سلیمانی

سلیمانی

 شام کے ساحلی علاقوں میں آج سنیچر کو بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور انسانی حقوق کے اداروں نے کئی خونریز مجرمانہ وارداتوں کی خبر دی ہے جن میں دمشق کی نئی حکومت کے  عناصر کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد عام شہریوں کا قتل عام کردیا گیا

ارنا کے مطابق شام کے ساحلی علاقوں میں  الجولانی کی صدارت میں دمشق کی نئی حکومت کے مسلح عناصر اور الجولانی کی پالیسیوں کے مخالفین کے درمیان کئی دن سے مسلحانہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق شام کی نئی حکومت کی پالیسیوں نے بالآخر علویوں میں غم وغصے کے لہر دوڑا دی اور جمعرات سے قرداحہ، جبلہ، لاذقیہ، طرطوس، حمص اور مصیاف سمیت مختلف شہروں میں وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔

الجولانی کے مسلح افراد نے ان پر امن مظاہروں کی سرکوبی کے لئے مظاہرین پر راست فائرنگ کردی ۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شہر حمص میں الجولانی کے مسلح افراد کی فائرنگ میں ایک شخص جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد پورے ساحلی علاقوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔


 

رپورٹوں کے مطابق صوبہ لاذقیہ کے الحفہ، المختاریہ اور الشیر نامی قصبوں میں الجولانی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں اور مسلح کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئيں جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔

ابلاغیاتی ذرائع نے بتایا ہے کہ دمشق کی عبوری حکومت کے مسلح افراد نے علویوں کا سر عام قتل عام کیا ہے۔

 
 

بتایا گیا ہے کہ  الجولانی کے مسلح افراد کے ہاتھوں علویوں کے ممتاز مذہبی پیشوا شیخ شعبان منصور، اپنے بیٹے کے ہمراہ پہلے اغوا ہوئے اور پھر قتل کردیئے گئے۔  

ابلاغیاتی ذرائع نے علویوں کے قتل عام کی پانچ مجرمانہ وارداتوں کی خبر دی ہے جن میں دمشق کی نئی حکومت کے مسلح عناصر کے ہاتھوں عورتوں اور بچوں سمیت 162  نہتے شہری قتل ہوگئے ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج سنیچر 8 مارچ کی شام اسلامی جمہوریہ ایران کے تینوں شعبوں، مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہوں نیز  دیگر حکام سے ملاقات میں شہید سید ابراہیم رئیسی کو یاد کیا۔

 آپ نے اپنے خطاب میں صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی گفتگو کی طرف جو موصوف نے ملاقات کے شروع میں کی تھی، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صدر جمہوریہ کی تقریر بہت وسیع، اچھی اور مفید تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو چیزی میری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے وہ ان کے اندر پایا جانے والا جذبہ ہے جو بہت اہم ہے ۔ ان کا یہ احساس بہت اہم ہے اور یہ بات میں نے خود ان سے بھی بارہا کہی ہے۔

   آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ " ان کی یہ بات کہ " ہمارے لئے ممکن ہے، یقینا انجام دیں گے، پیروی کریں گے، ہم خدا پر توکل  کرتے ہیں، خدا کے علاوہ اور کسی پر توکل نہیں کرتے" یہ بہت اہم ہے اور ان شاء اللہ نصرت الہی سے وہ یہ کام کرسکیں گے۔"  

 رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں فرمایا کہ " مغربی تہذیب کی بنیادیں، اسلامی بنیادوں کی مخالف ہیں اور اہم اس کی پیروی نہیں کرسکتے۔"  

آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں کہیں بھی پائی جانے والی اچھی باتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں لیکن جہاں اصولوں کی بات ہو تو ہم مغربی تہذیب کے اصولوں کو بنیاد نہیں بناسکتے۔  

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ " مغرب کے دوہرے معیار درحقیقت مغربی تمدن کی گھناؤنی حقیقت  سامنے لاتے ہیں؛ ان کے  دوہرے معیاروں کا ایک نمونہ آزاد اطلاع رسانی ہے۔"

 آپ نے فرمایا کہ  کیا آپ مغرب سے متعلق سوشل میڈیا میں حاج قاسم، سید حسن نصراللہ اور شہید ہنیہ کا نام تلاش کرسکتے ہیں اور یہودیوں کے بارے میں ہٹلر کے جرمنی کے بارے میں جو دعوے کئے جاتے ہیں، ان سے انکار کرسکتے ہیں؟ "

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ " ایران کے بارے میں یورپ والوں کا یہ دعوی بذات خود منھ  زوری ہے کہ ایران نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔"

آپ نے یورپ والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ "بے حیائی کی بھی حد ہوتی ہے۔"

روزہ ایک مقدس عبادت ہے مگر روزے کے نتیجے میں انسان کو ایسے حیرت انگیز طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ انسان کی ظاہری خوبصورتی، جلد کی تازگی، بالوں حتیٰ کہ ناخنوں کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق روزے کے بغیر انسانی جسم کی طاقت اور توانائی نظام انہضام کی وجہ سے صرف ہوتی ہے مگرروزے کے بعد جسم کی توانائی نظام انہضام کی ہدایت پرکام نہیں کرتی۔ بارہ گھنٹے کے روزے کے بعد انسانی جسم میں موجود زہریلا مواد اور دیگر فاسد مادے ختم ہو جاتے ہیں اور یوں جسم کو فاسد مادوں سے نجات ملتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثردرست نہیں کہ روزہ انسان کو کمزورکردیتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہارمونز حرکت میں آجاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ روزے سے انسانی جلد مضبوط ہوتی اور اس میں جھریاں کم ہوتی ہیں اور دراصل روزہ رکھنے سے انسان بڑھاپے کو روکنے کی کامیاب کوشش کررہا ہوتا ہے۔

جلد کی تازگی

ماہرین صحت کے مطابق روزے کی حالت میں جسم ان ہارمونز کو پھیلاتا ہے جو جلد کی خوبصورتی، ناخنوں کی چمک اوربالوں کی مضبوطی کا موجب بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ روزے سے انفیکشن بیکٹیریا کی روک تھام اور بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔گرمی کے موسم میں آنے والے ماہ صیام میں انسانی جسم کو روزے کے عالم میں پانی کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے، سخت گرمی میں جلد جھلس جاتی ہے جس پر ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ افطاری کے بعد اور سحری کے اوقات میں پانی کا بہ کثرت استعمال کیا جائے، اس سے جلد کو تازہ رکھا جاسکتا ہے۔ انسانی جلد اور ناخنوں پربھی روزے کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ناخن، سرکے بالوں کی نشونما اور ان کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی اور چہرے کی رنگت پر مرتب ہونے والے اثرات ناخنوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر

ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں اور حاملہ خواتین کو رمضان المبارک سے قبل اپنا طبی معائنہ کرا لینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا انہیں روزے کی حالت میں کون کون سے کام کرنا ہیں اور کھانے پینے میں کس طرح کی احتیاط کی ضرورت ہے۔ روزے کی وجہ سے زیادہ بھوک اور پیاس انسان کو طبی ضرورت سے زیادہ کھانے پینے پرمجبورکرسکتی ہے مگر سحری اورافطاری میں کھانے پینے میں اعتدال کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کھانا کھانے کے فوری بعد سونے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ جسم کو خوراک ہضم کرنے کا کچھ موقع ضرور دینا چاہیے۔

دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور روزے کے اصل مقصد سے واقف کروائیں۔

چھ؍ سال کا اکبر رمضان شروع ہوتے ہی اپنے آس پاس کے معمول میں تبدیلی محسوس کرتے ہوئے اپنی ماں سے کئی سوالات کرتا ہے، ’’ماں! یہ رمضان کیا ہوتا ہے؟‘‘ ’’ماں! سب لوگ اتنی صبح کیوں اٹھ گئے ہیں؟، اتنی جلدی ناشتہ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ’’ماں! افطار کیا ہوتا ہے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دیکھا جائے تو بچوں کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے آپ ان کی بہتر انداز میں تربیت کرسکتے ہیں۔ دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کے لئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے، ایسے میں خاص طور پر مائیں، بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے کی اہمیت کو اجاگر کریں اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روزے اور رمضان کے حوالے سے ایسی تعلیمات ان کے سامنے رکھیں، جن سے اخلاق و کردار کے حوالے سے مثالی سبق ملتا ہے۔

رمضان کا صحیح مطلب سمجھائیں
بچّوں کو رمضان کی آمد کا احساس دلائیں، انہیں ان کی عمر کے مطابق اس کے فضائل اور نعمتوں سے آگاہ کریں۔ مثال کے طور پر انہیں سمجھائیں کہ اگر آپ عام دنوں میں ایک نیکی کرتے ہیں، تو اس کا دس گنا ثواب ملتا ہے، مگر جب آپ رمضان المبارک میں ایک نیکی کریں گے، تو اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کا ثواب ستر گنا بڑھادیتا ہے۔ انہیں رمضان کی اصل روح سے متعارف کرواتے ہوئے اس مبارک مہینے میں دینی اور تاریخی لحاظ سے ہونے والے واقعات سے روشناس کروائیں۔ انہیں بتایئے کہ روزے کا مقصد صرف کھانا، پینا چھوڑنا نہیں، بلکہ اُن تمام کاموں سے دور رہنا ہے، جو اللہ اور اس کے حبیب، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ناپسند ہیں۔ جیسے غصّہ کرنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، کسی پر تہمت لگانا اور دیگر برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا۔

اپنے ساتھ بچوں کو نماز میں شامل کریں
رمضان کے مبارک مہینے میں گھر کے بڑے پابندی سے پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز میں اپنے ساتھ بچوں کو بھی شامل کریں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو نماز میں پڑھی جانے والی سورتیں یاد کروائیں۔ بچے ایک ہی دن میں نماز پڑھنے لگ جائیں گے، ایسا ہرگز نہ سوچیں۔ یہ عمل دھیرے دھیرے کام کرے گا۔ مائیں بیٹیوں کو جائے نماز، دوپٹہ یا اسکارف دیں تاکہ ان میں نماز کا شوق پیدا ہو اور بیٹوں کو ٹوپی پہنائیں۔ اس طرح بچّے کم عمر ہی سے نماز، روزے کے عادی بن جائیں گے۔

