
سلیمانی
علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور کی قومی و ملی خدمات پر ایک طائرانہ نظر
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی صائب رہنمائی اور سرپرستی میں فروغ علم و فلاح انسانیت کا جو کارواں ملک بھر میں رواں دواں ہے ، جناب علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور اسی کارواں کے ایک نمایاں فرد تھے ۔آپ نے 1959 میں ضلع راولپنڈی کے گاؤں بگرہ سیداں میں آنکھ کھولی اور میٹرک کےبعد ابتدائی دینی تعلیم کے لیے جامعۃ المنتظر لاہور تشریف لے گئے جس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں داخلہ لیا جہاں بہت جلد آپ کا شمار ہونہار اور باصلاحیت طلبہ میں ہونے لگا ۔اسی دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی اور اپنے اُستاد محترم کے مشورے پرمزید تعلیم کے لیے قم (ایران) تشریف لے گئے جہاں آپ نے اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ ایران سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد 1988 میں آپ پاکستان تشریف لائے اور مدرسہ کلیہ اہلبیت ( چنیوٹ) میں پرنسپل شپ کی مسئولیت سنبھالی جسے آپ نے تا دمِ آخر نہایت ذمہ داری اور جانفشانی سے نبھا یا یہاں تک کہ 31 مارچ سنہ2020 کو طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اب مدرسہ کلیہ اہلبیت چنیوٹ کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے استاد محترم مفسرقرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی اعلیٰ فکر و تدبر نظر کے مطابق شمع علم کو فروزاں اور امور فلاح انسانی کے عمل کو موثر اور وسیع تر کرنے کے لیے کوشاں رہے اس حیات مستعار کے دوران آپ کی بے لوث اور مخلصانہ جدوجہد جن اداروں کے شامل حال رہی ان کا اجمالی خاکہ کچھ اس طرح سے ہے۔
(1) پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ :
قوم و ملت کے بچوں کو ہنر سکھانے اور انہیں معاشرے کا مفید حصہ بنانے کے لیے مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ ہمیشہ فکر مند اور سرگرم عمل رہتے ہیں چنانچہ 2003 میں پاک پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی آپ کے اسی مشن کا آئینہ دار ہے جہاں مختلف شعبہ جات کی ورکشاپس اور ضروری آلات کے ذریعے بچوں کو ہنر مند بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔اس ادارے سے اب تک 1800 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم مکمل کر کے باعزت روز گار سے وابستہ ہو چکے ہیں جبکہ حکومت پنجاب کے تعاون سے اب تک 4200 طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات کے شارٹ کورسز مکمل کرنے کے بعد قوم و ملک کی خدمت میں مصروف ہیں۔
(2) کلیۃ اہلبیت :
مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی مدظلہ العالی کی مساعی جمیلہ سے 1987 میں قائم ہوا یہ مدرسہ 24کنال رقبے پر محیط ہے جس کا ایک حصہ طلبہ کے لیے جبکہ دوسرا حصہ دانشگاہ بتول برائے طالبات کے لیے مختص قرار پایا اور علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور 1988 میں اس کی مدیریت سنبھالنے کے بعد تادمِ آخر اپنی مسؤلیت کو با احسن خوبی نبھاتے رہے۔اس مدرسے میں اس وقت 10 اساتذہ کرام کی زیر نگرانی کم و بیش 100 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں حوزوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔
(3) تعمیر مساجد پراجیکٹ :
اسلامی معاشرے میں مساجد کے قیام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ متبرک مقام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں مقام و منزلت کا حامل ہے جبکہ مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ اپنے تمام دینی و فلاحی اداروں کے قیام میں تعمیر و توسیع مساجد کو ہمیشہ فو قیت دیتے ہیں پس اسی پالیسی کے تحت علامہ قاضی غلام مرتضیٰ مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں مختلف جگہوں پر مساجد کی تعمیر کو ممکن بنایا جن میں شہر چنیوٹ کی مرکزی جامع مسجد صاحب الزمان بھی شامل ہے جہاں 2000 سے زائد افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے جبکہ یہ مسجد ادایئگی نماز جمعہ المبارک سمیت دروس قرآن ، محافل و مجالس اور قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کے علاوہ مختلف مقامات پر 15 مساجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے جہاں نماز کے علاوہ قرآن سنٹر ز بھی قائم ہیں جن میں اِن علاقوں کے بچے قرآن اور بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
(4) قرآن سنٹرز:
چینیوٹ کمپلیکس کے اس پراجیکٹ سے 100 سے زائد پیش نماز مربوط ہیں جو مختلف علاقوں میں100قرآن سینٹرز چلا رہے ہیں جن میں ہزاروں بچوں کو ناظرہ قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔قرآن سنٹرز کے یہ طلبہ وقتاً فوقتاً مقابلہ حسن قرائت اور اسلامی کیوز کے پروگرامز میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
(5) حفظ القرآن ماڈل سکول :
دور حاضر کی آلودہ فضاء میں سانس لینے والی نئی نسل میں قرآن مجید سے دوری معاشرتی زوال کا بنیادی سبب ہے جسے دور کرنے ،قرآن فہمی کا شعور اُجاگر کرنے اور نئی نسل کو قرآن حفظ کرانے کے لیے 2007 میں حفظ القرآن ماڈل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس ادارے میں قرآن مجید حفظ کرانے اور اس کے مفاہیم ذہن نشین کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حفاظ کی قابل ذکر تعداد کو چھٹی تا مڈل کلاس کی عصری تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جا رہا ہے۔تا حال 427 طلبہ حفظ مکمل کر کے دیگر اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
(6) دانشگاہ بتول :
