
سلیمانی
ما ملت امام حسینیم
قاسم سلیمانی ولد حسن، 11 مارچ 1957ء کو ایران کے صوبہ کرمان کے مضافات میں رابُر نامی شہر کے سلیمانی قبیلے میں متولد ہوئے۔ اور 3 جنوری 2020ء کو ان کی گاڑی پر امریکی حملے میں عراق کے رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سپہ سالار ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ بغداد میں شہید ہوئے۔لیکن دنیا سجمھ گئی کہ عصر حاضر کی عظیم طاقت، قاسم سلیمانی تھے،دنیاوالوں نے آپکی شہادت پریہ دیکھاکہ! سردار قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے بعد تشیع، جنازہ عراق کے لاکھوں لوگوں نے بغداد، کاظمین، اور کربلا ونجف میں کیں، اور پھر شہید سردار کا جنازہ، ایران منتقل ہوا، پھر خود ایران کے مختلف شہروں (اهواز،مشهد،تهران،قم وکرمان) میں کروڑوں لوگوں نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ تہران میں ملیونون لوگ تشیع، جنازہ میں شریک ہوئے، خبر کے مطابق ایران میں سید روحالله امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تشیع جنازہ کے بعد سب سے بڑی تعداد میں جمعیت آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے ہیں یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ جسے خدا وند زندہ رکھے اس کو کوئی مٹا نہیں سکتاہے ۔
نورحق شمع الہی کو بھجاسکتا ہے کون
جسکا حامی ہوخدا اسکو مٹاسکتا ہے کون
شیعہ قوم کی تاریخ مظلومیت سے عبارت ہے ۔ شہادت سے آغاز ہوتی ہےاور ہر زمانہ میں اسی شہادت کا تسلسل بر قرارہا ہے۔ چودہ صدی پر مشتمل تاریخ کا ہر وقفہ اہل بیت کے چاہنے والوں کی مظلومیت میں گزرا ہے۔ عزاداری ہو یا مقدسات عزا کا تحفظ، شہادت کے بغیر نامکمل نظر آتاہے۔ عزاداری کے تعلق سے برصغیر میں جانے کتنے عزادار سرخروئے حق ہوئے اور اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس مقامات کے تحفظ میں بے پناہ دلاوراپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ۳جنوری ۲۰۲۰ اسی محافظ گروہ کا سردار قاسم سلیمانی بھی اپنی شہادت سے سرخرو ہوگئے تھے ۔شہید قاسم سلیمانی کون تھے ؟ انکی مکتب فکر کیا تھی ؟ اس کوسمجھناآج ہماری ذمہ داری ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامینہ ای حفظہ اللہ کے فرمان کے مطابق : "شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے "مزید انہوں جہاں جامعیت کے ساتھ اس شہید فقید کا تعارف کروایا ہے وہاں دشمن کو بھی یہ پیغام دیا ہے شہید قاسم سیلمانی صرف جنرل ہی نھیں تھے بلکہ ایک مکتب کا نام ہے جو اپنے افکار کے ساتھ زندہ تھا اور زندہ رہے گا۔ شہید کے جانے سے اس مکتب کے پیرو کار اسے زندہ رکھیں گے۔
تلوار کی دھار سے کٹ سکتی نھیں کردار کی لو
بدن کی موت سے کر دار مر نھیں سکتا.
مکتب آیت اللہ شہید مرتضی مطہری کی نگاہ میں:’’ ایک تھیوری اور جامعہ اور مکمل منصوبہ هے جسکا اصلی ہدف انسان کے لے کمال اور سعادت کی راہ کو معین کر نا ہے ‘‘شہید قاسم سیلمانی نے اپنی پاکیزہ فکر اور عمل کے ذریعے اس مکتب کی بنیاد رکھی اور مادیات کے اس دور میں ظلمت سے نکل کر نور کی طرف راہ کی راہنمایی فرمائی۔ شہید قاسم سیلمانی ایک مکتب کا نام ہے تو پھر اس کے اندر جامعیت کا عنصر بھی موجود ہونا چاہئے جو ہر دور کے عشاق کو راہنمایی کر سکے۔ جب شہید ایک مکتب اور مدرسہ ہے تو پھر جس طرح ایک مدرسہ اور مکتب میں مختلف علوم ہوتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی کا مکتب بھی اپنے طالب کے لئے نصاب رکھتا ہے، جہاں اخلاق و معنویت، خدا کے ساتھ ارتباط ، اخلاص، یقین کامل، عزم راسخ، سعہ صدر، بردباری، عشق و محبت، شناخت دشمن، بصیرت، مقاومت، جس کی تفسیر علمی معاشرے میں رہتے پاکیزہ اور بابصیرت افراد میدان جنگ میں موجود مجاہدین اور اس کی علمی تفسیر بابصریت علماء کا وظیفہ ہے۔جب مکتب ہے تو پھر اپنے اندر اسرار و پیغام رکھتا ہے.اے دشمنان اسلام تم سمجھ رہے تھے شہید قاسم سیلمانی اور ابو مہدی المہندس کو شہید کر کے تم اپنے مقاصد میں کا میاب ہو جاو گے۔
نور خدا ہے کفر کی حالت پے خندہ زن/پھونکو ں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاے گا۔
وعدہ الہی ہے بریدون ان یطفوا نور اللہ با فواھھم وللہ منتم نور ہ ولو کرہ الکافرون
شہید حاج قاسم سلیمانی خود فرماتے ہیں شہید ہونے کے لئے کچھ شرایط ہیں۔
پہلی شرط یہ ہے شہید بودن شرط شہیدشدن است یعنی شہید ہونے لے لئے شہیدوں والی زندگی گزارنا شرط ہے جب تک آپ کی زندگی شہیدوں والی نہیں ہوگی تب تک آپ شہادت پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں۔
دوسری شرط ہجرت ہے یعنی انسان ہرچیز کو چھوڑکر خداوند کی را ہ میں ہجرت کرے انسان مال ودولت ، بیوی اور بچے ، والدین اور رشتہ دار ،بھائی اور بہین اور دوستوں کو جھوڑکر خدا کی راہ میں قدم بڑھائے یعنی منیت اور انانیت کو للہیت کے لئے ترک کرے ۔
تیسری شرط جہاد فی سبیل اللہ ہے شہید ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ انسان مسلسل راہ خدا میں جہاد کرتے رہے تھکاوٹ ،سستی اور کاہلی نہ آنے دے ہرانسان اپنے فیلڈ میں کوشاں رہے اس میں مومنین اور مستضعفین کی مدد کرے راہ خدا سے دوری اختیار نہ کرے ہمیشہ اس راہ سے منسلک رہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ انسان استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دے سختیوں کا مقابلہ کرے تمام تر چلینچنز کا سامنے کرنے کی ہمت رکھے طاقت رکھے اس راہ میں اپنی پوری عمر صرف کرے تب جاکے انسان کو شھادت مل سکتی ہے اور شہادت وہ مقام ہے جس سے بڑا کوئی اور مقام نہیں ہے پیامبر اسلام فرماتے ہرنیکی سے بڑھ کر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ انسان راہ خدا میں شہید ہوجائے جب انسان راہ خدا میں شہید ہوتا ہے تو اس سے بڑھکر کوئی اور نیکی نہیں ہے ۔
دانشمندوں اور تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک وسیع وادی ہے، جنگی مہارت ہو یا پھر دشمن کے خلاف جنگ نرم، عرفان و معنویت کی بات ہو یا پھر اخلاص و عقیدت، ٹیبل ٹاک کی بات ہو یا دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی۔ جذبۂ شہادت ہو یا جذبۂ فداکاری، ناموس کی حفاظت کا معاملہ ہو یا انسانی جانوں کو خونخواروں سے نجات دلانے کی بات، خدا ہو یا دشمن، بے رعب و دبدبہ، یتیموں سے محبت ہو یا مصیبت زدہ افراد کی مدد، اہل تحقیق کے لئے ایک وسیع میدان ہے، یہ بابصیرت علماء اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اس مکتب کو شفاف انداز میں آئندہ نسلوں تک پہنچائیں اور اس مکتب کو تحریف سے بچائیں۔جب مکتب کی بات ہے تو پھر مکتب روش مند اور ہدف مند ہوتا ہے، اس کا نکتۂ آغاز بھی ہے اور نکتۂ انجام بھی، ایرانیوں کے بقول اس میں رویش بھی ہے اور زایش بھی ۔ خود سازی سے شروع ہو کر معاشرہ سازی اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری و ساری ہےآخری بات ہے جب یہ مکتب ہے تو "اصلہ ثابت و فرعھا فی السماء" کے تحت ایسا شجرہ طیبہ ہے۔ تؤتی اکلھا کل حین اس کے ثمرات اور پھل صرف ایک موسم کے لئے نہیں بلکہ ہر موسم میں پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باذن ربّھا اپنے رب کے اذن کے ساتھ ہر ایک کے لئے ہے، جب اس مکتب عشق کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو پھر یاد رکھتا ہوگا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔
دین اسلام کے مکتب کے علمبرادار"شهید حاج قاسم سلیمانی،شہیدحاج قاسم سلیمانیؒ، ایک ماہر دشمن شناس تھے انھوں نے زمانے کے پیجیدہ حالات میں اہم اور مہم کی ترجیحات کو بخوبی پہچانا اور انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا منبع و سرچشمہ امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے خلاف لرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے یہ جانتے تھے کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد راستہ مقاومت ہے،لہذا نہضت مقاومت پر پوری توجہ مرکوز کی اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کے آج یمن،عراق، شام سب متحد اور منسجم ہوچکے ہیں اور استکباری طاقتوں سے دست و پنجہ نرم کر رہے ہیں یہ جرات اور یہ ہمت انہیں کہاں سے ملی؟بلا شک شهید قاسم سلیمانی کی وجہ سے اور یہ شھید کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ شهید قاسم سلیمانی ولایت فقیہ کے مطیع تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گیے اور تمام اقوام عالم ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔شاعر کہتا ہے :
مالک اشتر علی نہ رہا /زور بازروئے رھبری نہ رہا /جس سے ڈرتے تھے وقت کے دشمن ،/ہائی وہ قاسم جزی نہ رہا .
