استغفار اور زندگی میں اس کے بیش بہاء اثرات / منافقین کے لئے استغفار غیر مؤثر

Rate this item
(1 Vote)
استغفار اور زندگی میں اس کے بیش بہاء اثرات / منافقین کے لئے استغفار غیر مؤثر

حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے دو وسیلے اللہ نے قرار دیئے تھے۔ ایک وسیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وجود مقدس تھا اور دوسرا وسیلہ استغفار ہے جو ہمیشہ کے لئے سب کے لئے موجود ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔
ایک دن اللہ نے شیطان کو اپنی درگاہ سے نکال باہر کیا، شیطان رجیم نے قسم اٹھا کر کہا: میں تیرے مخلص بندوں کے سوا باقی سب کو گمراہ کروں گا۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق شیطان کی گمراہی سے تحفظ کے لئے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ استغفار یا "استغفراللہ" یا "اللہم اغفر لی" جیسے اقوال کو دہرانا یا بخشش و مغفرت کا باعث بننے والے افعال کو انجام دینا۔
استغفار "غَفَرَ" سے ماخوذ ہے جیسا کہ الحمد للہ میں حمد حَمَدَ سے اور تکبیر میں اکبر "کَبُرَ" سے ماخوذ ہے۔ (1)


استغفار اور زندگی میں اس کے قابل قدر اثرات / منافقین پر استغفار کا کوئی اثر نہیں ہوتا
کیا استغفار "توبہ" ہی ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استغفار اور توبہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ استغفار اور توبہ ایک ہی اور توبہ درحقیقت استغفار پر تاکید کے لئے ہے۔
لیکن کچھ دوسروں کے ہاں ان دو میں فرق ہے؛ اس لئے کہ استغفار توبہ پر مقدم ہے: "استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ یا استغفر اللہ و اتوب الیہ"۔ اور استغفار کے توبہ پر تقدم کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے اور بعدازاں اپنے آپ کو اللہ کے اوصاف سے آراستہ کرے۔ استغفار درحقیقت گناہ کے راستے پر گامزن ہونے کے بعد رک جانا اور توقف کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنا ہے اور توبہ اللہ وجودِ بےانتہا کی طرف پلٹ آنے اور واپس ہونے کے معنی میں ہے؛
استغفار دھولینے کے مترادف ہے اور توبہ کمالات کے حصول کے مترادف ہے، ایک آلودہ شخص اپنے گندے لباس کو اتارتا ہے اور دھوتا نہاتا ہے اور پھر پاکیزہ لباس زیب تن کرتا ہے۔ یا زمین کو جھاڑو لگا کر صاف کرتا ہے اور پھر اس کے اوپر پاکیزہ اور صاف بچھونا بچھاتا ہے۔
توبہ کا حکم قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیات 3 اور 52 میں آیا ہے۔ "واَنِ استَغفِروا رَبَّکُم ثُمَّ توبوا اِلَیهِ؛ اور یہ کہ بخشش کے طلبگار ہو اپنے پروردگار سے، پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (پلٹ آؤ)۔ (2)
دو دلیلیں توبہ اور استغفار کے درمیان مغایرت کو ثابت کرتی ہیں:
1۔ توبہ استغفار پر معطوف ہے اور ثمّ فاصلے اور ترتیب کے لئے ہے۔
2۔ ہر بولنے والے کے کلام سے نئے معنی مراد ہوتے ہیں۔
اس حساب سے، استغفار اور توبہ کا فرق یہ ہے کہ توبہ سے مراد اپنے برے اعمال سے اللہ کی طرف بازگشت اور پلٹنا مقصود ہے، جبکہ استغفار مغفرت اور بخشش کی درخواست ہے۔ البتہ اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا استغفار توبہ کے اوپر قائم ہے یا نہیں۔ (3)
استغفار اور توبہ کی اہمیت
اسلامی شریعت میں، استغفار بہترین عبادت اور بہترین دعا ہے، اور اس کی کثرت کی بہت سفارش ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم اظہار اس جملے سے ہوتا ہے: "استغفر اللہ"۔ (4) استغفار کی اہمیت کی انتہا یہ ہے کہ معصومین (علیہم السلام) سے منقولہ دعائیں مختلف عبارات اور الفاظ کی صورت میں، استغفار پر مشتمل ہیں۔  
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) نے استغفار کی تلقین کی ہے اور عام لوگوں کو اس کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ آٹھ آیات کریمہ میں استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ تقریبا 30 آیات میں انبیاء کے استغفار کا تذکرہ آیا ہے اور پانچ آیات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (5)
