
سلیمانی
توکل کے معرفتی لوازم کیا ہے؟
بندے کو خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور نسبت کے بارے میں آگاہی اور کامل یقین حاصل ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی آیات میں ان یقینوں کی مختلف صورتیں نہایت واضح انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
واضح کیا گیا ہے کہ توکل، معرفت اور شناخت کے بعد عمل اور اقدام کا متقاضی ہوتا ہے۔ لہٰذا توکل کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک معرفتی لوازم اور دوسرا عملی لوازم۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: «التَّوكُّلُ مِن قُوَّةِ اليَقينِ» (توکل، یقین کی قوت سے پیدا ہوتا ہے)۔
درج ذیل میں قرآن کی روشنی میں توکل کے معرفتی لوازم اور یقین کے چند مظاہر کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے:
- خدا کی مہربانی اور رحمت پر ایمان: سورۂ ملک میں ارشاد ہوتا ہے: «قُلْ هُوَ الرَّحْمَنُ آمَنَّا بِهِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا» "کہہ دو: وہی رحمان ہے، ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اسی پر توکل کیا" (ملک: 29)۔ خدا کے علم کی وسعت پر یقین: قرآن مجید فرماتا ہے: «وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا» "ہمارا رب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، ہم نے اللہ پر توکل کیا" (اعراف: 89)۔ یعنی اللہ کا علم لا محدود ہے، اور وہ ہماری بھلائی اور مصلحت کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ خدا کی خیرخواہی پر یقین: سورۂ توبہ میں فرمایا گیا: «قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ» "کہہ دو: ہمیں ہرگز کوئی چیز نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، وہ ہمارا مولیٰ ہے، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے" (توبہ: 51)۔ یعنی مؤمن جانتا ہے کہ اللہ اس کا سرپرست ہے، اور اللہ اپنے بندے کے لیے کبھی برائی نہیں لکھتا، جو کچھ بھی مقدر ہے وہ خیر ہی ہے۔ اللہ کی ہدایت و قدرت پر ایمان: سورۂ ابراہیم میں آیا ہے: «وَ مَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَ قَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ» "اور ہمیں کیا ہوا کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں ہمارے راستے دکھائے؟ اور ہم یقیناً تمہاری ایذا رسانی پر صبر کریں گے، اور اللہ ہی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں" (ابراہیم: 12)۔
خالد بن سلمان نے سعودی عرب کے بادشاہ کا پیغام رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا
سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان نے جمعرات کی شام کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو دونوں ملکوں کے لیے مفید قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کو مکمل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ بعض عناصر اور طاقتیں تہران اور ریاض کے تعلقات کی دشمن ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دشمنانہ ارادوں پر غلبہ حاصل کیا جائے جس کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران مکمل طور پر تیار ہے۔
آپ نے مختلف شعبوں میں ایران کی قابل دید ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان شعبوں میں سعودی عرب کی مدد کرنے کی مکمل آمادگی رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر فرمایا کہ علاقے کے برادر ممالک کا باہمی تعاون، دوسروں پر تکیہ کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
اس ملاقات کے دوران جس میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری بھی موجود تھے، خالد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب بھی تمام شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں، سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ فروغ پائیں گے۔
خالد بن سلمان نے اس موقع پر سعودی عرب کے بادشاہ کا پیغام بھی رہبر انقلاب اسلامی کو پیش کیا۔
ہم جنگ میں کامیاب ہوئے کیونکہ صیہونی رژیم اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی، شیخ نعیم قاسم
حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا: لبنانی مزاحمت نے بڑی قربانیاں دے کر اسرائیلی جارحیت کو روکا اور دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شدید حملوں کے باوجود مزاحمتی فورسز اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنانے اور اپنے وطن کا دفاع کرنے میں کامیاب رہیں۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ان فتوحات میں شہید صفی الدین اور دیگر شہداء جیسے ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل توسیع پسند ہے اور وہ صرف مقبوضہ فلسطین پر قناعت نہیں کرتا بلکہ لبنان پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مزاحمت کمزور نہیں ہوئی، واضح کیا کہ جو بھی مزاحمت کو کمزور سمجھتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
انہوں نے صیہونی قبضے کے خلاف لبنانی حکومت کے ردعمل کے بارے میں کہا کہ اگر حکومت اپنی سرزمین اور لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی ہے تو پھر طبیعی طور پر مزاحمت ایسا کرے گی۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کی 2700 بار خلاف ورزی کی ہے۔ صہیونی حکومت کو جارحیت کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ معاہدے کے تحت اب تک جنگ ختم ہونا چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس صہیونی حکومت نے اب تک 2700 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے گویا معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے ہر کام اس نے انجام دیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے عزائم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے تک محدود نہیں بلکہ وہ لبنان کی مکمل طور پر تسخیر کرنا چاہتا ہے۔
اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین جنوبی لبنان سے ہرگز بے دخل نہ ہوتے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو قابضین کو جنوبی لبنان سے بے دخل نہ کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنانی مزاحمت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گزشتہ چار دہائیوں میں شاندار اور متاثر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت اسرائیل کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کرتی ہے تو ہم اس کے ساتھ ہوں گے، تاہم یہ فیصلہ حکومت پر منحصر ہے۔
فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے
شیخ نعیم قاسم نے فلسطین کے لیے حزب اللہ کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم قائد مقاومت شہید نصراللہ کے جانشین ہیں۔
صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں اسلامی ممالک کا کیا موقف ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں صیہونی حکومت نے مسجد الاقصی پر قبضے کی کوشش کی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک کا صیہونی حکومت کی خلاف ورزیوں پر کیا موقف ہے؟
امریکہ شیطان بزرگ ہے
لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارے نقطہ نظر سے صیہونی حکومت ایک جرثومہ ہے۔ امریکہ کے بارے میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ لبنان کے لیے امریکہ کی ڈکٹیشن پر عمل کرنا ناممکن ہے، ہم امریکہ کو شیطان بزرگ سمجھتے ہیں۔
امریکا نے جنگ چھیڑی تو ایران فاتح ہوگا
کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ آج وہ یوکرین میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی جنگ، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے امریکی اسرائیلی منصوبوں کے سب سے بڑے امریکی ناقدین میں سے ہیں۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی اور یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی، جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔ ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔"
ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ امریکی حمایت یافتہ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، لیکن وہ ایرانی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں لے سکے۔ میں خود اُس بے ترتیب اور بمشکل دو فٹ چوڑی سڑک پر چلا ہوں، جو کبھی خرمشہر کہلانے والے مکمل تباہ شدہ شہر کے ملبے سے گزرتی ہے۔ اس بارودی سرنگوں سے بھری زمین پر ایک بھی غلط قدم موت کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے رائٹرز کے ساتھی نجم الحسن کے ساتھ ہوا۔“ جنگ بالآخر اس وقت ختم ہوئی، جب خلیج میں ایک امریکی جنگی جہاز نے بظاہر غلطی سے ایک ایرانی ایئربس کو مار گرایا، جس سے 1988ء میں سیکڑوں شہری مارے گئے۔
ایران نے اس کے بعد عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزاحمتی گروہوں کو جنم دیا اور انہیں آزاد فلسطین کی جدوجہد کے دفاع کے لیے تربیت دی۔ اگرچہ یمن میں حوثی حکومت اور اس کے جنگجو اب ایران سے مدد نہیں لیتے، لیکن وہ طاقتور اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ انہوں نے سعودی قیادت میں لڑنے والی جنگی مشینری کے خلاف کیا تھا۔ ایران کی طرح وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو بھی ہو یکجہتی کے لیے کھڑے رہیں گے۔ تو ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے تیار ہے۔؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہونے بلکہ اپنے تمام میزائلوں کو ختم کرنے کا مطالبہ نہ مانا، تو وہ ایران پر پہلے سے کئی زیادہ شدید بمباری کرے گا۔
جس پر ایران کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیاں کارگر نہیں ہوں گی، مگر متوازن اور سنجیدہ سفارت کاری ممکنہ حل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ہفتے کے روز عمان میں مثبت انداز میں ختم ہوا اور کئی کشیدہ دنوں کے بعد واضح طور پر اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے لیے جنگ کا آپشن ممکن نہ رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں اپنے خلاف اٹھتی ہوئی عوامی مزاحمت کا سامنا اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔ یہ منظر ان چار نعروں کی یاد دلاتا ہے، جو ایران میں نمازیوں نے 1980ء کی دہائی میں تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے دوران بلند کیے تھے۔ جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ہاشمی رفسنجانی بائیں ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر اپنے خطبے کے درمیان اشارہ کر رہے تھے، ہجوم نے امریکا، اسرائیل، سوویت یونین اور صدام حسین مردہ باد کے نعرے لگائے، شاید اسی ترتیب سے۔ جن میں سے ان کی دو خواہشیں تو پوری ہوگئیں اور باقی دو اپنے جمہوری نقاب کو بچانے اور اپنے بےچین عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے کٹھن جدوجہد میں مصروف ہیں۔
کس چیز نے کرنل ولکرسن میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ جنگ میں ایران فاتح ہوگا؟ یہ اعتماد اُن روایتی حوالوں کے بغیر سامنے آیا، جو عموماً ویتنام اور افغانستان میں امریکی افواج کی ذلت آمیز ناکامیوں کے تناظر میں دیئے جاتے ہیں۔ ولکرسن نے ایرانی فتح کا یہ دعویٰ امریکی وار گیمز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والی فوجی مشق ملینیم چیلنج 2002ء MC02 کے کمپیوٹرائزڈ نتائج نے امریکی فوجی حکمت عملی میں نمایاں کمزوریوں کا انکشاف کیا۔ اس مشق میں ایران کو ریڈ ٹیم اور امریکا کو بلیو ٹیم سونپی گئی تھی۔ ایران کی ریڈ ٹیم کی قیادت ریٹائرڈ میرین لیفٹیننٹ جنرل پال وان رائپر کر رہے تھے۔ انہوں نے تباہ کن اثر کے لیے غیر روایتی حربوں کا استعمال کیا۔ موٹر سائیکل میسنجر، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کوڈڈ سگنلز اور میزائلوں سے لیس چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے، ریڈ ٹیم نے ایک حیرت انگیز حملہ کیا، جس نے بلیو ٹیم کو تباہ کر دیا۔
ایک بڑے کروز میزائل سالو نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سمیت 16 امریکی جنگی بحری جہازوں کو غرق کر دیا اور 20 ہزار سے زائد اہلکاروں کو فرضی طور پر ہلاک کر دیا۔ ایرانی ریڈ ٹیم نے اس کمپیوٹرائزڈ حملے میں جدید ٹیکنالوجی اور مضبوط ڈھانچے پر امریکی بلیو ٹیم کی خامیوں سے فائدہ اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ ٹیم کی واضح کامیابی کے بعد پینٹاگون نے مشق کو معطل کر دیا، بلیو فورسز کو تباہ کر دیا اور ریڈ ٹیم کی حکمت عملی پر پابندی لگا دی۔ ریڈ ٹیم کو طیارہ شکن ریڈار پوزیشنوں کو ظاہر کرنے، چھاتہ برداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے اور بلیو کی حتمی فتح کو یقینی بنانے والے اسکرپٹ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ وان رائپر نے اسے مشق کے مقصد سے غداری قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 25 کروڑ ڈالر کی فرضی جنگ کو دونوں فریقوں کی طاقت کے حقیقی امتحان کے بجائے موجودہ امریکی عقائد کی اسکرپٹڈ توثیق میں تبدیل کر دیا گیا۔