قرآن مجید کی تلاوت کی ترغیب دیں
رمضان المبارک میں بچّوں کے ساتھ مل کر تلاوت قرآن پاک کا خاص اہتمام کیجئے۔ دن میں کم از کم ایک بار تلاوت کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ بٹھایئے اور وہ جو پارہ پڑھ رہے ہوں ان سے ان کے سبق کی تلاوت کروایئے۔ تلاوت پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تذکرہ کیجئے اور محبت بھرے تعریفی کلمات سے ان کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ آپ کی حوصلہ افزائی پاکر بچے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔

سحری و افطار بناتے وقت ساتھ رکھیں
سحری و افطار کی تیاری کرتے وقت بچوں کا تعاون حاصل کریں۔ ان سے کوئی پھل چھیلنے کے لئے کہیں۔ کسی بچے کو دسترخوان سجانے کی ذمہ داری دے دیں۔ کبھی بچے سے دسترخوان سمیٹنے کے لئے کہیں۔ اس طرح چھوٹے موٹے کام ان سے کرواتے رہیں۔ بعض دفعہ بچے بڑی خوشی دلی سے ان کاموں کو انجام دیتے ہیں لہٰذا ان کی حوصلہ افزائی ضرور کیجئے گا۔

دوسروں کی مدد کا پیغام دیں
رمضان کے مبارک مہینے میں اپنے سے کمتر کی مدد کی جاتی ہے۔ یہی جذبہ اپنے بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسروں کی مدد کرتے وقت بچوں کو ساتھ رکھیں۔ انہیں سمجھائیں کہ کسی کی مدد کرتے وقت غرور نہیں کرنا چاہئے، اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔ بچے کو یہ بھی درس دیں کہ مدد کرتے وقت نمائش نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک ہاتھ سے اس طرح دینا چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کم عمر سے بچوں کو سکھائی گئی یہ باتیں آگے چل پر پختہ ہوجاتی ہے اور وہ بڑے ہوکر بھی دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔

روزہ رکھوائیں
بچوں کو بتدریج روزہ رکھنے کی عادت ڈالیں، نسبتاً بڑے بچّوں کو جن پر روزے فرض ہونے والے ہوں۔ رمضان میں بچّوں سے وقفے وقفے خاص طور پر جمعہ کے دن کا روزہ رکھوائیں۔ لیکن بہت زیادہ کم عمر کے بچوں سے روزہ نہ رکھوائیں کیونکہ بعض دفعہ وہ روزہ کا اصل مطلب تک نہیں جانتے لیکن ان کے والدین ان سے روزہ رکھواتے ہیں۔ لہٰذا مناسب عمر میں ہی بچوں سے روزہ رکھوائیں۔

دین اسلام کاایک نهایت هی اهم مقصد،مسلمانو ں کے درمیان اتحادویکجهتی قائم کرنا ہے. قرآن وسنت کے رو سے جیسااتحادووحدت قائم کرناواجب ہے،ویساهی اختلاف وتفرقه سے بچناضروری امر ہے.ائمه اطهار(علیهم السلام)اورمعتبراسلامی شخصیات کی زندگی بھی،امت مسلمه کو اختلافات سے بچاکر،اتحادووحدت برقرارکرنے میں بسرهوئی .همارے پاس،کم ازکم تین ایسے بنیادی اصول ہیں جومسلم امه کے درمیان  نظریاتی اورفکری هم آهنگی ایجادکرسکتے ہیں،یوں یه تینوں اصول ،امت مسلمه کے درمیان   ایک اهم اوربنیادی کرداراداکرسکتے ہیں.یه تینوں اصول ،پور ے معاشر ے کومادی،معنوی،فکری اورعلمی حوالے سے ارتقاءکی طرف لے جاسکتے ہیں.یوں اسلامی مختلف فرقوں کواس  مقدس قرآنی اوراسلامی اهداف کے قریب کرسکتے ہیں که جن  کے حصول  کے بغیرمعاشر ه ترقی نهںی کرسکتا.یه اصول مندرجه ذیل ہیں:توحید،نبوت اورمعاد.

واژه های کلیدی (بنیادی الفاظ): مشترکه اصول ، توحید، نبوت، معاد،وحدت.

وحدت کیوں اورکس لئے ؟

قرآن کریم همیشه مسلمانوں کووحدت کی طرف بلاتانظرآتا ہے.قرآن کی نگاه میں وحدت کے بغیر،معاشرتی ترقی کاکوئی تصور نهیں ملتا.انسانی تکامل اورترقی کادارومداراسی پر ہے.اتحادوهم آهنگی هی کے سایے میں بشردین ودنیاکی سعادتیں حاصل کرسکتا ہے.قرآن پورے انسانوں میں،مومنین سے مخاطب هوکرا سے دستوردے رهاہے که معاشره میں اتحادقائم کریں«يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا»( آل عمران: 10۲ـ103)

 

اس آیه مبارکه میں قابل توجه نکته یه ہے که الله تعالی نے،بیک وقت چارچیزو ں کا حکم  دیا ہے.تقوی الهی اختیارکرنا،حالت مسلمانی اورتسلیم میں زندگی گذارنا،حبل الله سے تمسک اورتفرقه سےبچنا. ایک معاشرے میں زندگی بسرکر نے کےلئے ،یه چارسنهرےاصول هیں.سیاق درونی اوربیرونی آیه سے پته چلتاہے اتحادواجب اورتفرقه حرام ہیں.امت مسلمه کےهرفردپرواجب ہےکه وه متحدرهنے ساتھ ساتھ همه گیراتحاد کےلئے عملی قدم اٹابئے.جس طرح«اعْتَصِمُوا»فعل امرہے اوروجوب پردلالت کرتاہے اسی طرح«لا تَفَرَّقُوا»فعل نهی ہےجوحرمت پردلالت کرتاہےیعنی جس طرح وحدت ایجادکرناواجب ہےاسی طرح تفرقه کرناحرام ہے.

قرآن کریم مسلمانوں کودوسری طرف  سے ایک  اهم ترین عنوان دیتانظرآ رهاہے اوروه عنوان،« امت » کاعنوان ہے. «كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر».(آل عمران:110). اس آیت میں ،مسلم امه کوبهترین امت کهاگیاہے که اس امت کی خلقت کامقصدهی رهبری اورهدایت ہے. اس امت کی تخلیقی هدف اورغایت هی انسانیت کی هدایت ہے.ظاهری بات ہےجوخودهدایت یافته نه هو،وه کسی دوسرے کی هدایت کیسے کرے؟سب سے پهلے یه خودامت بنے،امت بدون وحدت کیسے بن سکتی ہے ؟ اس وقت مسلمان کثیرتعداد میں هونے کے باوجودتمام بین الاقوامی پلٹ فارم په منفعل نظرآتا ہے ،جس کی بنیادی وجه یهی ہے که هم امت نهیں بنے.هم نےقرآنی دستورات په عمل نه کیا.قران نے جن چیزو ں کاحکم دیا تا  ،مسلمانوں نے انهیں فراموش کیئے .قرآن چوده سوسال سے جس خطرکی طرف مسلمانوں کی توجه دلارها ہے، وه خطر،اختلاف کاخطرہے : « ُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُم»(انفال:46) اگراختلاف کروگے توتمهاری شان وشوکت خاک میں مل جایے گی ،تمهاری عزت ختم هوگی،ذلت ورسوائی تمهاری مقدربن جائے گی.قران معاشرے میں، اسلامی بھائی چارے کی فضادیکناکچاهتاہےلهذاایک قانون اخوت قائم کرتاہے،اوراعلان کرتاہے:« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»(حجرات:10)‏.

میرےخیال میں، مسلمانوں کےلئے یه ایک عمومی میثاق کی حثیت رکھتاہے که اگراس میثاق په عمل هوجائے تومسلم امه بدلنے میں دیرنه لگےگی.مسلمان ،صدراسلام کی وهی عزت واقتدارحاصل کرسکتا ہے. قران  معاشره میں انسانی ،اسلامی فضاقائم کرنے کی غرض سے ایک اوراصل وقانون کانه تنهااعلان کرتا ہے،بلکه عملی طورپراس کانفاذ بھی چاهتا ہے.اور وه اصل، « قانون تعاون» ہے،تقوی اورنیکی کی بنیادپر« تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى‏ »(مائده:2).

یه قانون معاشره میں،عدل وانصاف اورباهمی تعاون کوتقوی اورنیکی کی بناپر،پورےمعاشرے میں فروغ دیناچاهتا ہے ،جس کی وجه سےمعاشره،رشدوکمال کی طرف گمزن هوگا.معاشره میں انسانی اورالهی اقداربلندهوگا.قرآن معاشره کوفساد،فتنه،اوردوسرے اخلاقی اوراجتماعی برائیوں سے بچانے کی خاطرایک اوراصل وقانون کااعلان کرتا ہےاوروه اصل،« قانون عدم تعاون » ہے، گناه وسرکشی کی بنیادپر. «وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوان‏»(مائده:2).جب پورامعاشره،گناه اورتجاوزکی حوصله شکنی کرے گاتویقیناوه معاشره،ترقی کرےگااوریه قرآن کی نظر میں،ایک مطلوب معاشره هوگا.البته ایسے معاشرےمیں،رهبرکاکرداربهت اهم هوگا.کیونکه ایک حقیقی الهی رهبرهی لوگوں کےدرمیان اتحاد ووحدت کی کوشش کریں گے.