اس زمانہ کا یقینا مالک اشتر ہے تو/ ہاں ! زمانے کے علی کا باوفانوکر ہے تو
سینہء طاغوت پر اک کرارا وار ہو / غزوئ شام و یمن کا فاتح اکبر ہے تو
تم سے ہے اب کاخ استکبار کی نیندیں حرام / مشرق وسطی میں امریکہ کے آرمانوں کے شام
ہمارا فریضہ ہیکہ ہم شہید قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور ان کے مشن کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہونچاییں جو انھوں نے ھمارے کندھوں پر رکھا ہے۔ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہمیں شھید قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہیے اور ان کے بیانات گہر بار کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔
تحریر : محمد جواد حبیب کرگلی
تعلیماتِ امام محمد باقر (ع)، دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ
اسلامی تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کا دور علمی و فکری احیاء کا ایک نمایاں زمانہ تھا۔ آپ کی تعلیمات میں ایسے اصول و ضوابط موجود ہیں جو آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ امام علیہ السلام نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جو علم، کردار اور مقصد پر مبنی ہو۔
نوجوانوں کی تربیت میں امام باقر علیہ السلام کا کردار:
امام باقر علیہ السلام نوجوان نسل کو ایک ایسی شخصیت بنانا چاہتے تھے جو علم و عمل کا پیکر ہو۔ آپ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے نوجوانوں کو ایک متوازن اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصول سکھائے۔
1. علم کی اہمیّت
امام باقر علیہ السلام کا ایک مشہور قول ہے: "علم زندگی کی روشنی ہے اور جہالت موت کی تاریکی۔"
آپ نے نوجوانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا:"علم حاصل کرو، کیونکہ علم انسان کو حق و باطل کی پہچان دیتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔"
آج کے نوجوانوں کو تعلیم کو صرف دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی خدمت کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔
2. اخلاقی تربیت
امام باقر علیہ السلام نے اخلاقی اقدار کو شخصیت کی بنیاد قرار دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے: "بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے ویسا بنے جیسا وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
نوجوانوں کو معاشرے میں صبر، دیانت داری، اور عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔
3. وقت کی قدر
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"مومن کا دن تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے: ایک حصہ عبادت کے لیے، دوسرا روزی کمانے کے لیے، اور تیسرا اپنی ذات اور علم کے لیے۔"
یہ اصول نوجوانوں کو وقت کی قدر اور اس کے بہترین استعمال کی تعلیم دیتا ہے۔
4. عبادت اور روحانیت کی اہمیّت
امام باقر علیہ السلام نے روحانیت اور عبادت کو زندگی کا اہم حصہ قرار دیا۔ آپ نے نوجوانوں کو نماز، دعا اور قرآن سے جڑے رہنے کی ترغیب دی تاکہ وہ دنیوی مسائل کے باوجود اپنے روحانی سکون کو برقرار رکھ سکیں۔
5. خود اعتمادی اور خود احتسابی
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:"سب سے بڑا جہاد اپنے نفس کے خلاف ہے۔"
آپ نے نوجوانوں کو خود احتسابی اور اپنی اصلاح پر زور دیا تاکہ وہ دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔
6. والدین اور بڑوں کا احترام
امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو والدین اور بڑوں کے احترام کی تعلیم دی۔ آپ نے فرمایا: "جو اپنے والدین کا احترام کرتا ہے، اللہ اس کی زندگی میں برکت دیتا ہے۔"
یہ تعلیم آج کے دور میں خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
7. نوجوان اور معاشرتی ذمہ داری
امام باقر علیہ السلام نے نوجوانوں کو معاشرتی انصاف کے قیام کا درس دیا۔ آپ نے فرمایا:"وہ شخص بہترین ہے جو اپنے بھائیوں اور معاشرے کے لیے مفید ہو۔"
یہ اصول نوجوانوں کو اپنے سماجی کردار کو سمجھنے اور اسے ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
آج کے نوجوانوں کے لیے امام باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی اہمیت:
1. تعلیم اور ٹیکنالوجی کا استعمال
علم حاصل کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں امام علیہ السلام کی تعلیمات رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
2. کردار سازی
نوجوانوں کو اپنی زندگی میں اخلاق، ایمانداری، اور استقامت اپنانے کی ترغیب ملتی ہے۔
3. دین اور دنیا کا توازن
امام باقر علیہ السلام نے عبادت اور دنیوی معاملات میں توازن برقرار رکھنے کا درس دیا جو آج کے نوجوانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
4. چیلنجز کا سامنا
آپ کی تعلیمات نوجوانوں کو موجودہ دور کے اخلاقی، سماجی اور روحانی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات نوجوانوں کے لیے ایک جامع رہنما ہیں جو انہیں زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔ علم، اخلاق، وقت کی قدر، اور روحانی تربیت کے ذریعے آپ نے نوجوان نسل کو ایک مثالی شخصیت بنانے کا درس دیا۔ آج کے نوجوان اگر ان اصولوں کو اپنائیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک مثبت مثال بن سکتے ہیں۔ خداوند ہم تمام حق کے پیروکاروں کو سیرت امام باقر علیہ السلام کو سمجھنے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے توفیق عنایت فرمائے۔
تحریر : مولانا سید عمار حیدر زیدی قم
ماہ رجب الاصم
ماہ خدا ماہ رجب کی آمد آمد ہے۔ ماہ رجب بڑی عظمتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ یہ سال کے چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے جس میں جنگ کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رجب خدا کے نزدیک بڑی عظمتوں والا مہینہ ہے، کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم رتبہ نہیں اور اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے، جان لو کہ رجب اللہ کا مہینہ ہے ، شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے، رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی نصیب ہوتی ہے،وہ عذاب سے دور ہو جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس کے لئے بند ہوجاتا ہے۔
نیز آپؐ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر ایک فرشتہ کو معین کیا ہے جس کو ‘‘داعی’’ کہتے ہیں ۔ جب ماہ رجب داخل ہوتا ہے تو فرشتہ ہر شب میں صبح تک ندا دیتا ہے‘‘طوبى لِلذّاكِرينَ! طوبى لِلطّائِعينَ’’ خوش خبری ہے اللہ کا ذکر کرنے والوں کے لئے، خوش خبری ہے اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لئے۔
‘‘ويَقولُ اللّهُ تَعالى : أنا جَليسُ مَن جالَسَني ، ومُطيعُ مَن أطاعَني ، وغافِرُ مَنِ استَغفَرَني ، الشَّهرُ شَهري ، وَالعَبدُ عَبدي ، وَالرَّحمَةُ رَحمَتي ، فَمَن دَعاني في هذَا الشَّهرِ أجَبتُهُ ، ومَن سَأَلَني أعطَيتُهُ ، ومَنِ استَهداني هَدَيتُهُ ، وجَعَلتُ هذَا الشَّهرَ حَبلاً بَيني وبَينَ عِبادي ؛ فَمَنِ اعتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إلَيَ ’’
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ہم نشین ہوں جو میری ہم نشینی کرے، میں اس کا فرمانبردار ہوں (یعنی میں اس کا خیال رکھوں گا ) جو میری اطاعت کرے، میں اسے معاف کر دوں گا جو مجھ سے مغفرت طلب کرے، مہینہ میرا مہینہ ہے، بندہ میرا بندہ ہے، رحمت میری رحمت ہے۔ جو بھی مجھ سے اس ماہ میں دعا مانگے گا میں اجابت کروں گا، جو مجھ سے سوال کرے گا میں عطا کروں گا، جو مجھ سے ہدایت چاہے گا اس کی ہدایت کروں گا، اس ماہ کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا ہے پس جو بھی اس سے متمسک ہو گا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔
باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا : رجب عظیم مہینہ ہے اس میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں اور گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ماہ رجب میں ایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اور جو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس پرجنت واجب ہوجاتی ہے۔
مذکورہ روایات کے علاوہ دیگر بہت سی روایتیں ہیں جن میں ماہ رجب کی عظمتیں اور فضیلتیں بیان ہوئی ہیں کہ اس ماہ میں بندوں کو چاہئیے زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت کریں، عبادت کریں ، اس کی بارگاہ میں دعا مانگیں اور استغفار کریں جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا: ‘‘رجَبٌ شَهْرُ اَلاِسْتِغْفَارِ لِأُمَّتِي أَكْثِرُوا فِيهِ اَلاِسْتِغْفَارَ فَإِنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ’’ ماه رجب میری امت کے لئے توبہ اور استغفار کا مہینہ ہے لہذا تم اس ماه میں زیاده سےزیاده استغفار کرو کہ خدا غفور و رحیم ہے۔
روایات میں ہے کہ ماہ رجب کو‘‘رجب الاصب’’ بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس ماہ میں رحمٰن و رحیم اور ارحم الراحمین پروردگار کی رحمت کا نزول موسلا دھار ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ مہینہ خدا کا مہینہ ہے ۔ اس میں اللہ کے رسولؑ نے اعلان توحید کیا ، دور جاہلیت کے ظلم و ستم سے تڑپتی انسانیت کو عدل الہی کا درس دیا، اس ماہ میں ہمارے حضورؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔ اس ماہ خدا میں خانہ خدا میں خدا کے اس عظیم ولی کی ولادت ہوئی جو تمام اولیاء کا سردار اور تمام اوصیاء کا رہبر ہے۔
ماہ رجب کی مناسبتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
یکم رجب