مومن بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اُن کی عمدہ تربیت کے لیے دانش گاہ بتول کا قیام ایک انقلاب آفریں قدم ہے 1990 سے قائم اس ادارے میں دختران ِ قوم کی ایک بڑی تعداد دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تعلیم سے بھی بہرہ مند ہو رہی ہے ۔ جبکہ سینکڑوں بچیاں اب تک فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں اسلامی قدروں کو فروغ دے رہی ہیں ۔دانشگاہ بتول میں طالبات کے لیے بہترین صحت مند ماحول اور سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے جہاں اس وقت 8 خاتون اساتذہ کی زیر نگرانی ایک سو سے زائد طالبات اقامت پذیر ہیں ۔
(7) کلیۃ العباس بھوانہ:
بھوانہ جیسے دور دراز علاقے میں اس دینی مدرسے کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا جہاں اس وقت 40 طلبہ اقامت پذیر ہیں جنہیں دینی و عصری تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ یہ ادارہ بھوانہ اور اس کے گردونواح کے عوام کے لیے دینی و شرعی مسائل سے آگاہی کا واحد مرکز ہے ۔
(8) دینی مدرسہ برائے طالبات :
پنڈی بھٹیاں میں ایک دینی مدرسہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔
(9) اُسوہ کالج بھوانہ :
چنیوٹ کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بھوانہ میں طلبہ و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی اس تعلیمی ادارے کا قیام 2018 میں عمل میں آیا ۔ اس وقت اس ادارے میں 350 طلبہ و طالبات کو محنتی اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی زیر نگرانی ایف اے ۔ ایف ایس سی ۔ آئی سی ایس اور آئی ٹی کی تعلیم دی جار ہی ہے۔
(10) خدیجۃالکبریٰ ہسپتال :
صحت کی سہولت دور حاضر کی اولین ضرورت ہے اسی اہمیت کے پیش نظر فیصل آباد چنیوٹ مین روڈ پر 50 بستروں پر مشتمل اور جدید سہولیات سے آراستہ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں6 مستند ڈاکٹرز کی زیر نگرانی علاج معالجے اور ادویات کی فراہمی سمیت ہر قسم کے آپریشن اور نارمل ڈلیوری کی سہولت موجود ہے ۔ اس ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے ۔ خدیجۃ الکبریٰ ہسپتال میں وقتاً فوقتاًمفت میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جن میں مریضوں کو مفید مشوروں اور علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ۔
(11) علی ہسپتال رجوعہ سادات:
رجوعہ سادات میں 4 کنال رقبہ پر مشتمل علی ہسپتال کا قیام علاقے کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے اور اس وقت یہاں تجربہ کار ڈاکٹرز کی زیر نگرانی گائنی ، آنکھوں کے علاج اور میڈیکل کے دیگر شعبہ جات کے ذریعے دکھی انسانیت کی شبانہ روز خدمت کی جارہی ہے ۔
(12) پیرا میڈیکل کالج :
اس ادارے کا شمار پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے بعد چنیوٹ کمپلیکس کے فعال ترین اداروں میں ہوتا ہے جہاں طلبہ و طا لبات کی ایک بڑی تعداد کو طبی شعبے کی خدمات کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور انہیں ڈسپینسر ، ٹیکنیشن ، لیب ٹیکنیشن اور آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اب تک 250 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر مختلف ہسپتالوں و دیگر اداروں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
(13) فارمیسی کالج :
یہ ادارہ دوا سازی کے میدان میں سرگرم عمل ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔جہاں پاکستان فارمیسی کونسل کے تحت فارمیسی ٹیکنیشن کی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کامیاب فرد میڈیکل سٹور کے لیے لائسنس حاصل کر سکتا ہے ۔ اب تک 100 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں ۔
(14) نرسنگ کالج :
نرسنگ کالج چنیوٹ کمپلیکس کا ذیلی ادارہ ہے جہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر(LHV) اور سرٹیفائیڈ نرسنگ اسسٹنٹ (CNA)کے تربیتی کورسز کامیابی سے چلائے جارہے ہیں۔
(15) فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد :
کلیہ اہلبیت کی زیر نگرانی چینوٹ کے دور افتادہ و پسماندہ علا قوں میں وقتاً فوقتاً فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں میڈیسن کے علاوہ فری ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ ان میڈیکل کیمپس کے علاوہ ان علاقوں کے ہونہار طلبہ کو سکالرشپ ، کتب ، یونیفارم اور بیوگان کو ماہانہ راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
(16) ورچوئل سب کمپلیکس :
یہ ادارہ جدید برقیاتی تدریس کے آلات سے لیس ہے جہاں یونیورسٹی سطح کے طلباء کو علوم اداریہ، علوم تجاریہ ،اقتصادیات بینکاری، مالیات، ریاضیات، نفسیات کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں بی ایس اور ایم ایس کرنے کی سہولت میسر ہے اس وقت 4200 سے زائد طلبہ و طالبات ڈگری و ماسٹر لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 450 طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔
درج بالا کامیاب اداروں کا قیام اور قومی و ملی سرگرمیوں میں متحرک کردار مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی محنت و تربیت اور علامہ قاضی غلام مرتضی مرحوم و مغفور کے اخلاص عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے اگرچہ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی دینی و ملی خدمات ہمیشہ ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی اس لیے کہ
مرتے نہیں ہیں وہ کبھی زندہ ہوں جن کے نیک کام
کورونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے
تحریر: سید اسد عباس