معاشرےمیں ،وحدت قائم کرنےسےمتعلق ،انبیاءکرام (علیهم السلام)،خاص کرهمارے نبی حضرت محمدمصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کاکرداربےمثال ہے.مخصوصامدنی زندگی میں هر طرف اتحادو بارئی چارے کی فضانظرآنےلگی،جس کےنتیجے میں مختلف جھنگوں میں فتوحات کےعلاوه ،اسلام دوسرے علاقوں میں پهنچ گیا. اسلام معاشرتی اور اجتماعی مسائل کوبهت زیاده ترجیح دیتا ہے اسلام مسلمانوں کوگوشه نشینی اوررهبانیت کی اجازت نںیع دیتا . اسلام کانظام اجتماع ایک دوسرے سے مربوط رهنےکی تلقین کرتانظرآتا هے. ایک دوسرے کاخیال رکنان،دکھ دردبانٹنایهی نظام اجتماعی کابنیادی فلسفه هے که جس کاخیال کئےبغیر،شخص مسلمان بیب، نںین بنتا.جس نظام حیات اورآئین الهی کو،اجتماعی روابط کااتناخیال هو،وه  بھلا،اختلاف وتفرقه اورآپس کی نفرتو ں کی اجازت کیسے دے سکتا هے؟.

اسلام معاشرے میں اتحاداورامن چاهتا ہے یهی وجه ہے که بهت ساری اسلامی روایتیں اتحادکےموضوع سےمتعلق هیں.ایک حدیث میں مرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)فرماتے هیں:«يدالله مع الجماعة »(ابن حبان،1414:10،438).خداکےهاتھ همیشه جماعت کےساتھ هیں.یعنی خداکی نصرت همیشه اهل جماعت کےشامل ہے.اصلی هدف تک پهنچنے کےلئے جمع هونا،خیر ہے اورتفرقه ، عذاب اورغضب الهی  کا موجب بنتاہے « في الجماعة خير و في الفرقة عذاب»(هندی،1409: 3،266). اسلام اتحادکومعاشره کاایک نهایت هی اهم رکن سمجتا ہےلهذاایک روایت میں آیا ہے:« لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ليال، يلتقيان فيعرض هذا و خيرهما الذي يبدء بالسلام»( دروزه، 1383: ‏8، 510).

اس روایت کے مطابق دومسلمانوں کے درمیان تین دن سےزیادقطع تعلق جائزنهیں ہے.ایک اورحدیث میں جوشخص مسلمانوں کےامورکواهمیت نهیں دیتا،اسے مسلمان هی  نهیں سمادقط ہے«من اصبح و لم يهتم بامور المسلمين فليس بمسلم »( بروجردی،1410: 16،172). اس حدیث میں ایک مسلمان کے کردارپه بحث هوئی ہے که یه کردارمعاشرے میں کتناوزن رکھتاہے ممکن ہے کسی شخص کی تقدیراسی ایک کردارسے بدل جائے.جوشخص معاشرے میں کسی دوسرےکواهمیت نهیں دیتا،کسی کےغم اورخوشی میں شرکت نهیں کرتا،دوسروں سے بے خبررهتا ہے تواس حدیث کےرو سےوه مسلمان نهیں.اس سے پته چلتا ہے که اسلام باهمی تعلقات کوکتنی اهمیت دیتا ہے.

یه ایک زنده دین ہے جوانسانوں کوزندگی سکاختا ہے.اسلام کی نگاه میں ،پورامومن معاشره،ایک هی بدن کی طرح ہے که جس کا هرایک عضو،دوسرے عضوکامحتاج ہے ایک عضواگرتکلیف میں هوتودوسرے کوقرار نهیں.نبی مکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)ایک حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتے میں هیں: «مثل المؤمن في توادّهم و تراحمهم كمثل الجسد اذا اشتكي بعضه تداعي سائره بالسّهر و الحمي»( مجلسی ،1403: 58،150) اسی مضمون کےقریب،طبری،1415: 1،556). ومن،محبت ورحمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے، ایک بدن کی مانند هیں که اگرایک عضودرد میں مبتلاهوجائے،توپورابدن رات بر،بےقرار،درد میں مبتلارهتا ہے.اسی حدیث کالب لباب ،ایک ایرانی شاعرجناب سعدی شعرکی صورت میں یوں بیان کرتے هیں:

بنـي آدم اعضـاي يـك پيكرند 

چو عضوي به درد آورد روزگار

كه در آفرينش ز يك گوهرند

دگــر عضـوها را نماند قـرار

اسلام معاشرتی اصلاح کوبهت زیاداهمیت دیتا ہے اوراسے اعلی ترین عبادی درجه دیتا ہے : «الا اخبركم بافضل من درجة الصلاة و الصيام و الصدقة؟ قالوا بلي قال اصلاح ذات البين.»(احمدبن حنبل،بی تا،6،444). ائمه اطهار(علیهم السلام)کی زندگی اتحاد کےحوالےسے ایک بهترین نمونه ہے. ائمه اطهار(علیهم السلام) سے مروی روایتوں میں اتحادپه بهت زیادزوردیاگیا ہےاورتفرقه سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے.امیرالمئومنین (علیه السلام)ایک خطبے میں،اتحاد سے متعلق فرماتے هیں:«و الزموا السواد الاعظم فان يدالله مع الجماعة و اياكم و الفرقة! فان الشاذ من الناس للشيطان كما ان الشاذ من الغنم للذئب. ألا من دعا الي هذا الشعار فاقتلوه، و لو كان تحت عما متي هذه«دشتی،خ127،66).

اس حدیث میں اتحادکی طرف دعوت دی ہے خداکاسهاراجماعت کے ساتھ ہے.فرقه پرستی کی مذمت هوئی ہے اوراس بات پرزوردیاگیا ہےکه جوشخص دوسروں کوتفرقه کی دعوت دے اسے مارواگرچه وه میرے عمامے کےنیچےهی کیوں نه هو.اسکامطلب هی نکلتاہے که اختلاف کی صورت جائزنهیں.

اهل  بیت(علیهم السلام) کےلئے سب سے زیاده اهم مسئله ،دین کی حفاظت کا مئله تا ورنه ظاهری اقتدارکی توکوئی حثیت هی نهیں.حضرت  علی(علیه السلام)قبول بیعت سےمتعلق فرماتے هیں: «لولا حضور الحاضر، و قيام الحجة بوجود الناصر، و ما اخذ الله علي العلماء ألا يقاروا علي كظّة ظالم، و لا سغب مظلوم، لألقيت حبلها علي غاربها و لسقيت آخرها بكأس اولها و لألفيتم؟ دنياكم هذه أزهد عندي من عفطة عنز»( وهی ،خ7،3). امیرالمئومنین (علیه السلام)پوری حیات طیبه اسلام هی کی سربلندی کےلئے وقف رهی . استادشهیدآیه الله مرتضی مطهری (رح)ایک معروف داستان،اهل سنت دانشورجناب ابن ابی الحدیدمعتزلی کے حوالے سےنقل کرتےهیں:« ایک دن حضرت فاطمه(سلام الله علیها)نےحضرت علی(علیه السلام)کوخلفاء کےخلاف قیام کی دعوت دی ،اسی اثناء،مئوذن کی اذان کی آوازبلندهوئی«اشهد ان محمداً رسول‌الله»، امیرالمئومنین (علیه السلام)،حضرت فاطمه(سلام الله علیها) سےمخاطب هوکر فرماتے هیں : کیا آپ چاهتی ہے که یه آوازبندهو؟فرمایا: نهیں . حضرت علی(علیه السلام) فرماتے هیں:یهی میری بات ہے »( مطهری ،1354،184».

 

یعنی اگرآج علی (علیه السلام)خاموش هیں تواس کی تنهادلیل دین کی حفاظت کی ہے تلوارچلاکردین نه بچاسکے تواس سےزیاده علی (علیه السلام)کے لئےکوئی نقصان نهیں اوراگرتلوارچلائےبغیر، دین بچ سکتا ہے توعلی (علیه السلام) یهی کام انجام دیں گے. علی(علیه السلام) کے لئےبقای دین سے زیاده کوئی چیزاهم نهیں.کتاب «حلیف مخزوم» کےمئولف ،ابوبکرکےابتدائی خلافت کے دورکاذکرکرتےهوئےلکےئ  هیں: بهت سارے لوگ ،دوردرازاورنزدیک علاقوں سے اس(علی) کےپاس آتے اورآپ سے حکومت وقت کےخلاف جنگ کی اجازت طلب کرتے،لیکن آپ  ان کوخاموش کرتےاورفرماتے: «حسبنا سلامة الدين»(صدرالدین،1345: 1،161). همارےلئے یهی کافی ہے که دین سالم ہےهردور میں علماءکاکردار بھی وحدت قائم کرنے میں قابل ستائش رهی. علماء کابهت مثبت کردار ہے.اس دور میں نے ،سب سےزیاده جس شخص نے وحدت کانعره لگایااوراس نعرےکوعملی جامه پهنایا،وه شخص امام خمینی(رح)هی کی ذات ہے.آپ نےمسلمانوں کوایک حقیقی اتحادکاتصوردیااوراسی طرح اسلامی حکومت ایران کے تمام ترمادی اورمعنوی وسائل کواسی اتحادکی راه میں قربان کردئے.وحدت کےبارے میں آپ کے بےشمارتقریریں اورمکتوبات موجود هیں.

ایک مقام پرآپ فرماتے هیں:«هم اسلام اوراسلامی ملکوں کی حفاظت اوراستقلال کے واسطے،هرحال میں (ان سے)دفاع کےلئےتیار هیں.همارامنشور،وهی اسلام کامنشور ہےهمارامنشوراتحادکلمه اوراسلامی ممالک کےدرمیان اتحادقائم کرناہے.تمام مسلمان مکاتب فکر کےبرادری چاهتے هیں. هم اسرائیل کےمقابل ، دنیاکےگوشه گوشه، میں رهنے والے مسلمان حکومتوں کے ساتھ اظهاریکجهتی  چاهتے هیں.هم استعماری حکومتوں کےمقابل متحدهونا چاهتے هیں»( خمینی ،1378: 158).