1۔ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو سن 57 ہجری میں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ جنکو اس رسول ؐ نے سلام کہلایا جس پر اللہ اور ملائکہ درود بھیجتے ہیں ۔ جنہوں نےانسانیت دشمن اموی اور عباسی دور ظلمت میں علم نبوت کا ایسا چراغ روشن کیا کہ آج ہمارا پورا دین چاہے ہمارے عقائد ہوں ، یا احکام و اخلاق سب انہیں ‘‘قال الباقرؑ’’ و ‘‘قال الصادقؑ’’ سے ماخوذ ہیں ۔ نہ صرف فقہ جعفری بلکہ عالم اسلام کی دیگر چار فقہیں بھی انہیں کی مرہون منت ہیں کیوں کہ وہ چاروں اماموں نے بلا واسطہ یا باواسطہ حضرت باقرالعلومؑ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہیں۔
2۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ آقا حسین خوانساری رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1098 ہجری
گیارہوں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم ، فقیہ ، متکلم، حکیم، فیلسوف، شاعر اور ادیب آیۃ اللہ العظمیٰ آقا حسین خوانساری رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف علوم و فنون میں مہارت کے سبب ‘‘جامع الاطراف عالم ’’ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
3۔ شہادت شہید محراب آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیم رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1424 ہجری
مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند فقیہ اہلبیتؑ و مجتہد آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیم رحمۃ اللہ علیہ امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد بم دھماکے میں شہید ہوئی۔
پہلی رجب کے اعمال میں روزہ ، غسل ، زیارت امام حسین علیہ السلام اور نماز سلمان فارسیؒ ہے۔
2؍ رجب
1۔ وفات ابو ریحان بیرونی ۔ سن 440 ہجری
عظیم مسلمان طبیب، فیلسوف، منجم، ریاضیدان
3؍ رجب
ماہ رجب کی تیسری تاریخ کو سن 252 ہجری میں ولی الہی، حجت باری امام ہادی حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام کی سامرا عراق میں شہادت ہوئی ۔ آپؑ نے متوکل جیسے ظالم و ستمگر اور دشمن اہلبیتؑ کے زمانے میں زیارت جامعہ کبیرہ اور زیارت غدیر تعلیم کر کے رہتی دنیا کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی عظمتوں اور فضیلتوں سے آشنا کرایا ۔ نیز اس زمانے میں جب متوکل ملعون نے متعدد بار قبر حسینؑ پر حملہ کر کے نشان قبر مٹانے کی ناکام کوشش کی اور زیارتوں پر پابندی عائد کی تو آپؑ نے لوگوں کو زیارت حسینؑ کی عظمت و اہمیت سے آگاہ کیا ، زیارت کا حکم دیا اور تشویق فرمائی۔
4؍ رجب
1۔ وفات علامہ سید محسن امین عاملی رحمۃ اللہ علیہ سن 1371 ہجری
چودہویں صدی کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، ادیب اور مورخ تھے۔
5؍ رجب
1۔ ولادت امام علی نقی ہادی علیہ السلام سن 220 ہجری
2۔ شہادت ابن سکیتؒ سن 244 ہجری
عظیم عالم و معلم ، شاعر اور ماہر علم نحو جناب ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو متوکل عباسی نے صرف اس جرم میں شہید کر دیا کہ آپؑ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی توہین برداشت نہیں کی اور متوکل کو اسکی اہانت کا منھ توڑ جواب دیا۔
8؍ رجب
1۔ ولادت شیخ حر عاملی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1033 ہجری
گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم ، محدث، فقیہ، متکلم جناب محمد بن حسن عاملی رحمۃ اللہ علیہ امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہیں ، آپ کی مشہور کتاب وسائل الشیعہ ہے۔
2۔ شہادت آیۃ اللہ سید عبداللہ بہبہانی رحمۃ اللہ علیہ (رہبر تحریک مشروطیت ایران) سن 1328 ہجری
3۔ وفات عالم ، عارف و استاد اخلاق آیۃ اللہ میرزا عبدالکریم حق شناس تہرانی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1428 ہجری
9؍ رجب
1۔ وفات مرجع دینی ، فقیہ اہل بیت ؑ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمدحسن آل یاسین کاظمینی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1308 ہجری
آپ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اور ان کے بعد مومنین عراق کے پیشوا ہوئے۔
10؍ رجب المرجب
1۔ ولادت با سعادت شہید کربلا فرزند سید الشہداء ؑ حضرت علی اصغر علیہ السلام ۔ سن 60 ہجری
2۔ ولادت باسعادت حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام۔ سن 195 ہجری
آپ کو خاندان عصمت و طہارت کا مولود مبارک کہتے ہیں ۔ آپؑ نے اس کمسنی میں بڑے بڑے علماء و فقہاء سے مناظرے کئے اور انکو شکست قبول کرنے پر مجبور کیا۔
11؍ رجب
1۔ ولادت مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ سن 1339 ہجری
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ نے بانیٔ مدرسہ حجتیہ قم مقدس آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد حجت کوہ کمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے سند اجتہاد حاصل کیا۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالہادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ اور استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا ۔
آپ نےآیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ محرک عزائے فاطمی آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک عزائے فاطمی کی مکمل حمایت کی اور ان کے بعد اس تحریک کی سربراہی فرما رہے ہیں ۔ اللہ آپ کو صحت و سلامتی اور طول عمر عطا فرمائے۔
12؍رجب
1۔ وفات جناب عباس بن عبد المطلب علیہ السلام (رسول اکرمؐ کے چچا) ۔ سن 32 ہجری
2۔ جنگ جمل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کوفہ تشریف لائے اور کوفہ کو دارالحکومت قرار دیا ۔ سن 36 ہجری
3۔ سن 60 ہجری میں حاکم شام کی دنیا سے کوچ اور یزید پلید یتیم ہوا ۔ اگر چہ شعر علوی ‘‘لَيْسَ الْيَتِيمُ الَّذِي قَدْ مَاتَ وَالِدُهُ ۔۔۔۔ إِنَّ اليَتِيمَ يَتِيمُ الْعِلْمِ وَالأَدَبِ’’ کی روشنی میں وہ ہمیشہ یتیم و فقیر ہی رہا۔
4۔ وفات آیۃ اللہ سید محمد علی موحد ابطحی رحمۃ اللہ علیہ (مولف تہذیب المقال فی علم الرجال) سن 1433 ہجری
13؍ رجب
سن 30 عام الفیل کو صدف ولایت کفیلہ رسالت مہمان کعبہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا خانہ ابوطالبؑ سے نکلیں اور خانہ کعبہ کے نزدیک پہنچی۔ ماہ خدا میں کنیز خدا نے خانہ خدا کے قریب خدا سے راز و نیاز کیا تو خانہ خدا کی دیوار میں نیا در بن گیا، آپؑ اندر تشریف لے گئیں ، جہاں مولی الموحدین، سید الوصیین ، امیرالمومنین ، امام المتقین حضرت علی بن طالب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔
14؍ رجب
1۔ مرگ معتمد عباسی (امام حسن عسکری علیہ السلام کا قاتل) سن 279 ہجری
15؍ رجب
المرجب مظلوم کربلا کی زیارت کا خاص دن ہے، اسی دن سن 10 بعثت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے گھر والے اور چاہنے والے تین سال بعد شعب ابو طالبؑ سے نکل کر اپنے گھر واپس آئے اور سن 2 ہجری میں حکم خدا کے مطابق عین حالت نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیت المقدس کی جانب سے اپنا رخ خانہ کعبہ کی جانب کیا اور اس طرح عالم اسلام کا قبلہ تبدیل ہوا۔ سن 62 ہجری کو بانیٔ عزا ،محافظہ مقصد سید الشہداءؑ مبلغہ پیغام کربلا ،عقیلہ بنی ہاشم ام المصائب حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے اس دنیا سے کوچ فرمایا۔ روایت میں ہے کہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ جو میری اس بیٹی کی مصیبت پر گریہ کرے گا تو اس کو کیا اجر ملے گا تو حضورؐ نے فرمایا: اس کو وہی اجر ملے گا جو (امام) حسنؑ و(امام) حسینؑ پر گریہ کرنے کا اجر ہے۔
16؍ رجب
سن 30 عام الفیل ۔ مہمان کعبہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اپنے فرزند مولود کعبہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ہمراہ خانہ کعبہ کے باہر تشریف لائیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا استقبال کیا۔
17؍ رجب
1۔ مرگ مامون عباسی (امام علی رضا علیہ السلام کا قاتل) سن 218 ہجری
2۔ وفات محقق بحرانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1121ہجری
بارہویں صدی ہجری میں بحرین کے نامور شیعہ عالم ، فقیہ، محدث، ماہر علم رجال و علم کلام ، خطیب و شاعر آیۃ اللہ سلیمان بن عبداللہ ماحوزی رحمۃ اللہ علیہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی مدح میں فرمایا۔
اِنّی و اِن لَمْ یَطُبْ بَیْنَ الْوَریٰ عَمَلی۔ فَلَسْتُ اَنْفَکُّ مَهْما عِشْتُ عَنْ اَمَلی۔ و کَیْفَ اَقْنُطُ مِنْ عَفْوِ الاِلٰهِ و لی۔ وَسیلَةٌ عِنْدَهُ حُبُّ الاِمامِ عَلی۔
اگرچہ لوگوں میں میرا عمل اچھا نہیں ہے، لیکن میں زندگی میں ہمیشہ پر امید ہوں۔ میں خدا کی بخشش سے کیسے مایوس ہو سکتا ہوں جبکہ اس کے نزدیک میرا وسیلہ امام علی علیہ السلام سے محبت ہے۔
18؍ رجب
1۔ وفات فرزند رسولؐ جناب ابراہیم ؑ جو امام حسین علیہ السلام کا فدیہ قرار پائے۔ سن 10 ہجری
2۔ ابن عیاش کی روایت کے مطابق یوم شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سن 11 ہجری
19؍ رجب
1۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ سن 1235 ہجری
20؍ رجب
1۔ وفات عمر بن عبدالعزیز ۔ سن 101 ہجری
عمر بن عبدالعزیز دوسرے اموی حکمرانوں کے برخلاف نیک تھا ۔مولا علی علیہ السلام پر سب و شتم منع کیا، فدک اولاد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو واپس کیا اور نقل و کتابت حدیث کی پابندی ختم کی۔
22؍ رجب
1۔ نذر امام جعفر صادق علیہ السلام
2۔ جنگ خیبر میں یہودیوں کا رعب اور مقابل میں خوف و فرار۔ سن 7 ہجری
23؍ رجب