کورونا اس وقت امریکہ اور یورپ میں خون آشامیاں جاری رکھے ہوئے ہے، امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد چند روز میں 6000 سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ دنیا میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 55 ہزار 132 ہوگئی ہے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ دنیا میں اب تک دو لاکھ 21 ہزار 262 افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس مرض سے متاثر ہونے والے پانچ سرِفہرست ممالک کے اعداد و شمار امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کچھ یوں ہیں:
اٹلی: 13 ہزار 915 اموات، متاثرین ایک لاکھ 15 ہزار 242
سپین: 10 ہزار 935 اموات، متاثرین ایک لاکھ 17 ہزار 710
امریکہ: 6069 اموات، متاثرین دو لاکھ 45 ہزار 658
فرانس: 5398 اموات، متاثرین 59 ہزار 929
برطانیہ: 3605 اموات، متاثرین 38 ہزار 681
جہاں اس وائرس نے انسانی جانوں کو نگلنا شروع کیا ہے، وہیں اس کے معاشی اثرات بھی ہیں۔ امریکہ کے محکمہ لیبر کے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 7 لاکھ نوکریوں کا خاتمہ ہوگیا ہے اور بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ کے قریب ہے۔ امریکہ میں نوکریوں کا خاتمہ 1970ء سے آج تک دیکھا جانے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کو توقع ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں بیروزگاری کی شرح دو ہندسوں میں داخل ہو جائے گی۔ جیسا کہ توقع تھی، نصف سے زائد ملازمتوں کا خاتمہ سیر و سیاحت کی صنعت میں ہوا ہے۔ تقریباً یہی حال دیگر یورپی ممالک کا ہے۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں لاک ڈاؤن ہے۔ شہروں کی مصروف زندگی رُک سی گئی ہے اور تعلیمی ادارے و دفتر بند ہونے کے ساتھ ساتھ اور عوامی اجتماعات پر بھی پابندی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کا امتحان کب ختم ہوگا؟ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ برطانیہ 12 ہفتوں میں اس کو شکست دے سکتا ہے۔ اسی طرح کئی ملکوں نے اپنے لاک ڈاؤن کی آخری تاریخ بھی دے رکھی ہے، لیکن آئندہ ہفتوں میں متاثرین کم ہونے کے باوجود شاید اس کا خاتمہ حتمی نہیں ہوگا۔ یہ سماج اور سائنس دونوں کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔
امریکہ اور یورپ میں متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ہلاکتوں نیز اس کے اقتصادی اثرات نے دنیا میں اٹھنے والی سازشی تھیوریوں کو بھی اپنی موت مار دیا، لیکن تھیوری ساز ذہنوں سے اللہ امان بخشے ایک دوست سے سوال کیا کہ امریکہ اور یورپ میں ہونے والی ہلاکتوں کو کس سطح تک پہنچنا ہے کہ امریکہ اس وائرس کی ویکسین جو پہلے سے تیار ہوچکی ہے، کو منظر عام پر لائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو بہت سی اموات ہونی ہیں، اسی طرح جب یورپ اور امریکہ میں وائرس نیا نیا پھیلنا شروع ہوا تو ایک دوست سے سوال کیا کہ وائرس یورپ اور امریکہ جا رہا ہے، کیسے ممکن ہے کہ امریکہ ایسا وائرس ایجاد کرے، جو خود اس کے لیے نقصان دہ ہو تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مکافات عمل ہے۔ اب اس کا کیا جواب دیا جائے۔
ہم دشمن کی درست شناخت بھی نہیں رکھتے، ہمیں حکومت اور عوام کو جدا کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً امریکی حکومت اور یورپی حکومتیں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث رہی ہیں، انہوں نے انسانی معاشروں پر بے پناہ ظلم کیا ہے، ان کے وسائل لوٹے ہیں، تاہم ان ممالک کے کورونا کا شکار ہونے والے شہری ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیئے کہ امریکہ یا یورپ میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ امریکی حکومت نے کرونا کے آغاز پر یہی غلطی کی۔ ٹرمپ نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ کرونا امریکہ میں نہیں آسکتا ہے اور ہم اس چینی وائرس کو کنٹرول کر لیں گے۔ چینی وائرس کہتے ہوئے ٹرمپ کے لہجے میں جو رعونت اور تضحیک تھی، آج ذلت و رسوائی میں بدل چکی ہے۔ آج نیویارک کا گورنر دیگر ریاستوں سے مدد مانگنے پر مجبور ہے۔ ٹرمپ نے بجائے ایران میں ہونے والی اموات کو ایک انسانی المیہ سمجھنے کے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا، اسے کیا معلوم تھا کہ امریکہ خود اس آفت کا شکار ہوگا۔
آج ٹرمپ اسی چین سے وینٹیلیٹر، ماسک اور حفاظتی لباس خریدنے پر مجبور ہے، جس کا چند روز قبل مذاق اڑا رہا تھا۔ کورونا نے دنیا میں بہت کچھ بدل کر رکھا دیا ہے، انفرادی زندگیوں سے اجتماعی امور تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ کورونا نے انسانوں کو کم ترین سطح پر جینے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ دنیا میں سرمایے کے حصول کی بے ہنگم دوڑ تقریباً ختم ہوچکی ہے، تاہم اب بھی ہم خدا کے بجائے خبروں سے جی لگائے بیٹھے ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سے دنیا کا ہر میڈیا چینل فقط کورونا کی بات کر رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت کسی بیرونی دشمن کے حملے کی زد پر ہے اور ان کے آپسی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا سماجی، معاشی ہوں یا اقتصادی ختم ہوچکے ہیں یا آہستہ آہستہ بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔
کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وائرس کے مکمل خاتمے تک مغرب سماجی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے کس مقام پر ہو۔ امریکہ جیسا ملک اس آفت سے نمٹے کے لیے مدد مانگنے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی اس وقت کو زمانے کا سیاہ ترین دور قرار دے رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کو مل کر اس آفت سے نمٹنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری طاقت سے میدان عمل میں کود چکا ہے، کیونکہ اگر یہ معاشی لاک ڈاون طوالت اختیار کرتا ہے تو پھر دنیا میں موجودہ معاشی نظام کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ انسانوں کے لیے نیا ہے، ہمیں بھی بحیثیت انسان بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ نادیدہ دشمن پوری انسانیت کا دشمن ہے، یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تعصبات کی عینکوں کو اتار پھینکیں اور باہم متحد ہوکر اس انسانیت دشمن وائرس سے مقابلہ کریں۔
وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين
ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ
: ماہ مبارک رجب کا آخری عشرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنے دامن میں اپنی معنویت کے ساتھ کچھ اہم مناسبتوں کو بھی سمیٹے ہوئے ہے ایسی مناسبتیں جو تاریخ اسلام کے اہم موڑ سے گزرنے کی یاد دلاتی ہیں ۔
جہاں ان تاریخوں میں نام کے ان مسلمانوں کے قلعی کھلتی نظر آتی ہے جنہیں اپنی بہادری پر بڑا ناز تھا اور اسلام کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا انہوں نے ہمیشہ نعرہ دیا لیکن جب میدان ِعمل میں قدم رکھا تو ساری پول کھل کر سامنے آ گئی کہ کتنا دین کی خاطر قربانی کا جذبہ ہے اور کتنا خود کوہر قیمت پر بچانے لے جانے کی تمنا جہاں ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھتی ہے وہیں ماہ مبارک رجب کا یہ آخری عشرہ تاریخ اسلام کے اس سورما کی شجاعت کی یادگار بھی ہے جس نے فتح و ظفر کی ایک لازوال تاریخ رقم کر کے بتایا کہ انسان اگر خدا و رسول سے واقعی محبت کرتا ہوگا اور اس کے پیش ِ نظر خدا ہوگا تو کبھی بھی اس کے قدم کسی میدان سے پییچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
ان ایام میں ۲۴ رجب کی تاریخ جہاں اس لحاظ سے اہم ہے کہ فتح خیبر کی یاد گار ہے وہیں ۲۲ رجب کی تاریخ جنگ خیبرمیں نمایاں شخصیتوں کے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی یاد دلاتی ہے چنانچہ ملتا ہے کہ ۲۲ رجب ہی کی تاریخ میں جب ایک طرف یہودی خیبر نامی مضبوط قلعے کی پناہ میں تھے اور مسلمان سرداران لشکر قلعہ کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ایک بہت ہی نمایاں شخصیت اپنے پیروں کو جنگ میں جما نہ سکی پرچم ہاتھ میں لیکر نکلنے کے بعد بھی یہودیوں کے قلعہ پر پرچم نہ لہرا سکی [۱]۔
[۱:۵۵ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۳] +98 921 011 3821: یوں تو تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کی تصویر کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ تب ہوگا جب ہم اس سے عبرت لیں گے اور تاریخ کے ان کرداروں کو پہچانیں گے جنہوں نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کے نام پر قوم کو لوٹا اور ان لوگوں کا کردار بھی ہے جنہوں نے دین کےلئے سب کچھ لٹا دیا وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے دین کا درد رکھنے والے بنتے تھے لیکن جب دشمن سے مقابلہ پر آئے تو انکے چھکے چھوٹ گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی بڑا دعوی نہیں کیا انکا ہر عمل دین کی تقویت کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے ہر ایک عمل کو خدا سے منسوب کر کے اپنے ایمان اور اپنے خلوص کو واضح کیا ، وہ جو کچھ کرتے گئے یہ کہہ کر کرتے گئے کہ یہ سب رب حقیقی کی عنایتوں میں سے ہے ہم نے کیا کیا ہے اسی خضوع اور اسی انکساری نے انہیں دنیا میں سربلند کر کے علی ع بنا دیا وہ علی ع جسکی فکر بھی بلند ، جسکا عمل بھی بلند جسکا نام بھی بلند ی و کمال کا استعارہ قرار پایا ، جہاں یہ رجب کا آخری عشرہ نام کے مسلمانوں کی بہادری کی پول کھولنے والی مناسبتوں کو ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے وہیں اسلام کے حقیقی جانثاروں ، حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب جعفر سے جڑی مناسبتوں کو بھی پیش کر رہا ہے ایک مناسبت وہ ہے جہاں امام علی علیہ السلام نے خیبر کے قلعہ کو فتح کر کے اسلام کی ایک نئی تاریخ رقم کی تو دوسری مناسبت وہ ہے جہاں جناب جعفر کی حبشہ سے سربلند بازگشت کی بنا پر سرکار رسالت مآب کے لبوں پر مسکراہٹ آئی ، یہ ایام اسلام کے مثبت اور منفی دونوں ہی طرح کے کرداروں کو پیش کر رہے ہیں لیکن جن منفی کرداروں کو تاریخ نے پیش کیا ہے اور انکی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے وہاں ہمیں ٹہر کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں صرف اس لئے پیش نہیں کیا گیا کہ ہم اسلام و مسلمانوں کی شرمساری کا سبب بننے والے اور میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہونے والے لوگوں کے سیادہ کارناموں کو ہم سن کر انہیں کھری کھوٹی سنا دیں کہ کتنے بیہودہ لوگ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہوتے ہوئے یہودیوں کے سامنے نہ ٹک سکے ،یقینا انکا یہ عمل لائق مذمت ہے اور انکی شرمناک حرکت قابل ملامت ہے لیکن محض اتنا ہی نہیں کہ ہم دوسروں کی ملامت کرتے رہیں ہم ہی کیا ان پر تو پوری تاریخ ملامت کر رہی ہے اہم یہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ آج کے خیبر میں ہم کہاں ہیں آج جب یہودیوں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ میدان میں ہیں بھی یا نہیں ۲۲ رجب کی تاریخ ہمارے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ کل جو بھاگے تھے وہ تو بھاگے ہی تھے آج ہم کہاں پر
اسلام نے 1400 سال قبل آزادی اور اجتمای عدالت جیسے مفاہیم سے انسانیت کو روشناس کروایا ہے ایران کے دشمنوں میں بدترین امریکہ ہے کیونکہ امریکی حکام دھوکہ باز اور دہشتگرد ہیں، آیت اللہ خامنہ ای عین ممکن ہے کہ امریکی دواؤں سے وائرس مزید پھیلے