فرشتے مؤمنین (6) اور اہل زمین (7) کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش کی درخواست [یعنی استغفار]، پرہیزگاروں کی صفت ہے۔ (8)
"قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ کہئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جنہوں نے پرہیز گاری سے کام لیا، ان کے لئے ان کے پروردگار کے یہاں وہ بہشت ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک و پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی بہت بڑی خوشنودی؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * [ایسے بندے] جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایمان لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے"۔ (9)
بعض آیات کریمہ میں (10) استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے اور بعض دوسری آیات میں استغفار ترک کرنے والوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے اور استغفار کی ضرورت کو سب کے لئے واضح کیا گیا ہے:
"أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ؛ تو یہ لوگ توبہ کیوں نہیں کرتے اللہ کی بارگاہ میں، اور اس سے مغفرت کیوں نہیں مانگتے، جبکہ اللہ تو بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے"۔ (11)
وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عام لوگ غفلت، نادانی، حیوانی جبلتوں اور نفسانی خواہشوں کی سرکشی ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں چنانچہ اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور استغفار اور اس کی ضرورت، ان کی جان و روح و نفس کی صفائی، ستھرائی کے لئے، بدیہیات میں سے ہے، اور دوسری طرف سے کوئی بھی اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا نہیں کرسکتا، بلکہ ہر شخص اپنی معرفت کی سطح کے تناسب سے، اس مہم کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ حتی حقیقی زاہد اور پارسا انسان بھی اپنی عبادات و اعمال سے شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بارگاہ الہی میں ملزم ہی نہیں بلکہ گنہگار سمجھتے ہیں اور استغفار کی ضرورت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ (12)
استغفار کی قسمیں
استغفار یا تو قول ہے جیسے "استغفر اللہ" یا پھر وہ فعل و عمل ہے جو انسان کی مغفرت کا باعث بنے۔
اگرچہ استغفار بذات خود مستحب ہے لیکن کبھی یہ بعض عوارض، واقعات اور روئیدادوں کی وجہ سے واجب یا حرام ہوجاتا ہے؛ چنانچہ حکم کے لحاظ سے استغفار کی تین قسمیں ہیں:
استغفارِ واجب
استغفار مُحرِم [یعنی احرام حج پہنے ہوئے حاجی] پر کفارۂ واجب کے طور پر، واجب ہے مثلا حاجی پر احرام کی حالت میں "فسوق و جدال" حرام ہے: "وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ؛ حج میں نہ نا فرمانی [اور گناہ] ہے، اور نہ جھگڑا"۔ (13) چنانچہ اگر حج میں کوئی تین بار سے کم فسوق اور گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کفارہ استغفار ہے اور واجب۔ (14) یا کفارے کے متبادل کے طور پر، ان لوگوں کے لئے جو کفارہ دینے (یعنی غلام آزاد کرنے، 60 روزے رکھے، 60 افراد کو کھانا کھلانے یا 60 افراد کو لباس پہنانے) سے عاجز ہوں۔ (15)
مستحب استغفار
جیسا کہ کہا گیا استغفار بہترین دعا اور عبادت ہے چنانچہ تمام حالات میں بالعموم (16) اور ذیل کے مواقع پر بالخصوص مستحب ہے:
- نماز کے دو سجدوں کے درمیان؛ (17)
- نماز کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کے بعد؛ (18)
- نماز بالخصوص نماز وتر کی قنوت میں؛ (19)
- سحر کے اوقات میں؛ (20)
- جنازے کی مشایعت، تدفین اور زیارتِ قبر کے دوران میت کے لئے استغفار؛ (21)  
- نمازِ استسقا یا نمازِ باران میں؛ (22)
- ماہ مبارک رمضان میں؛ (23)  
- استغفار کو ترک کرنے یا بعض آداب اور سنتیں ترک کرنے اور اپنے سر اور چہرے کو پیٹنے کے کفارے کے طور پر استغفار۔ (24)
حرام استغفار
- قرآن کریم کی رو سے مشرکین اور کفار و منافقین کے لئے استغفار حرام ہے۔ (25)
- خداوند متعال نے مؤمنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھا ہے۔ خواہ وہ اپنے اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (26)