1۔ گذشتہ ایام کی طرح جنگ خیبر میں یہودیوں کا رعب اور مقابل میں خوف و فرار۔ آخر اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: کل میں علم (اسلام) اس کو دوں گا جو کرار ہوگا، غیر فرار ہوگا، اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ و رسولؐ اس سے محبت کرتے ہوں گے’’ اس حدیث نبوی سے جہاں غیروں کی بزدلی ثابت ہوتی ہے وہیں اللہ و رسولؐ کی محبت سے دوری بھی ثابت ہوتی ہے۔
24؍ رجب
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم اسلام حیدر کرار امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کو دیا اور آپؑ نے خیبر کو فتح کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشی دو بالا ہو گئی جب آپؐ نے دیکھا کہ حبشہ سے جناب جعفر طیار ؑ بھی آ گئے ہیں۔
25؍ رجب
سن 183 ہجری کو 14 سال کی اسیری کے مصائب برداشت کرتے ہوئے زہر ہارونی سے قید خانہ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ہوئی۔
26؍ رجب
سن 10 بعثت وہ غم انگیز دن ہے جب اسلام کے محسن اعظم ، کفیل رسول اکرمؐ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ۔ اس غم میں حضورؐ اس قدر غمگین ہوئے کہ پورے سال کو ‘‘عام الحزن’’ غموں کا سال نام دیا۔ ابن اثیر جزری نے لکھا: اہل بیت علیہم السلام کا حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان پر اجماع فرمایا اور اہل بیت علیہم السلام کا اجماع حجت ہے۔
27؍ رجب
سال کے چار با عظمت دنوں میں سے ایک ہے ۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ اس شب و روز کے مخصوص اعمال ہیں جو کتب اعمال اور ادعیہ میں مرقوم ہیں ۔
28؍ رجب
1۔ اسلام میں پہلی نمازجماعت سن یکم بعثت
بعثت کے بعد پہلی نماز جماعت کہ جسمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امامت کی اور امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے با جماعت نماز ادا کی۔
2۔ سن 60 ہجری کونواسہ رسول ؐ جانِ مدینہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ کو خیرباد کہا اور اپنے سفر شہادت کا آغاز کیا۔
ماہ رجب کا آخری دن
1۔ امام ابوحنیفہ کی بغداد میں وفات ۔ سن 150 ہجری
۲۔ امام شافعی کی مصر میں وفات ۔ سن 204 ہجری
خدا ہمیں ماہ رجب کی معرفت عطا فرمائے اور اس ماہ میں اپنی بندگی کی توفیق کرامت فرمائے۔
آمین
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
مذاہب کے عبادت گاہوں کی تاریخ ایرانی عظمت کی نشانی
حضرت مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت اور نئے عیسوی سال کے آغاز کی مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ یہ تقریب بین الاقوامی اہل بیت(ع) یونیورسٹی کے بین الاقوامی کانفرنس ہال میں ہوئی، جس میں 30 سے زائد ممالک کے بین الاقوامی طلبہ اور غیر ملکی مہمانوں نے شرکت کی۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت اور نئے سال کے آغاز کی تقریب کی تصویری رپورٹ ایکنا کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین سعید جازاری معمویی، رئیس بین الاقوامی اہل بیت(ع) یونیورسٹی، نے کہا: "ہمارے رہبر اور بزرگ ہستیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے دن کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور مسیحی برادری سے ملاقات کی۔ ہم نے بھی اسی جذبے کے تحت، اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اس دن کی اہمیت پر توجہ کے پیش نظر، اس تقریب کا اہتمام کیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا: "ایران 12 ہزار سالہ درخشاں تاریخ کے ساتھ ہمیشہ انسانیت، عدل، اور آسمانی اعتقادات کا حامی رہا ہے، اور یہودیت و عیسائیت کی حمایت میں ایران کی خدمات نمایاں ہیں۔"
حجت الاسلام جازاری نے کہا: "یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا کے پہلے انسانی حقوق کے منشور کو کوروش ایرانی نے لکھا، جو عدل و انسانیت کی خدمت میں تھا۔ ایران میں یہودیت کا دوسرا اہم زیارت گاہ ہمدان میں واقع ہے، اور یعقوب نبی، دانیال نبی، اور دیگر یہودی شخصیات کی قبریں یہاں محفوظ اور قابل احترام ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "دنیا کی قدیم ترین مسیحی کلیسا ایران میں موجود ہے، اور یہ تمام مذہبی مقامات ایرانی ثقافت کی عظمت اور آسمانی اعتقادات کے احترام کی دلیل ہیں۔"
انہوں نے اس بات پر زور دیا: "ایران میں مذاہب کے درمیان گفت و شنید کا پہلا رسمی مرکز ایک شیعہ رہنما کے ذریعے اصفہان میں قائم کیا گیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران نے ہمیشہ مذاہب کا احترام کیا ہے اور ان کے مقام کو اہمیت دی ہے۔"
تقریب کے دوران آیت اللہ رضا رمضانی گیلانی، مجمع عالمی اہل بیت(ع) کے سیکرٹری جنرل اور مجلس خبرگان رہبری کے رکن، نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا: "قرآن کریم نے 15 سورتوں اور 93 آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے، اور ان کا مقام واضح کیا ہے۔ سورہ مریم ان کے نام سے منسوب ہے اور قرآن میں حضرت عیسیٰ کو کلمۃ اللہ اور ان کی پیدائش کو ایک معجزہ کہا گیا ہے۔"
آیت اللہ رمضانی نے کہا: "اگر آج ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا موقع ملتا تو ہمیں جاننا چاہیے کہ ان کے لیے سب سے اہم چیز کیا ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ ان دونوں عظیم پیغمبروں کے لیے دو اہم امور تھے: پہلا یہ کہ معاشرے میں اللہ کی رحمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے، اور دوسرا ظلم کا خاتمہ کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے'، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی اصول پر عمل پیرا تھے۔"
انہوں نے مزید کہا: "ظلم کے خاتمے کے لیے صرف فکر کافی نہیں، بلکہ عملی اقدام ضروری ہے۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ اگر کسی کے پاس ظالم کو روکنے کی طاقت ہو، لیکن وہ اسے نہ روکے تو وہ خود بھی ظالم ہے۔"
غاصب صیہونی حکومت کا تاریک مستقبل
اسرائیل میں غربت کے اعداد و شمار نے صیہونی حکام کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ عبرانی اخبار معاریو نے لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کی معیشت اور اقتصاد میں کمی نے اسرائیل کے مستقبل کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے اور غربت کے پھیلاؤ سے متعلق اعداد و شمار سے تل ابیب کے حکام کی نیند اڑ جانی چاہیئے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی بچوں میں سے 30 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے معیارات کے مطابق صیہونی حکومت کا مستقبل تاریک ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات عبرانی اخبار معاریو میں شائع ہوئی ہے۔ اسرائیلی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں غربت کے بارے میں صیہونی تنظیم "لاتیت" کی حالیہ رپورٹ نے صیہونی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس رپورٹ میں مقبوضہ علاقوں اور اس میں بسنے والے غاصب شہریوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے، خاص طور پر اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی صیہونی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور ایک بڑی تعداد غربت اور اسی طرح کے دیگر مسائل سے نمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ یہ سب غزہ پر صیہونیوں کی مسلسل جارحیت اور محاصرے نیز فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور ایران پر جاری جارحیت کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی عبری اخبار معاریو نے "لاتیت" کے اعداد و شمار اور اسرائیلی مرکزی ادارہ شماریات کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں غربت کے پھیلاؤ کے بارے میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی ایک چوتھائی آبادی زندگی گزارنے کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے، جبکہ ایک چوتھائی آبادی بنیادی اخراجات ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔
معاریو نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بدقسمتی سے اسرائیل میں سینکڑوں ہزار خاندان انتہائی خراب معاشی حالات اور بہت کم آمدنی کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ اعداد و شمار اور حقائق تلخ سے تلخ تر ہو رہے ہیں۔ اس عبرانی اخبار نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غریبوں کی حالت کو "انتہائی مشکل اور انتہائی تشویشناک" قرار دیا ہے۔ اس اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ سابقہ رپورٹوں کے مطابق 21 فیصد سے زیادہ غاصب صیہونی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ موجودہ حالات کے برقرار رہنے سے معیشت کی تباہی اور اس کے نتیجے میں غربت میں شدد اضافہ ہوگا۔ مصنف نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کے خوفناک نتائج سامنے آئے ہیں، جن کا صیہونی حکومت کی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پر جارحیت جاری رکھنے سے اسرائیل دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ معاریو نے مزید کہا ہے کہ اب ایک ملین سے زیادہ اسرائیلی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور غیر یہودی خاندانوں کے حالات انتہائی خطرناک ہیں، کیونکہ بہت سے غیر یہودی خاندان انتہائی غربت میں رہتے ہیں، جبکہ سنگل فیملی والے والدین بھی کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے 30 فیصد بچے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا مستقبل تاریک ہے۔" اس عبرانی اخبار نے نیتن یاہو کی کابینہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معیشت کی بہتری، حزب اللہ کی طرف سے تباہ کیے گئے شہروں کی تعمیر نو، غریب خاندانوں کے لیے نئے مواقع فراہم کرنے، سماجی نگہداشت کی خدمات کو بہتر بنانے، تعلیم کے شعبے پر توجہ دینے اور مہنگائی سے لڑنے کے لیے جامع پروگرام تیار کرنے کے لیے تیزی سے کام کرے۔ اگرچہ یہ مطالبات نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے ناممکن ہیں، کیونکہ وہ اپنی سکیورٹی، فوجی اور معاشی سلامتی کے لیے متعدد خطرات سے دوچار ہے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اسرائیل کو اپنے اندرونی معاملات میں بھی بحران کا سامنا ہے، کیونکہ اس کی کابینہ سے عدم اطمینان کی وجہ سے معاشی صورتحال خراب ہوگئی ہے اور اس نے غزہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں بھی تاخیر کی ہے۔