آپ کےجانشین حضرت آیه الله خامنه ای(مدظله العالی)وحدت مسلمین سے متعلق فرماتے هیں:« هم وحدت کےبارے میں پرعزم هیں.هم نے مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی اورمفهوم بیان کئے هیں. مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی یه نهیں ہے که مسلمان اورمختلف مکاتب فکراپنے مخصوص کلامی اورفقهی عقیدےسے منصرف هو،اتحادکادواورمعانی هیں که جسےپوراهوناچاهیے.پهلایه که مختلف مکاتب فکر،حقیقی دشمنو ں کےمدمقابل ایک همدلی،همفکری اورباهمی تعاون  کےذریعے ایک دوسرےکاساتھ دیں.دوسرایه که مختلف مکاتب فکرکی یه کوشش هوکه ایک دوسرےکےقریب جائے اورآپس میں ایک تفاهم ایجادکریں اسی طرح فقهی  مسالک کاایک تطبیقی مقایسه هو.اگرتحقیقانه طورپربحث هوتوبهت سارے فقهاءاورعلماءکےفتاوی، جزی تغییرکےساتھ دونوں مذهب کے فتاوی ایک دوسرے کےقریب هونگے»( حدیث ولایت ،1375: 2 ،229).

شیعه علماءاورمفکرین همیشه وحدت  کی بات کرتے هیں اس راه میں قدم اٹاکنا،دراصل قرآنی اهداف کےتحقق کی راه میں قدم اٹاونا ہے دونوں مکتب فکر (شیعه،سنی)کےپیروکارصدیو ں سے ایجادوحدت کی تلاش میں سرگرم ر ہے هیں اوراس راه میں هرقسم کی قربانی دیتے آیئے هیں.بهت سارے اهل سنت علماء اتحاداسلامی کی خاطراپنے مثبت اورقابل تحسین کرداراداکرتے رهے هیں.

مصر کےجامعه الازهرکےسابق چانسلرمفتی شیخ محمودشلتوت کهتے هیں: «میں اورمیرے جوساتیں جامعه الازهرتےا،مختلف فقهی امور میں فتوی دیتے هوئے فقه جعفری  سے بیو برتپورفائده اٹابتے هیں بلکه بعض امورمیں شیعه نقطه نظرکواهل سنت مذاهب پرترجیح دیتے هیں،حالانکه هم سنی هیں.مصرکے«سول لاء» میں طلاق کے مسئله میں شیعه نقطه نظرکےمطابق فیصله دیاجاتا ہے،نه اهل سنت کےمطابق. اسی طرح رضاع کے مسئله میں، میں  بذات خود شیعه نقطه نظرکوهی قوی جانتاهوں،لهذااسی کے مطابق فتوی دیتاهوں.ایک منصف مزاج  فقیه جهاں بیه شیعه نقطه نظرکو دوسرے نظریات کے مقابلے میں دلیل واستدلال کےاعتبار سے قوی دیکتاط ہے اسی کےمطابق فتوی دیتا ہے،یهی وجه ہےکه،آج  میں اپنی ذمه داری اورفریضه جانتاهوں که الازهریونیورستی کے «اسلامی لاءکالج» میں شیعه سنی فقه پرمشتمل« فقه تطبیقی» کاشعبه قائم کروں،اس کام. سےهمارامقصدصرف یه ہے که صحیح اسلامی احکام کومختلف اسلامی فرقوں کی« فقه» سےاخذکرسکیں،اس سلسلے میں شیعه فقه یقیناسب سے آگے ہے»(ر.ک:بی آزارشیرازی،1403: 10).

جناب شیخ محمودشلتوت نے تمام اسلامی ممالک کےنام ایک تاریخی فتوی جاری کیاجس  میں  فقه جعفری کی پیروی کوبیب دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جائزقراردیا ہے(ر.ک:وهی). اس فتوی کی تائیدبهت سارے اهل سنت علماءنےکی،جن میں شیخ عبدالمجیدسلیم،شیخ محمدضحام،شیخ عبدالحلیم محمود(الازهرکےسابق چانسلرز)، اسی طرح  استادشیخ محمدغزالی اورعبدالفتاح عبدالمقصودقابل ذکر هیں(ر.ک:وهی).آج تمام مسلمانوں،خاص کردانشوروں،علماء،زعماءاورجوانوں کافریضه ہے که باهمی اتحادکومضبوط بناتےهوئے،فروعی اورجزئی اختلافات کوبالای طاق رکےماهوئے،قرآن وسنت کی بالادستی کےلئےملکرکام کریں.کافی ہے اس سلسلے میں وهی تین بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں.

اصل توحید:

تمام اسلامی فرقوں کاایک مشترک اصول،توحید ہے. نظریه توحید پرسب کااتفاق ہے نظریه توحیدکی اپنی کئی قسمیں هیں :

1-توحیدذاتی :

خدااکیلا ہے ،کوئی دوسرااس کاشریک نهیں ہے « قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»(توحید:1). اورکوئی  دوسرااس جیسا نهیں ہے «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ء شوری:11». کوئی وجوداس سا نهیں: «وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد »(توحید:4).

2-خالقیت میں توحید:

حقیقی خالق فقط خدا ہے.اس کےسواءکوئی مستقل وجود نهیں ہے کائنات کی هرچیزاسی کے فرمان،اذن اورارادےسے اثرگذارہے «قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّار»(رعد:16).

3-ربوبیت میں توحید:

عالم کاایک هی رب اورایک هی مدبر ہے.کوئی دوسرااس کاشریک نهیں .مختلف امور میں ملائکه کاتدبیرسمیت دوسرے سارے اسباب اسی کے فرمان اوراذن سےہے« إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى‏ عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ما مِنْ شَفِيعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَ فَلا تَذَكَّرُون‏ »( یونس:3).خدا کےسواءکوئی دوسراحقیقی سبب موجود نهںٍ،البته کبیا خداخودهی دوسروں کواذن دیتا ہے.

4-تشریح میں توحید:

حاکمیت تنھاخداکےلئے ہے صرف وهی قانون وضع کرسکتا ہے اس کے علاوه کوئی دوسراامر،نهی،حرمت وحلیت کااختیار نهیں رکھتا، « ٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه‏»(یوسف:40).

5-اطاعت میں توحید:

خداکےعلاوه کسی اورکی اطاعت بالذات واجب نهیں.نبی اوردوسرے حضرات کی اطاعت کواس نے خودهی واجب قراردی ہے.انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءکی اطاعت،خداکی اطاعت کےمدمقابل نهیں ہے ،بلکه اسی کی اطاعت کےذیل میں متصورہے. « فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا» (تغابن:16).

6-حاکمیت میں توحید:

خدامطلقالوگوں پرولایت رکھتا ہے.اس کی ولایت اورحاکمیت ذاتی ہے جبکه دوسروں کی ولایت،اس کی اجازت اوراذن کےبعدمتصور ہے.« ِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِين»( انعام:57).

7-شفاعت اورمغفرت میں توحید:

مغفرت اورشفاعت خداهی سےمختص ہے وهی غافرالذنب ہے« ْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّه»‏(آل عمران:135).دوسری آیت میں آیا ہے« قُلْ لِلَّهِ الشَّفاعَةُ جَمِيعا»(زمر:44) . شفاعت خداکاذاتی حق ہے ،اوراسے مختص ہے،امادوسر ے لوگ اس کی اجازت اوراذن کے بعدهی، اس حق کامستحق بنتے هیں :« مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه‏»(بقره:255).

8-عبادت میں توحید:

خداکےعلاوه عبادت کاکوئی لائق نهیں،اس نهیں سواءکوئی معبود نهیں،کوئی چیز،کوئی شخص عبادت میں اس کاشریک نهیں.اسی حقیت کااعتراف بنده،سوره حمد میں خداکومخاطب قراردے کرکرتا ہے « إِيَّاكَ نَعْبُد »(حمد:5).کوئی مسلمان توحیدکے بارے میں اختلاف نهیں کرتا.شهیدمطهری (رح)عبادت میں توحید کے بارے میں کهتے هیں: عبادت میں توحید،ایک قسم کی عملی توحید ہے اوریه ایک قسم کی حرکت ہے کمال تک پهنچنے کے.خداهی کاانتخاب،کمال تک جانے کےلئے،عبادت میں توحید ہے.دوسرے سارے دعوائی چیزوں کوترک کرکے خداهی کےلئے جکنا ،اٹھنا،اسی کےلئے قیام کرنا، اسی کےلئے جینااورمرنا» (مطهری1354: 379). عبادت میں توحید کے ذیل میں،مسلمانوں کاایک فرقه،انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءالهی کےسامنے خضوع اورتذلل(جوایک قسم کاامرالهی یوسف:100؛اسرا:24؛مائده:54،ہے)کوشرک قراردیتا ہے.اگرکوئی شخص،تین اوصاف کومدنظررکھ کرایساکرتا ہے تووه خطاپر ہےاوریه عمل موجب شرک ہے.اوروه تین اوصاف درجه ذیل هیں:

1- کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخداسمجھ کراس کی الوهیت کے قائل هوکرایساکرے.

2-کوئی شخص کسی نبی یاولی کے ربوبیت کے قائل هوکرایساکرے.

۳. کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخدا کے مقابل بےنیازجان کر ایساکرے.

میرے خیال میں کوئی مسلمان شخص،ایساعقیده نهیں رکھتا.یه تینوں اوصاف،صرف خداهی کی ذات بابرکت کے ساتھ مختص هیں.لهذااصل توحیدکوسب مانتے هیں.البته بعض جزئی مسائل میں،بعض  مختلف نظریات هیں جواصل هدف سے نهیں روکتی.حیات انسانی کی ترقی اورکمال یابی میں،توحیدمرکزی کرداراداکرتی ہے،توحیدسعادت دارین  اورمعنوی ومادی اهداف میں اساسی کردار،اداکرتی ہے.توحیدانسان کومقصدخلقت سے متصل کرتی ہے.انسان خداکی طرف سے آیا ہے اوراسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے اوریه بشریت  کے لئے ایک جاودان توحیدی منشور ہے که جس کا اعلان قرآن کررها ہے« إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏»(بقره:156).

توحیدی رنگ،انسانی حیات کوتمام جهتوں سے تبدیل کرتی ہے اورانسان کوکمال مطلق کی طرف راهنمائی کرتی ہے. الهی رنگ میں رنگنے کے بعد،انسان هردوسرے رنگ سے بے نیازهوتاهے.رنگ لگانے کاایک مطلب هوتاهے جس جانورپه رنگ لگے، وه اسی رنگ لگانے والے کاهوجاتاهے رنگ شخص کی ملکیت پردلالت کرتاهے.اسی طرح جس شخص پررنگ الهی لگ جائے،وه خالص توحیدکا بن جاتاهے.« صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عابِدُون‏»(بقره:138).جب انسان توحیدی رنگ میں رنگاجاتاهےتواس کالازمی نتیجه یه هوگاکه؛اس کی هرحرکت الهی بن جائے گی.خداکی راه میں قیام اس کامقصدوهدف بن جائےگااوروه اس راه میں خدا کےسواء،کسی  کی پروانه کرےگا.« قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى‏ وَ فُرادى‏»(سبا:46).

