
سلیمانی
مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی ویرانی ، تباہی اور پسماندگی کا سبب
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی ویرانی ، تباہی، بربادی اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت و بربریت کے مقابلے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، فلسطینی مسلمانوں ، یمن کے مظلوم اور ستمدیدہ مسلمانوں نیز دنیا کے دیگر علاقوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے مظلوم مسلمانوں کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بعض اسلامی ممالک کے سربراہان اپنے شخصی اور ذاتی مفادات کے لئے اسرائيل کی غاصب اور ظالم حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر فلسطینیوں کی زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مسلم ممالک کے سربراہان کو اس ذلت آمیز رفتار سے پرہیز کرنے کی سفارش کی اور مغربی ایشیائی ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی مغربی ایشیائي ممالک میں فوجی موجودگی اس خطے میں ویرانی ، تباہی اور پسماندگی کا سبب بن گئی ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم امریکہ کے رونما ہونے والے حالات میں امریکہ کے مظلوم عوام کے ساتھ ہیں اور امریکی حکومت کے نسل پرستانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال حج کے محدود پیمانے پر منعقد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خانہ کعبہ کی غربت کا احساس ہے اور ہمارے دل اس صورتحال میں بھی خانہ کعبہ کے پاس ہیں۔ ان شا اللہ ہم سب پہلی شان و شوکت کے ساتھ آئندہ سال حج کا فریضہ ادا کریں گے۔
حج بیت اللہ چند روایات معصومین علیہم السلام کی روشنی میں
گذشتہ دنوں مجھے چند ایک مسلم مفکرین کے حج کے حوالے سے مضامین پڑھنے کا موقع ملا، جن میں مولانا مودودی، مولانا ابو الکلام آزاد، امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر شامل ہیں۔ یقیناً درج بالا نام ان چند شخصیات کے ہیں جنھوں نے اس عظیم عبادت کے فلسفہ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ حج کے عبادی اور معنوی پہلوؤں پر تو تقریباً سبھی مفکرین کا اتفاق ہے، تاہم بعض کے نزدیک یہ عبادت فقط انفرادی، عبادی اور معنوی حیثیت کی حامل نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے لیے اجتماعی پیغامات بھی موجود ہیں۔ حج کے سیاسی اور اجتماعی پہلو کے حوالے سے امام خمینی، شہید مرتضیٰ مطہری اور شہید باقر الصدر نے متعدد تحریریں قلمبند کیں۔
قربانی حضرت ابراہیم ؑو اسماعیلؑ سے پہلے اور بعد
تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی (تنزانیہ)
جب ہابیل اپنی شرافت پاکیزگی نفس اطاعت و تقوی کی بنا پر اپنے والد حضرت آدم علیہ السلامؑ کے قریب ہونے لگے تو قابیل کو اپنے بھائی ہابیل کی نسبت باپ کی یہ مجبت پسند نہ آئی اوراپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے بھائی سے حسد کرنے لگا حضرت آدم نے اپنی مجبت کا راز ظاہر کرنے کے لئے دونوں کو راہ خدا میں قربانی کا حکم دیا ہابیل چوپان یعنی بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل دہقان (کسان) تھا اس لئے دونوں اپنی اپنی قربانیوں کے لئے تیار ہوئے ہابیل طہارت نفس وپاکیزگی روح کی بنیاد پر ایک موٹا تازہ دنبہ یاگوسفند راہ خدا میں قربانی کرنے کے لئے لایا جبکہ قابیل نے کچھ ردی بالیاں راہ خدا میں پیش کیں ۔
اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت آسمانی آگ تھی یعنی جس کی قربانی قبول ہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا ڈالتی چنانچہ یہی ہوا کہ ہابیل کی قربانی کو تھوڑی ہی دیر بعد آسمانی آگ نے جلا کر خاک کر دیا جبکہ قابیل کی ردی بالیاں میدان میں پڑی رہیں" اور پیغمبر آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی / سورہ مائدہ/ 26"
تو ابتدائے خلقت کا یہی واقعہ ہمیں قربانی کےآغاز کے بارے میں بتا تا ہے جو راہ خدا میں نبی آدمؑ علیہ السلام کے حکم سے انجام پائی ۔
قربانی ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ:
حضرت ابراہیم کا زمانہ نبوت آیا تو خداوند متعال نے نبوت کے ساتھ منصب امامت دینے کے لئے انھیں سخت آزمائشوں میں مبتلا کیا کیونکہ اطاعت ابراہیمی کی مثال انسانی تعمیر و تربیت میں آگے چل کر نہایت موثر واقع ہونے والی تھی اور ان کی زندگی خصوصیت سے نمونہ عمل قرار دی جانے والی تھی ، چنانچہ ابراہیم نار نمرود میں پھینکے گئے ، مکہ کی سنسان خشک و خالی زمین پر جناب ہاجرہ اور گود کے پالے اسماعیل کےساتھ ہجرت کا حکم ملا ، اور جب اللہ نے ان کے دل کے خلوص کوہر طرح سےآزما لیا تو پھر خواب میں جوان بیٹے اسماعیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ " پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا تو انھوں نے کہا بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاو کہ تمہارا کیا خیال ہے / سورہ صافات /102"