- مشرکین کے لئے استغفار بےاثر ہے اور اللہ شرک کو کبھی نہیں بخشتا۔ (27)
- مشرکین کے لئے استغفار ایک بیہودہ عمل اور مہمل کام ہے۔ (28)
- اور پھر مشرکین کے لئے استغفار درحقیقت ان کے ساتھ محبت اور رشتے کا اظہار ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (29)
منافقین کے لئے استغفار بےاثر ہے
- ارشاد ربانی ہے کہ "کیا خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں؛ خدا ہرگز انہیں نہیں بخشے گا۔ (30)
- نیز ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ آپ کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں، حتی کہ آپ اگر ان کے لئے 70 مرتبہ بھی استغفار کریں، خدا ہرگز انہيں بخشے گا۔ (31)  
عدد "ستر مرتبہ" مبالغے اور فراوانی کے لئے، اس حکم میں مذکور ہے۔ (32)  
قرآن کریم میں استغفار
قرآن کریم میں مغفرت طلبی یا استغفار 68 مرتبہ مذکور ہے: 43 مرتبہ استفعال کی مختلف اشکال میں آیا ہے؛ 17 مرتبہ " إغفر" کی صورت میں، تین مرتبہ "یغفر" کی صورت میں، دو مرتبہ "تغفر" کی صورت میں اور ایک مرتبہ "مغفرۃ" کی صورت میں۔ (33)
قرآن کریم میں استغفار کا حکم "حطۃ" کی صورت میں آیا ہے اور منقول ہے کہ خداوند متعال نے بنی اسرائیل کو استغفار کا حکم دیا تاکہ وہ اللہ کی مغفرت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ (34)
آثار استغفار
بہت سی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں استغفار کے بےانتہا تعمیری اور قابل قدر اثرات کو بیان کیا گیا ہے؛ استغفار معاشرے کی اصلاح، اللہ کی برکتوں کے نزول اور دنیاوی اور اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ (35)
عذآب الہی سے بچاؤ کا وسیلہ
خداوند غفور نے ارشاد فرمایا: "۔۔۔ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ جب تک کہ لوگ استغفار کریں گے اللہ ان پر عذاب نہیں اتارے گا۔ (36)
اس آیت کے آغاز پر ارشاد ہؤا ہے کہ "وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ؛ اور اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا جب تک کہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے درمیان ہونگے۔
مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک خاص شان نزول اور کئی احتمالات کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ آیت اس قانونِ عام پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا اور لوگوں کا استغفار، دونوں شدید بلاؤں اور ناقابل برداشت مصائب کے سامنے ان کی سلامتی اور امن و امان کا سبب ہیں اور وہ شدید فطری اور غیر فطری سزاؤں: تباہ کن سیلابوں، زلزلوں اور جنگوں میں ان کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ (37)
وَحَكَى عَنْهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ [عليه السلام] أَنَّهُ قَالَ كَانَ فِى الْأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِى رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) وَأَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِى فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ امام محمد باقر (علیہ السلام) امام امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "دو چیزیں زمین میں عذاب سے امان کا سرمایہ تھیں: ان میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا، پس دوسری چیز کا دامن تھامے رکھو۔ جو سرمایۂ امان اٹھایا گیا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے؛ اور جو امان باقی ہے وہ استغفار ہے؛ کہ خداوند متعال نے فرمایا: "میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا جب تک کہ آپ ان کے درمیان ہونگے، اور ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے رہا کریں گے"۔ (38)
گناہوں کی بخشش