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "عید سعید مبعث رسول اکرم(ص)" اور نئے ایرانی سال کے آغاز کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں کرونا وائرس کے وبائی مرض کے جلد خاتمے کی دعا کرتے ہوئے پوری دنیا کے انسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ طبی ہدایات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 27 رجب المرجب کے روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کی مناسبت سے منائی جانے والی عید مبعث رسول خدا(ص) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت پر مبنی حقائق کو پوری تاریخ میں انسانیت کی نجات کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ بعثت کی حقیقتوں پر عمل، خصوصا صبر و استقامت ہی ایرانی قوم کے ترقی اور قوت کی چوٹیوں تک پہنچنے کا واحد رستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا واقعہ اتنا عظیم ہے کہ خداوند متعال نے اس کے حوالے سے قرآن مجید میں تمام بڑے انبیاءؑ سے عہد لیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر وہ آپؐ پر ایمان لائیں اور آپؐ کی امت کے ایمان میں لانے مدد کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے دین مبین اسلام کے عظیم و الہی پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آزادی اور اجتماعی عدالت جیسے مفاہیم کا سرچشمہ مغربی دنیا ہے جبکہ مغربی دنیا صرف 3 یا 4 صدیوں سے ہی ان عظیم مفاہیم سے آگاہ ہوئی ہے البتہ اسلام وہ دین ہے جس نے آج سے 1400 سال قبل انسانیت کو یہ گراں بہا مفاہیم عطا کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل انسان کو ان مفاہیم سے روشناس کروایا ہے بلکہ، مغرب کے جھوٹے دعووں کے برعکس، اسلام نے ہر جگہ پر ان مفاہیم کو عملی جامہ بھی پہنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معارف سے پروان چڑھنے والے اسلامی احکام نہ صرف اسلامی اقدار کے مطابق ہیں بلکہ بلندیوں کی طرف انسان کے سفر میں ممد و معاون بھی ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ نے اسلام کے سیاسی پہلو اور اسلامی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر (اسلامی) سیاسی طاقت تشکیل نہ پائے تو غنڈے، مستکبر اور آزادی و اجتماعی عدالت کی مخالف تمام قوتیں (اسلامی) مفاہیم، اقدار اور احکام کو ہرگز عملی جامہ پہنانے نہ دیں جبکہ اس صورت میں انسان نجات و ترقی کے راستے پر گامزن ہونے سے قطعی طور پر محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد پہلی فرصت میں اسلامی حکومت کو تشکیل دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے اسلامی حقائق کو انتہائی گہرائی کے ساتھ درک کرتے ہوئے "بعثت" پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر اپنے گہرے ایمان، خدا پر توکل اور ایرانی عوام کے سہارے کرپٹ، ظالم اور استکباری طاقتوں کے کٹھ پتلی پہلوی شہنشاہی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی حکومتی نظام کو رائج کیا تاکہ "بعثت" کے معارف، اقدار اور احکام کی بنیاد پر ایرانی قوم کو فلاح و بہبود کی طرف ہدایت کر سکیں۔
مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کے اندر انبیاءِ الہی اور خصوصا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ برتی گئی وسیع دشمنیوں اور اسلامی نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی دشمنی میں پائی جانے والی مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی دشمنوں میں امریکہ سب سے زیادہ خبیث اور کینہ پرور ہے کیونکہ اس کے حکام کے اندر جھوٹ، بے ایمانی، لالچ، گستاخی اور چرب زبانی و مکاری جیسی انواع و اقسام کی اخلاقی برائیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ امریکی حکام انتہائی ظالم، دہشتگرد اور پرلے درجے کے بے رحم و سنگدل بھی ہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس حوالے سے حضرت رسول خدا(ص) کی بعثت کے پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بعثت کے شروع سے ہی دشمنیوں سے نمٹنے کے لئے ایک خاص اصول عطا فرمایا تھا جو "صبر" یعنی؛ "قیام"، "مزاحمت"، "اپنے حساب کتاب کو دشمن کی دھوکہ بازی سے تبدیل نہ کرنا"، "اختیار کردہ اعلی اہداف کے حصول کے لئے عزمِ راسخ کے ساتھ جدوجہد کرنا" اور "اپنے رستے پر گامزن رہنا" ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو دی جانے والی دھوکہ و فریب پر مبنی امریکی مدد کی متعدد پیشکشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام کے یہ بیانات مضحکہ خیز ہیں کیونکہ وہ خود اس بیماری (کرونا وائرس) کی دواؤں اور متعلقہ طبی سازوسامان کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا بعض امریکی حکام نے کھل کر اعتراف بھی کیا ہے کہ امریکہ میں دواؤں اور طبی سامان کی کمی "وحشتناک" ہے لہذا (انہیں ہمارا جواب یہ ہے کہ) اگر ان کے پاس وسائل موجود ہیں تو وہ امریکی عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے یہ کہ جب امریکہ اس خطرناک وائرس کے بنائے اور پھیلائے جانے کا "ملزم" ہے تو کون سا عقلمند شخص امریکی حکام کی مدد کو قبول کر سکتا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی حکام کسی طور اعتماد کے قابل نہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ امریکہ سے بھیجی جانے والی امدادی دوائیں ایران میں اس وائرس کو مزید پھیلانے یا لمبے عرصے تک باقی رہنے کا باعث بنیں یا ان کی طرف سے بھیجے جانے والے طبی ماہرین ایرانی عوام پر اس وائرس کے اثرات کی تحقیق کرنے کا ہدف رکھتے ہوں کیونکہ اس وائرس کے بارے میں محققین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کی ایک قسم خصوصی طور پر ایرانی عوام کے لئے بنائی گئی ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ عالمی استکباری طاقتوں کی 40 سالہ دشمنی کے تجربے اور ایران کے