
سلیمانی
جامع مسجد قيروان
جامع مسجد قیروان ایک بڑی مسجد ہے جسے مسجد عقبہ بن نافع بھی کہا جاتا ہے، عقبہ کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس مسجد کی بنیاد رکھنے والا اسلامی سپاہ سالار اور فاتح عقبہ تھا، جس کا اصل نام عقبہ بن نافع بن عبدالقیس اموی فہری تھا۔ اس نے تیونس کو فتح کرنے کے بعد سنہ ۸۰ ہجری میں اس مسجد کی بنیاد رکھی اس طرح ۶۷۰ عیسوی میں شہرِ قیروان میں یہ مسجد مکمل ہوئی۔اور یوں یہ مقام مغربی عرب میں قدیمی درسگاہ بن گیا۔ اس مسجد کا مینارہ اب تک کا سب سے قدیم مذہبی مینارہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے عام طور پر تیونسی اور دیگر عرب، اسلامی تہواروں کو نہایت عقیدت اور جوش وجزبے کے ساتھ اسی جامع مسجد میں مناتے ہیں، جیسے رمضان المبارک کی شب ہائے نزول قرآن، وقدر کی محفلیں، ختم قرآن کی محافل اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے کیئے جانے والے پروگرامز بھی اسی میں منعقد کیئے جاتے ہیں۔ یہ مسجد تیونس کی اہم اور بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ اس مسجد کا مجموعی تعمیر شدہ رقبہ ۹۷۰۰ مربع میٹر پر محیط ہے اور یہ لمبائی میں ۱۲۶ میٹر اور چواڑائی میں ۷۷ میٹر ہے، اسی طرح نماز پڑھنے کی جگہ بھی بہت وسیع وعریض ہے، اس میں سنگ مرمر سے بنے ہوئے دسیوں خوبصورت ستون بھی ہیں، اس میں ایک بڑا قبہ بھی موجود ہے جو محراب کے بالمقابل ہے اسی قبہ کے مقابل میں ایک اور قبہ بھی موجود ہے ۔ اس مسجد میں ایک وسیع وعریض صحن بھی موجود ہے، جو نہایت ہی خوبصورت ہے اوراس کے ارد گرد دلکش کوریڈورزہیں جو اس صحن کی خوبصورتی کو دوبالا کرتے ہیں، جس میں مختلف ادوار وجود میں آنے والی انسانی تخلیقی صلاحیتوں کے مشاہر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ فن تعمیر کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے، اس کے ساتھ ہی یہ اپنی خوبصورتی کے اعتبار سےاسلامی دنیامیں ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مسجد عالم اسلام کی بہت پرانی مساجد اورمآذن میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کی تین منزلین ہیں، اور ان کی اونچائی (31.5) میٹر ہے۔ مسجد کا منبر اسلامی دنیا کا قدیم ترین اور نادر ترین منبر ہے، یہ ایک مضبوط لکڑی (ٹیک کی لکڑی) سے نہایت عمدہ طریقہ اپناتے ہوئے بنایا گیا ہے،جو فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اسے تیسری صدی ہجری یعنی نویں صدی عیسوی میں بنایا گیا۔
اس مسجد میں ایک پرانی زیارت گاہ (مقبرہ) بھی ہے جس کی تاریخ پانچویں صدی ہجری (گیارہویں میلادی) بتائی جاتی ہے ۔
فتوحات اور جہادمیں مصروف ہونے کی وجہ سے اس مسجد کی تعمیر میں پانچ سال لگے، اس کی ابتدائی عمارت انگور سے بنی ہوئی سائبان کی طرح تھی اور اس کے کالم کھجور کے درختوں کے تنوں سے بنے ہوئے تھے ،
ابتداء میں اس مسجد کو مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرز پر تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن بعد میں اس میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے پرانی صورت کو محفوظ ررکھنے کی کوشش کی گئی ، لیکن ہشام بن عبدالملک نے مسجد کی شمالی دیوار کے وسط میں ایک خوبصورت مینار تعمیر کروایا، اور یزید بن حاتم نے 348 ء میں مسجد کو مینار اور اس کی محراب سمیت مکمل طور پر منہدم کردیا ، تاکہ اس شکل کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت جو شکل موجود ہے وہ ہشام کی تعمیر کردہ مسجد ہی ہے۔
پھر زیادۃ اللہ ا بن الاغلب نے اس کی محراب کو منہدم کرکے بعد میں اس میں تبدیلیاں کیں کیونکہ یہ قبلہ سے تھوڑا سا ہٹ گئی تھی، اور دیوار نے امام جماعت کی جانب واقع جگہ کو مکمل ڈھانپ لیا ہے اور مقتدین امام جماعت کو دیکھنے سے قاصر تھے۔ اس نے صحیح قبلہ کی سمت میں سفید سنگ مرمر سے نیا محراب تعمیر کروایا گیا، اور اس کی چھت کو اونچا کرکے ایک گنبد بھی بنایا گیا۔
محقیقین، طلباء، اور ناظرین اس عظیم درسگاہ کی پرشکوہ اور شاندار عمارت کی خوبصورتی کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔قیروان کو مسلمانوں کی فتح کے بعد بنائی ہوئی تہذیبوں میں سے بصرہ، کوفہ (عراق)، اور فسطاط (مصر) کے بعد چوتھی اہم تہذیب شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تعمیر کی جگہ کو اس کے فاتح عقبہ ابن نافیع کا ایک زبردست انتخاب سمجھا جاتا ہے، جسے بحیرہ روم کے ساحل سے دور صحراء کی جانب اس لیے بنایا گیا تاکہ اسے اس وقت کی بازنطینی فوج کے بحری حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
فیمنزم کا طوفان اور پس پردہ عوامل! از رہبر انقلاب
عورت کی آزادی کے پیچھے خطرناک محرکات!
عورت کے سلسلے میں اس وقت دنیا میں جو ہنگامہ بپا ہے، فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ، عورت کے حقوق کا مسئلہ، خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا مسئلہ، یہ سب ظاہری پہلو ہیں، ان کے پیچھے بہت سی پالیسیاں ہیں، خطرناک محرکات ہیں۔
عورت کی مالی خودمختاری اور اسکی حقیقت!
انھوں(مغرب) نے عورت کی آزادی اور عورت کی مالی خود مختاری کی بات اٹھائی کہ عورت مالی اعتبار سے خود مختار ہونی چاہیے یا اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اس کا ظاہر تو اچھا تھا لیکن اس کا باطن کیا تھا؟ اس کا باطن یہ تھا کہ ان کے کارخانوں کو مزدور کی ضرورت تھی، مرد مزدور کافی نہیں تھے، وہ عورتوں کو مزدوری کے لیے لانا چاہتے تھے اور وہ بھی مردوں سے کم اجرت پر، یہ اس کی حقیقت تھی۔
حقوقِ نسواں اور ہماری زمہ داری!
