سلیمانی

سلیمانی

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے ممتاز دانشوروں، اساتذہ اور غیر معمولی ذہانت کے حامل نوجوان طلبا و طالبات سے ملاقات میں فرمایا ہے کہ ہمارا ملک ذہنی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کی متوسط سطح سے بالاتر ہے اور یہ محض کوئی دعوی نہیں ہے بلکہ یہ چیز ثابت شدہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ درحقیقت ہمارا ملک اور ہمارے عوام ذہنی استعداد کے لحاظ سے غیر معمولی ذہانت کے مالک ہیں اسی لئے سامراجی طاقتیں ایک عرصے سے ہم پر سافٹ وار مسلط کئے ہوئے ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ گزشتہ دو سو برسوں سے سامراج اور ایران کے اس وقت کے حکام ایک آواز ہو کر یہ پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ ایرانی عوام میں استعداد و صلاحیت نہیں پائی جاتی لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس جھوٹے پروپیگنڈے پر خط بطلان کھینچ دیا۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایاکہ سامراجی طاقتوں کی نرم جنگ یا سافٹ وار کا ایک طریقہ جو ہمیشہ رہا ہے اور آج بھی جاری ہے اور ماضی میں کچھ زیادہ ہی تھا، وہ یہ ہے کہ ہماری قوم اور اسی طرح دیگر قوموں کو جو کہ غیرمعمولی ذہانت کی مالک ہیں، ان کی توانائیوں سے غافل کریں اور ان کو اس طرح بنادیں کہ وہ خود اپنی توانائیوں کا ہی انکار کرنے لگیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر کسی قوم میں یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ اس کے اندر صلاحیت نہیں پائی جاتی تو اس کو لوٹنا اور تباہ و برباد کرنا آساں ہو جاتا ہے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "ابوھا فداھا" یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔

اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا پرتپاک استقبال:

 علامہ مجلسی رہ تاریخ قدیم [378 ھجری قمری میں بڑے دانشمند حسن بن محمد کی طرف سے لکھی گئی] سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ھجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت س سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی رحلت اور کفن و دفن:

جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ س کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ س کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ س کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انکی نماز جنازہ اور انکا دفن صرف معصوم ہستی ہی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن کچھ ممتاز ہستیاں اس امر میں معصومین علیھم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام کی ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دفن کیا۔ جب ان کے ساتھیوں نے ان کو مدد کرنے کو کہا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: "ان معنی یعیننی" یعنی میرے ساتھ [فرشتگان اور ملکوتیان] ہیں جو مجھے اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور خصوصیات:

 قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیھم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے۔ "قاموس الرجال" کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں"۔ آپ کی شخصیت کے بے کران فضائل کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

۱۔ قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت علیھم السلام کی شفاعت:

 شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مخصوص ہے جس کو قرآن مجید میں "مقام محمود" کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو "ولسوف یعطیک ربک فترضی" میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ سلام اللہ علیھا کے مہریہ میں شامل ہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے موقی پر جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا: "خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مہریہ قرار دیا ہے"۔ یہ حدیث برادران اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ: "حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔

۲۔ عصمت:

 اس روایت کے مطابق جو مرحوم سپھر نے "ناسخ" میں امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کی ہے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو امام علی رضا علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ اس روایت کو مرحوم محلاتی نے بھی نقل کیا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عصمت چودہ معصومین علیھم السلام تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام اور فرشتے بھی معصوم ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور بارہ امام علیھم السلام کا "چودہ معصوم" کے طور پر معروف ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گناھان کبیرہ اور صغیرہ سے محفوظ ہونے کے علاوہ ترک اولی، جو عصمت کے منافی نہیں ہے، سے بھی مبرا ہیں۔ مرحوم مقرم اپنی باارزش کتابوں "العباس" اور "علی اکبر" میں حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے معصوم ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مرحوم نقدی اپنی کتاب "زینب الکبری" میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی عصمت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح "کریمہ اہلبیت" کے مصنف حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عصمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا اسم مبارک "فاطمہ" ہے اور اپنی زندگی میں انہیں کبھی معصومہ کا لقب نہیں ملا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ان کو یہ لقب عطا کرنا انکی عصمت پر دلیل ہے۔

۳۔ فداھا ابوھا:

آیت اللہ سید نصراللہ مستنبط کتاب "کشف اللئالی" سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیھم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور انکے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے انکی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے انکے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ چونکہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔

۴۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا مزار، حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی تجلی گاہ: اس سچے خواب کے مطابق جو مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی [متوفا 1338 ھجری قمری] سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ وہ مرحوم اس کوشش میں تھے کہ جس طرح بھی ہو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کا جگہ معلوم کریں۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیھا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر ہے"۔ پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ وہ عظمت جو حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کیلئے تھی خداوند عالم نے وہی عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو عطا کی ہے"۔

۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی:

 امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں ری کے اہالی سے ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں: "میرے فرزندان میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے"۔ راوی کہتا ہے: "میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی وفات کے بارے میں آپ کے والد ماجد کی ولادت سے پہلے پیش گوئی کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے

۶۔ قم کے مقدس ہونے کا راز:

 بہت سی احادیث میں قم کے مقدس ہونے کا ذکر ہوا ہے اور یہ کہ اس کی تصویر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوتھے آسمان پر دکھائی گئی۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے قم کے رہنے والوں پر درود بھیجا اور وہاں پر جبرئیل کے قدموں کے نشان ہونے کی خبر دی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے قم کو اہلبیت علیھم السلام کا گھر کہا ہے اور اسکی مٹی کو پاک و پاکیزہ جانا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے قم کو آل محمد علیھم السلام کا آشیانہ کہا ہے اور خبر دی ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ اہالی قم سے مخصوص ہو گا۔ امام علی نقی علیہ السلام نے قم کے لوگوں کو "مغفور لھم" یعنی بخشے گئے لوگ سے تعبیر کیا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم کے لوگوں کی حسن نیت کو سراہا ہے اور انکی اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔ اسی طرح کی دسیوں احادیث جو ائمہ معصومین علیھم السلام سے ہم تک پہنچیں ہیں اس سرزمین اور وہاں پر رہنے والوں کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظمت اور فضیلت کا راز کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی والی حدیث اس عظمت اور فضیلت کا راز کھولتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فضیلت اور عظمت ریحانہ پیغمبر، کریمہ اہلبیت، خاتون اسلام حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔

۷۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اکلوتی بہن:

 امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ گرامی جناب نجمہ خاتون نے دو بچوں کو ہی پالا جن کے نام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ محمد بن حریر طبری، پانچویں صدی ھجری کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین، نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 25 سال تک امام علی رضا علیہ السلام جناب نجمہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھے۔ ایک چوتھائی صدی کے انتظار کے بعد سرانجام ایک تابناک ستارہ جناب نجمہ خاتون کے دامن میں طلوع ہوا جو امام علی رضا علیہ السلام کیلئے خوشی کا باعث تھا اور آپ نے اپنے تمام برادرانہ عواطف ان پر نچھاور کر دیئے۔ ان بہن بھائیوں کے درمیان گہری محبت پائی جاتی تھی۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک واقعہ میں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا کردار بھی ہے جب نصرانی ان سے پوچھتا ہے کہ آ پ کون ہیں تو وہ فرماتی ہیں: "انا المعصومہ اخت الرضا" یعنی میں معصومہ امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہوں۔ اس تعبیر سے ان کے دل میں اپنے بھائی کیلئے پائی جانے والی بے حد محبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

۸۔ دعوت نامہ:

 ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا۔ لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کیلئے سخت مشکل تھی۔ یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو ایک خط لکھا اور ایک بااعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو دستور دیا کہ رستے میں کہیں نہ رکے تاکہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔

امریکی چھانیوں میں محصور دسیوں ہزار افغان پناہگزیں انتہائی کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

روزنامہ ہافنگٹن پوسٹ کے مطابق، کم سے کم پچاس ہزار افغان پناہنگزینوں کو ویکسینیشن کے باوجود، امریکی  فوجی چھاونیوں میں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ 

بعض پناہ گزینوں نے مذکورہ جریدے کو بتایا ہے کہ سخت سردی کے باوجود انہیں گرم کپڑے فراہم نہیں کیے گئے اور وہ کیمپوں میں سردی کی شدت سے پریشان ہیں۔

گزشتہ روز ابوظہبی کے پناہ گزین کیمپ میں موجود سیکڑوں افغان شہریوں نے مظاہرے بھی کیے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے تین ماہ سے کس مپرسی کے عالم میں زندگی بسر  کر رہے ہیں اور انہیں امریکہ  لے جانے کے معاملے میں بھی لیت لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں میں بتایا  گیا ہے کہ ابو ظہبی میں مقیم تقریبا دس ہزار افغان پناہگزینوں کو امریکہ یا کسی دوسر یورپی ملک منتقل کیے جانے کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں دو ہسپتالوں میں طبی عملے نے نسل پرستی کا نشانہ بنایا اور ڈاکٹروں نے انہیں علاج فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطینیوں کوزخمی حالت میں ہسپتال سے جانے کو کہا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ روز قابض ریاست اسرائیل کے 2ہسپتالوں میں صہیونی طبی ٹیموں نے 2فلسطینی نوجوانوں جاد عقل اور نور ابو خضیر کو اس وقت علاج سے روک دیاجبانہیں معلوم ہوا کہان دونوں فلسطینیوں کو یہودی آباد کاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