جناب ابراہیم نے اسماعیل جیسے ہونہار و معصوم بیٹے سے جب اپنا یہ خواب بیان کر دیا تو اسماعیل ؑ نےفرما یا : " بابا جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں انشا اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے / صافات 102 "
اور پھرباپ بیٹے دونوں اللہ کے حکم کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گئے جناب ابراہیمؑ نے اپنےجوان بیٹے کو راہ خدا میں قربان کرنےکےلئےمیدان منی میں لٹا دیا مگر اللہ نے اسماعیل ؑ کے بجائے دنبہ بھیج کر اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور قربانی کے اس حسین مظاہرہ کو خدا وند متعال نے تاریخ انسانیت میں محفوظ کر لیا ۔" اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھا یا / صافات 105 ۔ " خدا وند عالم کو باپ اور بیٹے کی یہ اطاعت وفرمانبرداری اس قدر پسند آئی کہ اسے ھمیشہ ھمیشہ کےلئےحج کے ارکان کا ایک جز قرار دے دیا ۔ چنانچہ جناب ابراہیم کی یہ قربانی شعار اللہ کا حصہ بن گئی اس لئے حج میں موجود تمام حاجیوں پر 10 / ذی الحجہ کو میدان منی میں قربانی کرنا واجب قرار دیا گیا اورعام مسلمانوں پر مستحب موکد رکھی گئی۔ اس لئے 10 / ذی الحجہ کو دنیا بھر میں اس عظیم قربانی کی یاد میں قربانیاں ہوتی ہیں اور اگر فوت ہو جائے تو 11 اور 12 / ذی الحجہ کو اس نیک عمل کو انجام دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
تاریخ آگے بڑھتی ہے :
آگے چل کر انھیں جناب ابراہیم کی نسل میں ہمارے نبی حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے جو کبھی کبھی مقام فخر میں فرمایا کرتے تھے " انا بنُ الذبیحین "
میں دو قربانیوں کا بیٹا ہوں جواشارہ ہےجناب اسماعیل کی قربانی اور اپنےوالد جناب عبد اللہ کی قربانی کی طرف،
واقعہ یہ ہے: کہ جناب عبد المطلب(نبی اکرم ؐ کے دادا ) کعبہ کے متولی تھے اور اکیلے تھے ، اس لئے حاجیوں کی شایان شان پذیرائی سے معذور رہتے ایک دن چاہ زم زم کی کھدائی کا ارادہ کیا اوراس وقت آپ کو اپنی تنہائی اورقوت بازوکی کمی کا بڑی شدت سے احساس ہوا اوربارگاہ خدا میں اس طرح سےگویا دعا کی ؛ بار الہا اگرتومجھے ! تومجھے دس فرزند عطا کردےجو تیرے امر میں ہمارے مددگار ہوں تو میں اپنے ایک فرزند کو تیری راہ میں قربان کردوں گا ۔ اللہ نےانکی یہ دعا سن لی ۔ نذر پوری کرنے کا وقت آگیا بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا ، جناب عبد اللہ ہمارے نبی کے والدجو فضائل و کمالات ، خاندانی وجاہت او رزیبائی وخوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا نام نکلا ۔اہل خاندان اور مکہ والے اس بات سےبہت رنجیدہ ہوئےاور آخر کار مشورہ یہ دیا گیا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں میں قرعہ اندازی کریں اور جب پھر عبد اللہ ہی کا نام قرعہ میں نکلا تو لوگوں کے مشورے سےاونٹوں کی تعداد بڑھاتے چلے گئے یہاں تکہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہونچ گئی جو ایک انسان کی کامل دیت بھی ہے تواس وقت جناب عبد اللہ کےبجائےقرعہ اونٹوں کےنام نکلا ۔ اس طرح جناب عبد اللہ بچ گئے اور بدلہ میں سو اونٹ عبد اللہ کی جان پر قربان ہوگئے ۔اور
اس طرح ایک بار پھر ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد تازہ ہو گئی ۔
مگر ان مقدس قربانیوں کے حکم کے باوجود انسان کی قربانی کے بجائے جانور کی قربانی کا راز تاریخ میں چھپا رہا اور تاریخ نے آگے بڑھ کر اس راز سے اس وقت پردہ اٹھایا جب فخر ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ ، سبط رسول صلیاللہعلیہ وآلہ وسلم یعنی حضرتؐ امام حسین علیہ السلام دسویں محرم سن اکسٹھ ھجری کو میدان کربلا میں فوج یزید کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قرآن کریم کے مطابق" و ٙ فٙدٙیْناہُ بِذِبح عظیم ۔ اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کوقرار دے دیا ہے / صافات 107 ۔"
کی تفسیر روشن ہو کر سامنے آئی
اس مقام پر علامہ اقبال کہتے ہیں :
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
سر ابراہیم و اسماعیل بود
یعنی آن اجمال را تفسیر بود
اس طرح امام حسینؑ قربانی ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کی تفصیلی مثال بن کر افق تاریخ انبیا پر ظاہر ہوئے جو آج بھی مومنوں کے قلوب کو گرما رہی ہے اور انسانیت کو ہدایت کا راستہ دکھا رہی ہے ۔ اور راہ دین میں قربانی کا فلسفہ واضح کر رہی ہے ۔گویا دین کی بقا اور دوام معصوم نبی کی قربانی چاہتا ہے یا معصوم امام کی قربانی کا طالب ہے اس لئے آج بھی پیغمبرؐ کے سچے پیروکار قربانی ابراہیم و اسماعیل کی یاد بھی مناتے ہیں اور شہادت سبط نبی حضرت امام حسین کی بھی یادکو تازہ کرتے ہیں ۔اس طرح دس ذی الحجہ اور دس محرم کی قربانی کا تناسب ایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔
ہبر انقلاب سے عراقی وزیر اعظم کی ملاقات؛ شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ قتل کو کبھی بھول نہیں سکتے/ ایران امریکہ پر کاری ضرب لگائے گا
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شام عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کیساتھ ہونے والی ملاقات میں عراق کی حکومت کو کمزور کرنے والے ہر اقدام کی مخالفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے سب سے اہم بات عراق کے مفادات، سلامتی، عزت، وقار اور اس کی علاقائی صورتحال میں بہتری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عراق کے حوالے سے امریکی موقف ایران کے موقف کے بالکل برعکس ہے فرمایا عراق اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں ایران مداخلت نہیں کرتا ، لیکن عراقی دوستوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امریکہ کو اچھی طرح پہچانیں اور سمجھ لیں کہ امریکہ نے جس ملک میں بھی قدم رکھا وہاں اس نے فساد، تباہی اور بربادی پھیلائی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو توقع ہے کہ عراقی حکومت، عوام اور پارلیمنٹ کی جانب سے امریکیوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر عمل پیرا ہوگی اس لئے کہ ان کی موجودگی عدم تحفظ کا باعث ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ہاتھوں شہید جنرل سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کے بہیمانہ قتل کو عراق میں امریکہ کی موجودگی کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا ایران کبھی بھی اس مسلئے کو نہیں بھولے گا اور امریکہ پر کاری ضرب لگائے گا۔
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران اور عراق کے باہمی تعلقات کے بہت زیادہ مخالفین ہیں کہ جن میں سر فہرست امریکہ ہے لیکن کسی بھی طور امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ امریکہ کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح آیت الله العظمی سید علی سیستانی کو عراقی عوام کیلئے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا عراق میں الحشد الشعبی بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ جس کی حفاظت کرنی چاہئیے۔
اس ملاقات میں عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات کو بہت بڑی سعادت قراردیا اور داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف عراقی حکومت اور عوام کی حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عراقی عوام اور حکومت مشکل صورتحال میں ایران کی مدد ، ہمدردی اور حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
عراقی وزیراعظم نے عراق اور ایران کے تاریخی، ثقافتی اور دینی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی نصیحتیں مشکلات کا بہترین راہ حل ہیں اور میں آپ کی ہدایت اور رہنمائی پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اتحاد ، صدی معاملے کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ /فلسطین کی حمایت میں ایران کا اہم کردار
مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ ںگار کے ساتھ گفتگو میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندے خالد قدومی نے صدی ڈیل کا مقابلہ کرنے اور فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی برقرار کرنے کے سلسلے میں ایران کے اہم ، اساسی اور بنیادی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ، صدی معاملے کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔
خالد قدومی نے فلسطینی تنظیم فتح اور حماس کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا فلسطینی عوام کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے فلسطینیوں کو ان کے اہداف سے دور کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نت نئی سازشیں کررہے ہیں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور سینچری ڈیل کو ناکام بنانے کے سلسلے میں فلسطینی عوام اور حکام کے درمیان اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے اس موقع پر فلسطینیوں کو اپنے داخلی اور اندرونی اختلافات کو فراموش کرکے فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی نجات کے سلسلے میں مشترکہ اور متفقہ اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔
خالد قدومی نے حماس اور فتح کے درمیان مشترکہ قومی کانفرنس منعقد کرنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس اور فتح کو اسرائیل جیسے مشترکہ دشمن کا سامنا ہے اسرائیل کو امریکہ جیسی سامراجی طاقت کی حمایت اور پشتپناہی حاصل ہے ۔ امریکہ نے خطے میں موجود اپنے عرب اتحادیوں کو بھی اسرائیل کے بالکل قریب کردیا ہے اور ایسی صورتحال میں فلسطینیوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور مشترکہ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد و یکجہتی کا عملی طور پر مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مہر نیوز کے مطابق حماس کے نمائندے نے اسرائیل کے ساتھ کئی عشروں سے جاری مذاکرات کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات اچھی بات ہے لیکن مذاکرات کے سائے میں فلسطینیوں سے ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی گئی اور فلسطینیوں کو ان کے اصلی اہداف سے منحرف کرنے کے لئےمذاکرات کا ڈھونگ رچایا گيا۔
حماس کے نمائندے نے حماس اور فتح تنظیموں کے درمیان ممکنہ اتحاد کے بارے میں مہر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حماس اور فتح کے درمیان اتحاد بالکل ممکن ہے اگر امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہوسکتے ہیں تو حماس اور فتح تنظیمیں بھی مشترکہ اور متفقہ طور پر اسرائیل اور امریکہ کی گھناؤنی سازشوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔
حماس کے نمائندے نے فلسطین کی آزادی کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے یوم قدس کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے بارے میں ایران کا کردار اساسی، بنیادی اور اہم ہے ایران نے اب تک فلسطین کے بارے میں عملی طور پر ٹھوس اور اہم اقدامات انجام دیئے ہیں ۔ ہمارا ایران کی عملی حمایت پر ایمان ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایرانی وزير خارجہ نے عالمی سطح مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے ایرانی حکومت اور عوام کے احسان کو فلسطینی عوام کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
نھج البلاغہ میں عبادت کے اقسام

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر
عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ھیں۔”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]
”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ھیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ھیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ھیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔ اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
پھلی قسم :تاجروں کی عبادت
فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“
یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ھیں۔ امام فرماتے ھیں یہ حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ھم و غم فقط نفع اور انعام ھوتا ہے۔ کسی کی اھمیت اُس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نھیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رھا ھوتا ہے۔
دوسری قسم :غلاموں کی عبادت
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔
امام فرماتے ھیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ھیں یہ بھی حقیقی عبادت نھیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نھیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نھیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رھا ہے۔
تیسری قسم :حقیقی عبادت:
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔
امام فرماتے ھیں کہ کچھ لوگ ایسے ھیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ھیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یھاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ھیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ھیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔
عبادة کے آثار میں سے ایک اھم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ھیں:
”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)
امام علی(ع) فرماتے ھیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ھیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ھیں“
حوالہ:
[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔
امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا نیا انداز
تحریر: حسین الموسوی
دہشت گردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ دشمنی پر مبنی ہر ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں مدمقابل شخص یا افراد میں رعب اور وحشت کی فضا پیدا ہو جائے اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی ہر ایسا عمل ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں یا غیر ملکی گروہوں اور حکومتوں کے خلاف انجام دیں جس کے نتیجے میں وہ غیر ملکی حکومت یا اس کے شہری خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں اور انہیں جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچ جائے۔ اگر ہم ریاستی دہشت گردی کی اس تعریف کو سامنے رکھیں تو ہمیں امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں اس کی بہت سی مثالیں اور نمونے مل جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آنے والے اقدامات کے انداز بھی بدلتے رہے ہیں۔
حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے دو جنگی طیارے تہران سے بیروت جانے والے ماہان ایئر کے مسافر بردار طیارے سے انتہائی قریب ہوئے جس کے نتیجے میں مسافرین میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوا۔ پائلٹ نے بھی ممکنہ خطرناک صورتحال سے بچنے کیلئے انتہائی تیزی سے اپنی اونچائی کم کی جس کے نتیجے میں کئی مسافر زخمی بھی ہو گئے۔ یہ ایران کے خلاف امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ تھا اور اس کا انداز بھی ماضی میں انجام پانے والے ریاستی دہشت گردی کے واقعات سے بہت مختلف تھی۔ یاد رہے امریکی حکومت نے ایران کی فضائی کمپنی ماہان ایئر کے خلاف بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ماہان ایئر کے طیارے فوجی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہیں۔
تہران سے بیروت جانے والی مذکورہ بالا پرواز ایک مسافر بردار طیارے کی صورت میں تھی۔ لہذا اسے جنگی طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی ملک پر عائد کردہ پابندیاں صرف امریکہ کے قانون کے تحت انجام پاتی ہیں اور بین الاقوامی قانون میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایران کا لبنان جانے والا مسافر بردار طیارہ جس وقت امریکی جنگی طیاروں کی جانب سے خطرے کا شکار ہوا شام کی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔ یعنی یہ طیارہ امریکہ کی فضائی حدود میں نہیں تھا۔ دوسری طرف اس کا فضائی روٹ اور پرواز تمام تر بین الاقوامی فضائی قوانین کے عین مطابق تھا۔ جبکہ شام کی فضائی حدود میں امریکہ کے جنگی طیاروں کی موجودگی اس ملک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کے عین مخالف تھی۔
ایک ملک کے جنگی طیاروں کا غیر قانونی طور پر دوسرے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہو کر تیسرے ملک کے مسافر بردار طیارے کو خطرے کا شکار کرنا ریاستی دہشت گردی کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعوی ہے کہ عراق میں اس کے جنگی طیارے داعش کے خلاف تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے تحت موجود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد داعش مخالف فوجی اتحاد کو نہ تو عالمی برادری اور نہ ہی اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی قانونی جواز حاصل ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اس اقدام کے بعض ممکنہ انتہائی خطرناک قسم کے اہداف بھی سامنے آ رہے ہیں۔ لبنان میں شام کے سفیر عدنان محمود نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دے کر ایرانی مسافر بردار طیارے کو میزائلوں کا نشانہ بنانا بھی ہو سکتا ہے۔
عدنان محمود نے کہا ہے: "میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کے حالیہ اقدام کا مقصد شام کے فضائی دفاعی نظام کو دھوکہ دینا تھا۔ امریکی جنگی طیارے چاہتے تھے کہ شام کا میزائل ڈیفنس سسٹم ان کی جانب میزائل فائر کرے اور وہ میزائل ایرانی مسافر طیارے کو آن لگیں۔ لہذا یہ اقدام ایک بین الاقوامی جرم قرار دیا جا رہا ہے اور امریکہ کو اس پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق سزا ملنی چاہئے۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ قانون توڑنے والی قوتوں کو اس سے پہلے کہ کوئی بڑی تباہی پھیلا دیں روکنے کی ضرورت ہے۔" لہذا ریاستی دہشت گردی کے بارے میں اپنی ہی تعریف کی رو سے امریکہ کا یہ اقدام ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
امریکہ گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف مختلف قسم کے دہشت گردانہ اقدامات کا ارتکاب کرتا آیا ہے جن میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی دہشت گردی شامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ حکومت اندرونی سطح پر بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہے لہذا وہ ایسے اقدامات کے ذریعے اپنی عوام کی توجہ ملک سے باہر مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کا کھلا ثبوت دیتے ہوئے اپنے جنگی بحری جہازوں کے ذریعے ایران کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا۔ حالیہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت شدید بحرانی صورتحال کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ صرف ایسی صورت میں ہی کوئی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہے۔
آیا صوفیا مسجد کی تاریخ