اسلام،اصل توحیدکی بناءپراتحادچاهتاهے.توجه کی بات یه هے که اسلام ایسااتحادنه تنهامسلمانوں کےدرمیان چاهتا هے بلکه اس اتحادکے دائرے کواهل کتاب اوردوسرے ادیان تک پھلاتانظرآتا هےیه وجه هے که خداونداصل توحیدکوبنیادبناکراهل کتاب کووحدت کی طرف دعوت دینے کی سفارش کرتاهے:« قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى‏ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّه‏»(آل عمران:64).اسلام ،توحیدکواصل قراردےکر،پوری انسانیت کواتحاداورامن کی طرف بلاتاهےکیسے ممکن هے که جواپنے هی پیروکارو ں کوظلم،فساد،جهالت اورناانصافی کی طرف بلائے؟اسلام کسی صورت ان چیزو ں کونه فقط برداشت نهیں کرتا،بلکه انهی چیزو ں سےکومعاشرے کوپاک کرنا،اولین ترجیح هے.خدانےتمام انبیاء(علیهم السلام)(علیهم السلام) کومعاشرے میں عدالت اجتماعی قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے: «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).لهذاتوحیدایک ایسااصل هے که جوپورے انسانی معاشرےکوامن وسکون دے سکتاهے.

قران کی آیتوں اورمرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)روایتوں اورائمه اطهار(علیهم السلام)کی پاکیزه سیرت سے یه چیزعیاں هوجاتی هے که توحیدهی اصل واساس دین هے.اسی کووحدت کےلئےاصل قرادیاجاسکتاهے .جوشخص توحیدکااقرارکرتاهے وه اختلاف سے بچ سکتاهے قران کا اقرارانسان کودوسروں سے بےنیازکرتا هے« ِ وَ يَدْعُونَنا رَغَباً وَ رَهَباً وَ كانُوا لَنا خاشِعِين‏»(انبیاء(علیهم السلام):90).

خداوندعالم دوسری   آیت میں خشیت الهی کو،ایمان کےلئے شرط جانتا هے« ْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين‏(توبه:12).اسی طرح رسول خدا(صلی الله علیه وآله وسلم)کوخداکے مقابل خشیت کاحکم دیتا هے« ْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْن»‏(مائده:3). ‏جب کسی دل میں خوف وخشیت الهی آجائے،تویقینااس دلسےغیروں کاخوف نکل جائے گا.توحیدکاوه دل مرکزبنےگاخدااس دل په خاص عنایت کرےگاخوف وحزن اس دل سے نکل جائےگا ،اس کےفرشتے،اس دل په نازل هونگے:« إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون»( فصلت:30).

اگرکسی معاشرے میں،توحیدحاکم هوجائے،توایسے معاشرے موجودتمام اشیاء،خودبخودرنگ الهی پکڑے گی.جس کے نتیجے میں،تمام بت جیسے:لسانی،نسلی ،علاقائی اورحزبی گرجائیں گےیهی وه تنهاصورت هے که جس کے نتیجے میں، معاشرے کے اندروحدت واتحادقائم هونگے ایسامعاشره،توحیدپرستی کی طرف رواں دواں هوسکتا هے.

اصل نبوت:

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل نبوت »هے تمام مکاتب کااس په اتفاق هے که معاشرے میں، ایک شخص  ایساهوناچاهئے جولوگوں کوخداکی طرف طرف دعوت دے اورخدا کےپیغامات کوبندوں تک لے آئے ،ایسے شخص کوهادی کهاجاتا هے.نبی منصب نبوت کاحامی هوتاهے.جونبی عالمین کے لئے هوتا هے، وه عالمین کے لئے هدایت  کامرکزهوتا هے.تمام مکاتب فکرکااتفاق هے که اسلام ایک عالمی دینهے جوجامع اورکامل نظام حیات پرمشتمل هے.اس بات کی دلیل ،قرآن میں جیسے« يا أَيُّهَا النَّاس‏ »( بقره ،21 ؛نساء،171-174؛فاطر ،15)، «يا بَنِي آدَم‏» اعراف ،26-28)اور«يا أَيُّهَا الْإِنْسان‏»(انفطار،6)، اس جیسے خطابات هیں جن کی دلالت  قران کے تمام بشریت  کےلئے ایک ابدی نظام زندگی  هوناهے. قرآن تمام انسانوں کے لئے هدایت   لے کےآیا هےاوریه کسی ایک زمانه سے مختص نهیں،بلکه یه نظام تمام فکری نظامو ں پرغالب آیئےگا: « لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه‏»( توبه ،33).

اس آیت میں دین اسلام اوراس کے پیروکاروں کی فتح کی نویدسنائی گئی هےاسی طرح بعض آیتں اصل دین کاایک جامع نظام پرمشتمل هونےکی طرف اشاره ملتاهے. «ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ‏ء »( انعام،38)، «  وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء» (نحل،89)، « ِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِين‏»(انعام ،59). اسی طرح یه  حدیث «و حلال محمد حلال الي يوم القيامة و حرامه حرام الي يوم القيامة»(بروجردی،1399: 1 ،136)، دین کی ابدیت پردلالت کرتی هے .انسانی معاشره کے لئے نبوت کے بلندترین اهداف  سےایک هدف،اجتماعی طورپرعدالت کاقیام هے «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).

اس آیت کےتحت رهبرکاکام سب سےپهلے،معاشرے میں ایک اجتماعی نظام عدل کاقیام هے.عدالت خودبخودبرقرارنه هوتی،بلکه کوئی عادل،بابصیرت رهبرهوجواسے برقرارکرے.معاشرتی مسائل سےواقف ایک رهبرکاوجودمعاشرے کے لئے ضروری هے.زندگی کےتمام شعبوںمیں،عدالت کانفاذانتهائی لازمی امر هے.اجتماعی روابط هوں یافردی،یاکوئی اورمسئله،هرایک عدالت کےمحتاج هے.اسی طرح مختلف مکاتب فکرکےدرمیان بیت عدالت قائم هو.مختلف فرقوں کےباهمی روابط کی بنیادعدالت پرهو.اگرهمارے گفتار،کرداراورطرززندگی پرعدالت حاکم هوتوبهت سارے اختلاف کاخودبخودخاتمه هوجائے.آج اگرهمارے معاشرےمیں مختلف گروپوں کےدرمیان  قومی،لسانی،صوبائی اورمذهبی تصادم نظراتا هے تواس کی وجه عدالت سے دوری هی هے.اسلام افراط اورتفریط کی مذمت کرتا هے. افراط اورتفریط کی بنیادی وجه،عدالت سےروگردانی هے.اگر معاشرےمیں عدالت قائم هوتوقتل وغارتگری،ظلم وتجاوزاورتمام اخلاقی برائیوں کاخاتمه هوجا ئے گا.

مختلف مکاتب فکر کی گفتارپه عدالت قائم هوتوایک دوسرے کی توهین نهیں کریں گے، ایک دوسرے کوکافر نهیں کهیں گے.مسلمانوں کی کمرانهیں چیزوں نے خم کردی هیں اب مسلمان  کاپورازور،ترقی اوراجتماعی منصوبوں کی طرف توجه دینے کے بجائے،اپنی مسلمانی ثابت کرنے میں صرف هوتا هے.اگرعدالت حاکم هوتوگفتاری اوررفتاری تناقضات کا خاتمه هو ئےگا.نبوت کادوسرافائده بشریت کے لئے ،فطرت کی بیداری هے رهبرمعاشره کوفطری اصولوں کےمطابق چلاتے هیں. نبوت پراعتقاد،وحدت واتحادکاسبب بنتا هے.نبی اپنے پروکاروں کوهمیشه دعوت اتحاددیتا هےجب لوگ رهبرکے فرامین پرعمل کرتے هیں تورهبرفطرت اورعقل کے مطابق دستوردیتے هیں اورعدالت کےنورانی شارع په معاشره کو چلاتے هیں.

حضرت علی(علیه السلام)فلسفه بعثت کوبیان کرتےهو ئے فرماتے هیں:«فبعث فيهم رسله و واتر اليهم انبيائه ليستادوهم ميثاق فطرته و يذكروهم منسي نعمته و يثيروا لهم دفائن العقول»(دشتی،خ،1). جهالت کا تاریک پرده عقل سلیم پرچافیاهوا هے اوربهت سارے لوگ  جهالت کی تاریکی میں ڈوب چکے هیں توایسے حالات کوبدلنے انبیاء(علیهم السلام)آتے هیں بٹھکتے انسانوں کودوباره فطرت کی راهوں پرچلانے کے لئےانبیاء(علیهم السلام)آیئے هیں.پیاسے لوگوں کومعارف الهی کے چشمےسے سیراب کرنےرهبران الهی آیئے هیں. ایاولیا کے اسکالرجناب  کونت ادواردگیوجیا کهتے   هیں : «میں قدیم اورجدیدادیان  سے متعلق بهت زیاده  گهری تحقیق کرچکاهوں اورسار  ے ادیان کامطالعه کرچکاهو ں جس  کےنتیجے  میں ،اس نتیجے پر میں پهنچا هو ں که تنهااورحقیقی آسمانی آئین، اسلام  هے اس دین کی آسمانی کتاب  یعنی قرآن مجیدانسانی تمام مادی اورمعنوی حوائج  کوپوراکر نے کی ضمانت لیتا هے اوراسے اخلاقی  اورروحی کمالات کی طرف سوق دیتا هے اوراس کی رهبری کرتا هے»( ر.ک:قرماز،1384: 248).