وار گیمز میں کہیں بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کا امکان موجود نہیں تھا۔ اس کا سہرا ایران کی سخت گیر قیادت کو جاتا ہے، جو ایٹمی بم بنانے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شاید کسی وقتی ایوارڈ کو قبول نہیں کریں، چہ جائیکہ انہیں نوبل امن انعام کی پیشکش کی جائے۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا مگر کم سراہا گیا اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے قابل احترام رہنماء اس اہم اقدام کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس فیصلے سے ان کے لوگ تباہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ایران اور اس کے اعلیٰ رہنماؤں کی اخلاقیات تعریف کی مستحق ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جمع کرنے کے خلاف خامنہ ای کے 2003ء کے فتوے نے دنیا کو ناقابل بیان نقصان سے بچانے میں ایک غیر معروف کردار ادا کیا ہے۔
ایران اور بالخصوص اس کی اعلیٰ قیادت کی اخلاقی بنیاد بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا 2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف دیا گیا فتویٰ ایک خاموش مگر مؤثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس نے دنیا کو بڑی تباہی سے بچائے رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای پر اپنے ہی ہم وطنوں کی جانب سے بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت دیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، جس سے اسرائیل کو قابو اور امریکی صدور کی جانب سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر خامنہ ای اپنی اس فطری دانش کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایٹم بم ایک غیر اخلاقی ہتھیار ہے اور اس مؤقف پر ہم ان کے مشکور ہیں۔
https://beta.dawnnews.tv/news
تحریر: جاوید نقوی
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سفارتی حکمت عملی
دو: رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا دوسرا اہم قدم روسی صدر کو مکتوب پیغام بھیجنا تھا۔ اگرچہ پوٹن کو بھیجے گئے پیغام کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں، لیکن ایران اور امریکہ کے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کے پیش نظر، روس کے ساتھ تعلقات میں یہ اضافہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ رہبر انقلاب نے بڑی ہوشیاری سے مشرقی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے عمل کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے دور اور آزاد رکھنا ضروری سمجھا اور آپ اس عمل سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ مشرق کے اسٹریٹجک محور کو مذاکرات کے اہم دنوں میں فعال اور مثبت حوصلہ افزائی کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وقت ضرورت ان تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی رہے۔
اس کے علاوہ، یہ گذشتہ دور کے مذاکرات میں خارجہ پالیسی کے یک طرفہ ہونے کے تجربے اور خطرے کو بھی ایرانی حکومت سے دور کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پر حد سے زیادہ انحصار تھا۔ تین: تیسرا اہم واقعہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی رہبر انقلاب سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کا پیغام یہ ہے کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور توسیع کو ایک خاص رفتار کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ ان بہتر تعلقات میں اہم اقتصادی اور سلامتی کے اہداف شامل ہیں، لیکن واضح طور پر یہ خطے میں اسرائیل پر سلامتی اور سیاسی حوالے سے دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔
چار: آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی خارجہ پالیسی میں عملاً ایک وسیع سفارت کاری کا میدان فعال کر دیا ہے۔ اس تیار کردہ میدان میں امریکہ کے مقابلے میں آزادانہ عمل کیا جاسکتا ہے، اس سے ایرانی مذاکرات کاروں کی سفارتی صلاحیت کو بڑھاوا ملا ہے اور وہ امریکی فریق کے اسٹریٹجک حسابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سفارتی حکمت عملی سے اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں، تو ایران کے پاس مشرق اور مغرب دونوں کی صلاحیتیں موجود ہوں گی اور اگر کسی بھی وجہ سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو مشرقی طاقتوں کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا عمل اور ملک کی خارجہ پالیسی کے دیگر اقدامات معطل نہیں ہوں گے۔
آرٹیکل کا اختتام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس موقف سے کرتے ہیں، جو انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ گفتگو (مذاکرات)، وزارت خارجہ کے دسیوں کاموں میں سے ایک ہے۔ یعنی وزارت خارجہ دسیوں کام کر رہی ہے اور انہیں میں سے ایک یہ عمان کی گفتگو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو ابھی حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ کوشش کریں کہ ملک کے مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں۔ یہ میری تاکید ہے۔ جو غلطی جامع ایٹمی معاہدے میں کی، اس کی تکرار نہ کریں۔ اس وقت ہم نے ہر چیز مذاکرات میں پیشرفت پر منحصر کر دی تھی۔ یعنی ملک کو مشروط حالت میں پہنچا دیا۔ جب ملک مذاکرات سے مشروط ہو جائے تو سرمایہ کار، سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ یہ بات ظاہر ہے، کہتا ہے کہ دیکھیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
یہ مذاکرات بھی جملہ امور میں سے ایک ہے۔ ایک بات ہے، ان بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جو وزارت خارجہ انجام دے رہی ہے۔ ملک کو مختلف شعبوں میں اپنا کام کرنا چاہیئے۔ صنعت میں، زراعت میں، مختلف اور گوناگوں خدمات کے شعبوں میں، ثقافت کے شعبے میں، تعمیراتی شعبوں میں، خاص موضوعات میں جن کی خاص تعریف کی گئی ہے، جیسے یہی جنوب مشرق کے مسائل ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے کام کریں۔ ان مذاکرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نہ مذاکرات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا چاہئے اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان رہنا چاہیئے۔