سورہ نوح (39) میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے استغفار کا حکم دینے کے بعد، اللہ تعالی کے "بہت زیادہ بخشنے والا" کی صفت آئی ہے: "فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً؛ (تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بلاشبہ «وہ بڑا بخشنے والا» ہے)"۔ "غفار" کا وصف غفور، رحیم (40) اور ودود (41) کی مانند، اللہ کے اہم وعدے اور اللہ کی عظیم بشارت یعنی بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور ان پر نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے۔ (42) ایک حدیث میں گناہوں سے استغفار انسان کی روح و جان پر لگے ہوئے گناہ کے زنگ کو دور کرتا ہے اور روح و قلب کو روحانی تابندگی بخشتا ہے۔ (43)
رزق و اولاد میں اضافہ
سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 میں موسلادھار بارشیں برسنے اور خشک سالی سے نجات، فقر و تنگ دستی کے خاتمے اور رزق و آمدنی اور مال و اولاد میں اضافے کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَاراً * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَاراً؛ وہ بھیجتا ہے بادل کو تم پر برستا ہوا * اور تمہیں مدد پہنچاتا ہے مال اور اولاد کے ساتھ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے باغ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے نہریں"۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا سورہ نوح کی بارہویں آیت میں لاولد ہونے کے مسئلے کے دور ہونے یا اولاد کی کثرت کو استغفار کا ثمرہ قرار دیا گیا ہے۔
خوشحالی اور طویل العمری
حقیقی استغفار اچھی اور خوبصورت، خوشحال، پرامن و پرسکون اور عزت و آبرو سے بھرپور زندگی کے حصول کا سبب ہے۔ (44) جیسا کہ سورہ نوح کی آیت 12 میں ارشا ہؤا ہے اور سورہ ہود کی آیت 3 میں استغفار کے اس ثمرے اور اس خوبصورت مادی دنیا کو متاع حسن قرار دیا گیا ہے: "وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً؛ اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ سے رجوع (توبہ) کرے، تاکہ وہ (اللہ) تمہیں متاع حسن (اچھا فائدہ) پہنچائے"۔
بعض مفسرین متاع حسن کو طویل العمری، قناعت و کفایت شعاری جیسی عظیم نعمت، لوگوں سے بےنیازی اور خداوند متعال کی طرف توجہ اور رجوع جیسی عزت و عظمت قرار دیتے ہیں جو اللہ سے بخشش طلب کرنے کا ثمرہ ہے۔ (45)
منقول ہے کہ کچھ لوگ جو خشک سالی، غربت اور تنگ دستی، بچوں کے نہ ہونے سے شکایت کررہے تھے اور حسن بصری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے تو اس نے انہیں استغفار کی سفارش کی اور سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 کا حوالہ دیا۔  (46)

استغفار کے لئے بہترین مقام اور بہترین وقت
استغفار ایک خاص وقت اور مقام، یا کسی خاص صورت حال تک محدود نہیں ہے؛ لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے مختلف حالات اور مواقع میں اس کا اپنا خاص کردار ہے اور ان حالات و مواقع میں استغفار اللہ کے ہاں درجۂ قبولیت پر فائز ہوتا ہے؛ چنانچہ رات کا وقت اللہ کے فیوضات کے نازل ہونے کے لئے بہترین موقع ہے: "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر؛ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے"۔ (47) اور عبد کے عروج کے لئے بھی: "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً؛ پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت اپنے بندے کو سیر کرائی"۔ (48)
خدائے متعال سورہ آل عمران کی آیات 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے: "وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایما ن لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے * جو صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور اطاعت گذار ہیں اور خیرات کرنے والے ہیں اور راتوں کو پچھلے پہر مغفرت کی دعائیں کرنے والے ہیں"۔
اور سورہ ذاریات کی آیات 16 تا 18 میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ * كَانُوا قَلِيلاً مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے (کے دور حیات میں بھی) نیکوکار رہے تھے * وہ رات کو بہت کم سوتے تھے * اور [رات کے] پچھلے پہروں کو وہ طلب مغفرت کرتے تھے"۔
"وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ" اور "وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" میں صراحت کے ساتھ سحر کے وقت کو استغفار کے لئے منتخب کیا گيا ہے اور سورہ یوسف کی آیت 98 میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے گنہگار بیٹوں سے فرمایا: "سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ؛ میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت کی التجا (استغفار) کروں گا"۔ اور مفسرین کی اکثریت کے مطابق سحر کے وقت کا استغفار دوسرے تمام اوقات پر ترجیح رکھتا ہے۔
سورہ یوسف کی مذکورہ بالا آیت کے مطابق، جب یعقوب (علیہ السلام) کے خطاکار بیٹوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان (اپنے والد) کے حق میں اور بھائی یوسف (علیہ السلام) کے حق میں جن گناہوں کے مرتکب ہوئے، ان کی بخشے جانے کے لئے، ان کے لئے استغفار کریں تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں مستقبل "میں تمہارے لئے اپنے رب سے استغفار (طلب مغفرت) کروں گا"۔ اس آیت کے سلسلے میں مذکورہ زیادہ تر احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قول "میں عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا"، میں، (سوفَ یا) "عنقریب" سے "سحر کے اوفات میں استغفار" مقصود تھا۔ (49)
بعض مفسرین کے اقوال کے مطابق "شب جمعہ"، (50) ماہ رجب المرجب کی تیرہویں سے پندرہویں کی شب، (51) اور نماز شب یا تہجد کے اوقات (52) کو استغفار اور بخشش طلب کرنے کے لئے بہترین اوقات ہیں۔
کیا ہمارا استغفار قبول ہوگا؟
بے شک مشرکین، کفار اور منافقین کا استغفار قبول نہيں ہوگا اور اگر کوئی اور بھی ان کے لئے استغفار کرے تو ہرگز قبول نہیں ہوگا لیکن ان کے سوا تمام مؤمنین کا استغفار متعینہ شرائط کے ساتھ، اور توبہ و استغفار کے ساتھ اخلاص اور طلب مغفرت پر ترک گناہ کی صورت میں، قبول ہوگا کیونکہ:
1۔ بعض آیات کریمہ خداوند متعال کی بارگاہ میں استغفار کی قبولیت پر تصریح ہوئی ہے: "وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً؛ اور جو برائی کرے، یا اپنے اوپر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار (اور بخشش طلب) کرے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، نہایت مہربان"۔  نیز ارشاد ہوتا ہے: "وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ؛ اور وہ کہ جب کوئی بڑا برا کام کر ڈالتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ہے کون جو گناہوں کو معاف کرے جبکہ وہ اپنے کئے ہوئے [برے اعمال] پر جان کر اصرار نہیں کرتے"۔ (53) "فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ؛ تو اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا پروردگار نزدیک ہے، دعاؤں کا قبول کرنے والا"۔ (54)
نیز سورہ غافر کی آیت 60 میں خداوند متعال قبولیت کا معدہ دیا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ؛ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا"؛ اور استغفار بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے؛ (55) چنانچہ بطور اتم و اکمل اس الہی وعدے کے زمرے میں آتا ہے اور بےشک استغفار کی قبولیت کا یہ الہی وعدہ بجائے خود مؤمنین کو استغفار کی طرف راغب کرتا ہے۔
2۔ چونکہ قرآن کی متعدد آیات استغفار کا فرمان دیتی ہیں، (56) لہذا بعید ہے کہ اللہ استغفار کو قبول نہ کرے۔
3۔ اللہ کی بہت سی صفات بشمول "غفور، غافر، غفار، عفوّ، تواب" وغیرہ خود اللہ کی بخشش کا وعدہ دے رہی ہیں اور اللہ کی "بخشش" وہی ہے جس کی التجا "استغفار" میں ہوتی ہے۔
آخری نکتہ:
بہرصورت زبانی استغفار کے لئے عملی استغفار یعنی ترکِ گناہ شرط اور ترک گناہ پر استوار رہنا ہے؛ "وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ"۔ (57)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج7، ص33۔
2۔ سورہ ہود، آیت 3۔
3۔ شہید ثانی، مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام، ج9، ص535؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص163؛ رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص56۔
4۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج‌5، ص‌64‌ـ‌65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی (یا الہویزی)، تفسیر نور الثقلین، ج‌5، ص‌38۔
5۔ محمود روحانی، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم، ج‌3، ص‌1058، «غفر»۔