قرآن،لوگوں کی هدایت کے ساتھ ساتھ،سائنس  کی دنیامیں بی  اپناکرداراداکررها هےیهی وجه هے ایک مغربی دانشور جناب دینورت اس بارے میں یوں کهتے هیں:« واجب هے هم یه اعتراف کریں که علوم طبیعی      ،نجومی ،فلسفه،اورریاضی جویورپ میں عروج پرپهنچے،عمومی طورپرقرآن سے لیاگیا هے»( ر.ک:وهی،255). ایک عیسائی مفکرجناب  لامارتین کهتے هیں:« محمد،مادون خداومافوق بشرشخصیت هیں،پس وه بغیرشک،پیغمبراورخداکابیجایهواهے»( ر.ک:وهی،259)

الهی نمائند ے،همیشه  لوگوں کوعلم،فکر،عقل وشعورکی دعوت دیتےهیں.اتحادکسی قوم کے اجتماعی  شعورکاپته دیتا هے.انبیاء(علیهم السلام)کاکام فقط ابلاغ وتبلیغ هے« وَ ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِين‏»(نور،54).وه لوگوں کوظلم،شرک اورجهالت کی تاریکی سےتوحید،ایمان اورعلم کی روشنی کی طرف بلاتے هیں« هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلى‏ عَبْدِهِ آياتٍ بَيِّناتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور»(حدید،9).نبی  کسی شخص کوبزورشمشیردیندارنهیں بناتے. اس دینداری اورایمان کاجوجبرواکراه  کےنتیجے میں حاصل هو،اس کاکوئی فائده نهیں هوتاکیونکه وه مصلحتی ایمان هے نه حقیقی ایمان.دین اختیاری  امر هے جوهرانسان کاحق هے که وه جس دین پرمطمئن هواسی کواپنالے:« لا إِكْراهَ فِي الدِّين‏»(بقره،256). الهی نمائند ے،بندوں پرخداکی حجت اورگناهگاروں اورسرکشو ں پراتمام حجت  هوتے هیں:« وَ ما كانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى‏ حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّها رَسُولاً يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِنا وَ ما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى‏ إِلاَّ وَ أَهْلُها ظالِمُون‏»(قصص،59).ان کےکام  معاشره میں، انذاروتبشیر هوتے هیں« وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَ نَذِيراً وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُون‏»( سبا،28).وه سرکش افرادجواپنی  فطرت مسخ کرچکے هیں« أَ فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواه‏ »(جاثیه،23)اور معاشره میں انتهائی برائی پراترے هیں ،تجاوزوطغیان  ان کامزاج بن چکا هے« إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى‏ أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى‏»(علق،6-7).ایسے ناپاک نفوس کوعلم وحکمت  اورتلاوت کےنورسے برںکے،تزکیه وتعلیم سےآراسته کرکے ،پاکیزه بناناالهی نمائنده کی ذمه داری هوتی هے :«هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِين»(‏ جمعه،2).اگرمعاشره،فلسفه نبوت سے واقف هوجائے،توپرلاختلاف کاسوچ بی  بوهل جائےگا.انشاءالله بهت جلدزمین پرخدائی حکومت قائم هوگی اور الهی نمائند ے،خداکی نیابت میں پوری انسانیت کوبعث انبیاء(علیهم السلام) کے حقیقی شهراه پرچلائیں گے.

اصل معاد

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل معاد »هے.جس طرح سارے اسلامی مسالک کےپیروکارمبداءاورخالق هستی په اعتقادرکےهو هیں اسی طرح یه لوگ معادپراعتقادواتفاق نظر رکے ا هیں .انسانی زندگی پرمبداومعادکاگهرااثرحکمفرماء هے . معادپراعتقاد کےحوالے سےلوگوں کی کئی قسمیں هیں:

ایک گروه معادپرمکمل ایمان رکھتا هے.یه گروه سب سے آگے هے.اس گروه کی زندگی گذارنےکاطریقه دوسروں سے کاملامتفاوت اورمختلف هے.معادکی یادنے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی هے .اس گروه کی بعض خصوصیت سوره بقره کی ابتدائی آیتوں میں ذکرهوا هے.یه گروه بطوردائم ،غیب په ایمان رکھتا هے اسی طرح ان لوگوں کی صفت،دائمانمازقائم کرنا،خداکی راه میں انفاق کرنا،گذشته کتابوں اورماانزل الله پربطورمطلق ایمان رکنای هے «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ  وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون»(‏ بقره،3-4).اسی طرح یه گروه بطوردائم آخرت پریقین رکھتاهے.

قرآن میں مختلف مقامات پراس گروه کے اوصاف  کوخدانےیبان کیا هے اوریه واضح کیا هےکه جس طرح اس گروه کااعتقاددمبداومعادوغیره پردائم هے«وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون» ،ویساهی  اس گروه کے کرداروافعال بیا دائمی هیں« يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً»(انسان،7-8).وفابه عهداس گروه کاطره امتیاز هے« يُوفُونَ» اورمسلسل طورپرآخرت کاخوف  یه گروه دل میں رکھتاهے یهی خوف معاد هے که جس کی وجه  سے ان کی زندگی  ایثاروقربانی سے لبریزنظرآتی هے.اوریه لوگ محتاجوں کاهمیشه خیال رکےبت هیں« يُطْعِمُونَ »،گویایه ان کی زندگی کا ایک مستقل حصه  بن چکا هے.اخلاص عمل ان کی نشانی اورعلامت هے. ان کا هرعمل  اخلاص پرمشتمل هے.حتی ان کی نیت اورضمیران کے عمل سےمختلف  نهیں.یهی وجه هے که خداوند ان کے درونی احساس  کی خبردیتے هوئے اس کوآیت کی صورت  میں پیش کرتا هے« إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا إِنَّا نَخافُ مِنْ رَبِّنا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيرا»(انسان،9-10).آیتوں کےسیاق وسباق سے پته چلتاهے که عقیده معادکس طرح اس گروه  کی زندگی پرچامیا هوا هے.ان کےتمام اعمال  ،افکاراورنیتوں کےپیچھے عقیده معادکی  ایک خاص  دخالت هے.

بعض دوسرےگروه معادپر ایمان تو رکےھے هیں، لیکن پهلے گروه کی مانندنهیں.بعض تنهازبان کی حد تک ایمان کا اظهارکرتے هیں،لیکن دل نورایمان سے خالی نظرآتا هے« وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ   يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ» (بقره،10-9).اسی طرح جس شخص کی زندگی میں آخرت کاکوئی حصه نهیں اوروه آخرت کوکوئی اهمیت نهیں دیتااس کےتمام اعمال   باطل هونگے اوروه دونوں جهانوں میں خسارےمیں رهےگا.« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى‏ كَالَّذِي يُنْفِقُ مالَهُ رِئاءَ النَّاسِ وَ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْداً لا يَقْدِرُونَ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِين‏»(بقره،264).اس کادل شیطانی وسوسوں کامرکزهوگااورغلط تبلیغات کی طرف مائل هوگا«وَ لِتَصْغى‏ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْه‏»( انعام ،113).

ایسا شخص همیشه غلط کاموں کامرتکب هوتا رهےگا،خداپرجوِٹ باندھنا،لوگوں کوراه الهی سے روکنااوراسے مشکوک دیکاُنااس کی عادت بن جائے گی اس پرخداکی لعنت هے«وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً أُولئِكَ يُعْرَضُونَ عَلى‏ رَبِّهِمْ وَ يَقُولُ الْأَشْهادُ هؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلى‏ رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ يَبْغُونَها عِوَجا وَ هُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كافِرُون‏»(هود ،18-19).قرآن  ایسےگروهوں کااوربهت سارے اخلاقی  برائیوں کاذکرمتعددآیتوں میں کرتاهےجیسے:ابراهیم

آیت3؛نحل22-29؛بقره،10؛اسراء45،97،98؛نمل4-5؛روم16؛سبا8؛زمر45؛فصلت5-6ونجم27-28.

یه هماری ذمه داری هے که ایسے عذاب میں گرفتارنه هوں،پرامعاشره اورمسلم امه کوایسی هلاکت  اورتفرقه کی آگ سے نجات دیں.اسلامی تمدن کی عمارت کواتحادووحدت کی بنیادپربنانےکےلئے اپنی تمام توانائیوں کوبروی کارلائیں.اوران مشترکه اصولوں پرکاربندرهیں.یقیناآفتاب عدالت طلوع کرنےهی والا هے همیں پورے معاشرے اورسماج کواسے روشنی لینے کےلئے تیارکرناهے.یه مقصدتب پوراهوگا،جب معاشرے میں ایک دوسرے کااحترام هوگا.کم ازکم دوسروں سے متعلق،انسانی بنیادوں په سوچیں گے اورهم خودانسان بننےکی کوشش کریں گے.

منابع:

قرآن ؛

نهج‌البلاغه،ترجمه  دشتي؛

ابن‌حبان، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بي‌جا، 1414ق؛

احمدبن حنبل، المسند، بيروت: دار صادر،بی تا؛

آواي وحدت، مجمع جهاني تقريب مذاهب، 1374 ش؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: المطبعة العلمية، 1399ق؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: منشورات مدينة‌العلم، 1410ق؛

بي‌آزار شيرازي، عبدالكريم، توحيد كلمه، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامي، 1403ق؛

حديث ولايت، تهران: سازمان مدارك فرهنگي انقلاب اسلامي، 1375؛

دروزة ،محمد عزت‏ ،التفسير الحديث‏، قاهره‏: دار إحياء الكتب العربيه،1383 ق‏؛

صدرالدين، شرف‌الدين، حليف مخزوم (عمار ياسر)، ترجمه غلامرضا سعيدي، تهران: انتشارات جعفري، 1345ش؛

طبري، محمدبن جرير، جامع‌البيان، بيروت: دارالفكر، 1415ق؛

قرماز، فرمان، اثبات جامعيت دين اسلام، قم: پايان نامه كارشناسي ارشد جامعه المصطفی العالمیه ؛

مجلسي، محمدباقر، بحار الانوار، بيروت: مؤسسة الوفاء، 1403ق؛ 

مطهری،مرتضی،سيري در نهج‌البلاغه، تهران: دارالتبليغ اسلامي، 1354؛

وحدت از ديدگاه امام خميني، تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خميني، 1378؛

هندي، متقي، كنز‌العمال، بيروت: مؤسسة الرسالة ، 1409ق؛

 

 

ذرائع : 
Thursday, 06 March 2025 08:07

وحدت ایک ندائے آسمانی!