اندر ان دشمنیوں اور مشکلات سے مقابلے کی موجود بھرپور صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اندر خدادادی صلاحتیں بہت زیادہ ہیں جبکہ انہیں ٹھیک طرح پہچاننے اور ان سے بہتر استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں عالمی وبا "کرونا وائرس" سے بچاؤ کے حوالے سے طبی ہدایات پر عملدرآمد کو "شرعی ذمہ داری" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان طبی ہدایات پر عملدرآمد کی خاطر حتی دینی اجتماعات اور اہلبیت علیہم السلام کے حرم مبارک بھی بند کر دیئے گئے ہیں جبکہ پوری تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور رستہ موجود نہیں تھا اور اسی میں عوام کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو اللہ تعالی سے اس دعا پر تمام کیا کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارا عطا فرمائے۔
مشرق وسطیٰ اور مقاومتی بلاک
تحریر: اکبر حسین مخلصی
مقاومتی بلاک کے نام سے ہم سب آشنا ہیں، لیکن فقط نام تک کی آشنائی کافی نہیں، اگر ہم مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے مقاومتی بلاک کی اصطلاح، قیام اور حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ مقاومتی بلاک کی تشکیل کا خلاصہ یہ ہے کہ غربی استعمار کی جارحانہ عسکری اور ثقافتی یلغار نے مستضعف قوموں کو non aligned movement جیسے کاونٹر فورم اور اسلامی مقاومتی بلاک کی تشکیل پر مجبور کیا۔ یہ اتحاد مشرق وسطیٰ میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔ سامراجی قوتیں استقامتی بلاک کو داخلی خلفشار کی خلیج میں دھکیلنے کے لیے وار آن ٹیرر کا ڈرامہ رچا رہی ہیں۔ اس پلان کو حاصل کرنے کے لیے خطے کے عرب آمروں کو 34 ملکی اتحاد کا برگ حشیش دے کر مسلم دنیا کی آنکھوں میں وار آن ٹیرر کی دھول جھونکی جا رہی ہے۔ لیکن یہ پالیسی غیر متوقع حد تک ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ مقاومتی بلاک کے تزویراتی اقدامات زیادہ موثر اور فیصلہ کن نتائج رکھتے ہیں۔
عرب خطے کی عوامی قوتیں مغرب کے اخلاقی دوہرے پن اور انسانی حقوق کے پرفریب نعروں کو تہذیبوں کے تصادم جیسے انتہاء پسندانہ پس منظر کی حامل نفسیاتی جنگ کے حربے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف استعماری قوتوں کا منفی پروپیگنڈا عالمی سطح پر نہ صرف فلاپ ہوا ہے بلکہ معکوس نتائج دینے لگا ہے۔ اسی لیے پسماندہ ترین سیاسی نظام رکھنے والے عرب ممالک کی رائے عامہ مغربی استکبار کے سیاسی دوغلے پن کو جمہوریت مخالف رویئے کے طور پر لیتی ہے۔ عرب رائے عامہ میں پائی جانے والی یہ تشویش بتدریج مغرب مخالف تحریکوں کی شکل اختیار کرکے عرب ممالک میں آمریت نوازی کے سامراجی پلان کو چیلینج کرتے ہوئے مقاومتی بلاک کی کاونٹر پالیسی کو تزویراتی بیک اپ دے گی۔ یوں استقامتی بلاک مشرق وسطی میں دفاعی پوزیشن سے اقدامی پوزیشن کی طرف سفر کریگا، جس کے ابتدایی نتائج شام، عراق اور یمن کے محاذ میں مقاومتی بلاک کی عسکری حکمت عملی کی واضح کامیابی کے طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔
گریٹر مشرق وسطیٰ کا ناقوس بجانے والی غربی، عبری اور عربی ٹرائیکا یمن کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور پراکسی وار کی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے شام میں سیف زون کا اسٹریٹیجک محاذ کھول کر مقاومتی بلاک کو انگیج رکھنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے ترکی کو خلافت کا جھانسہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے، جو فلسطینی انتفاضہ کی مزاحمتی طاقت کو مضمحل کرکے اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیف زون کا کیموفلاج جہاں اسرائیل کو وقتی طور پر تحفظ دے گا، وہیں فلسطین کاز کے حل کے لیے استقامتی بلاک کو مزاحمتی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان بھی فراہم کرے گا، جس سے غاصب صہیونی دجالیت کو عبرتناک انجام تک پہنچانے میں بنیادی مدد ملے گی۔ البتہ اس پس منظر میں مخصوص مسلکی رجحانات کی حامل تکفیری قوتوں کے منافقانہ کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو امپورٹیڈ جہادی عناصر کے ذریعے مقاومتی بلاک کو داخلی محاذ میں الجھانے کا ٹاسک رکھتی ہیں۔
جس کا اہم ہدف ایران فوبیا کے نفسیاتی داو پیچ استعمال کرکے عرب دنیا کی مزاحمتی قوتوں کو مقاومتی بلاک سے جدا کرنا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو رہی، کیونکہ خطے کی رائے عامہ عرب آمریتوں کے جہادی ایجنڈے کی حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتی ہے۔ اس تناظر میں معروضی حقائق اس بات کا کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی عالمگیریت کا خواب، مغرب کو ناگزیر طور پر نظام مہدویت سے براہ راست محاذ آرایی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اب وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل جیسا غاصب اور جارح ملک جلد ہی ہمیشہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے نقشے سے معدوم ہونے والا ہے۔ البتہ اس کیلئے سارے مسلمانوں کو ایران فوبیا سے نکلنا ہوگا، چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسوقت ایران ہی مقاومتی بلاک کا مرکزی ستون ہے۔
یورپ کی نام نہاد جمہوری حکومتیں اور خلیجی ممالک کی آمریتیں اسرائیل کے تحفظ کے لیے تکفیری جہادیوں کو مجاہدین کا لقب دے کر مشرق وسطیٰ میں مضبوط کر رہی ہیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ فلسطین کی آزادی کا حل مقاومت نہیں بلکہ پرامن ٹیبل ٹاک ہے۔ دو ریاستی حل جیسے امریکی ایجنڈے کو مسلم دنیا کے ردعمل سے بچنے کے لیے غیر سفارتی انداز میں پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ پی ایل او اور الفتح جیسی تنظیمیں مجوزہ حل کے تباہ کن نتائج کو نظرانداز کرکے سکیورٹی کونسل سے آس لگائے بیٹھی ہیں۔ یہ عمل درحقیقت اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی جواز فراہم کرکے فلسطینیوں کو اپنی دھرتی سے محروم کرنے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کا باعث بنے گا۔