ترک عدالت نے قانون اور بازنطینی حکمرانوں کے ساتھ کئے گئے سلطان محمد کے معاہدے کی رو سے مسجد کی بحالی کا حکم دے دیا۔ صدر طیب اردگان عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے ہی آمادہ تھے، 10 جولائی کو طیب اردگان کی ڈگری کے اجراء کے بعد تاریخی مسجد آیا صوفیا کا قدیم تشخص بحال کرتے ہوئے اسے عجائب خانہ سے دوبارہ مسجد میں بدلنے کا عمل جاری ہے۔ آرائش و تزئین کے بعد اسے نماز کے لئے کھول دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ آیا صوفیا مسجد میں سیاحوں کی آمد پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ مخصوص اوقات کار میں سیاح آ سکیں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب بیت المقدس کی آزادی کی کا وقت قریب آگیا ہے۔ نوٹر ڈیم کیتھڈرل میں عبادت بھی ہوتی ہے اور سیاحوں کے لئے بھی کھلا ہے، یہی پوزیشن صوفیا مسجد کی بھی ہوگی۔ عدالتی فیصلہ سنتے ہی متعدد افراد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے مسجد پہنچ گئے تھے، صدر ترکی طیب اردگان کے حکم پر 85 برس بعد پہلی نماز 25 جولائی کو ادا کی جائے گی۔ استنبول کی شان اور ترک ثقافت کی پہچان مسجد آیا صوفیا (خدا کی حکمت) کئی سو برس پرانی ہے۔ 500 برس تک ترکی میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکانے کی بہترین جگہ تھی۔ 9 صدیوں تک آیا صوفیا کو دنیا کے ایک بڑے شاہی مرکز اور گرجا گھر کی کی حیثیت حاصل رہی۔
مسجد بنانے کے مخالفین
مسجد کے کھلنے کا حکم جاری ہوتے ہی کئی ممالک میں کہرام مچا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی مسجد کی بحالی قبول نہیں کی۔ یہ سب مسجد کی جگہ عجائب خانہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس اور امریکہ کے صدر ترکی کے فیصلے کو قدامت پرست فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومیو کا مخالفانہ بیان کوئی انوکھی بات نہیں۔ روسی سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کونستاتن کوسا شیف نے انتباہ کیا کہ فیصلے پر انتہائی منفی ردعمل آسکتا ہے۔ فرینکفرٹ میں قائم عالمی کونسل برائے چرچز نے صدر کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس فیصلے پر گہرے رنج و غم اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
یونیسف نے بھی ترکی کی انتطامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں مسجد کی بحالی کو بنا سوچے سمجھ اٹھایا گیا فیصلہ قرار دیا ہے، عالمی عجائب گھر ہونے کے ناطے مسجد کی بحالی سے پہلے عالمی شخصیات سے بات چیت بھی ضروری تھی، یکطرفہ طور خود سے مسجد کی بحالی درست نہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فیصلے کو تبدیل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ عالمی ثقافتی ورثہ کو مسجد میں بدلنے پر یورپی یونین بھی خوش نہیں۔ یورپی یونین نے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عجائب گھر قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مسیحیوں کی عالمی تنظیم نے بھی ترکی کے صدر سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض عیساائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پرانے تشخص کی بحالی سے دنیا ایک بار پھر مشرق اور مغرب میں بٹ جائے گی، کسی نے کہا کہ اس سے 30 کروڑ قدامت پرستوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ بھارت میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس بھارت میں جہاں 80 لاکھ کشمیریوں کو گھر سے باہر نکلنے اور نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، جس کے مرکزی شہر دلی میں اسلامی نام رکھنے پر 39 افراد 23 فروری سے 26 فروری تک خاک اور خون میں نہلا دیئے گئے۔
کیا پورا گرجا گھر مسجد میں بدلا گیا؟
ہرگز نہیں۔ گرجا گھر میں سات اہم علوم کی تعلیم کے لئے عظیم الشان یونیورسٹی بنائی گئی تھی، لیکن یہ یونیورسٹی خستہ ہونے کے باعث بند کردی گئی تھی۔ سلطان نے نئی جگہ پر عالی شان یونیورسٹی قائم کی۔ ان کا تعمیراتی پلان منفرد تھا۔ انہوں نے اس عمارت میں مسجد کے لئے بہت سی تعمیرات کیں، جن کا ذکر الگ بھی کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال، مدرسہ، اسکول، لائبریری، باغ، مہمان خانہ، سرائے اور مقابر کے علاوہ دیگر تعمیرات بھی شامل تھیں۔ یہ سب سلطان کی حکمت علمی کا نتیجہ ہیں۔
گرجا گھر پر قبضے
مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس عمارت نے کئی رنگ روپ بدلے۔ آیا صوفیا 900 برس گرجا گھر رہا لیکن کئی بار اجڑا۔ رومیوں اور بازنطینی آپس میں لڑتے رہے اور گرجا گھر کا تشخص بدلتے رہے۔ موقع ملنے پر یونانیوں نے بھی گرجا گھر کی شکل بدل ڈالی۔ آیئے دیکھتے ہیں
537ء تا 1054ء: یہ بطور بازنطینی کرسچین گرجا گھر قائم رہا۔
1054ء تا 1204ء: یونانیوں نے قبضہ کرکے قدامت پرست کیتھڈرل بنا دیا۔
1204ء تا 1261ء :رومیوں نے قبضہ کرکے رومن کیتھولک چرچ میں تبدیل کردیا، دوسرے گروہوں کی تمام نشانیاں ایک بار پھر مٹا دی گئیں۔