ہم مسلمان کی حیثیت سے، ہمیں “عورت” کے مسئلے میں بولنا چاہیے، بات کرنی چاہیے، اپنی رائے اور منطق پیش کرنا چاہیے، اپنے درمیان اس منطق کو رائج کرنا اور اس منطق کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور آج یہ کام انجام پانا چاہیے۔
عہد زندگی ، رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای
اضطراب کے عوامل
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب طاعون جیسی وبائی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں تو زیادہ تر اضطراب اور خوف کی وجہ سے لوگ مر جاتے ہیں اور ان میں سے چند ایک حقیقت میں اس مرض کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
عام طور پراطمئنان اوراضطراب فرد اور معاشرے کی حفاظت اور بیماری اور انسانیت کی خوشی اور غم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور اسی وجہ سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اضطراب اور اس سے نجات کے طریقے، اور سکون کیسے حاصل کیا جائے کے موضوع پر لکھا گیا ہے، اور انسانی تاریخ بدقسمت حالات سے بھری پڑی ہے کہ سکون حاصل کرنے کے لیے اور کس طرح انسان ہر غیر قانونی طریقے سے چمٹ جاتا ہے، جیسے کہ منشیات کا عادی ہونا وغیرہ
لیکن قرآن مجید ایک مختصر آیت کے ذریعے مختصر ترین راستہ دکھاتا ہے، لیکن بڑے معنی کے ساتھ:
أَلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
اس معنی کو واضح کرنے اور اضطراب کے عوامل کو جاننے کے لیے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
اول : اضطراب ایک بار ہوتا ہے کیونکہ تاریک مستقبل کے بارے میں جو کچھ انسان کے ذہن میں گردش کرتا ہے، اور خود سے نعمات کی دوری کاخوف، یا دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہو جانا، یا کمزوری اور بیماری، یہ سب انسان کو تکلیف دیتے ہیں، لیکن اللہ پر ایمان، قادرِ مطلق، برگزیدہ، نہایت رحم کرنے والا، وہ خدا جو اپنے بندوں کی رحمت کی ضمانت دیتا ہے.. یہ ایمان اضطراب اور اضطراب کے اثرات کو مٹا سکتا ہے اور ان واقعات کے سامنے اسے تسلی دے سکتا ہے اور اسے یقین دلا سکتا ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ لیکن آپ کے پاس ایک اللہ ہے جوقبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوم: ایک دفعہ انسان کا ذہن اپنے تاریک ماضی میں مشغول ہو جاتا ہے اور وہ اپنے کئے ہوئے گناہوں اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی وجہ سے بے چین ہو جاتا ہے، لیکن یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ صفات انسان کو اعتماد بخشتی ہیں اور اسے مزید اطمینان بخشتی ہیں اور آپ اس سے کہتے ہیں: میں اپنے سابقہ برے کاموں کی اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور خلوص نیت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
سوم : فطری عوامل کے سامنے یا دشمنوں کی کثرت کے سامنے انسان کی کمزوری اپنے اندر ایک اضطراب کی تصدیق کرتی ہے اور یہ کہ ان لوگوں کا مقابلہ جہاد کے میدان میں یا دوسرے میدانوں میں کیسے ہوسکتا ہے؟
لیکن اگر وہ خدا کو یاد کرتا ہے، اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت پر بھروسہ کرتا ہے... اس مطلق طاقت جس کے سامنے کوئی دوسری طاقت نہیں ٹھہر سکتی، تو وہ اپنے دل کو تسلی دے گا، اور اپنے آپ سے کہے گا: ہاں، میں اکیلا نہیں ہوں، بلکہ اس کے سائے میں ہوں۔
چہارم : دوسری طرف، اضطراب کی اصل وہ چیز ہو سکتی ہے جو انسان کو نقصان پہنچاتی ہو، جیسے کہ زندگی کی بے مقصدیت یا اس کی بے مقصدیت کا احساس، لیکن خدا پر ایمان رکھنے والا جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ زندگی کا مقصد اخلاقی اور مادی کی طرف بڑھنا ہے۔ اور یقین رکھتا ہے کہ تمام حادثات اس فریم ورک میں آتے ہیں، محسوس نہیں کریں گے کہ یہ بے مقصد ہے اور اس عمل میں پریشان نہیں ہوتا ہے۔
پنجم: دوسرے عوامل میں سے بعض اوقات انسان کو مقصد تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ مشقتیں اٹھانا پڑتی ہیں، لیکن اسے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اس کے اعمال کا جائزہ لے اور اس جستجو کے لیے اس کا شکریہ ادا کرے، اور یہ عمل اسے بہت تکلیف دیتا ہے، اس لیے وہ اس حالت میں رہتا ہے ۔
ششم : بدگمانی ایک اور عارضہ ہے جو بہت سے لوگوں کو ان کی زندگیوں میں متاثر کرتی ہے اور ان کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بنتی ہے، لیکن خدا پر یقین اور اس کی مکمل مہربانی اور اس پر نیک ایمان انفرادی مومن کے افعال میں سے ہیں جو عذاب کی کیفیت کو دور کر دیتے ہیں۔ اور اس کی طرف سے اضطراب اور اسے اطمینان اور استحکام کی حالت سے بدل دے۔
ہفتم: دنیا کی محبت اضطراب کے اہم ترین عوامل میں سے ہیں اور لباس میں کسی خاص رنگ کی عدم موجودگی یا روشن زندگی کے کسی اور پہلو کی صورت حال انسان کو اس حالت میں مبتلا کر سکتی ہے بے چینی جو دنوں اور مہینوں تک رہ سکتی ہے۔
لیکن خدا پر یقین اور مومن کا زہد، معیشت، اور مادی زندگی کے پنجوں میں روک تھام اور اس کے روشن مظاہر سے وابستگی اس انتشار کی کیفیت کو ختم کرتی ہے اور جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "یہ دنیا تیرا میرے لیے ٹڈی کے منہ میں ایک کاغذ سے زیادہ آسان ہے جو ٹڈی کے منہ میں چبائی جاتی ہو۔
ہشتم : ایک اور اہم عنصرموت کا خوف ہے، اور چونکہ موت صرف بڑھاپے کی عمر میں نہیں آتی، بلکہ تمام سالوں میں، خاص طور پر بیماری اور جنگوں اور دیگر عوامل کے دوران، پریشانی تمام افراد کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ موت کا مطلب فنا اور ہر چیز کا خاتمہ ہے (جیسا کہ مادیت پسندوں کا خیال ہے) تو افراتفری اور اضطراب اپنی جگہ پر ہے اور انسان کو اس موت سے ڈرنا چاہیے جو تمام امیدوں، تمناؤں اور عزائم کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن خدا پر ایمان ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ موت اس زندگی سے وسیع اور بہتر زندگی کا دروازہ ہے، اور ایک ایسا دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان ایک وسیع خلا میں جاتا ہے، اس لیے اس وقت تشویش کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
اضطراب کے عوامل صرف ان مذکورہ عوامل تک محدود نہیں ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں، لیکن ان کے تمام ماخذ وہی ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
مؤلف: امام حسین ع او آر جی
شهید سلیمانی صدائے وحدت و عدالت تھے