ایسے حساس سناریو میں مقاومتی بلاک ہی وہ واحد طاقت ہے، جو انتفاضہ کی ڈگمگاتی قیادت کو روشن مستقبل کی امید دلا کر مظلوم فلسطینی نسلوں میں آبرومندانہ آزادی کی امنگ پیدا کر رہا ہے اور اسرائیل کی نابودی کے لیے کاونٹ ڈاون ایکسپیڈیشن لانچ کر رہا ہے۔ اگر استقامت جاری رہی تو ایک دن ارض مقدس سے صہیونی تسلط کے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے اور بیت المقدس کے افق پر آزادی کی کرنیں جگمگائیں گی۔ یوں صہیونی سامراج کا نیو ورلڈ آرڈر، مقاومتی بلاک کے ہاتھوں عبرتناک انجام کو پہنچے گا اور فلسفہ انتظار مقتدرانہ حیثیت میں عالمی نجات دہندہ کے ظہور کی زمینہ سازی کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ نتیجتاً عالمی معاشرے کا انسان نظام مہدویت کے سائے میں حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہوگا۔ بقول اقبال رہ:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
جمود کی جانب گامزن امریکی معیشت
امریکہ کی اقتصاد اور معیشت انجان پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔ ماہرین اقتصاد کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ایک جمود اور بحران کی جانب گامزن ہے۔ چونکہ اس وقت امریکہ کی اقتصادی سرگرمیاں اور کاروبار کرونا وائرس کے سائے میں جام ہو کر رہ گئی ہیں۔ البتہ یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ اقتصادی جمود اور بحران کس حد تک شدت اختیار کرے گا اور اس سے نکلنے میں امریکہ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ آکسفورڈ ایکنامکس سے وابستہ اعلی سطحی ماہر اقتصاد جرج ڈیکو کا کہنا ہے کہ امریکی معیشت آئندہ چھ ماہ میں جمود کے کم از کم دو مرحلے طے کرے گی۔ پہلے تین ماہ کے دوران امریکہ کی اقتصادی ترقی کی شرح 0.4 فیصد جبکہ اگلے تین ماہ میں 12 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہو گی۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں معیشت میں سب سے بڑا موسمی جمود ہو گا۔ اس جمود کی شدت اور ترقی یافتہ معیشت میں تقریباً تمام بڑے شہروں کی بندش ایک بے سابقہ امر ہے اور معیشتی بحران سے زیادہ جنگ جیسی صورتحال سے ملتا جلتا ہے۔
مورگن اسٹینلے سے وابستہ ماہر اقتصاد ایلن زینتھنر کا کہنا ہے: "حتی گذشتہ حکومتوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں کو گھر سے باہر جانے یا مختلف قسم کے اجتماعات میں شرکت کرنے سے روکا گیا ہو۔" انہوں نے مزید کہا: "چھٹی کمپنیوں کو انتہائی شدید دھچکہ پہنچے گا کیونکہ ان کی مالی ذخائر تک رسائی محدود ہے جبکہ بینکوں میں کافی حد تک سرمائے سے بھے برخوردار نہیں ہیں۔ لہذا ممکنہ اقتصادی بحران کی صورت میں چھوٹے پیمانے پر جاری کاروبار اور اقتصادی سرگرمیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔" روز بروز بیروزگاری میں اضافے، تجارت اور سیر و سیاحت میں کمی کے باعث ماہرین اقتصاد روزانہ کی بنیاد پر اپنی معلومات اور ماڈلز کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل قریب میں اقتصادی معلومات نہ صرف غیر معتبر بلکہ ناقابل تشخیص ہو جائیں گی۔ جرج ڈیکو کا خیال ہے کہ اپریل کے مہینے میں امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچے گی۔ یہ مقدار ماضی کے تناظر میں بے سابقہ ہے جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیون مینوچین نے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات انجام نہ دینے کی صورت میں بیروزگاری کی شرح 20 درصد بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
اگر جرج ڈیکو کی پیشن گوئی کے مطابق امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 10 فیصد تک جا پہنچتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ 16.5 ملین افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ یہ تعداد فروری میں 5.8 ملین بیروزگار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف روس اور سعودی عرب کے درمیان خام تیل کی صنعت کے شعبے میں جنگ نے بھی امریکہ کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی فراہمی میں اضافے کے باعث خام تیل کی قیمت میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس نے امریکہ کی خام تیل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ امریکن یونیورسٹی کے لیکچرر اور اقتصادی تاریخ کے ماہر گیبریل میٹی اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا جمود اور بحران ہے جو سہولیات کے شعبے میں شروع ہو رہا ہے۔ ہم اندرونی خالص پیداوار میں اضافے کی نسبت روزگار کے مواقع میں زیادہ تیزی سے کمی کے شاہد ہوں گے۔" اس وقت امریکہ میں کرونا وائرس کا مسئلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
ورلڈ میٹر نامی ویب سائٹ پر آنے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 3 لاکھ 8 ہزار 257 افراد کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے 13068 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں سے 95 ہزار 828 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے چار ممالک میں کرونا وائرس کی وبا سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ممالک بالترتیب اٹلی، امریکہ، اسپین، اور جرمنی ہیں۔ ان چار ممالک میں کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اٹلی میں گذشتہ ایک روز میں کرونا وائرس کے 6557 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اٹلی کے بعد امریکہ ایسا ملک ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلاو میں بہت تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں 6674 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک امریکہ میں 26 ہزار 868 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی معیشت پر کرونا وائرس کے ممکنہ اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ امریکی معیشت انتہائی کٹھن حالات کی جانب گامزن ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