بہرحال یہ بھی ایک کام ہے، ایک اقدام ہے، ایک فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے اور ابتدائی مرحلے میں بہت اچھی طرح عمل ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی پوری دقت نظر کے ساتھ عمل کیا جائے، ممنوعہ خطوط (ریڈ لائنیں) فریق مقابل کے لئے بھی واضح ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ مذاکرات اچھی طرح انجام دیئے جائيں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں اور ممکن ہے کہ نتیجہ بخش نہ ہوں۔ ہم نہ بہت زیادہ خوش فہمی میں ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ بدگمان ہیں۔ البتہ فریق مقابل سے بہت بدگمان ہیں، فریق مقابل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، ہم فریق مقابل کو پہچانتے ہیں۔ لیکن اپنی توانائیوں پر ہمیں پورا اعتماد ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے امور انجام دے سکتے ہیں، اچھے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔"
جمع بین صلاتین کا مسئلہ
نماز مخلوقات کے لئے خالق سے رابطہ کیلئے بہترین ذریعہ ، تربیت کا بہترین وسیلہ ، تہذیب اور خودسازی کا عالی ترین برنامہ ، برائیوں سے دور رہنے کا موجب اور حق تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور نماز باجماعت مسلمین کی قدرت ، وحدت اور بیداری کی بہترین نمائش ہے۔
نمازدن بھر میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسطرح انسان کی روح دائم پروردگار کے چشمہ زلال یعنی نماز سے پاک و صاف ہوتی رہتی ہے ، آنحضرتۖ نماز کو اپنی آنکھوں کی روشنی کہا کرتے تھے : '' قرة عینی فی الصلاة'' ١اور اسے مومنوں کی معراج کا نام دیا کرتے تھے : '' الصلوة معراج المومن '' ؛ ٢جوبارگاہ الہی میں پرہیزگاروں کے تقرب کا باعث ہے :'' الصلاة قربان کل تقی '' ۔ ٣
یہاں پر ہماری بحث پنجگانہ نمازوںکے سلسلہ میں ہے کہ کیا انہیں معین اوقات میں بجالانا ایک واجب ہے کہ جس کے بغیر وہ باطل ہے ( جس طرح کہ وقت سے پہلے نماز کو ادا کرنا اس کے بطلان کا موجب ہے )یا انہیں تین اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے یعنی ظہر وعصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کوایک ساتھ انجام دینا صحیح ہے ؟۔
شیعہ علماء اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے نماز کو تین اوقات میں انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اگر چہ افضل یہ ہے کہ انہیں ان کے مخصوص اوقات میں انجام دیا جائے ۔
لیکن اہلسنت کے بیشتر فقہاء پنجگانہ نمازوں کو ان کے اوقات میں انجام دینے کو واجب کہتے ہیں ( وہ لوگ صرف عرفات میں روز عرفہ نماز ظہر وعصر کوایک ساتھ اور مشعر الحرام میں عید الضحیٰ کی رات میں نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور بیشتر فقہاء نے سفر میں یا بارش کے دوران جماعت کی تشکیل کی زحمت کے باعث دونمازوں کے اجتماع کو جائز قرار دیا ہے )
شیعہ فقہاء کے نزدیک اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں بجا لانا افضل ہے لیکن دو نمازوں کو جمع کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ یہ بندوں کے حق میںایک قسم کی سہولت ہے جو انہیں دی گئی ہے نیز یہ سہولت روح اسلام ( شریعت سمحة و سھلة ) سے سازگار بھی ہے ۔
بلکہ تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ پانچ نماز وں کو ان کے اوقات میں بجالانے کی تاکید نماز سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا موجب ہے اور اس تاکید کی وجہ سے بہت سے لوگ نماز سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اسلامی سماج میں پنجگانہ اوقات پر اصرار کے آثار
کیوں اسلام نے روز عرفہ اور شب مشعر میں دونمازوں کے اجتماع کی اجازت دی ہے ؟
کیوں اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے حدیث نبوی کی روشنی میں سفر اور بارش کے دوران دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اجازت امت کی سہولت کی خاطر ہے ۔
اس سہولت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسری مشکلات کے سامنے بھی دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ اجازت کسی خاص زمان سے مخصوص نہیں ہے اس لئے کہ ہمارے دور میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی بالکل بدل چکی ہے ، کارخانوں اور ادارہ جات میںمیں کام کرنے والے اورکلاسوں میں شرکت کرنے والے طالب علموں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ پانچ وقتوں میں پنجگانہ نمازوں کو ادا کرسکیں ۔
لہذا اگر لوگوں کو پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں دونمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی اجازت دی تو وہ اپنے امور کو بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں او ر بروقت نماز کے لئے حاضر بھی ہوسکتے ہیں جو نماز کی صفوں میں افزائش کا باعث ہے وگرنہ صفیں خالی اور نماز کو ترک کرنے والوں کی کثرت ہوجائے گی اسی وجہ سے اہلسنت کے بہت سے جوانوں نے نماز کو ترک کردیا ہے حالانکہ شیعوں کے درمیان نماز کو ترک کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
حق تویہ ہے کہ '' بعثت الی الشریعة السمحة السهلة '' اور آنحضرت ۖ سے منقول روایات کی روشنی میں پنجگانہ اوقات میں نماز کی ادائیگی کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ لوگوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنی پنجگانہ نماز وں کو تین وقتوں میں ادا کریں تاکہ زندگی کی مشکلات انہیں نماز کو ترک کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
اس کے بعد قرآن مجید ، آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں بحث کو ادامہ دیں گے تاکہ یہ مسئلہ کسی تعصب کے بغیر حل ہوسکے ۔
دونمازوں کے اجتماع پر روایات کی تائید
اہلسنت کے مشہور منابع صحیح مسلم ، بخاری ، سنن ترمذی، موطامالک، مسند احمد، سنن نسائی ،مصنف عبد الرزاق اور دیگر کتابوں میں دونمازوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں کسی سفر یا بارش یا اضطرارکی علت کے بغیرتیس روایتیں نقل ہوئیں ہیں جو پانچ راویوں سے ہیں:
١۔ ابن عباس
٢۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری
٣۔ عبد اللہ ابن عمر
٤۔ ابو ہریرہ
٥۔ابو ایوب انصاری
مذکورہ راویوں کی بعض روایات کو ملاحظہ کریں:
١۔ ابوزبیر سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' صلی رسول الله ۖ الظهروالعصرجمیعابالمدینةفی غیرخوف و لاسفر''؛رسول اللہ ۖنماز ظہر و عصر کو کسی خوف اور سفر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ ابوزبیر کہتے ہیں : میںنے سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر ۖ اس طرح نماز ادا کیا کرتے تھے ؟
سعید نے جواب دیا: میںنے بھی یہی سوال جب ابن عباس سے کیا تو انھوںنے نے جواب دیا:'' اراد ان لایحرج احدا من امته'' ؛ آنحضرت ۖ کی نیت یہ تھی کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں نہ پڑے ۔ ۴
٢۔ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس فرماتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر''؛ آنحضرت ۖ نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی بھی خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ایک ساتھ ادا کی ۔ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ اس سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟تو جواب دیا: '' اراد ان لایحرج ''؛ یعنی آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں پڑے ۔ ۵
٣۔عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : '' خطبنا ابن عباس یوما بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة الصلاة ! قال فجائه رجل من بنی تمیم لا یفتر ولایتنی : الصلوة الصلوة فقال: ابن عباس اتعلمنی بالسنة ، لاام لک ثم قال : رایت رسول الله ۖ جمع بین الظهر و والعصر والمغرب والعشاء قال عبد الله بن شقیق : فحاک فی صدری من ذلک شیء فاتیت اباهیرة فسالته ، فصدق مقالته ؛
عبدا للہ بن شقیق کہتے ہیں : ایک روزجب ابن عباس نے ہمارے درمیان عصر کے بعد خطبہ کا آغاز کیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے تو لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ''نماز نماز'' اس کے بعد بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور مرتب نماز نماز کہے جارہا تھا ، جناب ابن عباس نے اس سے کہا: کیا تو مجھے پیغمبر ۖ کی سنت کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اے بے بنیاد ! آنحضرت مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ، عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : میرے دل میں شک پید اہوا لہذا میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس نے ابن عباس کی بات کی تصدیق کی !۔ ۶
٤۔ جابر بن زید کا بیان ہے کہ جناب ابن عباس نے فرمایا: '' صلی النبی سبعا جمیعا و ثمانیا جمیعا'' ؛ پیغمبر ۖ نے سات رکعت ایک ساتھ اور آٹھ رکعت ایک ساتھ پڑھی ( جو مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے )۔۷
٥۔سعید بن جبیر جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینة من غیر خوف ولا مطر قال : فقیل لابن عباس: مااراد بذلک ؟ قال : اراد ان لایحرج امته''؛ پیغمبر ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر وعصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ، کسی نے جناب ابن عباس سے سوال کیا: اس فعل سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟ فرمایا: آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت زحمت میں پڑے ۔ ۸
٦۔احمد بن حنبل نے اسی مضمون کی روایت جناب ابن عباس سے اپنی مسند میں ذکر کی ہے ۔ ۹
٧۔ اہل سنت کے معروف امام'' مالک ''اپنی کتاب'' موطا ''میں مدینہ کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے جناب ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: '' صلی رسول اللہ ۖ الظهر والعصر جمیعا و المغر ب والعشاء جمیعا فی غیر خوف و لاسفر'' آنحضرت ۖ نمازظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی خوف اور بارش کے ایک ساتھ ادا کیا کرتے تھے ۔ ۱۰
٨۔ کتاب ''مصنف عبد الرزاق '' میں مذکور ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے کہا: '' جمع لنا رسول الله ۖ مقیما غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب فقال رجل لابن عمر : لم تری النبی ۖ فعل ذلک ؟ لان لا یحرج امته ان جمع رجل ''؛ پیغمبر اکرم ۖ نے اس حال میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء کو جمع کیا کہ آپ مسافر نہیں تھے ، کسی نے ابن عمر سے سوال کیا: پیغمبر ۖ کے اس عمل کی علت کیا ہوسکتی ہے ؟ کہا: اگر کسی شخص نے ان نمازوں کو جمع کیا تو ان کی امت کا کوئی فرد زحمت میں نہ پڑے( اور اس پر اشکال نہ کیا جائے ) ۱۱
٩۔جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں : ''جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة للرخص من غیر خوف ولاعلة ''؛ رسول اللہ ۖ نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا تاکہ امت کے پاس بغیر کسی خوف و علت کے ان نمازوں کو جمع کرنے کا جواز رہے ۔ ۱۲
١٠۔ ابوہریرہ کا بیان ہے : '' جمع رسول الله ۖ بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف ''؛ آنحضرت ۖ مدینہ میںدونمازوں کو کسی خوف کے بغیر جمع کیا کرتے تھے ۔ ۱۳
١١۔ عبد اللہ بن مسعود نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الاولیٰ والعصر والمغرب والعشاء فقیل له فقال : صنعته لئلا تکون امتی فی حرج '':
آنحضرت ۖ نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا ، جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت زحمت میں نہ پڑے ۔ ۱۴
یہاں پر دو سوال کیا جاتا ہے
١۔ مذکورہ احادیث کا نتیجہ
وہ تمام حدیثیں جنہیں ہم نے ذکر کیا ہے اہل سنت کی تمام مشہور کتابوں میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی سند معروف صحابہ تک پہنچتی ہے ، یہ سب کی سب دو نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
١۔ آنحضرت ۖ نے دونمازوں کو کسی خوف یا بارش یا سفر کے بغیر پڑھا ہے ۔
٢۔ آنحضرتۖ کا مقصد امت کی آسائش اور ان سے زحمت کو دور کرنا تھا ۔
ان تمام روایات کے ہوتے ہوئے کیاپھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنا اضطراری صورت میںجائز ہے ؟ کیوں ہم اپنی آنکھوں کو حقیقت سے چھپالیں اور آنحضرت ۖ کی سنت کے ہوتے ہوئے اپنے نظریات کو برتر سمجھیں؟!