6۔ سورہ غافر، آیت 7۔  
7۔ سورہ شوری، آیت 5۔  
8۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌2، ص‌463۔   
9۔ سورہ آل‌عمران، آیت 16-15۔
10۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
11۔ سورہ مائدہ، آیت 74۔   
12۔ نہج البلاغہ، خطبہ 193۔
13۔ سورہ بقرہ، آیت 197۔
14۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص180۔   
15۔ السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص683۔
16۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام، ج4، ص323۔   
17۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام، ج12، ص131۔   
18۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج10، ص304۔   
19۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص193۔   
20۔ مناسک مراجع، م372 و مناسک مراجع، م377۔
21۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص295؛ و ص160-163، ج12، ص34-47۔
22۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج12، ص88۔   
23۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج22، ص72۔   
24۔ سید ابوالقاسم الخوئی، مصباح الفقاہۃ ج1، ص519-522۔   
25۔ سورہ توبہ، آیت  113؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص47-51۔
26۔ سورہ توبہ، آیت 113۔   
27۔ سورہ نساء، آیت 48؛ سورہ نساء، آیت 116۔   
28۔ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌9، ص‌351۔   
29۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌8، ص‌155۔
30۔ سورہ منافقون، آیت 6۔   
31۔ سورہ توبہ، آیت 80۔   
32۔ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج‌16، ص‌148؛ سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌9، ص‌351‌‌-352۔
33۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
33۔ سورہ بقرہ، آیت 58؛ سورہ اعراف، آیت 161۔
34۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص132؛ سورہ نوح، آیت 10-12؛ سورہ ہود، آیت 52۔
35۔ سورہ انفال، آیت 33۔   
36۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج‌7، ص‌154‌‌155۔   
37۔ نہج البلاغہ، حکمت 88۔
38۔ سورہ نوح، آیت 10۔   
39۔ سورہ نساء، آیت 110۔   
40۔ سورہ ہود، آیت 90۔   
41۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج‌4، ج‌5، ص‌371۔
42۔ ابن فہد الحلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ص‌265۔
43۔ فضل بن حسن الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌10، ص‌543؛ فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج‌30، ص‌137؛ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج‌10، ص‌300۔   
44۔ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌4۔   
45۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌10، ص‌543۔
46۔ سورہ قدر، آیت 1۔   
47۔ سورہ اسراء، آیت 1۔   
48۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج‌5، ص‌403؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌262؛ تفسیر الصافی، ج‌3، ص‌46۔   
49۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج‌8، ج‌13، ص85؛ ج‌5، ص‌403؛ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج‌18، ص‌209؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج‌9، ص‌262۔   
50۔ وہی ماخذ، ج‌9، ص‌262؛  سید محمود الآلوسی البغدادی، تفسیر روح المعانی، ج‌8، ج‌13، ص‌79؛
51۔ عبد الرحمان بن ابی بکر بن محمد السیوطی، تفسیر الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج‌4، ص‌585۔
52۔ سورہ نساء، آیت 110۔   
53۔ سورہ آل‌عمران، آیت 135۔   
54۔ سورہ ہود، آیت 61۔   
55۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج‌5، ص‌65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی، تفسیر نور الثقلین، ج‌5، ص‌38۔   
56۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص‌634، «غفر»۔
57۔ سورہ آل عمران، 135
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110

Read 1801 times