جمعہ، 13 دی 1398 کو ایک عظیم سانحے کی خبر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ امریکہ نے سردار حاج قاسم سلیمانی کو بغداد ایئرپورٹ کے راستے میں ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید کر دیا۔ یہ دہشتگردی کا حملہ، جو آپریشن آذرخش کبود کے نام سے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر انجام پایا، امریکہ کے اندر بھی مخالفتوں کا باعث بنا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذمتوں کی شدت میں اضافہ ہوا، اور سردار کے چاہنے والوں نے اندرون و بیرون ملک خودجوش انداز میں ان کی یاد میں تقریبات منعقد کیں۔ مختلف ممالک میں ایران کے سفارت خانوں میں یادگاری رجسٹر کھولے گئے تاکہ لوگ اس اندوہناک قتل پر اپنے تاثرات قلمبند کر سکیں، اور ان کے غضب سے بھرپور جذبات تاریخ کا حصہ بن جائیں۔
اس مناسبت سے، سردار شہید قاسم سلیمانی کی پانچویں برسی کے موقع پر، ایکنا نے عراقی مصنف، تجزیہ کار، اور صحافی صلاح الزبیدی سے ایک خصوصی گفت و شنید کی۔
عراقی ماہر نے خطے میں شہید حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "شہید سردار سلیمانی اور ابو مہدی المہندس اُن قربانی دینے والے عظیم سپاہیوں کی مثال تھے جو دہشت گرد اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہوئے، جن کا مقصد خطے کو تباہ کرنا تھا۔"
انہوں نے مزید کہا: "ان دونوں شہداء کا خطے میں امن و امان کے قیام میں بنیادی کردار تھا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت نے داعش اور تکفیری قوتوں سے لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا، جن کا مقصد عراق، شام، اور پورے خطے کو غیر مستحکم کرنا تھا۔"
عراقی مصنف نے مزید کہا: "حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کا کردار صرف عسکری میدان تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں خطے کی اقوام اور قومی قوتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا بھی شامل تھا۔ ان کی جدوجہد نے دہشت گردی کے خاتمے اور ان مظلوم اقوام کو دوبارہ امن فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار تھیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "ان دو عظیم شہداء کی کوششوں نے استکباری اور قبضہ گیر منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحد محاذ بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور مزاحمت کے محور کی حیثیت کو خطے اور عالمی سطح پر ایک ناقابلِ پیش گوئی قوت کے طور پر مضبوط کیا۔"
الزبیدی نے قدس کے مسئلے اور فلسطینی مزاحمت کو تقویت دینے میں شہید حاج قاسم سلیمانی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "قدس شہید حاج قاسم سلیمانی کے لیے ایک مرکزی اور بنیادی مسئلہ تھا، اور ان کی جدوجہد کا محور یہی مسئلہ تھا۔"
نئے اسلامی تمدن کی تشکیل، مسلمانوں میں اتحاد پر منحصر
بنگلہ دیش اسلامک فاؤنڈیشن کے سربراہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جدید اسلامی تہذیب مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر منحصر ہے، کہا: انسانیت تمام علوم کو سیکھنے کی طاقت رکھتی ہے اور ہم انسان ایسی مخلوق ہیں جو فطری طور پر تہذیب کی تعمیر کا رجحان رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایک جدید اور مہذب دنیا کی تعمیر کرنی چاہیے۔ آئیے اسلامی قانون کے دائرہ کار میں اس کی کوشش کریں۔
"نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کے تقاضے" عنوان سے ہونے والی کانفرنس میں اہل بیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے شرکت اور خطاب کیا۔
یہ سیمینار بنگلہ دیش میں ایرانی کلچر ہاوس اور رہبر انقلاب کے نمائندہ دفتر کی میزبانی میں منعقد ہوا۔
سیمینار میں بنگلہ دیش کی اہم علمی شخصیات نے حصہ لیا۔
بنگلہ دیش میں ایران کے ثقافتی اتاشی سید رضا میرمحمدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر، ڈھاکہ میں ایرانی ثقافتی مرکز نے جدید اسلامی تہذیب پر توجہ مرکوز کرنے والے علمی اجلاسوں کے سلسلے کا منصوبہ بنایا ہے، اور یہ کانفرنس اس سلسلے کا دوسرا پروگرام ہے، اور تیسری کانفرنس بھی آنے والے دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقد ہوگي۔
اہل بیت(ع) ورلڈ اسمبلی کے سکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے بھی کہا کہ پوری انسانی تاریخ میں بہت سی تہذیبیں ظہور پذیر ہوئیں اور ایک مدت کے بعد زوال پذیر ہوئیں۔ ان تہذیبوں میں چین، ہندوستان، یونان، روم، جنوبی امریکہ، مصر، ایران وغیرہ کی قدیم تہذیبیں ہیں۔ دریں اثناء مسلمانوں نے بھی اپنے لیے تہذیب کی ایک تاریخ رکھی ہے اور اسلام بنیادی طور پر موجودہ دور میں اپنے اصولوں اور بنیادوں پر ایک نئی اور پائیدار تہذیب کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ نئی اسلامی تہذیب، مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر منحصر ہے۔
بنگلہ دیش کی اسلامک فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالسلام خان نے بھی اپنے خطاب میں کہا: "انسانیت تمام علوم کو سیکھنے کی طاقت رکھتی ہے، اور ہم انسان ایسی مخلوق ہیں جو فطری طور پر تہذیب کی تعمیر کا رجحان رکھتے ہیں۔" لہٰذا ہمیں اسلامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک جدید اور مہذب دنیا کی تعمیر کے مشن پر کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: "ایک نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے ہمیں سب سے پہلے اتحاد کو ترجیح دینا ہوگی۔اقتدار حاصل کرنے کے لیے اتحاد ضروری ہے اور اتحاد سے ہم اپنے دشمنوں پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔
صیہونی مخالف محاذ مضبوط بنانے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار
جب انتہاپسند صیہونی آبادکار، مقبوضہ بیت المقدس کے محلے شیخ جراح میں مسلمان فلسطینی شہریوں کو اذیت پہنچانے میں مصروف تھے اور ان کا ایک اور گروہ مسجد اقصی کی بے حرمتی کرنے کے بعد "پرچم ریلی" نامی جعلی تقریب منعقد کرتے ہوئے مسلمان فلسطینیوں کے محلوں پر حملہ ور ہو رہا تھا تو اس دوران غزہ میں حماس کے ملٹری شعبے شہید عزالدین قسام بریگیڈز کے سربراہ محمد الضیف نے صیہونی حکمرانوں کو دھمکی آمیز پیغام بھیجا اور یہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف پہلا جارحانہ اقدام ثابت ہوا۔ اکثر ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس پیغام میں پہلی بار "محاذوں کے اتحاد" یا "میدانوں میں وحدت" کی تعبیر بروئے کار لائی گئی تھی۔ اس کے ایک سال بعد، 2022ء میں جب غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں اسلامک جہاد فلسطین کے مراکز کو نشانہ بنایا تو اس تنظیم نے بھی اسے "میدانوں میں وحدت" کی جنگ قرار دیا۔ یہ تعبیر درحقیقت شہید قاسم سلیمانی کی میراث تھی اور ان کی شہادت کے بعد زبان زد عام ہو گئی۔