خدا اور اس کے رسولۖ نے بخش دیا ہے لیکن اس امت کے متعصب حضرات بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، آخر کیوں ؟! کیوں وہ نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان جوان ہر جگہ اور ہر حال میں ، اسلامی اور غیر
اسلامی ممالک ، آفس اور کارخانوں میں اسلام کا سب سے اہم فریضہ نماز کو آسانی سے ادا کرے؟
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام تا قیام قیامت ہرزمان ومکان کے لئے ہے اور یہ چیز حتمی ہے کہ آنحضرت ۖ آنے والے مسلمانوں اور زمانوں سے باخبر تھے لہذا اگر مسلمانوں کو پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کے لئے مقید کردیتے تو پھر نماز ترک کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ( جیسا کہ آج واضح ہے ) اسی وجہ سے آنحضرت ۖ نے اپنی امت پر کرم کیا تاکہ ان کی امت کے لوگ نماز کو جہاں چاہیں آسانی سے ادا کرسکیں ۔
قرآن مجید فرماتا ہے :( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) ۱۵؛ ترجمہ : تمہارے لئے دین میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٢۔ قرآن اور نماز کے اوقات
ہم جب قرآن کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے نماز کے لئے تین وقت بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز پانچ وقتوں میں واجب ہے ۔
ہمیں پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا انکار نہیں ہے بلکہ اگرہمیں بھی اتنی فرصت مل جائے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کریں تو کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن کیا ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے ؟
قرآن کی پہلی آیت سورہ ہود میں ہے : ( واقم الصلوة طرفی النهار وزلفا من اللیل ) ۱۶ ؛اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔
'' طرفی النہار'' کی تعبیر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے کہ جسے اول صبح میں ادا کی جاتی ہے اور نماز ظہرین کا وقت مغرب تک باقی رہتا ہے یعنی نماز ظہرین کے وقت کا مغرب تک باقی رہنا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔
لیکن '' زلفا من اللیل '' کی تعبیر میں '' زلف'' کا مطلب'' مختار الصحاح '' اور'' کتاب مفردات '' کے مطابق '' زلفة'' کی جمع ہے جو اول شب کے ایک حصہ کے معنی میں ہے یعنی نماز مغربین کی طرف اشارہ ہے ۔
لہذا اگر پیغمبر ۖ نے نماز کو پانچ وقتوں میں ادا کیا ہے تو حتما ًان اوقات کی فضیلت تھی کہ جس کے ہم بھی معتقد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی آیت کے ظہور سے صرف نظر کرلیں اور دیگر تاویلات کا سہارا لیں ؟! قرآن کی دوسری آیت سورہ بنی اسرائیل میں ہے : ( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشهودا) ؛ ۱۷
'' دلوک'' مائل ہونے کے معنی میں ہے اور اس آیت میں سورج کا نصف النہار کی لائن سے مائل ہونے کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد زوال ظہر ہے ۔
'' غسق اللیل '' رات کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے اوائل شب اور نصف شب کے معنی کئے ہیں اس لئے کہ '' مفردات '' کے مطابق '' غسق ' ' شدید تاریکی کو کہتے ہیں جس کا نصف شب پر اطلا ق ہوتا ہے ۔
لہذا '' دلوک الشمس'' نماز ظہرین کے وقت کی ابتدا اور '' غسق اللیل '' نماز مغربین کے وقت کے تمام ہونے کی طرف اشارہ ہے اور '' قرآن الفجر'' نماز صبح کی طرف اشارہ ہے ۔
ان دو آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز یومیہ کے لئے صرف تین وقت ہیں لہذاانتین اوقات میں نماز کا ادا کرنا جائز ہے ۔
فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں قابل توجہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ : '' ان فسرنا الغسق بظهور اول الظلمة ۔ وحکاہ عن ابن عباس عطا وانضر بن شمیل ۔ کان الغسق عبارة عن اول المغرب وعلی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزوال ووقت اول المغرب ووقت الفجر وهذا یقتضی ان یکون الزوال وقتا للظهر والعصر فیکون ھذا الوقت مشترکا بین الصلوتین وان یکون اول المغرب وقتا للمغرب والعشاء فیکون هذا الوقت مشترکا ایضا بین ہاتین الصلوتین فهذایقتضی جواز الجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء مطلقا '' ۱۸ ؛ جب بھی '' غسق'' کے معنی اول شب کی تاریکی کے لئے جائیں گے ۔ جیسا کہ ابن عباس ، عطا اور نضر بن شمیل اسی نظریہ کے قائل ہیں۔ تو اس کا معنی اول مغرب کے ہوں گے لہذا اس آیت میںصرف تین وقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : وقت زوال ، وقت اول مغرب اور وقت فجر۔
اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زوال سے مراد نماز ظہرین ہوگی جس میں یہ دونوں نمازیں مشترک ہیں اور اول مغرب سے مرادنماز مغربین ہوگی اور یہ بھی نماز ظہرین کی طرح اول مغرب میں مشترک ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نماز ظہر و عصر کو اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہو۔
ابھی تک فخر رازی نے انصاف سے کام لیا اور بخوبی مذکورہ آیت کی تفسیر کی لیکن ادامہ دیتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ دونمازوں کو کسی عذر اور سفر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے لہذا اس آیت کو عذر سے مختص قرار دیتے ہیں ۔
لیکن ہم فخر رازی سے یہ کہیں گے کہ اس مدعا کے لئے نہ تنہا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد روایات ہیں جو اس مدعا کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ آنحضرت ۖ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو کسی عذر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے نماز ادا کرنا آسان ہو اور کن اصول کی بنیاد پر مذکورہ آیت کو عذر سے مختص کیا جاسکتا ہے ؟حالانکہ علم اصول کے مطابق تخصیص اکثر جائز نہیں ہے ۔
بہرحال کسی بھی حال میں مذکورہ آیت کے ظہور سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
نتیجہ بحث
١۔ قرآن مجید نے پنجگانہ نماز کے لئے تین وقتوں کو بیان کیا ہے ۔
٢۔ فریقین کی مروی روایات کے مطابق آنحضرت ۖ نے دونما
زوں کو کسی بھی عذر کے بغیر پڑھا ہے تاکہ امت زحمت سے بچی رہے ۔
٣۔ اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں ادا کرنا فضیلت رکھتا ہے لیکن اس فضیلت پر اصرار اور جوازکے انکار سے بہت سے لوگ مخصوص جوانوں کا طبقہ نماز سے دور ہوجائے گا لہذا ذمہ دار حضرات پر واجب ہے کہ وہ جواز کے منکر نہ ہوں۔
کم ازکم اہل سنت کے علماء اس بات کو مان لیں کہ ان کے جوان اس مسئلہ میں اہل بیت کی فقہ پر عمل کریں جیسا کہ جامعہ ازہر کے عظیم الشان عالم دین، شیخ الازہر ، شیخ محمود شلتوت نے فقہ جعفری پر عمل کرنے کا فتویٰ دیا تھا ۔
ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں نماز کو پانچ وقتوں میں اداکرنا کاریگروں ، آفس میں کام کرنیوالوں ، اسٹوڈنٹ اور بہت سے لوگوں کے لئے دشواری کا باعث ہے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں آنحضرت کے جوازکی پیروی کریں تاکہ لوگوں کو نماز ترک کرنے کا بہانہ نہ ملے ؟!