لاتیت نامی تنظیم نے اس ماہ کے وسط میں ایک رپورٹ شائع کی، جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل میں 700،000 سے زیادہ گھرانوں میں دو ملین سے زیادہ افراد یا 22.5 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے، کیونکہ اسرائیل میں معاشی اور معاشرتی حالات خراب ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ زندگی اور معاشی حالات کی خرابی اور صیہونی معیشت کی کمزوری ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے نیتن یاہو کی کابینہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں اور تاجروں کو راغب کرنے کے بارے میں بات کر رہی تھی، لیکن غزہ میں 15 ماہ کی جنگ اور اس کے نتائج نے صورتحال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ صورتحال غاصب اسرائیل کی لاچاری اور اس کے معاشی، سکیورٹی اور فوجی ڈھانچے کی کمزوری کو ثابت کر رہی ہے۔
تحریر: الہام موزنی
شہید قاسم سلیمانی کی زبانی جنگ کا یادگار واقعہ
محور مقاومت کے سیدالشہداء شہید قاسم سلیمانی نے دفاع مقدس (ایران عراق جنگ) کے دوران ایک اہم واقعہ کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ دشمن کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ہم آپریشن بیت المقدس کے تیسرے یا چوتھے دن، صبح آٹھ بجے ایک بہت بڑی نہر میں داخل ہوئے، جو تقریباً دو میٹر اونچی اور دو میٹر چوڑی تھی اور مکمل طور پر بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی تھی، عراقیوں نے اس نہر کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تھا اور اس کے دونوں طرف ان کی فورسز موجود تھیں۔
شہید سلیمانی کہتے ہیں کہ ہم دن کے وقت اس میں داخل ہوئے تاکہ دشمن کو شک نہ ہو۔ میں نے برادر منصور جمشیدی سے کہا کہ خیال رکھیں کہ آپ کا پاؤں بارودی سرنگ پر نہ آئے، بیل کی دو دانت برابر کچھ جگہ ابھری ہوئی تھی، ہم انہی اونچی جگہوں پر چل رہے تھے کیونکہ وہاں بارودی سرنگوں کی موجودگی کا امکان کم تھا۔ باقی دونوں اطراف میں والمر اور دوسری قسم کی بارودی سرنگیں دبی ہوئی تھیں، ہم نے وہاں جنگی حالات کا جائزہ لیا۔ جب آدمی آگے بڑھتا ہے، تو ہر لمحہ زیادہ آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔
فرماتے ہیں کہ آخرکار ہمیں ایک بنکر نظر آیا۔ چونکہ سیدھی سی نہر تھی، ہم ان کا بنکر دیکھ سکتے تھے اور وہ ہمیں دیکھ سکتے تھے، ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا، ہم نے نہر کے اندر کنارے کے ساتھ چلتے ہوئے جھانک کر بنکر کو دیکھا، جو کہ خالی تھا، ہم نے بنکر کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو یہ عراقیوں کی مشین گن کا بنکر تھا، مشین گن بھی موجود تھی۔ یہاں نہر کا اختتام تھا، عراقیوں کی سڑک اس نہر کے قریب سے گزرتی تھی اور ھویزه اور کرخہ نور کے دریا کے کنارے کی طرف جاتی تھی۔
فرماتے ہیں کہ عراقیوں کا ایک یو شکل کا برج تھا، جو اس بنکر سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر تھا، اور تقریباً تیس سے چالیس میٹر دور عراقی اس برج کے پیچھے تھے، ہم نے دیکھا کہ کچھ عراقی فوجی مٹی کے ڈھیر پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ہم نے جائزہ لیا اور دیکھا کہ یہ کاروائی کے لئے ایک بہترین نکتہ ہے۔ جب ہم واپس آئے، میں آگے چل رہا تھا اور برادر جمشیدی میرے پیچھے چل رہے تھے، ایک مقام پر ہم رک گئے تاکہ نہر کے کناروں کو دوبارہ چیک کریں اور دیکھیں کہ وہاں بارودی سرنگیں ہیں یا نہیں۔
فرماتے ہیں کہ برادر جمشیدی سہارا دیا اور میں نے اس کے ہاتھوں پر پاوں کے اوپر چڑھ کر دیکھا، ہم بات کر رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی، برادر جمشیدی کا پاؤں بارودی سرنگ پر چلا گیا، میں نے فوراً ان کا پاؤں باندھا اور انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ ہم نہر کے آخر تک چلتے رہے، لیکن میں مجھے محسوس ہوا کہ میں نہیں لے جا سکتا، ایک جگہ ملی، میں نے انہیں نہر کے کنارے بٹھا دیا۔ پھر میں جلدی سے ایک جیپ میں بیٹھا اور خود کو اپنے بیس تک پہنچایا، کیونکہ حادثے کی جگہ ہماری لائنز سے بہت دور تھی، برادران نے سوچا کہ میں بے ہوش ہو گیا ہوں، دوڑ کر مجھے پکڑا اور بستر کے پاس لے آئے، میں نے انہیں بتایا، فلاں دوست وہاں رہ گیا ہے، وہ گئے اور اسے لے آئے۔
فرماتے ہیں کہ ٹینک کے فائر سے ہمیں پتہ چلا کہ دشمن فرار کر گیا ہے، ہم نےفوراً یہ خبر قرارگاہ کو منتقل کی اور اپنے خطوط میں داخل ہو گئے۔ ہم دشمن کے تعاقب میں چلے گئے، شمال کی طرف سڑک پر، پہلا ٹرک جو اہواز کی طرف جا رہا تھا اور دارخوین کی طرف سے آیا تھا، میں اور برادر آقای بشر دوست تھے جو آج سپاہ میں خدمت کر رہے ہیں، ہم نے دستوں کو کوشک کے قریب ڈیپلائے کیا اور ہم دشمن کے تعاقب میں گئے تاکہ پتہ چلے کہ وہ کہاں ہیں، میں اور آقای پورعلی، جو کہ اطلاعات کے ذمہ دار تھے اور بہت سارے نوجوان ایک اسٹیشن اور ایک جیپ کے ساتھ دشمن کی تلاش میں سرحد تک گئے۔
فرماتے ہیں ہم سرحد تک پہنچے، اور بارڈر پر لگی علامتوں کو پہلی بار قریب سے دیکھا، میں اور ایک نوجوان، جیپ کے ساتھ ٹیلے پر کھڑے تھے، اپنے بارڈر اور عراقی سرحد کے درمیان، ہم پہلی بار بین الاقوامی سرحد دیکھ رہے تھے، اور یہ پہلا ٹرک تھا جو بارڈر تک پہنچا تھا، اسی ٹیلے پر سب کھڑے تھے، شہید راجی گاڑی کے اوپر اور پوریانی سڑک پر تھے اور میں بھی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، دوربین سے ارد گرد جائزہ لے رہے تھے کہ دشمن کو دیکھ سکیں، اچانک میں نے دیکھا کہ دائیں طرف سے ایک چمک اور روشنی اٹھی، تب ہمیں پتہ چلا کہ ٹینک کا فائر تھا اور اس نے ہماری اسٹیشن گاڑی کو نشانہ بنایا، اب ہمیں معلوم ہوا کہ عراقی کہاں ہیں۔؟
فرماتے ہیں کہ سڑک خالی تھی اور ہر چیز سیدھی ٹینکوں کے نشانے پر تھی، ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس مڑے، گاڑی بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی، تمام ذمہ داران موجود تھے۔ ٹینک نے گولہ باری شروع کر دی، ایک گولہ گاڑی کے سامنے لگا اور دوسرا ایک ساتھ گرا، میں نے جوانوں سے کہا کہ اگلا گولہ گاڑی کے اندر آئے گا اور ایسا ہی ہوا، گولا پچھلے دروازے پر لگا، جس نے گاڑی کی چھت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، پچھلے ٹائر کو پھاڑ دیا اور دوسرے ٹائر کو بھی پھاڑ دیا، صرف دو جوان زخمی ہوئے، ہمارے سامنے تقریباً ۵۰۰ میٹر پر ایک موڑ تھا، یہاں ہم سیدھی فائرنگ سے محفوظ تھے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
امریکی اڈے یقینی طور پر شامی جوانوں کے پیروں تلے روند دیے جائیں گے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
شہدا کے خاندانوں سے گفتگو میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عراق پر قبضہ کرنے میں امریکیوں کا مقصد، کسی کو صدام کا جانشین بنانا تھا اور امریکی وہاں رکنے کے لیے آئے تھے، لیکن جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے ایک سخت، پیچيدہ اور طویل عمل کے تحت اور ایک سیاسی، فوجی، تشہیراتی اور ثقافتی جنگ میں اپنے مستقبل پر عراقی عوام کی حکمرانی کی راہ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی ایک اور سازش یعنی داعش کی شکست کو، میدان میں الحاج قاسم سلیمانی کی موجودگی کا ایک دوسرا نتیجہ بتایا اور کہا کہ تکفیری دہشت گردی کے مقابلے میں عراقی جوان، حقیقی معنی میں درخشاں رہے، لیکن اس سازش کو ناکام بنانے میں، جس سے خطے کی موت اور حیات وابستہ تھی، قاسم سلیمانی نے اپنی جدت طرازی، شجاعت، طاقت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر بے مثال کردار ادا کیا۔
آيت اللہ سید علی خامنہ ای نے داعش کے مقابلے میں کھڑے ہو جانے کی ضرورت کے بارے میں مرجعیت کے فتوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم فتوے کی وجہ سے ہزاروں جوان میدان میں آ گئے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے اور وہ منظم بھی نہیں تھے اور جنرل سلیمانی نے عراق کے بڑے مجاہدوں خاص طور پر شہید ابو مہدی کی مدد سے، جو ایک عظیم اور گرانقدر انسان تھے، ان جوانوں کو منظم کیا اور انھیں ہتھیار اور ٹریننگ دی۔ انھوں نے مزاحمتی محاذ کے احیا کو جہادی سرگرمیوں میں جنرل سلیمانی کی دائمی اسٹریٹیجی بتایا اور کہا کہ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ شام، لبنان اور عراق کے آمادہ جوانوں اور قومی فورسز سے مزاحمت کے احیا کے لیے بہترین استفادہ کرتے تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مقدس مقامات کے دفاع کو جنرل قاسم سلیمانی کے جہاد اور مقابلے کے پورے عرصے کا اٹل اصول بتایا۔