اندرونی اتحاد سے میدانوں میں اتحاد تک
شہید قاسم سلیمانی نے ہر میدان میں اتحاد کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ جس میدان میں بھی داخل ہوتے تھے سب سے پہلے وہاں اندرونی وحدت ایجاد کرتے تھے اور تمام طاقتوں کو ہم آہنگ کرتے تھے۔ لبنان میں بھی شہید قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کو ملک کے دیگر گروہوں اور جماعتوں سے اتحاد کی ترغیب دلائی جس کے نتیجے میں حزب اللہ ملک کی ایک محبوب جماعت بن کر ابھری۔ اس سے پہلے لبنان میں یورپی ممالک بہت سرگرم تھے اور اپنی حمایت یافتہ جماعتوں اور گروہوں کی ترویج کرنے میں مصروف تھے۔ دوسری طرف اہلسنت جماعتوں نے بھی اہلسنت عوام کو طاقتور بنانے کی کوشش کی۔ لیکن شہید قاسم سلیمانی کی حکمت عملی کے نتیجے میں اسلامی مزاحمت نے ان تمام گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور لبنان کی تمام سیاسی قوتیں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف متحد ہو گئیں۔
فلسطین میں بھی شہید قاسم سلیمانی نے ایک مشترکہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا اور ایسے دسیوں مزاحمتی گروہوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جو اس سے پہلے انفرادی طور پر اسرائیل کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس اتحاد کا پہلا نتیجہ 2014ء میں 51 روزہ جنگ میں ظاہر ہوا جب غاصب صیہونی رژیم نے پوری طاقت سے اسلامی مزاحمت پر غلبہ پانے کی کوشش کی لیکن آخر میں اسے اپنی شکست تسلیم کرنا پڑی۔ شہید قاسم سلیمانی نے یہی حکمت عملی شام میں بھی اختیار کی اور وہاں شام کی مسلح افواج، جو انتشار کا شکار ہو چکی تھیں، کو آپس میں متحد کیا۔ اس کے بعد انہوں نے شام میں عوامی رضاکار فورس تشکیل دی جسے "دفاع الوطنی" کا نام دیا گیا جس کا مقصد وطن کے دفاع میں شام آرمی کی مدد کرنا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے عراق میں بھی مختلف قبیلوں اور اقلیتوں کے درمیان اتحاد ایجاد کیا اور انہیں تکفیری دہشت گروہ داعش کے خلاف متحد کیا۔
متحد گروہوں میں رابطہ قائم کرنا
شہید قاسم سلیمانی نے افغانستان، عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اندرونی اتحاد قائم کرنے کے بعد انہیں ایکدوسرے سے مربوط کرنے پر کام کیا اور ان کے درمیان مضبوط تعلق برقرار کر دیا جس کے نتیجے میں وہ ایک متحدہ تنظیم کی صورت اختیار کر گئے۔ ان مختلف گروہوں کے درمیان مضبوط تعلق قائم کرنے کا سنہری موقع وہ وقت تھا جب شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس دوران مغربی طاقتوں نے عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی لہر کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے شام اور عراق میں اپنے کٹھ پتلی عناصر مسلط کرنے کوشش کی لیکن شہید قاسم سلیمانی کی گہری بصیرت اور عظیم حکمت عملی کے نتیجے میں دشمن کی یہ سازش ناکام ہو گئی اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو نیست و نابود کر دیا گیا۔
میدانوں میں اتحاد، اسلامی مزاحمت کی ذاتی خصوصیت
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد زبان زد عام ہونے والی تعبیر "میدانوں میں اتحاد" کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ہر رکن قوت دوسری رکن قوتوں کے بارے میں بھی سوچے اور اس کے مسائل کو اپنے مسائل تصور کرے۔ لہذا جب ان میں سے کوئی ایک خطرے سے روبرو ہو تو دیگر رکن قوتیں بھی جسد واحد کی طرح اس پر خاموش تماشائی نہ بنیں اور اس کے دفاع میں اہم اور موثر کردار ادا کریں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے زندہ ہونے اور اس کا جسد واحد ہونے کا اظہار کیا۔ غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت اور بربریت کے آغاز سے ہی دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں نے فلسطین کے حق میں اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ اقدامات دراصل اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھے جو شہید قاسم سلیمانی نے میدانوں میں اتحاد کے عنوان سے متعارف کروائی تھی۔
اسی حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غاصب صیہونی رژیم ایک سال سے زیادہ جارحیت اور بربریت کے باوجود غزہ اور لبنان میں شکست خوردہ اور ناکام نظر آتا ہے۔ ماضی میں صیہونی حکمرانوں نے ہمیشہ درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے محدود پیمانے پر جنگیں کی ہیں اور طویل المیعاد جنگ سے گریز کیا ہے۔ لیکن اس بار وہ ایک طویل المیعاد جنگ میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں جس کی بنیادی ترین وجہ اسلامی مزاحمتی گروہوں میں اتحاد کے باعث اس خطرے کی شدت ہے جسے وہ محسوس کر رہے ہیں۔ صیہونی رژیم دراصل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اسے اپنی بقا کو خطرہ محسوس ہوا ہے۔ یہ خطرہ شہید قاسم سلیمانی کی میدانوں میں اتحاد پر مبنی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی بلاک کو شدید ضربیں لگی ہیں لیکن اس کا وجود باقی ہے اور وہ بدستور زندہ اور بیدار ہے۔ اسی حقیقت نے امریکی اور غاصب صیہونی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
امام علی نقی (ع) کی زندگی پر اجمالی نظر
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا. اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
آئمہ معصومین علیھم السلام کی حیات طیبہ کا مطالعہ درحقیقت دراصل دین کی صحیح سمجھ اور راہ حق میں کی جانے والی کوششوں کے بارے میں ہے چونکہ ہم ہر میدان میں چاہے وہ اعتقادی، فقہی اخلاقی یا سیاسی ہو ہر میدان میں انکے ہمیشہ رہ جانے والے اثرات ہیں۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا جائزہ لیں اور تاریخ کی ان بے مثال اور تاریخ کی درخشاں حقیقت سے اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالیں امام کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔آپ کو امام ھادی بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی ولادت با سعادت مدینے کے ایک محلہ صربا میں 15 ذی الحجہ 212ھ کو ہوئی۔آپ کی والدہ کا نام سمانہ خاتون تھا۔
آپکی تربیت اپنے والد گرامی امام محمد تقی (جواد) علیہ السلام کے ذریعے ہوئی انہی کے سایہ میں بڑے ہوئے۔
امام جواد علیہ السلام کو لوگ اپنا پیشوا و رہبر مانتے تھے حالانکہ اس زمانے میں سیاسی طور پر ولایت علی اور اہل بیت کی مکمل طور پر مخالفت تھی لیکن کسی کی جرات نہیں تھی کہ امام کی منزلت و مرتبت لوگوں کی نظر میں کم کر سکے۔
عباسی خلیفہ مامون کی بنی عباس کے سرکردہ افراد کے سامنے امام کی حمایت میں سخت گفتگو کرنا تاریخی دریچوں کو واضح طور پر نمایاں کرتی ہے۔