مشکلات کے باوجود ملت ایران نے شاندار کارنامے انجام دیئے: رہبر انقلاب اسلامی
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے روز شہادت کے موقع پر نئے ہجری شمسی سال 1399 کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مقدس بارگاہ میں سلام اور درود پیش کیا اور عید مبعث اور عید نوروز کی مناسبت سے ایرانی قوم خاص طور پر شہیدوں، جانبازوں کے اہلخانہ اور اسی طرح صحت کے شعبے میں سرگرم مجاہدوں اور دن رات کام کرنے والوں کو مبارکباد پیش کی اور نئے سال کو "پیداوار کے فروغ اور ترقی" کے نام سے موسوم کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال 1398 ہجری شمسی کے شہیدوں منجملہ شہدائے مدافع حرم، سرحدوں کے شہداء اور سرفہرست سپاہ اسلام کے عظیم شہید جنرل سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہیدوں کے اہلخانہ کو مبارکباد اور تعزیت پیش کی، اسی طرح کرمان کے حادثے کے شہداء ، طیارہ حادثے کے شہداء اور صحت کے شعبہ سے منسلک شہداء کے اہلخانہ کو بھی تبریک اور تعزیت پیش کی اور گزشتہ سال "1398" ہجری شمسی کو مختلف نشیب و فراز کا سال قرار دیتے ہوئے فرمایا: گزشتہ سال کا آغاز سیلاب سے ہوا اور اختتام کورونا پر ہوا اور سال کے دوران بھی زلزلہ اور اقتصادی پابندیوں جیسےمختلف اور گوناگون حوادث رونما ہوئے لیکن ان حوادث میں سب سے عظیم حادثہ، اسلام و ایران کے نامور اور عظیم کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گزشتہ سال سخت اور دشوار سال تھا اور عوام کو بھی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ان سختیوں کے ساتھ ساتھ بعض بے نظیر اور اہم کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور ایرانی قوم کی درخشندگی نمایاں رہی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ پابندیوں کی وجہ سے نقصانات کے ساتھ ساتھ بہت فائدے بھی ہوئے اور ان پابندیوں نے ہمیں ملکی سطح پر ضروریات زندگی کی اشیاء اور سامان کی پیداوار کی جانب قدم بڑھانے پر ترغیب دلائی اور یہ سلسلہ انشاء الله اسی طرح جاری رہے گا۔
إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں
۔ مائدہ55
قبلہ اول آزاد ہوگا، یہ وعدہ ہے، جنرل قاسم کے مجسمے سے اسرائیل میں ہنگامہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب مجسمے کی رونمائی کی گئی تو وہاں موجود لبنانیوں کے زبردست اجتماع میں جنرل قاسم سلیمانی کے دونوں بیٹے بھی موجود تھے جبکہ حزب اللہ کے متعدد بڑے کمانڈر اور جنوبی لبنان کے عوام بھی وہاں موجود تھے۔ دوسری بات جس نے سبھی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی وہ مجسمے کے پیچھے نظر آنے والا فلسطین کا پرچم تھا اور جنرل قاسم سلیمانی اپنی انگلی سے الجلیل شہر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جو فلسطینی شہر ہے تاہم اسرائیل نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔
جہاں ایک طرف معرالنوراس میں جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کی رونمائی کی گئی وہیں دوسری جانب اسی وقت عراق کے دار الحکومت بغداد کے گرین زون علاقے میں واقع امریکی سفارتخانے کے پاس امریکی چھاونی پر تین راکٹ فائر کئے گئے جبکہ شمالی شہر کرکوک میں امریکی چھاونی پر کے-1 میزائل فائر کئے گئے۔
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران اور مقاومتی محاذ کی جانب سے پوری کوشش ہو رہی ہے کہ جنرل قاسم زندہ جاوید ہو جائیں اور ان کی تصاویر کروڑوں افراد کے اذہان میں ہمیشہ زندہ رہے۔ مارون الرأس میں نصب کئے گئے جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کو دیکھنے کے لئے ہر روز بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیغام دیا جا رہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام رکنے والا نہیں ہے۔ عین الاسد پر ایران کا میزائل حملہ پورا انتقام نہیں بلکہ انتقام کا آغاز تھا۔
جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے کے پیچھے فلسطین کا پرچم اور الجلیل شہر کی جانب اشارہ کرتی ان کی انگلی خاص پیغام دینے کے لئے ہے۔ اس سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس عظیم کمانڈر نے فلسطینی تنظیموں کی بے مثال مدد کی۔ لبنان میں حماس کے نمائندے نے بتایا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے غزہ پٹی کا خفیہ دورہ بھی کیا ۔ اس کمانڈر کو انہیں عظیم خدمات کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ اس لئے ہم اگر کبھی اچانک سنیں کہ اسرائیلی اور امریکی مفاد پر بڑے پیمانے پر حملے شروع ہوگئے تو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔
ایران نے علاقے میں مزاحمت کا جو محاذ بنایا ہے وہ بہت طاقتور ہے اور اس کا صبر بھی بہت زیادہ ہے وہ جلد بازی کے بغیر اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتا ہے۔ عراق کے اندر 18 فوجی چھاونیوں میں 5200 امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا فیصلہ، عراقی پارلیمنٹ سے جاری ہو چکا ہے اور بغداد اور کرکوک میں امریکی چھاونیوں پر حملے یا تو انتقام کی تیاری ہے یا پھر بڑی تبدیلی کا آغاز ہے۔