القدس کے شمال میں واقع قصبے شعفات سے تعلق رکھنے والے ان دونوں نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں دو ہسپتالوں میں طبی عملے نے نسل پرستی کا نشانہ بنایا اور ڈاکٹروں نے انہیں علاج فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطینیوں کوزخمی حالت میں ہسپتال سے جانے کو کہا۔

یہ دونوں نوجوان مقبوضہ بیت المقدس کی یافا شاہراہ پر آباد کاروں کے ایک گروپ کے حملے میں زخمی ہوئے تھےاوران  کے جسم پر زخموں کے نشانات جبکہ ایک کی آنکھ کے قریب ٹانکے لگائے گئے ہیں۔

افغانستان کے امور میں ایران کے خصوصی نمائندے طالبان عہدیداروں سے گفتگو کے لئے کابل پہونچے ہیں۔

حسن کاظمی قمی کی سربراہی میں ایک سیاسی و اقتصادی وفد پیر کی صبح کابل ایئر پورٹ پہونچا۔ اس وفد کے پہونچنے پر طالبان حکومت کے عہدیداروں نے اس کا استقبال کیا۔

کاظمی قمی نے کابل ایئرپورٹ پر نامہ نگاروں سے گفتگو میں اسلامی جمہوریہ ایران کو افغان قوم کا دیرینہ حامی بتاتے ہوئے کہا: جس طرح اس ملک پر قبضے کے دوران ایران نے افغان عوام کی حمایت کی آج بھی ایران اسی طرح افغانستان کی اقتصای ترقی، سکورٹی اور صلح کو پائیدار بنانے کے لئے اس ملک کے عوام کے ساتھ ہے۔

ایران کے نمائندے نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ آج افغانستان پر  اس ملک کے عوام کا اختیار ہے، امید ظاہر کی کہ افغانستان میں ایک مضبوط حکومت وجود میں آئے گی جسے پوری عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔  

کاظمی قمی نے کہا: افغانستان میں ایک مضبوط حکومت کے سائے میں کابل اور تہران آپسی تعاون نیز ہمسایہ اور خطے کے ملکوں کے تعاون سے ایک مضبوط، ترقی یافتہ و پائیدار افغانستان کے قیام کے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے امریکہ کی سرکردگی میں جارح مملاک کے ہاتھوں افغانستان کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے یہ افغانستان کی تعمیر و ترقی اسکے عوام کے ہاتھوں انجام پائے گی۔
http://www.taghribnews.com/vdcdj90kkyt0xj6.432y.html

 قم میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی شہادت کی مناسبت سے حرم کریمہ اہلبیت (س) کو سیاہ پوش کردیا گیا ہے۔ آج صبح  حرم مطہر کے خدام کی موجودگی میں حرم کریمہ اہلبیت (ع) میں مجلس عزا منعقد کی گئی جس میں خطباء و ذاکرین نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے فضائل اور مصائب پیش کئے۔

حزب اللہ لبنان نے کہا ہے کہ عرب اسرائیل فوجی مشقیں بیت المقدس، فلسطین اور علاقے کی تمام اقوام کے قلب میں خنجر گھونپے جانے کے مترادف ہیں۔

حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن نبیل قاووق نے اتوار کے روز غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ بعض عرب ملکوں کی مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد پر مبنی رپورٹوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی فوجی مشقیں، لبنان اور فلسطین کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت بڑھنے کا باعث بنیں گی۔

انھوں نے کہا کہ یہ فوجی مشقیں غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے والے حکمرانوں کی پیشانی پر کلنگ کا ٹیکہ ہوں گی۔

حزب اللہ کے رہنما شیخ قاووق نے کہا  کہ تحریک مزاحمت کے پاس موجود ہتھیار، غاصب  صیہونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہیں اور ان ہتھیاروں کا بہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی دفاعی و فوجی طاقت و توانائی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور جنوبی لبنان، لبنانی فوج، قوم اور تحریک مزاحمت کے دفاع کی فرنٹ لائن ہے۔
http://www.taghribnews.com/

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ کا اسم گرامی جناب حدیثہ خاتون اور آپ کے والد دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام ہیں۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کے رکھے ہوئے نام " حسن بن علی " سے موسوم کیا۔

آپ کی کنیت “ ابومحمد” تھی اورآپ کے القاب بے شمارتھے جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اورابن الرضا زیادہ مشہورہیں۔

