تعلیم اور رشد کی خوبیوں کو درک کرتے ہیں۔
۵۔ محبت سے اولاد کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے جس کے نتیجہ میں اولاد والدین پر اعتماد اور اطمینان کرنے لگتی ہے اور ان کی مطیع بن جاتی ہے، اس روش سے بچوں کی تربیت کا زمینہ فراہم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ انسان خاص طور پر بچے اور نو جوان محبت میں کشش محسوس کرتے ہیں اور خود سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
قلوب الرجال وحشیۃ فمن تالفھا اقبلت علیہ ۔
انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ اس کی طرف جھک جاتا ہے۔

نتیجہ:
والدین بچوں سے محبت کا اظہار کریں، بچے ان کی باتوں کو زیادہ توجہ سننے اور ماننے لگیں گے۔ والدین محبت کے ذریعہ اپبے بچوں سے زیادہ عاطفی اور قلبی تعلق خاطر بنا سکتے ہیں اور انہیں نیک اور اچھے کاموں کی طرف راغب و ماءل کر سکتے ہیں اور برے اور خراب کاموں سے روک سکتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو کمال، تربیت اور بلندی کی طرف ھدایت کر سکتا ہے۔
 

حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے المنار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے اپنے نامعقول اور غیر انسانی اقدامات کے ذریعہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے میں مدد کی ہے۔ مہر کے مطابق حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے اپریل سن 1996 میں جنوب لبنان پر اسرائیلی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی حکومت ، لبنانی قوم اور لبنانی فوج نے باہمی اتحاد ، یکجہتی اور استقامت کے ساتھ اسرائيل کو جنوب لبنان سے خارج ہونے پر مجبور کردیا۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جنوب لبنان سے اسرائیلی فوج کا انخلا درحقیقت اسرائیل کی شکست کا آغاز اور اسلامی مزاحمت کے استحکام اور پائداری کا مظہر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل مزید کوئي حملہ کرتا ہے تو اسے منہ توڑ اور دنداں شکن جواب دیا جائےگا۔ مہر کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غیر انسانی طریقہ سے امریکہ کے اندر اور باہر کورونا وائرس کے پھیلنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ کی ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیاں کورونا وائرس کے پھیلنے میں مددگار ہیں ۔ امریکہ کے صدر پہلے کورونا وائرس کو چينی وائرس قراردیتے  رہے اور کورونا وائرس کا مذاق کرتے رہے اور امریکی صدر کے غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے آج امریکی عوام کو شدید نقصان اور پریشانی کا سامنا ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ امریکہ کورونا وائرس کے سلسلے میں ہونے والے تجربات کو اپنے کنٹرول میں لینے کی تلاش و کوشش کررہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے سلسلے بہترین اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حزب اللہ کا لبنانی حکومت کے ساتھ قریبی تعاون جاری ہے۔