شہدا کے خاندانوں سے گفتگو کرے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ مقدس مقامات، حضرت زینب کے روضۂ اطہر اور شام و عراق میں امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب کے مزارات اور خاص طور پر عالم اسلام کے سب سے بڑے حرم کے طور پر مسجد الاقصیٰ کا دفاع بہت اہم اصول تھا اور اسی وجہ سے شہید اسماعیل ہنیہ نے جنرل سلیمانی کے جلوس جنازہ کے پروگرام میں انھیں شہید قدس کا نام دیا تھا۔ انھوں نے اسلام کے دفاع کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے دسیوں لاکھ ایرانی جوانوں کی تیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دفاع حرم کے مجاہدن نے دکھا دیا کہ بدخواہوں کی بہت زیادہ سرمایہ کاری کے باوجود، مزاحمت کا پرچم بدستور لہرا رہا ہے اور دشمن، لبنان، فلسطین، شام، عراق اور ایران سے مزاحمت کے پرچم کو نہ تو اتار پایا اور نہ ہی کبھی اتار پائے گا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے طاقت کے عناصر کی حفاظت کو کسی بھی ملک کی قومی استقامت و قوت کو جاری رکھنے کے لیے ضروری بتایا اور کہا کہ مومن اور فداکاری کے لیے تیار جوان، کسی بھی ملک کے استحکام و قوت کے سب سے اہم عناصر ہیں اور اس طرح کے جوانوں کو میدان سے باہر نہیں نکالنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ میدان سے مومن اور فداکار جوانوں کے باہر نکل جانے سے شام جیسے حالات اور افراتفری اور امریکا، صیہونی حکومت اور بعض دیگر جارح ملکوں کے ہاتھوں اس ملک کے علاقوں پر قبضے جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام میں جارح قابضوں کی موجودگي جاری رہنے کو ناممکن بتایا اور کہا کہ شام، شام کے لوگوں کا ہے اور شام کی سرزمین پر جارحیت کرنے والے یقینی طور پر ایک دن شام کے غیور نوجوانوں کی طاقت کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہو جائیں گے۔
انھوں نے شام میں پے در پے امریکی ٹھکانے بنائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جارح امریکہ کو، ایک قوم کی سرزمین سے نکلنا ہی ہوگا ورنہ اسے نکال باہر کیا جائے گا، بنابریں امریکی اڈے بھی یقینی طور پر شام کے جوانوں کے پیروں تلے روند دیے جائیں گے۔ آيت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حتمی اور آخری فتح، ایمان والی کی ہی ہوگي، کہا کہ لبنان، مزاحمت کا مظہر ہے اور اگرچہ اس نے زخم کھایا ہے لیکن وہ جھکا نہیں ہے اور آخر میں وہی فتحیاب ہوگا جس طرح سے کہ یمن بھی مزاحمت کا مظہر ہے اور وہ بھی فتحیاب ہوگا اور ان شاء اللہ جارح دشمن، جن میں سب سے اوپر لالچی اور مجرم امریکا ہے، خطے کے لوگوں کو چھوڑنے اور ذلت کے ساتھ علاقے سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں، مکتب سلیمانی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکتب، اسلام اور قرآن کا ہی مکتب ہے جس کی پابندی کرتے ہوئے شہید سلیمانی، کسوٹی، مرکز اور محور میں تبدیل ہو گئے اور اگر ہم میں بھی وہی ایمان اور عمل صالح ہو تو ہم بھی سلیمانی بن سکتے ہیں اور خدا کا لطف ہمارے بھی شامل حال ہو سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع حرم کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس کے لیے بہت زیادہ پاکیزہ خون بہایا گيا ہے، کہا کہ بعض لوگ سمجھ کی کمی اور مسائل کے صحیح تجزیے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سوچتے اور کہتے ہیں کہ خطے کے حالیہ واقعات کی وجہ سے دفاع حرم کی راہ میں بہایا گيا خون رائيگاں چلا گيا جبکہ یہ سوچ اور اس طرح کا بیان، بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر الحاج قاسم سلیمانی اور دفاع حرم کے مجاہدین کا شجاعانہ جہاد نہ ہوتا تو آج مقامات مقدسہ چاہے وہ زینبیہ ہو اور چاہے کربلا و نجف ہو، محفوظ نہ رہتے۔ انھوں نے کہا کہ کسی وقت سامرا میں کچھ غفلت برتی گئی اور تکفیریوں نے امریکا کی مدد سے امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے روضے گنبد اور ضریح کو تباہ کر دیا اور اگر جاں بکف مومن جوان نہ ہوتے تو دیگر مقدس مقامات کا بھی اسی طرح کا افسوس ناک انجام ہوتا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دفاع حرم کی حقیقت کو اس مقدس مقام کے دفاع کے علاوہ اس مقام پر دفن شخصیت اور ائمہ علیہم السلام کے مکتب کا دفاع بتایا اور کہا کہ قرآنی ثقافت میں جہاں بھی جو بھی خون راہ حق میں بہتا ہے، چاہے فتح حاصل نہ بھی ہو، تب بھی وہ رائيگاں نہیں جاتا اور خداوند عالم کے نزدیک وہ گرانقدر ہے، جیسا کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ کا خون اور سب سے بڑھ کر کربلا میں سید الشہداء علیہ السلام کا خون رائيگاں نہیں گیا۔ انھوں نے کہا کہ البتہ فتح بھی یقینی ہے اور باطل کی موجودہ جولانی کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت خطاب 2024/12/22
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
میں سیدۂ کائنات، جگر گوشۂ پیغمبر خاتم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آج ہماری نشست بہت پرنور، روحانی اور شیریں تھی۔ آپ خواہران و برادران سامع نے بھی اور اشعار پڑھنے والوں اور منقبت خوانوں نے بھی واقعی اس دن کی ہم سب کی معنوی ضرورت کو پورا کر دیا۔ خدا ان شاء اللہ آپ سب کو محفوظ رکھے اور مزید توفیق عطا فرمائے۔ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا، مدح خوانی اور مداحوں کے مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں کہوں گا اور آج کے حالات اور مسائل کے بارے میں بھی کچھ مختصر باتیں عرض کروں گا۔
خداوند عالم نے تمام انسانوں کے لیے، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، دو خواتین کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے: "وَ ضَرَبَ اللَہُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون" اور اس کے بعد "وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمران"(2) دو خواتین ہیں، جنھیں خداوند عالم نے پوری انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور آئيڈیل قرار دیا ہے، صرف عورتوں کے لیے نہیں، مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے۔ مختلف راویوں کے ذریعے شیعہ اور سنّی دونوں کے یہاں ایک روایت ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کہ میری زہرا کی فضیلت ان دونوں خواتین سے برتر و بالاتر ہے۔(3) یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ نمونۂ عمل ہیں، یہ صرف فضیلت نہیں ہے، اس پر توجہ رہے، نمونۂ عمل تو ہیں ہی، اوج ہیں، رفعت ہیں، ممکن ہے کہ میں اور آپ اس اوج پر، اس چوٹی پر نہ پہنچ پائيں لیکن اس کی سمت بڑھنا تو چاہیے ہی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد، روایات کے اختلاف کی بنا پر دو مہینے یا تین مہینے بعد کی اپنی اسی مختصر سی حیات میں حضرت فاطمہ زہرا نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، انھیں سب نے دیکھا، وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونۂ عمل ہو سکتی ہیں۔
یہ بات کہ ایک اکیلی خاتون، ایک جوان خاتون، ایک بڑے مجمع، ایک طاقت، ایک حکومت کے سامنے کھڑی ہو جائے، حق کا دفاع کرے، شجاعت کا مظاہرہ کرے، اس کی منطق، سبھی صاحبان منطق کو مطمئن کر دے، کام کو ادھورا نہ چھوڑے اور اپنی زندگي کے آخری ایام تک، کہ جب مدینے کی عورتیں ان کی عیادت کے لیے آتی ہیں، انہی حقائق کو، دین کی انہی مضبوط بنیادوں کو بیان کرے، یہ ایسی چیزی ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی نمایاں، ممتاز اور یکتا شخصیت کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر بات آئیڈیل ہے: حق کے لیے قیام، شجاعت، کھل کر بولنا، استدلال کی طاقت، استقامت۔ یہ وہی چیز ہے جو خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمائي ہے کہ "اَن تَقوموا لِلَّہِ مَثنىٰ وَ فُرادىٰ"(4) اگر دو لوگ ہوئے تو خدا کے لیے اس چیز کے سامنے کھڑے ہو جاؤ اور قیام کرو جو امر خدا کے خلاف ہے، اگر دو لوگ نہ ہوئے، ایک ہی ہوئے، اکیلے ہی ہوئے تب بھی قیام کرو۔ اس آیت شریفہ کا وہ حقیقی مصداق، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
خوارزمی نے جو علمائے اہلسنت میں سے ہیں، ایک روایت نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے سلمان، آنحضرت یہ بات سلمان سے کہہ رہے ہیں جو پہلے درجے کے صحابی ہیں، پیغمبر اپنی یہ بات اپنے سب سے قریبی صحابی سے بیان کرتے ہیں: فاطمہ کی محبت، سو منزلوں پر فائدہ پہنچائے گي یعنی اس دنیوی زندگي کے بعد کے مرحلے میں سو جگہوں پر تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان منزل موت اور قبر کی ہے۔(5) فاطمہ کی یہ محبت جہاں تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان جگہ موت اور قبر ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کے بارے میں حدیث ہے۔ پہلی نظر میں اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے محبت رکھوگے تو یہ فضیلت تمھارے لیے ہے، یہ ٹھیک بھی ہے، یعنی اس معنی میں کوئي مشکل نہیں ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تمھاری محبت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سو جگہ تمھارے کام آئے گي لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو اس معنی کے ساتھ ایک دوسرا مطلب بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "کسی سے فاطمہ زہرا کی محبت" کا یہ فائدہ ہے۔ یہ چیز عام بول چال میں بھی رائج ہے، کہتے ہیں فلاں کی دوستی تمھارے کام آئے گي، اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی تم سے ان کی شفقت، یہ بہت اہم ہے، یہ سخت ہے۔ وہ پہلا مطلب آسان ہے، جو بھی اس خورشید عالم تاب کو دیکھے، اس قمر منیر کو دیکھے، اس درخشاں ستارے کو دیکھے، ان فضائل کو دیکھے اسے محبت ہو جائے گي لیکن یہ دوسرا مطلب کہ وہ تمھیں چاہنے لگیں، یہ مشکل حصہ ہے۔