اس مقالہ میں ایک اہم ترین اسلامی مسئلہ وحدت ور اتحاد مسلمین پر زور دیا گیا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت خاص کر عصر حاضر میں اس کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمین ممخصوصاً کشمیری مسلمین کو قرآن کی رو سے اس کی دعوت دی گئی ہے تا کہ دشمن کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکے۔

''قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة سوآء بیننا وبینکم الانعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیأ ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون''(آل عمران ٤٦)

''کہہ دیجئے اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤجو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ کہ ہم خدا وند عالم کے سواکسی اور کی عبادت نہ کریں  اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں۔اور ہم میں سے کوئی بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی کو اپنے ''ارباب ''نہ بنائے۔پس اگر وہ (اس پیش کش سے )روگردانی کریںتو ان سے کہو تم گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ''۔

پیام ونکات

١۔دوسروں کو دعوت دینے کے کئی مراحل ہوتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی مشترکہ چیزوں کی دعوت دی جائے اور مشترک چیزوں کا محور قرآن ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں  انبیاء علیہم السلام کی تاریخ بھی موجود ہے  اور ہر قسم کی تحریف سے بھی محفوظ ہے۔

٢۔اگر کسی بات میں اس کے تمام مقاصد تک رسائی نہیں ہوسکتی تو اس کے بعض مقاصد کے حصول سے  دست کشی نہیں کرنی چاہیے۔

٣۔توحید اور حق کی طرف دعوت ضروری ہے خواہ یہ استدلال کے ذریعے ہو یانفرین ومباہلہ کے ذریعے یا پھر مشترکات کی طرف دعوت دینے کے ذریعے سے ہو۔

٤۔توحید، اور شرک سے بیزاری تمام آسمانی ادیان کا مشترکہ محور ہے ۔

٥۔انسان کا ایک دوسرے کی بے چون چرا اطاعت کرنا ایک قسم کی غلامی ،فکری استعمار اور ایک طرح کی عبودیت (بندگی) ہے جس سے دور رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔(لا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً)

٦۔ مخالفین کا حق کی دعوت سے روگردانی کرنا ہمارے اسلام ،ایمان اور ارادے میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کر سکتا۔(فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون)

٧۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق کی تبلیغ کا فریضہ انجا م دینے کے لئے دفاعی طریقہ اختیار نہ کریں بلکہ جارحانہ انداز کو اپنائیں۔( قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة )

٨۔دوسروں کو حق کی دعوت دینے اور حق کی تبلیغ کرنے میں ان کے حق پر مبنی عقائد اور پاکیزہ احساسات کا احترام ضرور کریں ۔(کلمة سوآء بیننا وبینکم )

٩۔ہر مبلغ کو پہلے ہی سے یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کی باتوں کوٹھکرا بھی سکتے ہیں ، اس سے روگردانی بھی کر سکتے ہیں اور سرکشی کا اظہار بھی کرسکتے ہیں ۔لہذا ان باتوں کا توڑ بھی اسے پہلے سے تیار کر لینا چاہیے ۔( فان تولوافقولوا اشھدوا)

١٠۔اتحاد اور وحدت کی دعوت میں پیش قدم ہونا چاہیے۔

 

ذرائع : 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایکس اکاؤنٹ پر یوکرینی زبان میں ایک نیا پیغام جاری کیا ہے، جس کا عنوان تھا "رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کے لئے گرم جوشی رکھنے والے ممالک کے لئے تین سال پہلے جاری کیا گیا کا انتباہ۔" KHAMENEI.IR کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے تین سال قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کی حمایت کرنے والے ممالک کے لیے جاری کردہ انتباہ کو شائع کیا تھا۔ اس ٹویٹ کا متن جو یوکرائنی زبان میں بھی شائع ہوا، درج ذیل ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای: یوکرین کے معاملے میں پہلا سبق یہ ہے، بالخصوص ان ممالک اور حکومتوں کے لیے جو ان کی کٹھ پتلی ہیں، مغربی طاقتوں کی حمایت ایک سراب ہے، تمام حکومتوں کو اس کا علم ہونا چاہیے، وہ حکومتیں جو امریکہ اور یورپ کی وفادار ہیں، انہیں آج یوکرین کو درپیش صورتحال کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کے پہلے دن حسینیۂ امام خمینی میں قرآن مجید سے انس کی ایک محفل سے خطاب کرتے ہوئے، جس میں ملک کے بعض ممتاز قاریوں، حافظوں اور قرآن کے بڑے اساتذہ نے شرکت کی، انسان کی انفرادی اور سماجی زندگي میں قرآن مجید کی علاج بخش تعلیمات کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ قرآنی معاشرے کو اس طرح سے کام کرنا چاہیےکہ اللہ کی کتاب کے معنوی چشمے تمام انسانوں کے دلوں، افکار اور اعمال میں جاری ہو جائيں۔
     

انھوں نے ڈھائي گھنٹے سے زیادہ ایرانی اور غیرملکی قاریوں کی تلاوت، اجتماعی تلاوت اور تواشیح سننے کے بعد اپنے خطاب میں مومنوں کی حقیقی اور بڑی عید یعنی رمضان المبارک کی مبارکباد پیش کی اور ملک میں قاریوں کی لگاتار بڑھتی ہوئي تعداد پر خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مشکلات کے علاج کے لیے قرآن مجید کے بے پایاں چشموں کے سلسلے میں سماج کی ضرورت ایک حقیقی اور سنجیدہ ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کے سلسلے میں انسان کی انفرادی ضروریات کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ تمام انسانوں کی حسد،  کنجوسی، بدگمانی، تساہلی، خود غرضی، نفس پرستیاور اجتماعی مفادات پر انفرادی مفادات کو ترجیح دینے جیسی سبھی روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج قرآن مجید میں پوشیدہ ہے۔

انھوں نے معاشرے کے اندرونی رابطوں کے بارے میں کہا کہ سماجی انصاف سمیت تمام سماجی مسائل کے علاج کے لیے بھی، جو توحید کے بعد اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے، ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں کے میدان میں بھی قرآن مجید کو ایک مکمل رہنما بتایا اور کہا کہ دیگر اقوام کے ساتھ ایرانی قوم کو کوئي مسئلہ نہیں ہے لیکن آج اسے کافر یا منافق طاقتوں کے ایک بڑے محاذ کا سامنا ہے اور قرآن مجید نے مختلف مرحلوں میں ان کے ساتھ پیش آنے کا طریقۂ کار طے کر دیا ہے کہ ہم کس وقت ان کے ساتھ بات کریں اور کس وقت تعاون کریں، کس وقت ان کے منہ پر گھونسہ ماریں اور کس وقت تلوار نکال لیں۔

انھوں نے قرآن مجید کی صحیح تلاوت اور سماعت کو تمام انسانی بیماریوں کے دور ہونے کا باعث بتایا اور کہا کہ اگر قرآن مجید کی صحیح طریقے سے تلاوت اور سماعت کی جائے، تو وہ انسان کے اندر اصلاح اور نجات کا جذبہ بھی پیدا کر دیتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی ایک آیت کاحوالہ دیتے ہوئے پیغمبر کی جانب سے آيات شریفہ کی تلاوت کا ہدف روح و جان کی تمام بیماریوں کی شفا کے معنی میں تزکیہ، اللہ کی کتاب کی تعلیم یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگي کے تمام بنیادی اصولوں کی تعلیم اور حکمت کی تعلیم یعنی عالم وجود کے حقائق کی شناخت کی تعلیم پیش کرنا بتایا اور کہا کہ تلاوت، ایک پیغمبرانہ کام ہے اور قاری دراصل، پیغمبر کا کام انجام دیتے ہیں۔

انھوں نے قرآنی تعلیمات کو عام لوگوں کے افکار میں بسا دینے کو صحیح تلاوت کا ایک اہم نتیجہ بتایا اور ترتیل کی صورت میں قرآن کی تلاوت کے زیادہ مؤثر ہونے پر تاکید کی۔ انھوں نے قرآن کی تلاوت کے اثر میں معانی کے سمجھنے کو اہم بتایا اور کہا کہ آج، انقلاب کے ابتدائي دور کی نسبت، ہمارے قاری کلام اللہ کے معنی و مفہوم سے بہتر طور پر آشنا ہیں لیکن آیات کے معانی کی سمجھ پورے معاشرے میں عمومی طور پر پھیل جانی چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں امید ظاہر کی کہ قرآن مجید کے معنوی چشمے لوگوں کے دلوں، افکار اور اعمال میں جاری ہو جائيں گے۔

 ایرانی بحریہ کے رئیر ایڈمرل حبیب اللہ سیاری نے کہا ہے کہ آج کی جنگ دراصل ارادوں کی جنگ ہے، اور وہی ملک کامیاب ہوگا جس کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہو۔ اگر کسی ملک کا عزم کمزور ہو تو جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ میں شکست کھاسکتا ہے، کیونکہ جنگی استقامت کا دارومدار محض اسلحے پر نہیں بلکہ مضبوط ارادے پر بھی ہے۔

انہوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے فوجی قیادت کو جاری کردہ ہدایات میں "روحانی مضبوطی" کو ایک کلیدی نکتہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک مضبوط ارادہ صرف تبھی حاصل ہوتا ہے جب ایمان مستحکم ہو۔ جتنا زیادہ ایمان، اعتقاد، روحانیت اور توکل ہوگا، اتنی ہی قوت ارادی، استقامت، اور دفاعی و مزاحمتی طاقت میں اضافہ ہوگا، جس سے ملکی دفاع اور مزاحمت مزید مضبوط ہوگی۔