مامون نے جب اپنی بیٹی کی شادی امام جواد علیہ السلام سے کرنے کا ارادہ کیا جب امام کی عمر فقط 9 سال تھی تو بنی عباس میں ہلچل مچ گئی اور وہ مامون پر اعتراض کرنے لگے۔
امام ھادی علیہ السلام کی ذاتی خصوصیات
امام ھادی علیہ السلام مقدس سلسلہ امامت کی ایک کڑی ہیں۔آپ علیہ السلام بندگی اور عبودیت کا ایک بہترین نمونہ ہیں آپ روشن فکر اور آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین اور ظالم کے خلاف قیام کرنے والوں کیلئے بہترین نمونہ تھے۔
جن علماء و دانشمندوں نے آپ کے بارے میں لکھا انہوں نے آپکی سیرت طیبہ اور آپ کی علمی فضائل اور برکات پر ضرور روشنی ڈالی۔
ابو عبداللہ جنید نے امام کے بارے میں کہا:
بخدا آپ اپنے زمانے کے زمین پر بہترین مرد اور افضل ترین شخصیت تھے۔
امام علیہ السلام کا سخت ترین دشمن بھی صحیح طور پر آپ کی عظمت اور بلند قدر و منزلت کا معترف تھا۔ یہ بات اس کے وہ خط ہیں جو اس نے امام کر لکھے۔
یہاں اختیار کیلئے فقط ان خطوں کا حوالہ ذکر کئے دیتا ہوں تا کہ اگر کوئی ملاحظہ کرنا چاہتا ہو تو پڑھ سکتے ہیں۔
(شذرات الذہب جلد ۳ ص۱۲۹ نقل از امام ھادی مصنفہ علی محمد دخیل)
امام ھادی کے چند القابات:
نقی، عالم، فقیہ، امین، طیب
اعلام الوری
امام کی اور بھی بہت سی فضیلتیں اور خصوصیات ذکر ہوئی ہیں تمام کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔
امام کی سیاسی جدوجہد
امام علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ معاشرہ کسی قسم کی مسلح جھڑپ کا متقاضی نہیں ہے اسی لیے امام نے اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس کے باوجود عباسی خلفاء ان سے سیاسی رہبری کے اعتبار سے خوف کرتے تھے۔
وقت کے ظالم اور متکبر حکمراں جو فساد کی جڑ اور اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں لوگوں کی پروہ نا تھی۔
بر خلاف اس کے امام کا رابطہ لوگوں سے رہتا امام کا لوگوں کی نظر میں بڑا مقام و مرتبہ تھا۔امام ہمیشہ علوی تحریکوں کی حمایت کرتے اور سیاسی و نظریاتی تحریکوں میں نشونما میں مدد کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ حکمران امام کی اس مقبولیت سے خائف تھے۔امام کی سیاسی زندگی کا آغاز محمد بن ابن ہارون الرشید کی حکومت کے آخری ایام تھے۔
معتصم نے (جو کہ آئمہ کرام سے خوف محسوس کرتا تھا) 225 ہجری میں امام کو مدینہ سے بغداد بلا لیا۔اور سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
امام ھادی علیہ السلام مشکل دور میں اپنے والد گرامی کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے کہ سایہ پدر نا رہا اور مشکل دور میں اکیلے ہی اب دور امامت میں مشکل حالات کو برداشت کرنا تھا۔
امام ہادی علیہ السّلام اور متوکل عباسی
واثق کی موت کے بعد 232 ہجری کو متوکل عباسی تخت نشین ہوا۔یہ علویوں کا شدید دشمن تھا۔
اس نے امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کو گرانا
اجتماعی و سماجی حیثیت کو ختم کرنا
تحقیر کرنا
علویوں کا اقتصادی بائکاٹ
بیت المال کے وظیفے روکنا
امام ھادی پر سخت دباؤ
امام کے قتل کی سازش
اسکے علاؤہ اور بھی نا قابل فراموش جرائم ہیں جو اس نے انجام دیے۔نیز اس نے امام علی علیہ السلام کے روزے پر جانے والوں کیلئے سخت سزا رکھی ہوئی تھی۔
امام ہادی ع سامرہ میں
یہاں پر متوکل نے مختلف حربے استعمال کر کے امام کو ستایا
کبھی امام کو شھید کرنے کی کوشش کی جاتی
کبھی گھر کی تلاشی
کبھی تہمت لگا کر محل میں لے جاتے
اور بھی بہت کچھ
لیکن ہمیشہ امام کو خدا نے ان سب سے محفوظ رکھا اور دشمن پر برتری دی۔
علوی تحریکیں
تمام مسلمانوں پر اور بلخصوص آل ابو طالب پر جب مصیبتوں کا دباؤ شدید ہوا تو ان کی جانب سے مسلح تحریکیں شروع ہو گئیں اور بہت اور بھی عوامل متوکل کی حکومت کے خلاف مہیا ہو گئے خود ارباب اختیار میں بھی پھوٹ پڑھ گئی جو اندرون نظام تھے متوکل کے قتل کے بھی یہی عوامل بنے۔
متوکل کا انجام
متوکل نے کھلم کھلا آل ابو طالب کی مخالفت کی اور بہت برے طریقے سے پیش آتا رہا بلآخر حکومت میں پھوٹ پڑ گئی اور محل کے اندر ہی جب وہ شراب کے نشے میں مست تھا قاتلانہ حملے میں مارا گیا حملے میں اس کا بیٹا منتصر بھی شریک تھا قتل کے بعد منتصر کی بیعت کی ہوئی۔
منتصر کا آل ابو طالب کے ساتھ رویہ
اس نے علویوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا اور ان کے اموال و املاک اور فدک کو واپس کر دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے حرموں کی زیارت کیلئے جائیں اور رہائش کی اجازت بھی دی منتصر نے 248 میں وفات پائی۔
آخری باتجو بھی امام علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرے وہ بخوبی جان لے گا کہ امام ہمیشہ حکومت کی طرف سے تکلیفیں سختیاں اور قید و بند کی مشکلات سے دو چار رہے۔
امام کو اپنے نانا کے شہر سے نکل کر سامرہ جانے پر مجبور کیا گیا تاکہ آپ معاشرتی و سیاسی سرگرمیاں نا کر سکیں۔یوں امام کا ایک لمبا عرصہ عباسی دارالخلافہ سامراء میں گزرا۔
امام ہادی علیہ السلام سامراء میں 10 سال اور چند ماہ ٹھہرے اور خلیفہ معتز کی خلافت میں 41 سال عمر شریف پانے کے بعد 3 رجب المرجب 254 ہجری کو شہادت پائی آپ کا مزار مبارک سامراء میں ہے۔
فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی(ع) شیعوں کے نویں امام ہیں آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ(س) اورآپؑ کے والد بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ہیں آپؑ کی کنیت ابوجعفر ثانی اور مشہور القاب جواد، ابن الرضا اور تقیؑ ہیں۔
مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
بابرکت مولود:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ یہ کہتے تھے کہ حضرت علی بن موسیٰ رضا (ع) کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: ’’ هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه‘‘(یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا)۔ (کلینی، الکافی، ج1 ص321)
ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابویحیٰ صنعانی کہتے ہیں:’’ إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه ‘‘ ( ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا)۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321)
ازدواج اور اولاد:
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔( قمی، منتہی الامال، ج2، ص235)
شیخ مفید علیہ الرحمہ کی روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد چار ہیں جن کے نام امام علی نقیؑ، موسیٰ مبرقعؑ،فاطمہ اور امامہ ہیں۔( مفید، الارشاد، ج2، ص284)
امامت:
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: ’’میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی (ع) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)
کرامات:
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔
۱ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۲ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔
فرامین:
۱۔ ’’ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبير‘‘ ( جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا)۔
۲۔ ’’مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ‘‘(جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا)۔
۳۔’’إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ‘‘(بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے)۔
شہادت:
عباسی خلیفہ معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلوایا؛ امام علیہ السلام ۲۸ محرم الحرام سنہ ۲۲۰ کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذیقعدہ کے مہینے اسی شہر میں شہید ہوگئے ، البتہ بعض ماخذ میں ہے کہ آپ ؑ نے پانچ یا چھ ذی الحج یا بعض میں آیا ہے کہ ذیعقدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پائی۔
شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے
تاریخ انسانیت حریت پسندوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر دور میں ایسے افراد موجود رہے ہیں کہ جنہوں نے آزادی اور حریت پسندی کی قیمت اپنی جان و خون کے نذرانہ سے پیش کی ہے۔ جب بھی ہم مزاحمت کے شہداء کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان شہداء کا دائرہ وسیع ہے۔ یعنی یہ حدود و قیود سے باہر ہے۔ اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ حریت پسندی کی راہ میں قربان ہونے والے صرف مسلمان شہداء ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ یعنی جب ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حریت پسندی اور عزت و افتخار کے دفاع کی جنگ میں جان دینے والوں کا تعلق عالمگیر ہے تو پھر عالمی مزاحمت کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ یعنی جہاں بھی ظلم اور استبداد ہے، وہاں مظلوم موجود ہیں اور مظلوموں میں حریت پسندی ہے اور یہ راستہ ان کو شہادت کے مقام تک لے جاتا ہے، لیکن ظالم و جابر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنے دیتا۔
جیسا کہ ماہ جنوری ہے اور اس کے ابتدائی ایام عالمی مزاحمت سے تعلق رکھنے والے ایسے شہداء کے ایام ہیں کہ جن کو بغداد کے ایئرپورٹ پر دنیا کی شیطانی حکومت امریکہ نے میزائل حملوں میں شہید کر دیا تھا، یعنی شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس۔ شہید قاسم سلیمانی ایران کے جرنیل تھے اور وہ سرکاری مشن پر عراق پہنچے تھے، جہاں ان کو امریکی حکومت نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ امریکہ نے دنیا کے تمام تر قوانین اور اقداروں کو پامال کیا اور قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کو شہید کر دیا۔ جب ہم عالمی مزاحمت کے تناظر میں بات کرتے ہیں اور پھر قاسم سلیمانی جیسے عظیم شہید کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی عالمی مزاحمت کا نشان ہے، یعنی وہ ہیرو ہیں اور ایک آئیکون ہیں۔ یہ بات کیوں کہی جاتی ہے۔؟ یقیناً اس میں کچھ عوامل کارفرما ہیں، جو کہ خود قاسم سلیمانی کی خدمات سے منسوب ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی ایک بے مثال شخصیت کا نام ہے کہ جنہوں نے پوری زندگی جہاد فی سبییل اللہ کیا اور دنیا بھر میں موجود مظلوم اور کمزور کر دیئے گئے لوگوں کو طاقتور کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد جب فلسطین میں اسرائیل بنا دیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ فلسطین کے اطراف میں امریکی و صیہونی تسلط بڑھتا چلا گیا کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ اسرائیلی فوجیں لبنان میں قابض تھیں، شام و اردن اور مصر کے علاقوں پر بھی اسرائیلی فوجوں کا قبضہ تھا۔ فلسطینی عوام کی کوئی آواز سننے والا نہ تھا۔ فلسطین پتھروں سے لڑتے تھے، غلیلوں سے مقابلہ کرتے تھے۔ لبنان میں اسرائیل قابض ہو کر ظلم کی طویل داستان رقم کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں قاسم سلیمانی نے یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی کہ مظلوموں اور کمزور بنا دیئے جانے والوں کے لئے نجات کا سامان میسر کریں۔ انہوں نے فلسطین اور لبنان میں یہ کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کو لبنان سے پسپائی کا سامنا ہوا۔
یہ شہید قاسم سلیمانی ہی تھے کہ جنہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث غزہ اور مغربی کنارے جیسے علاقوں میں فلسطینی مزاحمت کو طاقتور کیا۔ ان کے خالی ہاتھوں کو ہر ضروری اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے بھر دیا کہ جس کے ذریعہ وہ فلسطین اور اپنی ناموس کا دفاع کریں۔ فلسطینی مزاحمتی رہنمائوں نے اعتراف کیا کہ جب غزہ محاصرے میں تھا تو دنیا تماشا دیکھ رہی تھی، لیکن قاسم سلیمانی تھے کہ جنہوں نے غزہ پہنچ کر ہماری مدد کی، انہوں نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو طاقتور بنانے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ یقیناً یہ شہید قاسم سلیمانی کی قربانیوں اور انتھک محنت کا ثمر ہے کہ آج غزہ و مغربی کنارے کی مزاحمت خود مختار ہوچکی ہے۔ آج چودہ ماہ سے فلسطینی مزاحمت نے صرف اسرائیل سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے ٹکر لے رکھی ہے اور غاصب اسرائیل کو ہر قدم پر شکست کی دھول چٹانے میں مصروف ہے۔
آج اگر فلسطینی مزاحمت کے رہنمائوں سے خلاصہ پوچھا جائے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شہید قاسم سلیمانی کی محنت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو انہوں نے فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے ترتیب دی تھی۔ اسی طرح لبنان میں ایک طاقتور مزاحمت کا رمز بھی شہید قاسم سلیمانی کی ذات ہے۔ جس کا اعتراف خود لبنان کی مزاحمت حزب اللہ کے قائدین بھی کرچکے ہیں۔ یمن کے انصار اللہ آج جو کچھ انجام دے رہے ہیں، وہ بھی شہید قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا ایک نمونہ ہے۔ شہید قاسم سلیمانی فلسطین کی عالمی مزاحمت کے محور کو مضبوط، طاقتور اور خود مختار بنانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ آج شہید قاسم سلیمانی جسمانی طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی پاکیزہ روح ہے کہ جو آج بھی عالمی مزاحمت کے اس میدان میں حریت پسندوں کی رہنمائی کر رہی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہے۔