جو چیز مداحوں کی محفل کے لیے مناسب ہے وہ اسی بات کا ایک حصہ ہے: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس شخص کو چاہیں گي جو ان خصوصیات کو اپنی زندگي میں نمونۂ عمل بنائے۔ ان خصوصیات میں سے ایک، تبیین یا حقائق کا بیان اور حقائق کی تشریح ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس پہلے لمحے سے ہی حقائق بیان کرنا شروع کر دیا، انھوں نے ان سبھی سننے والوں اور ان سبھی لوگوں کو جو نہیں جانتے تھے یا جانتے تھے لیکن تجاہل عارفانہ کر رہے تھے یا بھول جانے والوں کو حقائق کے روبرو کر دیا۔ حقائق بیان کرنا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اہم ترین کام ہے۔
اہلبیت کی مداحی، حقائق بیان کرنے میں حضرت زہرا کی پیروی ہے۔ میں یہیں جملۂ معترضہ کے طور پر کہوں کہ آج ان حضرات نے جو پروگرام پیش کیا، وہ حقائق کا بیان تھا۔ یعنی اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت کے اظہار کے ساتھ، عشق و محبت کے اظہار کے ساتھ انھوں نے حقائق کی تشریح کی، آج کے حقائق کو بیان کیا۔ حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اس وقت کے حقائق کو بیان کیا، ان مسائل کو جو اسی دن پیش آئے تھے، اسی وقت کے مسائل تھے، آپ نے انھیں بیان کیا۔ آج کے مسائل کو بیان کرنا، ان کی تشریح کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی روایت میں آيا ہے: "اِنَّ المُؤمِنَ یُجاھِدُ بِسَیفِہِ وَ لِسانِہ"(6) مومن جہاد کرتا ہے، کبھی اپنی جان سے یعنی محاذ پر جاتا ہے، کبھی اپنی تلوار سے یعنی ہتھیار سے کام لیتا ہے اور کبھی اپنی زبان سے۔ زبان سے جہاد، جہاد کی اہم قسموں میں سے ایک ہے اور کبھی کبھی اس کی اہمیت اور اس کا اثر جان سے کیے جانے والے جہاد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ آپ مداح حضرات جو یہاں پر موجود ہیں اور پورے ملک کے تمام مداح حضرات ان سب کے لئے یہ بات ہے: زبان سے جہاد۔
اس جہاد کے وسائل آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کے پاس ایک کثیرالجہتی ہنر ہے، مدح خوانی ایک مخلوط ہنر ہے، پیرایا بھی، مواد بھی، دونوں ہنر ہیں، لفظ بھی ہنر ہے، معنی بھی ہنر ہے۔ یعنی یہاں کئي ہنر ایک دوسرے کے ساتھ ہو گئے ہیں اور انھوں نے مداحی کو وجود بخشا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم مداحی کی قدر سمجھیں، ہم بھی سمجھیں اور وہ خود بھی سمجھیں۔ مداحی کئي ہنروں کی آمیزش ہے، آواز کا ہنر، دھن کا ہنر، شعر کا ہنر، مجمع کو کنٹرول کرنے کا ہنر، کہ جو خود ایک بڑا ہنر ہے، لوگوں سے نظریں ملانے کا ہنر۔ آپ سائبر اسپیس میں لوگوں سے نظریں نہیں ملاتے ہیں بلکہ حقیقی محفل یا مجلس میں، حقیقی فضا میں آپ لوگوں سے بات کرتے ہیں، ان سے نظر ملا کر اپنی بات پیش کرتے ہیں، یہ خود ایک اہم ہنر ہے۔ بنابریں مداحی ایک مکمل میڈیا ہے اور چونکہ یہ ایک میڈیا ہے اس لیے یہ حقائق کے بیان کا ذریعہ ہو سکتا ہے، حقیقت کی تشریح کا ایک اہم وسیلہ۔
آج ہمیں حقائق کے بیان اور تشریح کی ضرورت ہے۔ آج لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح ہوتی ہیں جنھیں آپ بھی دیکھتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح نہیں ہوتیں اور ان کی ہمیں اطلاع ہوتی ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہن کو حقیقت کی طرف سے موڑ دیں۔ اس کا جواب کس کو دینا چاہیے؟ کسے اس ٹیڑھی لائن کو سیدھا کرنا چاہیے؟ کسے حقیقت کو بیان کرنا چاہیے؟ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ بڑا کام کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کی مداحی، آگہی بخش ہو، پہلے آگہی اور پھر امید بخش ہو یعنی مایوس کن نہ ہو اور آگے بڑھانے والی بھی ہو تب آپ نے ایک بنیادی اور بڑا کام کیا ہے جو بات کرنے اور پروپیگنڈہ کرنے کے بہت سے وسائل سے نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دشمن کی خوف زدہ کرنے کی سازش کا مقابلہ کر سکتے ہیں، دشمن کا ایک اہم کام خوفزدہ کرنا ہے، ڈر پھیلانا ہے، آپ دشمن کے اختلاف پھیلانے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں، آپ دشمن کے مایوسی پیدا کرنے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دیکھیے! یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں، ان میں سے ہر ایک، ایک بنیادی عنصر ہے، معاشرے کو بیدار کرنا اور یہی باتیں جو آپ نے یہاں کہیں کہ "ہم بیٹھے نہیں رہیں گے"، "ہم اسلام کا پرچم جولان پر لہرائیں گے"، "ہم شام کے روضۂ اطہر کا دفاع کریں گے" وغیرہ، یہ سب، ان باتوں پر منحصر ہیں، یعنی دشمن کے خوف پھیلانے کے منصوبے کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی اختلاف پیدا کرنے کی چال کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی مایوسی پھیلانے کی سازش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دشمن کا اصل وسیلہ، ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ آپ مضبوط ہیں، وہ آپ کی کمزوری کا پروپیگنڈہ کرتا ہے تاکہ آپ کو ڈرا دے۔ آپ کے ہاتھ مضبوط ہیں، وہ پرچار کرتا ہے کہ آپ کے ہاتھ خالی ہیں تاکہ آپ کو مایوس کر دے۔ ان باتوں پر توجہ دینا چاہیے۔
اسلام کے ابتدائي زمانے میں جنگ احد میں مسلمانوں کو چوٹ پہنچی، حمزہ سید الشہداء جیسی شخصیت شہید ہو گئی، امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی شخصیت سر سے پیر تک زخمی ہو گئي، خود پیغمبر اکرم کی ذات گرامی کو چوٹ پہنچی، کئي لوگ شہید ہو گئے۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے تو منافقین نے دیکھا کہ لوگوں کو ورغلانے اور اس صورتحال سے غلط فائدہ اٹھا کر زہریلے پروپیگنڈے کا اچھا موقع ہے تو انھوں نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کر دیا: "اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم"(7) انھوں نے کہا کہ سب تمھارے خلاف ایک ہو گئے، ڈرو۔ انھوں نے اس طرح کی باتیں شروع کیں۔ خداوند عالم نے اس بات کی وجہ سے وحی نازل کی۔ قرآن مجید کی آيت کہتی ہے: "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ فَلا تَخافوھُم"(8) یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تمھیں ڈراتا ہے، ان سے نہ ڈرو۔ منافقوں اور وسوسہ ڈالنے والوں کے رخسار پر قرآن مجید نے زوردار تھپڑ رسید کیا۔ آج یہ "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ" آپ کو کہنا چاہیے، اصحاب شعر و ادب اور فکر کو بیٹھنا چاہیے، سوچنا چاہیے، سننے اور دیکھنے والوں کے لیے قابل قبول اور دلنشیں استدلال تیار کرنے چاہیے، شعر کے لباس میں، مداحی کے آہنگ کے ساتھ اور اہلبیت کی مداحی کے معتبر مقام سے اسے لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔"اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ"
آج ہمارے علاقے کی خبروں کی شہ سرخی، شام کے مسائل ہیں۔ میں تجزیہ نہیں کرنا چاہتا، دوسرے تجزیہ کریں۔ مجھے اس سلسلے میں بات کرنی ہے، کچھ نکات بیان کرنے ہیں:
پہلی بات۔ ایک ہنگامہ آرائي کرنے والے اور شر انگیز گروہ نے غیر ملکی حکومتوں کی مدد اور ان کی منصوبہ بندی سے، ان کی سازشوں سے، شام کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو عدم استحکام میں دھکیل دیا، انارکی کی حالت میں پہنچا دیا۔ میں نے شاید دو تین ہفتے پہلے یہیں پر ایک تقریر(9) میں کہا تھا: ملکوں پر تسلط کے لیے امریکا کی چال، ان دو چیزوں میں سے ایک ہے: یا انفرادی آمرانہ حکومت بنانا کہ جا کر اس سے سازباز کریں، بات کریں، ملک کے مفادات کو آپس میں تقسیم کریں، یا تو یہ ہوگا۔ اگر یہ نہیں ہوا تو پھر انارکی، ہنگامہ آرائی۔ شام میں یہ چیز ہنگاموں پر منتج ہوئی۔ افراتفری پیدا کر دی۔ اب وہ بزعم خود فتح محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی، صیہونی حکومت اور جو ان کے ہمراہ ہیں۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ فتحیاب ہو گئے ہیں لہذا بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ شیطان والوں کی خاصیت یہی ہے کہ جب وہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب ہو گئے تو اپنی زبان پر سے ان کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے، وہ بڑبولے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، بکواس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ آج ہرزہ سرائي کرنے لگے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے بڑبولے پن کی ایک مثال یہ ہے کہ، اس کی باتوں کا لب لباب یہ ہے، اس نے کھل کر نہیں کہا، ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا لیکن پوری طرح سے واضح ہے کہ وہ یہی کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ جو بھی ایران میں ہنگامے کرے گا، ہم اس کی مدد کریں گے۔ احمقوں کو بلی کی طرح خواب میں چھیچھڑے دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ایرانی قوم، ہر اس شخص کو جو اس مسئلے میں امریکا کا پٹھو بننا قبول کرے گا، اپنے مضبوط پیروں تلے روند دے گي۔
دوسری بات۔ صیہونی، فتح کا دکھاوا کر رہے ہیں، فتحیاب جیسے لوگوں کا چہرہ بنا رہے ہیں، بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، رجز خوانی کر رہے ہیں۔ بدبختو! تم کہاں جیتے ہو؟ کیا غزہ میں جیتے ہو؟ وہ انسان جو بم سے چالیس پینتالیس ہزار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دے اور اپنے پہلے اعلان کردہ اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہ کر پائے، وہ فاتح ہے؟ کیا تم حماس کو ختم کر پائے؟ کیا تم غزہ سے اپنے قیدیوں کو چھڑا پائے؟ تم نے کہا کہ ہم حزب اللہ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور تم نے سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم شخص کو شہید کر دیا، کیا تم حزب اللہ کو ختم کر پائے؟ حزب اللہ زندہ ہے، فلسطینی مزاحمت زندہ ہے، حماس زندہ ہے، جہاد اسلامی زندہ ہے، تم فاتح نہیں ہو، تمھیں شکست ہوئي ہے۔ ہاں، شام میں تمھارے آگے راستہ صاف تھا، ایک سپاہی بھی ایک بندوق کے ساتھ تمھارے سامنے نہیں تھا اور تم ٹینکوں اور فوجی وسائل کے ساتھ کچھ کلو میٹر آگے بڑھنے میں کامیاب رہے لیکن یہ فتح نہیں ہے، تمھارے سامنے کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں، یہ فتح نہیں ہے۔ البتہ بلاشبہہ شام کے غیور اور شجاع جوان تمھیں یہاں سے نکال باہر کریں گے۔