ایڈمرل سیاری نے بتایا کہ "ذوالفقار 1403" مشقوں کے دوران 160 سے زائد خصوصی عسکری مشقیں انجام دی گئیں، جن میں زمینی، فضائی، بحری اور زیر سمندر دفاعی کارروائیاں شامل تھیں۔ ان مشقوں کے دوران مختلف مقامات سے فوجی دستوں کی نقل و حرکت، جدید اسلحے کے کامیاب تجربات اور مختلف نوعیت کی عسکری سرگرمیوں کے باوجود، خدا کے فضل اور اہلکاروں کی مہارت کے باعث کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، جو ایرانی فوج کے عملے کی اعلی صلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا واضح ثبوت ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ایران کی مسلح افواج عوامی حمایت کے ساتھ، ملکی سالمیت اور اسلامی انقلاب کے دفاع کے لیے ہمیشہ میدان میں موجود ہیں۔ مستقبل میں فوج کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور دفاعی نظام مزید مضبوط بنایا جائے گا۔

بر رساں ادارے A.B نے صیہونی عسکری ذرائع کو نقل کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی رہنما شہید یحییٰ سنوار نے 2016 یا 2017 سے ہی طوفان الاقصیٰ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صیہونی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس حماس کے مجاہدین کی جانب سے 8 نقاط سے دراندازی کی اظلاع تھی، لیکن وہ 60 مقامات سے داخل ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کی زبردست فوجی اور انٹیلی جنس ناکامی کے بارے میں اپنی داخلی تحقیقات کے  نتائج پہلی بار جاری کئے ہیں۔ جن میں بتایا گیا کہ کس طرح سینئر افسران نے حماس کو بہت کمزور سمجھا اور پھر ابتدائی انتباہات کی غلط تشریح کی۔

فوج کہاں تھی؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق فوج کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان استفسارات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو اس دن سے پریشان کر رکھا ہے، جب حماس کے زیرقیادت ہزاروں بندوق برداروں نے اسرائیلی کیمونٹی، فوجی اڈوں اور ایک میوزک فیسٹیول پر دھاوا بول دیا تھا۔ حکام کے سامنے سوال یہ تھا کہ فوج کہاں تھی؟ اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق انہوں نے فوج کے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حملے کے ردعمل کی چھان بین میں دسیوں ہزار گھنٹے صرف کیے۔ یہ حملہ جس میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے خطرناک دن تھا۔

درست انٹیلی جنس کا نشہ
رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص ہی تھا۔ حماس کی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

خالص فوجی تحقیقات
اس انکوائری میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان اسباب میں حملے کے پہلے گھنٹوں میں ناگہان طور پر پیدا ہونیوالی افراتفری کا تاخیر سے دیا جانیوالا فوجی جواب بھی شامل تھا، جب حماس کی طرف سے غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو تیزی سے مغلوب کیا گیا اور فوج کی جنوبی کمان اور غزہ ڈویژن کو زیر کر لیا گیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس ناکامیوں کے نتائج بڑی حد تک مقامی اور بین الاقوامی نیوز میڈیا کی تفصیلی تحقیقات سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اب فوج احتساب کی خاطر ان واقعات کا اپنا ورژن پیش کر رہی ہے۔

صیہونی فوج نے اپنی تحقیقات کو دیگر اداروں کے ساتھ مربوط نہیں کیا، جیسے کہ شن بیٹ کی داخلی سلامتی ایجنسی، جو غزہ میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے، یا پولیس وغیرہ۔ فوج نے برسوں کی حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی پر بھی توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک آزاد کمیشن کے وسیع عوامی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے بارہا کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد سخت سوالات کا جواب دیں گے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ فوج کی اندرونی انکوائریوں کا مقصد انفرادی ذمہ داری کا پتہ لگانا نہیں تھا، یہ بعد میں اسرائیل کے نئے فوجی چیف آف اسٹاف، ایال ضمیر کے تحت ہوسکتا ہے، جو مارچ کے اوائل میں لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کی جگہ لے رہے ہیں۔

حماس کی کامیاب رازداری
جنرل حلوی کا کہنا تھا کہ اصل مقصد شکست سے سبق سیکھنا ہے۔ جنرل حلوی نے اسرائیلیوں کی حفاظت میں اپنی کمان میں فوج کی ناکامی کی ذاتی طور پر ذمہ داری قبول کی ہے اور انہوں نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ہارون حلیوا نے بھی 2024 میں اسرائیلی فوج کی غزہ بریگیڈ کے سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید استعفے متوقع ہیں۔ فوج کے مطابق حماس حالیہ برسوں میں اسرائیل کو یہ باور کروا کر دھوکہ دینے میں کامیاب رہی کہ وہ غزہ میں پرسکون ہے اور صرف معاشی حالات کو بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس دھوکے میں رہتے ہوئے صیہونی فوج نے بنیادی طور پر اپنے وسائل ایران اور لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ پر مرکوز کیے رکھے، جو دونوں ہی اسرائیل کے مضبوط دشمن ہیں۔ اسی غفلت کیوجہ سے حماس کے حملے کے بارے میں کچھ بھی پیشگی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔ فوج نے ان رپورٹوں کو تسلیم کیا ہے کہ اسے 2022 تک حماس کے آپریشنل حملے کا منصوبہ مل گیا تھا جس کا کوڈ نام "جیریکو وال" تھا، جس کا آئیڈیا ابتدائی طور پر 2016 میں پیش کیا جا چکا تھا، حماس کو ضروری تیاری میں وقت لگا، جو اسرائیل کو معلوم نہیں تھا۔ تقریباً 40 صفحات پر مشتمل فوجی انکوائری کی دستاویز میں 7 اکتوبر کو ہونے والے تباہ کن حملے کی نوعیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اہم نتائج کے تحریری خلاصے میں فوج نے کہا ہے کہ "7 اکتوبر سے پہلے معلومات کو عام طور پر ایک غیر حقیقی یا طوفان الاقصیٰ کو ناقابل عمل منصوبے کے طور پر غلط سمجھا گیا۔" فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرہ سرحد کے ساتھ 4 سے 8 پوائنٹس تک محدود تعداد میں چھاپوں کی حد تک ہے، یہ بھی اندازہ غلط تھا کہ حملے کے دوران ہزاروں نہیں درجنوں عسکریت پسند شامل ہوں گے۔ یہ بھی ایک غلط اسرائیلی مفروضہ تھا کہ حماس کسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل ابتدائی انٹیلی جنس وارننگ دی گی، لیکن 7 اکتوبر کو کسی حملے کی منصوبہ بندی کی کوئی پیشگی انٹیلی جنس نہیں تھی اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا۔

نتیجتاً، سرحدی دفاع کے لیے صرف باقاعدہ فوجیں تعینات کی گئی تھیں، ہمیشہ کی طرح ہفتے کے روز جب یہودیوں کی چھٹی بھی تھی۔ 6 اور 7 اکتوبر کی درمیانی رات کو غزہ میں کچھ ہلچل کے ابتدائی اشارے موصول ہوئے تھے۔ جیسے اسرائیلی سم کارڈوں سے لیس درجنوں سیل فونز کا چالو ہونا وغیرہ، لیکن اسرائیلی حکام نے حماس کی صلاحیتوں کے بارے میں پیشگی اقدامات کو اٹھانے کے لیے کافی یقین دہانی کرائی تھی۔ (ابتدائی خلاصے میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے کچھ مہینوں تک نچلے رینکس کی انتباہات پر توجہ نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں خارج از امکان قرار دیا گیا تھا۔) 

حملوں کے تین مراحل
فوجی انکوائری کے مطابق آپریشن تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے ابتدائی آدھے گھنٹے میں حماس کے تقریباً 1200 کمانڈوز شامل تھے۔ دوسرا حملہ تقریباً صبح 7 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوا، جو تقریباً 2,000 مزید کمانڈوز اور دیگر مسلح تنظیموں کے بندوق برداروں پر مشتمل تھا۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک سویلین ہجوم پر مشتمل تھا جس پر حماس کے فوجی کمانڈروں نے بظاہر زور دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر اور زمینی کمانڈر حملے کی مجموعی تصویر بنانے میں کامیاب نہیں سکے۔ مسلح شہری، افسر، سپاہی جو ابتدائی ردعمل کے لئے میں پہنچ گئے تھے، یہ ابتدائی چند گھنٹوں کے دھچکے کو ختم کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس میں تین بریگیڈ کمانڈر، کئی بٹالین اور کمپنی کمانڈر مارے گئے۔

صیہونی کیمونٹی کا ردعمل
انکوائری کے مطابق 9 اکتوبر کی رات تک صیہونی فوج کو یہ اعلان کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کہ اس نے سرحدی علاقوں کا آپریشنل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ فوج نے حالیہ دنوں میں ان کمیونٹیز کے رہائشیوں کے سامنے اپنے نتائج پیش کرنے کا آغاز کیا، جو حملے کی زد میں آئیں۔ ان کے جوابی ردعمل ملے جلے تھے، کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے متعلق پوچھ گچھ نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ نے کہا ہے کہ انہیں نئی ​​بصیرت حاصل ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی، گاؤں نہال اوز کے رہائشی امیر تبون نے فوج کی انکوائری کو "گہری اور سنجیدہ" رپورٹ قرار دیتے ہوئے سراہا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں کچھ زیادہ مشکل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ٹیکٹیکل رپورٹ تھی، جو ایک مکمل آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ 7 اکتوبر کو اپنے خاندان کی آزمائش پر مبنی لمحات اور وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کتاب "غزہ کے دروازے" کے مصنف مسٹر ٹیبون نے کہا ہے کہ فوجی انکوائری نے انھیں کچھ نئی تفصیلات فراہم کی ہیں، جسے انھوں نے "نہال اوز کے دفاع کے لیے بہادرانہ جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں۔

اس نے کہا کہ حملہ آور تین مرحلوں میں اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے، دو نہیں، جیسا کہ اس نے پہلے سوچا تھا، اور یہ کہ تیسرا مرحلہ صبح گیارہ بجے کے قریب تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو منظم ہونے اور ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی فورس بھیجنے میں کتنا زیادہ وقت لگا۔ حماس نے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کا آغاز کیا، جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں اکثریت خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ جنگ نے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور تنازعہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
 
 
 تنظیم و ترتیب: علی احمدی