1261ء تا 1453ء: اسے یونانی آرتھوڈکس میں بدل دیا گیا۔
مسجد مذہبی پیشواؤں کے کہنے پر بنائی گئی تھی
1453ء میں خلافت عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم کو فاتح قسطنطنیہ بھی کہا جاتا ہے، ان کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں فاتح ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا، فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد نے 1453ء میں رومیوں اور یونانیوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ جس کے بعد 29 مئی 1453ء کو خستہ حالت میں یہ عمارت ان کی سلطنت کا حصہ بن گئی۔ شکست خوردہ بازنطینی حکمرانوں نے اس عمارت کے حسن کو برقرار رکھنے کی التجا کی جسے مسلمانوں نے مان لیا۔ ایک مغربی دستاویز میں لکھا ہے کہ سلطان محمد فاتح مذہبی پیشواؤں کی مدد سے آگے بڑھتے رہے اور نئے روم کی بنیاد رکھنے کی جانب پیشرفت کر رہے تھے۔ قسطنطنیہ کے سلطان اور اوپر تلے بدلنے والے کئی پوپ بھی آپس میں سیاست کرتے رہے جس سے سلطان کو موقع مل گیا۔
سیاست کے جوڑ توڑ اور بنتے بگڑتے اتحادوں میں وینس کا کردار بھی کلیدی رہا۔ اٹلی کے حکمران کئی اہم شہروں (جیسا کہ فلورینس، وینس، نیپلز اور ریمینی) کا تبادلہ کرتے رہے لیکن ان تبدیلیوں کا فائدہ سلطان محمد کو پہنچا۔ جنوبی اٹلی میں ’’Otranto‘‘ نامی علاقے پر قبضہ ان کی آخری پیش قدمی تھی وہ اپنی سلطنت کو متحد اور منظم کئے بغیر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے، جس سے ترکی کی خلافت عثمانیہ کو زبردست دھچکا لگا۔ امریکہ میں ایک ہزار سے زائد ریڈیو سٹیشنز اور جرائد کو چلانے والے ادارے npr نے 10 جولائی 2020ء کو لکھا، ’’Turkey Converts Istanbuls Iconic Hagia Sophia Back into A Mosque‘‘ یعنی ترکی نے مشہور زمانہ آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد میں بدل دیا۔ دیگر کئی عالمی مضامین میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ترکی میں آیا صوفیا کا اسلامی تشخص بحال کردیا گیا ہے۔
نیو یورپ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق بازنطینی حکمران نے ہی اسے مسجد میں بدلنے کی التجا کی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ آرائش و تزئین کے بعد اسے مسجد میں ڈھال دیا جائے۔ سلطان محمد دوئم سے رابطوں کی تصدیق کئی دیگر جرائد و مضامین سے بھی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں کیا گیا معاہدہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ سلطان محمد کی منشاء یہ ہرگز نہ تھی، وہ شاہی محل اور شاہی خاندان کی عبادت گاہ کے طور پر ہی اسے قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے لیکن سابق حکمرانوں کی خواہش کے آگے سر جھکائے بنا نہ بنی۔ آخر کار انہوں نے چار میناروں کی تعمیر کے بعد اس شاہی محل نما عمارت کو مسجد میں بدل دیا۔ خلافت عثمانیہ کے پاس شاہی انجینئرز اور ماہرین تعمیرات کی کمی نہ تھی،سابق حکمران کے دل کی آواز کو سنتے ہوئے اسی وقت اسے مسجد میں ڈھالنے کا حکم دے دیا گیا۔
1453ء میں اسے مکمل طور پر مسجد کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور یہاں اذان کی آواز گونجنے لگی۔ مرکزی حصے میں قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی پہچان بنانے والے آیا صوفیا کو منفرد حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردیئے گئے اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی سربراہی میں روشن خیال حکومت برسراقتدار آگئی۔ کمال اتاترک نے 1935ء میں اولین حکم میں مسجد کا تشخص ختم کرتے ہوئے اس عظیم الشان عبادت گاہ کو عجائب گھر میں بدل دیا۔ کئی سو سال پرانی مسجد آیا صوفیا کو عجائب خانہ بنانے کی ڈگری جاری کردی گئی۔ سیکولر وزارتی کونسل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آیا صوفیا کی منفرد تاریخی اہمیت اور استنبول کے مرکز میں واقع ہونے کے پیش نظر اسے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
یہ عجائب گھر پوری مشرقی دنیا کے سیاحوں کے لئے اہمیت کاحامل ہوگا جس سے اقوام عالم کو نئے علوم سے روشناس ہونے میں مدد ملے گی‘‘۔ (بحوالہ کتاب ’’آیا صوفیا، ہولی وزڈم، ماڈرن مونیومنٹ مصنف رابرٹ نیلسن)۔ دنیا کے اس حصے کو نئے علم سے روشناس کرانے کے نام پر عالم اسلام کو پر شکوہ عبادت گاہ سے محروم کردیا گیا۔ قریب قریب دو صدیوں میں یہاں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے لیکن مصطفیٰ کمال نے جذبات کی پرواہ نہ کی۔ کیونکہ ہر سال لاکھوں افرد جوتوں سمیت اس پاک جگہ میں داخل ہوتے رہے۔