قاسم سلیمانی کو ہم عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو اس لئے بھی کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ظالم اور استبدادی نظام کے سامنے دیوار کھڑی کی۔ جب افغانستان میں امریکی فوجیں پہنچ چکی تھیں تو وہ ایران کے خلاف گھیرا تنگ کر رہے تھے۔ اسی طرح اگلے چند ہی سالوں میں امریکی فوجیں عراق پر قابض ہوگئیں، یہ بھی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا اگلا منصوبہ تھا۔ یہ قاسم سلیمانی کی جنگی حکمت عملی اور تجربات تھے کہ انہوں نے اسی دور میں ہی ایک طرف غزہ کو طاقتور کرنا شروع کر دیا اور دوسری طرف یمن کو طاقتور کیا۔ اسی طرح افغانستان میں امریکی منصوبوں کی ناکامی میں بھی قاسم سلیمانی پیش پیش تھے۔ عراق سے امریکی فوجوں کا انخلاء بھی قاسم سلیمانی کی حکمت عملی اور جنگی تجربات کے باعث ممکن ہوا۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے قاسم سلیمانی کو پیغام بھجوایا کہ انہیں عراق سے نکلنے کا موقع دیا جائے۔ یعنی امریکی فوج نے جان لیا تھا کہ قاسم سلیمانی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں فلسطین سمیت جس خطے میں بھی ظلم، جبر اور ظالم طاقتوں کا قبضہ ہے، وہاں قاسم سلیمانی ہے۔ چاہے قاسم سلیمانی آج شہید ہوچکا ہے لیکن ان کی سوچ اور افکار سے ہزاروں قاسم سلیمانی پیدا ہوچکے ہیں، جو ظالم اور استعماری قوتوں کا راستہ روک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاسم سلیمانی کو آج ہم عالمی مزاحمت کا ہیرو اور نشان تصور کرتے ہیں۔ یہ بات صرف قاسم سلیمانی کے دوست ہی نہیں بلکہ یورپ میں بسنے والے حریت پسند اور انصاف پسند عوام بھی مانتے ہیں۔ آج بھی شام و لبنان اور عراق میں بسنے والے عیسائی خاندانوں کے گھروں میں اگر کسی کی تصویر لگائی جا رہی ہے تو وہ ہمارے ہیرو قاسم سلیمانی کی تصویر ہے۔ قاسم سلیمانی کسی ایک مذہب یا مسلک کے لئے نہیں تھے بلکہ انہوں نے پوری انسانیت کا دفاع کیا۔ شام اور عراق میں داعش کا خاتمہ اس کی واضح مثال ہے کہ جہاں قاسم سلیمانی نے نہ صرف مسلمانوں کا دفاع کیا بلکہ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کا بھی دفاع کیا۔ یہی وہ امتیاز ہے کہ جس نے قاسم سلیمانی کو عالمی مزاحمت کا نشان اور ہیرو بنا دیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
شہید حاج قاسم سلیمانی۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کا مرد مومن
آج دنیا میں کئی پیچیدہ چیلنجز اور عالمی بحران موجود ہیں۔ اس صورت حال میں اسٹریٹجک خصوصیات کے حامل کمانڈروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے کمانڈر جن میں ایمان، خلوص اور انسانیت کی رہنمائی کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ ایسے ہی ایک کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ آج حکومتوں کی اہم پریشانیوں میں سے ایک موثر اور قابل مینیجروں اور کمانڈروں کی کمی ہے۔ وہ کمانڈر جو ملک میں ترقی اور نمو کی طاقت بڑھا سکتے ہوں۔ حضرت امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "سب سے زیادہ رہنمائی کے حقدار وہ ہیں، جو کاموں کو انجام دینے میں سب سے زیادہ قابل اور خدا کے حکم سے مسائل کو سمجھنے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہوں۔" ایران کے اسلامی معاشرے میں انقلاب اسلامی کی فتح سے لے کر آج تک بالخصوص دفاع مقدس کے آٹھ سالہ دور میں قابل قدر کمانڈر اور منیجر و منتظم پیدا ہوئے، جنہوں نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کو معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمانڈر سب کے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل بن کر سامنے آئے۔ ایسے کمانڈروں کا مکتب واضح کرنا بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر کی خصوصیات کے بارے میں فرمایا ہے "ایک کمانڈر کے اندر قیادت کا جوہر ہونا ضروری ہے۔ کمانڈ صرف حکم دینا نہیں ہے۔ قیادت ایک روحانی معاملہ ہے۔ قیادت اور نظم و نسق کی ایک جامع قسم جو دماغ، جذبات، عمل اور روح سے جڑی ہوئی ہے۔ وہی چیز جو مسلح افواج میں مکمل کارکردگی کا باعث بنتی ہے۔" ایک مشہور فوجی تھیوریسٹ سانتزو کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایک اچھے کمانڈر میں "حکمت"، "انصاف پسندی"، "انسانیت"، "حوصلے" اور "فوجی طاقت اور استقامت" جیسی خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اس کی حکمت اسے حالات و واقعات کی تبدیلیوں اور پیشرفت کو آسانی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی انصاف پسندی اس کے ماتحتوں کو بروقت اور مناسب حوصلہ افزائی اور اعتماد دیتی ہے۔ اس کی انسانیت پرہیزگاری اور دوسروں کے ساتھ مشترکہ جذبات کا باعث بنتی ہے۔ اپنی بہادری اور جرأت سے وہ شکوک و شبہات کے سائے میں فتح حاصل کرتا ہے اور صحیح وقت سے صحیح فائدہ اٹھا کر اپنے ماتحت لوگوں کو سخت نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔
شہید حاج قاسم سلیمانی، آج کے سب سے نمایاں فوجی اور اسٹریٹجک کمانڈروں میں سے ایک ہیں اور وہ مزاحمتی محاذ کے کمانڈروں میں ایک منفرد نمونہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی ایک بہترین رہنماء کی کامیاب مثال پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ بہادری اور قربانی کے جذبے، ہوشیار منصوبہ بندی اور حکمت عملی، اتحاد و یکجہتی اور عوام سے قربت بالخصوص شہید سلیمانی کے خلوص نے انہیں ایک منفرد اور مثالی کمانڈر بنا دیا تھا۔ شہید سلیمانی ہمیشہ فرنٹ لائن میں رہے اور انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں مثالی حوصلے کے ساتھ اپنی فوج کی قیادت کی۔ میدان جنگ میں ان کی موجودگی مجاہدین کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنتی تھی۔ ان کی کمانڈ کی ایک اور نمایاں خصوصیت مختلف قومیتوں اور مذاہب کی مزاحمتی قوتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔ قاسم سلیمانی، ایک کمانڈر کے طور پر، ہمیشہ گروپوں کے درمیان اندرونی اختلافات کو کم کرنے اور انہیں مشترکہ مقاصد کے مطابق متحد کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