آپ کالقب عسکری اس لئے زیادہ مشہورہوا کہ آپ جس محلہ میں بمقام " سرمن رائے"  رہتے تھے اسے عسکرکہاجاتاتھا اوربظاہراس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پرلشکرجمع کیاتھا اورخودبھی قیام پذیرتھاتواسے " عسکر" کہنے لگے تھے، اورخلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کومدینہ سے بلواکریہیں مقیم رہنے پرمجبورکیاتھا نیزیہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ (عج)  کواسی مقام پرنوے ہزار لشکر کامعائنہ کرایاتھا اور امام (ع)  نے اپنی دوانگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکرکامشاہدہ کرادیاتھا انہیں وجوہ کی بناپراس مقام کانام عسکر ہوگیاتھا جہاں امام علی نقی اورامام حسن عسکری علیہماالسلام مدتوں مقیم رہ کرعسکری مشہورہوگئے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کاپتھرپرمہر لگانا:

ثقة الاسلام علامہ کلینی اورامام اہلسنت علامہ جامی رقمطرازہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اوراس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھرکاٹکڑا پیش کرکے خواہش کی کہ آپ اس پراپنی امامت کی تصدیق میں مہرکردیں حضرت نے مہرنکالی اوراس پرلگادی آپ کااسم گرامی اس طرح کندہ ہوگیاجس طرح موم پرلگانے سے کندہ ہوتاہے ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اورخصوصیات مذہب

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کاارشادہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کاشمارہوگا جواصول وفروع اوردیگرشرائط کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل اور  ان پرعامل ہوں گے۔:
۱ ۔ شب وروزمیں ۵۱ رکعت نمازپڑھنا۔
۲ ۔سجدگاہ کربلاپرسجدہ کرنا۔
۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
۴ ۔اذان واقامت کے جملے دودومرتبہ کہنا۔
۵ ۔ اذان واقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا۔
۶ ۔ نمازمیں بسم اللہ زورسے پڑھنا۔
۷ ۔ ہردوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نمازعصراورتاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
۹ ۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا۔
۱۰ ۔ نمازمیت میں پانچ تکبرکہنا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲) ۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعض ارشادات:

     1۔ دوبہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان رکھے اورلوگوں کوفائدے پہنچائے۔

     2۔ اچھوں کودوست رکھنے میں ثواب ہے۔

     3۔ تواضع اورفروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اورمجلس میں معمولی جگہ بیٹھے۔

      4۔ بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔

      5۔پڑوسیوں کی نیکی کوچھپانا، اوربرائیوں کواچھالناہرشخص کے لیے کمرتوڑدینے والی مصیبت اوربے چارگی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی ہندوستان کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے نے نئي دہلی میں افغانستان کے موضوع پر سکیورٹی کانفرنس کے اجلاس کے ضمن میں روس کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری نیکلای پیٹروشف سے ملاقات میں کہا ہے کہ ایران افغانستان کے عوام کی مدد میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرےگا۔ اس ملاقات میں ایران اور روس کے اعلی قومی سلامتی کے سکریٹریز نے دوطرفہ تعلقات ، علاقائي امور اور عالمی مسائل کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ شمخانی نے ایران اور روس کے درمیان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں مثبت تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی خطے کے لئے بہت بڑا ناسور ہے جس کا باہمی تعاون کے ذریعہ مقابلہ بہت ضروری ہے۔ شمخانی نے افغانستان میں جامع اور ہمہ گیر حکومت کی تشکیل پر زوردیتے ہوئے کہا کہ جامع حکومت کی تشکیل سے افغانستان میں پائدار امن و صلح قائم ہوسکتا ہے۔

روس کی اعلی قومی سلامتی کے سکریٹری نے بھی ایران اور روس کے قریبی تعلقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل بہت ضروری ہے اور علاقائی ممالک کو افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے صوبے ننگرہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زور دار دھماکے کے نتیجے میں 3 نمازی شہید جب کہ امام مسجد سمیت 12 افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع اسپین گھر کی ایک مسجد میں اُس وقت زور دار دھماکہ  ہوا جب وہاں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔

مقامی طالبان کمانڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مسجد میں دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ دھماکے کی نوعیت سے متعلق تفتیش جاری ہے۔

دھماکے میں 3 افراد شہید ہوگئے جب کہ امدادی کاموں کے دوران امام مسجد سمیت 12 افراد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے جن میں سے 10 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جس کے باعث مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

تاحال کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جمعہ کے روز مسجد میں دھماکے کا یہ چوتھا واقعہ ہے جن شیعہ اور سنی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ دھماکوں کی ذمہ داری داعش دہشت گرد تنظیم نے قبول کی تھی اور ان دھماکوں میں 400 سے زائد افراد شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