کیا سنت پر اصرار سے فریضہ کا ترک ہونا صحیح ہے ؟!
حوالہ جات
١۔ مکارم الاخلاق ، ص ٤٦١
٢۔اگر چہ ہمیں اس روایت کی سند نہیں ملی لیکن اس کی شہرت اس حدتک ہے کہ علامہ مجلسی اپنے بیانات میں اس حدیث کے ذریعہ استدلال کیا کرتے تھے ، بحا ر، ٧٩،ص ٢٤٨و ٣٠٣
٣۔ کافی ج ٣ ص ٢٦٥، ح٢٦
۴۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥١
۵۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۶۔١۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۷۔صحیح بخاری ج ١ ص ١٤٠ باب وقت المغرب)
۸۔ سنن ترمذی ، ج ١ ص ١٢١ ، ح ١٨٧
۹۔مسند احمد ، ج ١ ص ٢٢٣ ۱
۰۔ موطا مالک ج ١ ص ١٤٤
۱۱۔مصف عبد الرزاق ، ج ٢ ص ٥٥٦
۱۲۔معانی الآثار ، ج ١ ص ١٦١
۱۳۔مسند البزازج ١ ص ٢٨٣
۱۴۔المعجم الکبیر طبرانی ج ١٠ ص ٢١٩، ح ١٠٥٢٥
۱۵۔ حج ٧٨
۱۶۔ھود ١١٤
۱۷۔ اسراء ٧٨
۱۸۔ تفسیر فخر رازی ج ٢١ ص ٢٧
بالواسطہ مذاکرات اور چومکھی جنگ
عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے خطے کی سیاسی فضا انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دنیا اور علاقے کے مختلف کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کی پیش رفت اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر فریق مذاکراتی عمل پر اپنے مطلوبہ اصول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ہوشیارانہ نقطہ نظر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات اور اپنے قائم کردہ فریم ورک کو برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ذرائع سے اس مساوات کو بدلنے کے درپے ہیں۔
ایران کے خلاف محاذ آرائی
تجزیہ کاروں نے ایران کے خلاف تین اہم دھڑوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف ٹولز اور ہتھیاروں کے ذریعے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، براہ راست مذاکرات اور دباؤ کے لئے فوجی دھمکیاں
امریکہ اور صیہونی حکومت بالواسطہ مذاکرات کو براہ راست مذاکرات میں بدلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک فوجی دھمکیوں (جیسے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بارے میں حالیہ دعوے) کے ذریعے ایران کے خلاف نفسیاتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، ماضی کے تجربات جیسے آپریشن عین الاسد، ٹینکر کی جنگ اور وعدہ صادق 1 اور 2 ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خطرات آپریشنل سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔
2۔ انقلاب مخالف گروہ اور نفسیاتی آپریشنز
ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالف ملکی اور غیر ملکی گروہ جن میں سابق شاہ سے وابستہ میڈیا بھی شامل ہے، جس نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ، اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ سرگرمیاں فوجی خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ایران میں عوامی اور قومی حوصلے کو کمزور کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ رضا پہلوی کا فاکس نیوز کے ساتھ حالیہ انٹرویو اور "آکٹوپس کی آنکھوں کو اندھا کرنا" کے جملے کا استعمال اس تحریک کے ایران کے دشمنوں کے ساتھ واضح تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ موساد کے ساتھ ان گروپوں کے تعاون کا CNN پر انکشاف ان کے غیر ملکیوں پر مکمل انحصار کی ایک اور تصدیق ہے۔
3۔ داخلی گروہوں کی امریکہ کیساتھ ہم آہنگی اور ایران کی بارگینگ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش
ایران میں موجود کچھ مغرب نواز افراد من جملہ حسن روحانی اور حسام الدین آشنا ایسی باتیں کر رہے ہیں، جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی دعوے شائع کرکے مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی طاقت کو کمزور دکھانا یا یہ کہنا کہ "ایٹمی صنعت پرانی اور درآمد ہو رہی ہے۔ ان دعووں سے یہ گروہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی براہ راست بات چیت کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور ایرانی حکام کو مذاکرات کے متن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ حسام الدین آشنا کی حالیہ ٹویٹ میں ایران کی جوہری صنعت کو "پرانی اور درآمد شدہ" قرار دینے کا مقصد رائے عامہ میں ایران کی نااہلی کو ابھارنا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی بے کار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اسے تباہ کرنے کی اتنی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔؟
اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔
تحریر: حامد موفق بھروزی
غزہ کی مظلومیت پر خاموشی کیوں؟
ماضی میں ہونے والی عارضی جنگ بندیوں نے اس بحران کو مؤثر طریقے سے ختم نہیں کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری غزہ کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرسکی۔؟ امریکی حکومت نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ پر صیہونی حکومت کے جرائم کی بھرپور حمایت کی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی کارروائی کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل نے اس حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے ہر طرح کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ واشنگٹن نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی ہے، جس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور معزول وزیر جنگ یو یو گالینٹ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ یورپی ممالک بھی صیہونیوں کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے صیہونیوں کے خلاف ہے۔ عالمی برادری کی غزہ کے خلاف صیہونیوں کی بے مثال نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بہت سے ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی کچھ ممالک اس پر تنقید کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ بہت سے معاملات میں، مؤثر کارروائی کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سےممالک میں ناپید ہے۔
صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کی وجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کافی طاقت نہیں ہے۔ پس نہ اقوام متحدہ نہ عالمی برادری اور نہ ہی اسلامی ممالک کوئی بھی اہل غزہ کی پکار پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے معاملے پر مسلم ممالک کی فوجیں جہاد نہیں کرتیں تو کس کام کی ہیں۔؟
اسرائیل صرف غزہ کو نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود انسانیت کے احساس کو بھی ختم کر رہا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، بھارتی اداکارہ سوارا بھاسکر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیل صرف غزہ کو نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود انسانیت کے احساس کو بھی ختم کر رہا ہے۔
اپنی طویل اور جذباتی پوسٹ میں سوارا بھاسکر نے خاص طور پر النصر اسپتال پر بمباری میں ایک صحافی سمیت متعدد افراد کے زندہ جلنے کے واقعے پر سخت غصے اور افسوس کا اظہار کیا۔
سوارا بھاسکر نے لکھا کہ میں روز کوشش کرتی ہوں کہ اپنی اچھی سی سیلفی لوں، اپنی بیٹی کی معصوم تصاویر پوسٹ کروں، میک اپ کروں، آن لائن شاپنگ کروں… لیکن یہ سب بھی مجھے غزہ میں ہونے والی ہولناکیوں کے بارے میں سوچنے سے نہیں روک سکتا۔
یمن پر جارحیت: امریکہ اہداف کے حصول میں مکمل ناکام، انصاراللہ کی جنگی طاقت بدستور برقرار
موسم سرما کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غریب ترین ملک یمن پر نئے فضائی حملوں کے آغاز کا باقاعدہ حکم جاری کیا تاکہ یمنی عوام پر معاشی دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ حملے ایسے وقت میں شروع کیے گئے جب نئی امریکی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انصاراللہ کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ اسی دوران، یمن کے جنوبی حصے میں مشکوک سرگرمیوں کے ذریعے صنعاء پر نئے حملوں کی تیاری کی گئی، جس پر یمنی مزاحمتی قوتوں نے فوری ردعمل ظاہر کیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو آٹھ برسوں کی جنگ کے باوجود یمن میں اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے، نے اقتصادی دباؤ کی پالیسی اپنانا شروع کیا۔ انصاراللہ کے رہنما نے خبردار کیا کہ اگر عرب ممالک یمن کے بینکاری نظام اور مالی ڈھانچے کو نشانہ بنائیں گے تو یمن بھی اسی شدت سے جواب دے گا۔
اس تجزیاتی رپورٹ میں آئندہ سطور میں امریکہ اور یمن کے درمیان براہ راست عسکری تصادم، اس کے محرکات اور اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔
یمن میں آگ کا کھیل
یمن پر امریکی حملے کا حکم جاری ہونے کے بعد امریکی فوج نے ان اہداف کی ایک فہرست جاری کی جنہیں وہ اپنے فضائی حملوں میں نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ ان اہداف میں نہ صرف عسکری تنصیبات بلکہ انسانی اور اسٹریٹجک مراکز بھی شامل تھے۔ یمن کے بڑے شہر جیسے الجوف، عمران، الحدیدہ، صعدہ اور دارالحکومت صنعاء امریکی جنگی مشین کے حملوں کی زد میں آئے۔
جوابی طور پر یمنی مزاحمتی فورسز نے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اہداف کو نشانہ بنایا اور صیہونی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز "یو ایس ایس ہیری ٹرومین" پر بارہا حملے کیے۔ ان کارروائیوں میں جدید ڈرونز کے ساتھ ساتھ "فلسطین-۲" اور "ذوالفقار" میزائلوں نے دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے کر امریکی مفادات کو نشانہ بنایا۔
واشنگٹن اور صنعاء کے درمیان اس تازہ کشیدگی میں امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ بغیر کسی بڑے علاقائی یا عالمی اتحادی کی مدد کے انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔
مشرق وسطی میں نئی امریکی حکمت عملی
2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر "پہلے امریکہ" اور "عظیم امریکہ" جیسے نعروں پر زور دیا تاکہ بالخصوص سفید فام متوسط طبقے کے ووٹرز کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ ان کی مہم میں غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری، میکسیکو سرحد پر سختی، جنگوں کا خاتمہ اور اقتصادی خودکفالت جیسے نکات نمایاں تھے۔ یہ پالیسی "پہلے اسرائیل" کے خفیہ ایجنڈے سے متصادم دکھائی دیتی ہے، جسے امریکی یہودی لابیاں جیسے AIPAC، J Street اور "مسیحی اتحاد برائے اسرائیل" نے آگے بڑھایا تھا۔ ان گروہوں نے کانگریس پر دباؤ، ٹرمپ کے قریبی افراد سے روابط اور قدامت پسند تھنک ٹینکس پر اثر کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ باور کروایا کہ مشرق وسطی کی پالیسی کوئی عام معاملہ نہیں، بلکہ ایک "استثنائی" معاملہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہی نظریہ کہ اگر امریکہ کو روس اور چین کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے "محور مقاومت" کو شکست دینی ہوگی، آج امریکی پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، "ابراہیم معاہدے" کو وسعت دے کر "نیا مشرق وسطیٰ" تشکیل دینا لازم ہے۔ اس منصوبے کو "انڈیا-مشرق وسطیٰ-یورپ کوریڈور" کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، جو خطے کا جغرافیہ اور سیاست دونوں بدل دے گا۔ لہذا یمن میں جاری جنگ اور امریکہ کی فوجی مداخلت کو صرف وقتی تصادم کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع تر اسٹریٹجک منصوبے کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔
یمن اور محور مقاومت کی طاقت
مغربی ایشیا ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کئی ماہ کی جنگ اور مسلسل حملوں کے بعد اب اس کوشش میں ہیں کہ علاقے کی سیاسی و اسٹریٹجک صورت حال کو اپنے مفادات اور ترجیحات کے مطابق ازسرنو ترتیب دیں۔
محور مقاومت اب بھی فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور ایران میں مضبوط اور فعال ہے اور وہ بہت قلیل وقت میں اپنی سابقہ عسکری طاقت اور تنظیمی ڈھانچے کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حاصل سخن
امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے اس دعوے کے باوجود کہ یمنی مزاحمت کے عسکری بنیادی ڈھانچے اور جنگی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، مگر انصار اللہ اب بھی مقبوضہ فلسطین اور بحیرہ احمر میں صہیونی امریکی تنصیبات پر حملے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ یکطرفہ حملہ محض طاقت کا مظاہرہ ہے اور اس کے پیچھے درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک سیز فائر کا معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کار فرما ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے بھی اشارہ دیا تھا کہ اگر انصار اللہ غزہ کی حمایت میں بحر احمر میں اپنی کارروائیاں روک دے تو امریکہ یمن پر حملے بند کرسکتا ہے