شائد مغرب کی حمایت کا حصول ان کے پیش نظر ہو، ان کا خیال ہوگا کہ خلافت عثمانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرکے ہی وہ مغرب کے ساتھ زندہ رہ سکتے تھے جیسے مغرب خوش ویسے ہی وہ بھی خوش۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے شکست خوردہ سابق حکمران کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے خود اس جگہ پر مسجد بنانے کی درخواست کی تھی۔ ان کے فیصلے کے خلاف کسی غیر ملکی نے یہ نہیں کہا کہ جناب آپ اسلامی تشخص کا خاتمہ کیوں کر رہے ہو۔ تاریخی حیثیت میں تبدیلی کی مخالفت کسی عالمی تنظیم یا ادارے نے نہیں کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ترک عوام نے مصطفیٰ کمال اتاترک کا یہ فیصلہ کبھی تسلیم نہیں کیا۔
بناوٹ، گنبد اور مینار
مسجد کے 197 فٹ بلند چار مینار اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ پنسل کی مانند بلند و بالا یہ چاروں مینار اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ اتنے بلند، پنسل سے مشابہہ مینار دنیا کے کسی اور حصے میں قائم نہیں۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد بنایا گیا اسلامی سمٹ مینار بھی اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے۔ گنبد کی بناوٹ آسمان سے مشابہہ رکھی گئی ہے۔ گنبد دیکھ کر اندر سے ایسے لگتا ہے جیسے آسمان سر پر سایہ فگن ہو۔ آسمان سے مشابہہ رکھنے کے لئے چھت کئی حصے نیلے رنگ سے ڈھانپ دیئے گئے۔ کہیں کہیں زرد رنگ بھی نمایاں ہے۔ مرکزی گنبد کے چاروں طرف 40 کھڑکیاں ہیں، جبکہ اندرونی حصے میں اسلامی خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں، چھت کے اندرونی حصوں پر کی گئی پچی کاری کی اپنی ہی شان ہے۔
ہر نمازی کے دل و دماغ میں اللہ کی شان اور اس کی عظمت کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ خطاطی کے یہ تمام نمونے درجہ کمال پر ہیں، کسی بھی عالمی شاہکار سے کم نہیں۔ مسجد کے چاروں بنائے گئے چھوٹے گنبد اسے دیگر مساجد سے ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں۔ یہ خلافت عثمانیہ کے انجینئرز اور کاریگروں کی اعلیٰ کاوشوں کا نمونہ ہیں۔ بظاہر یہ عجائب گھر تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی خطاطی اورحضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے نام مبارک اسے عجائب گھر سے کہیں زیادہ ممتاز اور اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کا فیصلہ ترک عوام نے کبھی قبول نہیں کیا، وہ برسوں سے نماز پڑھنے کی جستجو کررہے ہیں، مسجد کی بحالی کے لئے کئی مرتبہ قانونی اور عدالتی کارروائیاں کی گئیں لیکن عوام کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آخری مقدمہ 16 برس قبل دائر کیا گیا تھا، جس میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا تھا کہ آیا صوفیا کی زمین دراصل سلطان محمد کی ملکیت تھی اور انہوں نے ہی اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا، کمال اتاترک سلطان کا فیصلہ تبدیل کرنے کا مجاز نہ تھے۔
مسئلہ کشمیر و فلسطین، امتِ مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے
گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔
سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔
بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔
کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر: محمد ثقلین واحدی
امریکہ و غاصب صیہونی رژیم پر انتہائی سخت دن آنیوالے ہیں، جنرل اسمعیل قاآنی
ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ امریکی بے جا طور پر (اس حادثے کے) ذمہ داروں کا کھوج نہ لگائیں اور دوسروں کو قصوروار بھی نہ ٹھہرائیں، کیونکہ (امریکی جنگی بحری بیڑے کو لگی) یہ آگ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی بھڑکائی ہے، جس نے اب انہیں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جنرل قاآنی نے کہا کہ امریکیوں کو کہا جانا چاہیئے کہ پیش آنے والا یہ حادثہ تمہارے اپنے جرائم کا نتیجہ ہے، جبکہ یہ حادثہ بھی خود تمہارے ہی چیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہیں سزا دے رہا ہے۔
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاحال تمہارے خوشی کے دن چل رہے ہیں، جبکہ بہت جلد تمہارے اوپر سختی کے دن آنے والے ہیں، جن میں تمہیں اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کو شدید حادثات کے ساتھ روبرو ہونا پڑے گا۔ جنرل اسمعیل قاآنی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج اب تھک کر فرسودہ اور اس کا فوجی سازوسامان لوہے کے کباڑ میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدتوں سے امریکی بحریہ کے کمانڈرز یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی جنگی بحری بیڑے اب لوہے کے کسی ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نہیں رہے۔ سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ناگفتہ بہ صورتحال کو قبول کرتے ہوئے انسانیت پر مزید ظلم و ستم ڈھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے۔