تیسری بات۔ مختلف پروپیگنڈوں میں - کیونکہ ان کا سامنا اسلامی جمہوریہ سے ہے - لگاتار کہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے خطے میں اپنی پراکسی فورسز کو گنوا دیا! یہ بھی ایک دوسری بکواس ہے! اسلامی جمہوریہ کی کوئي پراکسی فورس نہیں ہے۔ یمن لڑ رہا ہے کیونکہ وہ باایمان ہے، حزب اللہ لڑ رہی ہے کیونکہ ایمان کی طاقت اسے میدان میں لاتی ہے، حماس اور جہاد اسلامی لڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ان سے یہ کام کرواتا ہے، یہ ہمارے پراکسی نہیں ہیں۔ اگر کسی دن ہم کارروائي کرنا چاہیں تو ہمیں پراکسی فورس کی کوئي ضرورت نہیں پڑتی۔ یمن میں، عراق میں، لبنان میں، فلسطین میں اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں شام میں باشرف اور باایمان مرد موجود ہیں جو خود ظلم سے لڑ رہے ہیں، جرم سے لڑ رہے ہیں، مسلط کردہ منحوس صیہونی حکومت سے لڑ رہے ہیں، ہم بھی لڑ رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس حکومت کو خطے سے ختم کر کے رہیں گے۔
جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں وہ سیاسی بیان نہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں جنھیں ہم نے قریب سے محسوس کیا ہے۔ یہ جاننا آپ کے لیے بھی بہتر ہے: حزب اللہ لبنان ایک عزت دار، مضبوط، ٹھوس اور فولادی گروہ ہے جو سنہ اسّی کی دہائي میں لبنان میں ہونے والی ہنگامہ آرائیوں سے پیدا ہوا۔ وہاں پورے خطے کو تباہ کر دیا تھا، خانہ جنگي سے، ہنگامہ آرائیوں سے، بدامنی سے، بدامنی اور عدم تحفظ کے درمیان حزب اللہ وجود میں آئي اور اس نے سر ابھارا۔ ہمارے عزیز شہید سید حسن سے پہلے مرحوم سید عباس موسوی بھی تھے، دوسرے بھی تھے، وہ بھی شہید ہو گئے، ان کی شہادت نے حزب اللہ کو کمزور نہیں کیا، اگر ہم یہ یہ نہ کہیں کہ مضبوط کیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، کل بھی ایسا ہی ہوگا۔ خطروں کے بطن سے مواقع نکلتے ہیں، اگر ہم متوجہ رہیں، ذمہ داری محسوس کرتے رہیں، جو کچھ ہمارے دل میں ہے اور ہماری زبان پر ہے، اسے عمل کے وقت دکھائيں تو ایسا ہوگا۔
اور میری پیشگوئی ہے کہ یہ واقعہ یعنی شام میں بھی ایک مضبوط اور باشرف گروہ کے سامنے آنے کا واقعہ ہو کر رہے گا۔ شام کے جوان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کی یونیورسٹی غیر محفوظ ہے، اس کا اسکول غیر محفوظ ہے، اس کا گھر غیر محفوظ ہے، اس کی سڑک غیر محفوظ ہے، اس کی زندگي غیر محفوظ ہے، وہ کیا کرے؟ اسے عزم کی طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھوں نے اس بدامنی کی سازش تیار کی ہے اور جنھوں نے اس پر کام کیا ہے، ڈٹ جانا چاہیے اور ان شاء اللہ وہ ان پر غلبہ حاصل کر کے رہے گا۔ اللہ کے لطف و کرم سے خطے کا کل، خطے کے آج سے بہتر ہوگا۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ ذاکرین اور مداحوں نے اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان کیے اور اس سلسلے میں اشعار پڑھے۔
2. سورۂ تحریم، آيت 11 اور 12، اوراللہ اہلِ ایمان کے لیے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی مثال پیش کرتا ہے ... اور (دوسری) مثال مریم بنت عمران کی ...
3. منجملہ، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، جلد 3، صفحہ 323، سیوطی، در المنثور، جلد 2، صفحہ 23
4. سورۂ سبا، آيت 46، تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کے لیے کھڑے ہو جاؤ ...
5. مقتل الحسین (علیہ السلام) جلد 1، صفحہ 100
6. تفسیر نمونہ، جلد 15، صفحہ 383
7. سورۂ آل عمران، آيت 173، ... لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر جمع کیا ہے لہذا ان سے ڈرو۔
8. سورۂ آل عمران، آيت 175، دراصل یہ شیطان تھا جو تمھیں اپنے حوالی موالی (دوستوں) سے ڈراتا ہے اور تم ان سے نہ ڈرو ...
9. پورے ملک سے آئے بسیجیوں (رضاکاروں سے ملاقات میں خطاب، 25/11/2024)
مغربی ثقافت غزہ و لبنان جنگ میں دفن ہوچکی! از رہبر انقلاب
مغربی ثقافت کی شکست!
اس سے بھی بڑی شکست، مغربی ثقافت کی شکست ہے، مغرب والوں نے دکھا دیا کہ ان کچھ برسوں میں یا کچھ صدیوں میں جو وہ انسانی حقوق اور حقوق بشر وغیرہ کا دم بھرتے ہیں، وہ سفید جھوٹ ہے۔
مغرب کے کان پر جوں تک نہ رینگی!
اس جنگ نے اسے دکھا دیا، اسے ثابت کر دیا، دس ہزار بچے قتل کر دیے گئے، کوئي مذاق ہے؟ بچہ، معصومیت کا مظہر ہے، لطافت کا مظہر ہے، وہ بنیادی نقطہ ہے جو انسانی جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے، ایسے دس ہزار معصوم بچوں کو اسرائيل نے دو ٹن والے بموں اور طرح طرح کے ہتھیاروں سے مار دیا اور مغرب والوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
اب کوئی مغربی تمدن کی بات نہ کرے!
مغربی سیاستداں رسوا ہو گئے، مغرب کی سیاست ذلیل ہو گئی، انھیں شکست ہو گئی، یہ ایک بڑی شکست ہے۔ اب کوئی مغربی تمدن کی بات نہ کرے! مغربی تمدن یہ ہے۔
مغربی تمدن، معصوم بچوں کا قاتل!
یہ مغربی تمدن ہے جس کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اپنے لوگوں سے مختلف طریقوں سے پیسے لے اور اسے چھوٹے اور معصوم بچوں کو قتل کرنے کے لیے بھیج دے، گھرانے تباہ ہو جائيں، دسیوں ہزار بچے شہید ہو جائيں، کئی ہزار بچے یتیم ہو جائيں، یہ مغربی تمدن ہے۔
اب مغربی کلچر کا دفاع ممکن نہیں!
اب اگر کوئی مغربی کلچر پر اعتراض کرے اور اسے بے حیثیت بتائے تو کسی کو اس کی ملامت نہیں کرنی چاہیے کہ جناب آپ ایسا نہ کہیے، نہیں، مغربی کلچر یہ ہے، مغربی تمدن یہ ہے، اسی کا نتیجہ ہے۔ یہ مغرب کو ہونے والی سب سے بڑی شکست ہے۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کے چند جلوے! از رہبر انقلاب
رسول الله کا استقبال کیلئے کھڑے ہو جانا!
مثلا پیغمبر اسلام کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے گھر یا اس جگہ تشریف لاتیں جہاں آپ موجود ہوتے تھے تو آپ “قام الیها” ان کے استقبال میں کھڑے ہو جاتے تھے اور آگے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کرتے تھے۔ یہ عظمت کی نشانی اور علامت ہے۔
تمام مکاتب اسلام میں محترم و مقدس!
آغاز اسلام سے اب تک پورا عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله علیها کو عظمت و عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک امت کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور اور مفکر پوری تاریخ میں ایک محوری ہستی کی مدح سرائی کرتے رہیں مگر یہ کہ وہ ہستی واقعی بے پناہ عظمتوں کی مالک ہو۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کسی سے موازنہ ممکن نہیں!
یہ سب عظمت کی علامتیں ہی تو ہیں، اٹھارہ سالہ نوجوان خاتون کہ جس کا سن مبارک تاریخ میں حد اکثر بائیس سال بیان کیا گیا ہے۔ سوائے آل رسول اور خود حضرت پیغمبر (صلوات اللہ و سلامہ علیہم) کے کسی سے بھی آپ کی عظمت کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا مرتبہ اور منزلت بہت عظیم ہے۔
جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی رضا، خوشنودیِ خدا کا مرکز!
میں صرف ایک حدیث عرض کروں گا جو آپ نے بارہا سنی ہے۔ یہ ایسی حدیث ہے جس کو شیعہ اور سنی سبھی نے نقل کیا ہے۔ حدیث یہ ہے کہ “انّ اللہ لیغضب لغضب فاطمۃ و یرضی لرضاھا” حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے، آپ کی رضا اور خوشی پر خدا بھی راضی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو انسان بھی اور جو مسلمان بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو ایسا کام کرنا چاہئے جس سے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خوش ہوں۔
عہد معارف ، رہبر معظم
Some of the Virtues of Hazrat Fatima Zahra (sa)!
The Messenger of Allah Standing up to welcome her!
For example, it is narrated about the Prophet of Islam that when Hazrat Zahra (sa) visited his house or the place where he was present, he would stand up to welcome her and even step forward to welcome her. This is a sign and symbol of greatness.
Respected and Holy Personality in all Sects!
From the beginning of Islam until now, the entire Islamic world, including both Shia and Sunni, view Hazrat Fatima Zehra (sa) with greatness and devotion. It is not possible that intellectuals and thinkers belonging to different sects and schools of thought of an ummah continue to praise a pivotal figure throughout history unless that figure truly possesses immense greatness.
Fatima Zahra (sa) cannot be compared to anyone!
All these are signs of greatness, an eighteen-year-old young woman whose age in history is stated at most as twenty-two years. Her greatness cannot be compared to anyone except the family of the Prophet (saw) and the Prophet himself. Her status and position is of such greatness.
The pleasure of Zahra (sa), the center of Allah’s pleasure!
I will only present one hadith that you have heard many times. This is a hadith that has been narrated by both Shia and Sunni. The hadith is that When Hazrat Fatimah Zahra (sa) is angry, God is angry, and when she is happy, God is also happy. This means that any human being or Muslim who wants to gain God’s pleasure should perform those acts which makes Fatimah Zahra (sa) happy.