وہ نہ صرف فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک عاجز اور حلیم انسان بھی تھے۔ انہوں نے نمود و نمائش اور عیش و عشرت سے ہمیشہ گریز کیا اور جنگجوؤں اور عام لوگوں سے گہرا تعلق رکھا۔ اس خصوصیت کی وجہ سے لوگوں میں ان کی مقبولیت ہمیشہ قائم و دائم رہی۔ عظیم ایرانی جنرل فوجی آپریشنز کی پلاننگ اور دشمنوں سے نمٹنے میں درست اور جدید حکمت عملی استعمال کرتے تھے۔ اس حکمت عملی کی سب سے اہم مثال عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست تھی، جو شہید قاسم سلیمانی کے انتظام، مزاحمتی قوتوں اور مقامی فوجوں کے درمیان ہم آہنگی سے حاصل ہوئی۔ ISIS یا داعش القاعدہ سے الگ ہوا ایک تکفیری گروپ ہے، جس نے عراق میں خلافت کا اعلان کیا تھا اور کچھ عرصہ قبل عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے اور اس خطے میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایران نے اس گروپ سے جنگ شروع کر دی، تاکہ سلامتی کو برقرار رکھا جائے اور خطے کو کنٹرول کیا جا سکے۔
شہید سلیمانی کی کمان میں فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ سمیت مختلف فورسز داعش اور باغی افواج سے لڑنے کے لیے شام گئے اور اس دہشت گرد گروہ کو مہلک ضربیں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر 2014ء میں جب موصل شہر پر داعش نے قبضہ کر لیا اور عراق کا دارالحکومت بغداد تباہی کے دہانے پر چلا گیا۔ ایک بار پھر، قاسم سلیمانی نے حشد الشعبی فورسز کے ایک حصے کو منظم کرکے داعش کو عراق سے نکالنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس وقت عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے قاسم سلیمانی کو داعش کے خلاف جنگ میں عراق کے اہم اتحادیوں میں سے ایک قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط، جو 30 نومبر 2017ء کو ایرانی میڈیا میں شائع ہوا، شہید حاج قاسم سلیمانی نے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی شہروں میں سے ایک البوکمال میں داعش کے خاتمے اور شامی پرچم کو بلند کرنے کا اعلان کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے داعش کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں قاسم سلیمانی کے خط کے جواب میں فرمایا۔
"آپ نے داعش کے ناسور اور مہلک گروہ کو ختم کرکے نہ صرف خطے کے ممالک اور عالم اسلام بلکہ تمام اقوام اور انسانیت کے لیے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔ رہبر معظم حاج قاسم کی شہادت کے بعد ان کے گھر تعزیت و تسلیت کے لئے تشریف لے گئے تو سوگواران سے انتہائی خوبصورت انداز میں حاج قاسم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فرمایا: ”حاج قاسم متعدد بار شہادت کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے، لیکن راہ ِخدا میں پیش قدمی، فرائض کی انجام دہی اور جہاد کی بات ہو تو وہ کسی اور چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے خبیث ترین افراد یعنی امریکیوں کے ہاتھوں جنرل سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر امریکیوں کا فخر کرنا اس شجاع مجاہد کے لئے ایک بڑی خصوصیت ہے۔ ان کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ عظیم نعمت الحاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس کے سزاوار تھے۔“
جب شہید حاج قاسم کو فوجی اعزاز ”نشانِ ذوالفقار“ سے نوازا گیا تو اس وقت بھی رہبر انقلابِ اسلامی نے ان کی توصیف کے لئے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا۔ آپ نے فرمایا: ”راہِ خدا میں مجاہدت کا صلہ جو ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے کے عوض جوصلہ رکھا ہے، وہ بہشت ہے، رضائے پروردگار ہے۔ ہمارے اختیار میں جو چیز ہے، خواہ وہ زبانی شکریہ ہو، یا عملی اظہار تشکر ہو، یا یہ نشان عطا کرنا ہو یا جو رینک ہم دے سکتے ہیں، یہ ساری چیزیں مادی اور دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، روحانی و الوہی حساب کتاب میں ان کی کوئی بساط نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ سب نے یہ جدوجہد انجام دی ہے، محنت کی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ان برادر عزیز جناب سلیمانی کو بھی توفیقات سے نوازا۔
بارہا، بارہا، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہاں پہنچے، جو جگہ دشمن کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ راہ خدا میں، برائے خدا اور خالصتاً لوجہ اللہ آپ نے جہاد کیا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ پر کرم کرے اور آپ کی زندگی کو باسعادت فرمائے اور آپ کو شہادت نصیب کرے۔ البتہ ابھی نہیں۔ ابھی تو اسلامی جمہوریہ کو برسوں آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن بالآخر ان شاء اللہ زندگی کا سفر شہادت کی منزل پر ہو۔ آپ کو (یہ نشان) بہت بہت مبارک ہو۔“ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج میں اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز سربراہان کو دیا جاتا ہے، جن کے جنگی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور دیگر اقدامات مطلوبہ نتائج کے حامل ہوں۔ لیکن جس چیز نے شہید سلیمانی کو مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا، وہ صرف ان کی کمانڈنگ پاور نہ تھی بلکہ وہ ایک متقی شخص تھے، جنہوں نے اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
وہ خدا کو یاد کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے۔ اول وقت کی نماز کو اہمیت دی، قرآن پاک سے محبت کرتے اور اس کے احکام پر عمل کرتے۔ وہ اسلامی نظام کے قوانین کی پاسداری کرتے تھے اور نظام ولایت فقیہ کے وفادار تھے اور اپنے تمام فرائض کی ادائیگی میں پوری سنجیدگی سے کام کرتے تھے۔ صدر اسلام کے مجاہدین کی طرح فرنٹ لائن پر حاضر رہتے اور ہر وقت شہادت کے متمنی رہتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی جرآت،قربانی اور خلوص کی علامت ہیں۔ وہ اپنے نظم و نسق، پختہ ایمان اور بے مثال ایثار و قربانی سے دنیا کے فوجی کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے نمونہ بن گئے ہیں۔ ان کی یاد اور راستہ نہ صرف ایران بلکہ آزادی اور انصاف کی خواہاں تمام اقوام کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا۔
شہید حاج قاسم سلیمانی کو علامہ اقبال کا مرد مومن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
ہر لحظہ ہے مومن کي نئی شان، نئی آن
گفتار ميں، کردار ميں، اللہ کي برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
يہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسايہء جبريل اميں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشيمن نہ بخارا نہ بدخشان
يہ راز کسي کو نہيں معلوم کہ مومن
قاري نظر آتا ہے، حقيقت ميں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عيار اس کے ارادے
دنيا ميں بھي ميزان، قيامت ميں بھي ميزان
جس سے جگر لالہ ميں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
درياؤں کے دل جس سے دہل جائيں، وہ طوفان
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی