رہبر معظم کا 13 آبان کی مناسبت سے طلباء کے ایک عظيم اجتماع سے خطاب

Rate this item
(0 votes)

رہبر معظم کا 13 آبان کی مناسبت سے طلباء کے ایک عظيم اجتماع سے خطاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کے قومی دن کی آمد کے موقع پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء کے اجتماع سے خطاب میں مذاکراتی ٹیم کے حکام اور مذاکرات کی محکم اور مضبوط حمایت کی اور ایرانی قوم کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی دشمنی اور عداوت کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کے گذشتہ اور ماضی کے اعمال و رفتار سے بخوبی پتہ چلتا ہے ایٹمی معاملہ ایران کے ساتھ دشمنی جاری رکھنے کے لئے صرف ایک بہانہ ہے۔ کسی کو دشمن کی فریبکارانہ مسکراہٹ پر غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں بہت خوب، ورنہ مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اندرونی وسائل پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 13 آبان کے تین تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کو 1343 ہجری شمسی میں امریکی فوجیوں اور اہلکاروں کو ایران میں عدالتی استثنی کے معاہدے کے خلاف تقریر کرنے کی وجہ سے ملک بدر کردیا گيا، سن 1357 ہجری شمسی میں امریکہ کی حامی حکومت کے اہلکاروں کے ہاتھوں تہران میں طلباء کا وحشیانہ قتل عام ، اور سن 1358 میں طلباء کے دلیرانہ اقدام کے ذریعہ امریکی سفارتخانہ پر قبضہ ، یہ تینوں واقعات کسی نہ کسی زاویہ سے امریکی حکومت سے متعلق ہیں اور اسی وجہ سے 13 آبان کے دن کو سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کے دن سے موسوم کیا گيا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن مجید میں استکبار کے لفظ کی تشریح سے پہلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے مؤمن اور شجاع جوانوں نے 1358 ہجری شمسی میں امریکی سفارتخانہ پر قبضہ کرکے اس کی حقیقت اور اصلی تصویر کو برملا کردیا جو حقیقت میں جاسوسی کا مرکز تھا، ایرانی جوانوں نے تیس سال پہلے امریکہ کی جاسوسی کا انکشاف کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس دن ہمارے جوانوں نے امریکی سفارتخانہ کو جاسوسی کے اڈے اور مرکز سے موسوم کیا اور آج تیس سال بعد امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک امریکی سفارتخانوں کو جاسوسی کے اڈے اور جاسوسی کےمراکز سے موسوم کر رہے ہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جوان تیس سال پہلےدنیا کے کلینڈر سے کہیں آگے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس نکتہ کے اظہار کے بعد استکباری لفظ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: استکبار کا اطلاق ایسے انسانوں اور حکومتوں پر ہوتا ہے جو دوسری قوموں اور دوسرے افراد کے معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کسی کے سامنے جوبدہ بھی نہیں ہیں۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: استکبار کے مد مقابل وہ انسان اور قومیں ہیں جو استکباری طاقتوں کی مداخلت اور منہ زوری کو نہ صرف برداشت نہیں کرتیں بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتی ہیں اور ایرانی قوم ایک ایسی ہی قوم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی حکومت کو استکباری حکومت قراردیا اور اس کی طرف سے دوسروں کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اپنے اسلامی انقلاب کے ذریعہ امریکہ کی منہ زوری اور اس کی تسلط پسندی کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے اپنے ملک سے استکبار کی جڑیں بالکل کاٹ دیں ، اور بعض ممالک کی طرح ایرانی قوم نے اس کام کو نامکمل نہیں چھوڑا بلکہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کسی بھی قوم اور ملک کے لئے مستکبر کے ساتھ صلح و مذاکرات کو بے فائدہ قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام قومیں امریکہ کی استکباری خصلت ک وجہ سے اس سے متنفر اور اس کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہیں اور تجربہ سےیہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جو قوم اور حکومت، امریکہ پر اعتماد کرےگی وہ ضرور چوٹ کھائے گی، حتی اگر امریکہ کے دوست ہی کیوں نہ ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں کچھ تاریخی نمونے پیش کئے جن میں ڈاکٹر مصدق کا امریکیوں پر اعتماد اور امریکیوں کا جواب میں 28 مرداد میں مصدق کے خلاف کودتا،اور اسی طرح ایران سے محمد رضا پہلوی کے فرار کے بعد امریکیوں کی اس کے ساتھ بے وفائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج قوموں میں سب سے زیادہ نفرت، امریکی حکومت کے بارے میں پائی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر آج دنیا میں ایک سالم اور منصفانہ سروے کروایا جائے تو پوری دنیا میں عوام کی رائے امریکی حکومت کے بارے میں سب سے زيادہ منفی ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: عالمی استکبار کے ساتھ قومی مقابلہ کا دن ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے جو درست تجزيہ اور تحلیل پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام طلباء کو استکبار کے ساتھ مقابلے کے مسئلہ کے بارے میں صحیح اور دقیق تجزيہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے اوائل کے جوانوں کو امریکہ کے بارے میں تجزيہ اور تحلیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انھوں نے بے رحم طاغوتی حکومت کی حمایت اور امریکہ کے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا تھا لیکن آج کے جوان کو درست تحقیق اور تجزيہ کے ساتھ اس مطلب تک پنہچنا چاہیے کہ ایرانی قوم امریکہ کی استکباری خصلت کے کیوں خلاف ہے اور ایرانی قوم کی امریکہ سے بیزاری کی اصلی وجہ اور دلیل کیا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکہ کے ساتھ جاری مسائل کے بارے میں کچھ اہم اور بنیادی نکات پیش کئے اور گروپ 1+5 کے ساتھ ایرانی مذاکراتی ٹیم اور حکام کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی ٹیم انقلاب کے فرزندوں اور اسلامی جمہوریہ کے حکام پر مشتمل ہے جو اپنی تمام کوششوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں اور کسی کو "انھیں کمزور کرنے ، ان کی توہین کرنے یا انھیں سازشی قراردینے کا حق نہیں ہے" ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: گروپ 1+5 میں امریکہ بھی شامل ہے اور اس گروپ کے ساتھ ایران کے مذاکرات صرف ایٹمی معاملے تک محدود ہیں اور ہمیں ان مذاکرات سے کوئي ضرر یا نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہمارے تجربہ میں مزید اضافہ ہی ہوگا اور سن 1382 اور 1383 ہجری شمسی کے تجربہ کی طرح عوام کی تجزيہ اور تحلیل کی طاقت میں مزيد استحکام ہوگا جس میں عارضی طور پر یورینیم کی افزودگي کو متوقف کیا گيا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس قومی تجربے کے مزید نتائج کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ایک عشرہ قبل یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں عقب نشینی کرتے ہوئے ہم نے ایک قسم کی مسلط کردہ تعلیق کو قبول کرلیا لیکن دو سال تک کام معطل، معلق اور متوقف کرنے کے بعد سبھی سمجھ گئے کہ حتی اس قسم کے اقدام کے ذریعہ بھی مغربی ممالک کا تعاون حاصل نہیں کرسکیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو ممکن تھا بعض لوگ یہ دعوی کرتے کہ اگر ایک بار عقب نشینی کرلیتے تو ایٹمی فائل کے بارے میں تمام مشکلات حل ہوجاتیں ، لیکن عارضی تعلیق کے تجربہ سے سبھی نے درک کرلیا کہ فریق مقابل دوسرے اہداف کے پیچھے ہیں لہذا ہم نے کام اور پیشرفت کا دوبارہ آغاز کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کی موجودہ ایٹمی صورتحال کو ایک عشرہ پہلے کی صورتحال سے بالکل متفاوت اور اس میں زمین و آسمان کا فرق قراردیا اور امریکہ کے ساتھ جاری مسائل میں متعلقہ حکام کی مضبوط اور سنجیدہ حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: میں جاری مذاکرات سے مطمئن اور پرامید نہیں ہوں کیونکہ ان مذاکرات سے قوم کو جن نتائج کی توقع اور امید ہے شاید وہ حاصل نہ ہوں لیکن اس بات پر اعتقاد ہے کہ یہ تجربہ کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہےبشرطیکہ قوم بیدار رہے اور جان لے کہ کیا ہونے والا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غلط پروپیگنڈہ کرنے والےبعض مفادپرست اور سادہ لوح عناصر پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: بعض عناصر غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا سہارا لیکر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ایٹمی معاملے میں ہم تسلیم ہوجائیں تو تمام اقتصادی اور غیر اقتصادی مشکلات حل ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس تبلیغاتی چال کے باطل ہونے کے ثبوت میں ، ایران کے ایٹمی معاملے سے پہلے ایران کے خلاف امریکہ کے گھناؤنےمنصوبوں اور سازشوں کا حوالہ دیا، اور پوری قوم ،بالخصوص جوانوں اور طلباء سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں غور و فکر اور دقیق مطالعہ کریں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کچھ سوال پیش کرتے ہوئے فرمایا: کیا انقلاب کے اوائل میں جب امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کیں اور ان پابندیوں کو جاری رکھا، کیا اس وقت ایران کا ایٹمی معاملہ موجود تھا؟ جب امریکہ نے ایران کے مسافر طیارے کو نشانہ بنایا اور 290 مسافروں کا قتل عام کیا، کیا اسوقت ایٹمی بہانہ یا ایٹمی مسئلہ موجود تھا؟ انقلاب کے اوائل میں جب امریکہ نے شہید نوژہ بیس میں کودتا کا منصوبہ بنایا، کیا اس وقت ایٹمی بہانہ موجود تھا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ کی طرف سے انقلاب مخالف عناصر کی سیاسی اور فوجی حمایت کی اصل وجہ کیا ایران کا ایٹمی پروگرام تھا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان سوالوں کے منفی جواب کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: لہذا ایٹمی مسئلہ صرف ایک بہانہ ہے، فرض کرلیتے ہیں کہ اگر ایٹمی معاملہ ہماری عقب نیشینی کی بنا پر حل بھی ہوجائے تو پھر بھی وہ ایران کے ساتھ دشمنی اور عداوت جاری رکھنے کے لئے دسیوں دوسرے بہانے تلاش کرلیں گے جن میں میزائلوں کی پیشرفت، ایرانی قوم کی اسرائيل کے ساتھ مخالفت اور ایرانی قوم کی لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت کی حمایت جیسے بہانے شامل ہوسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان حقائق کا حوالہ دینے کے بعد فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ امریکیوں کی دشمنی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کا ان کے تمام مطالبات کو رد کرنے کے ساتھ اس بات پر یقین ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ ، اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود، ایرانی قوم کے منتخب و مقتدر نظام اور علاقہ میں اس کے اثر و رسوخ کے بالکل خلاف ہےجیسا کہ حال ہی میں امریکہ کے ایک سیاستداں اور فکری عنصر نےواضح طور پر اعلان کیا کہ ایران چاہے ایٹمی ہو یا نہ ہو وہ خطرناک ہے کیونکہ وہ علاقہ میں بااثر اور صاحب اقتدار ہے اور خود ان کے بقول علاقہ پر ایران کی قیادت حکمفرما ہوگئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ایران کا ایٹمی معاملہ صرف بہانہ ہے اور امریکی اسوقت دشمنی سے ہاتھ کھینچ لیں گے جب ایرانی قوم ایک الگ تھلگ ، غیر معتبر اور غیر محترم قوم بن جائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ مشکلات اور مسائل کا حقیقی حل اندرونی وسائل اور اندرونی طاقت پر توجہ مبذول کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی قوم اپنی قدرت اور توانائیوں پر قائم رہے تو وہ دشمن کی ناراضگی اور پابندیوں سے متلاطم نہیں ہوگي اور ہمیں اس ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ماضی اور حال کے تمام حکام سے ہماری یہی سفارش رہی ہے کہ ترقی و پیشرفت کے سلسلے میں اور مسائل و مشکلات کے حل کے لئے ایران کی وسیع جغرافیائی، قدرتی وسائل اور انسانی ظرفیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں سفارتی کوششوں کو بھی بہت ہی ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اندرونی ظرفیتوں سے استفادہ کا مطلب سفارتی کوششوں کی مخالفت نہیں ہے۔ لیکن توجہ رکھنی چاہیے کہ سفارتی کوششیں کام کا صرف ایک حصہ ہیں اور اصلی کام اندرونی توانائیوں پر استوار ہے جو مذاکرات کی میز پر بھی معتبر اور مقتدر ثابت ہوسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم اور حکام کی توجہ اس اہم نکتہ کی طرف مبذول کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے لیکر اب تک ایران دشمنوں کے مقابلے میں کبھی بھی مایوسی سے دوچار نہیں ہوا اور اس کے بعد بھی نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے پاس انقلاب کے پہلے عشرے میں بہت سے مادی وسائل منجملہ پیسہ، ہتھیار ، تجربہ اور کارآزمودہ فوج نہیں تھی جبکہ مخالف محاذ یعنی صدام معدوم اور اس کے حامی مغربی اور مشرقی طاقتیں طاقت و توانائی کے اوج پر تھیں لیکن وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اب ایران اور اس کے مخالف محاذ کے شرائط پہلے سے کہیں زيادہ متفاوت ہیں، کیونکہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ، علم و ٹیکنالوجی ، عالمی وقار و اعتبار،ہتھیار اور کئی ملین آمادہ جوان موجود ہیں جبکہ اس کے مخالف محاذ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی آج مختلف قسم کی سیاسی ، اقتصادی اور دوسرے بہت سے اختلافات سے دوچار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےامریکہ میں سیاسی اختلافات، امریکی حکومت کی 16 دن تک تعطیل ،بڑی اقتصادی مشکلات، بجٹ میں کئی ہزار ارب ڈالر کا خسارہ اور گوناگوں مسائل منجملہ شام پر حملہ کے مسئلہ میں یورپ اور امریکہ کے درمیان شدید اختلافات کو ایران کے مخالف محاذ کی موجودہ مشکل صورتحال قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ایرانی قوم پہلے سے کہیں زيادہ پیشرفت کی مالک ، آگاہ اور صاحب اقتدار بن چکی ہے اور اس کا 20 یا 30 سال پہلے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ وہ پھر بھی دباؤ قائم رکھیں گے لیکن ہمیں اپنی اندرونی توانائیوں پر اعتماد کرتے ہوئے دباؤ کو برداشت اور اس سے عبور کرجانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات اور سفارتکاری کے میدان میں حکومت اور متعلقہ حکام کی کوششوں اور اقدامات کی ایک بار پھر حمایت کرتے ہوئے فرمایا: یہ اقدام ایک تجربہ اور ممکنہ طور پر ایک مفید کام ہے اگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا تو بہت بہتر، لیکن اگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: میں اپنی پہلی سفارش کو ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ دشمن کی مسکراہٹ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکراتی ٹیم اور سفارتی حکام کومیری یہ ہدایت ہے کہ وہ ہوشیار رہیں اور دشمن کی فریبکارانہ مسکراہٹ سے کہیں غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی حکام کو فریق مقابل کے اظہارات اور اقدامات پر ضروری توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ایک طرف مسکرا کر مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور پھر دوسری طرف بلا فاصلہ یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ ایران کے خلاف تمام آپشن میز پر موجود ہیں، مثال کے طور پر اب وہ کیا غلطی کرنا چاہتے ہیں معلوم نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران پر ایٹمی حملہ کرنے کا مطالبہ کرنے والے ایک امریکی سیاستداں کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکی سچ کہتے ہیں اور مذاکرات میں سچے اور سنجیدہ ہیں تو انھیں اس بیہودہ شخص کا منہ توڑدینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ حکومت جو عالمی اور ایٹمی مسائل کے بارے میں ذمہ داری کا دعوی کرتی ہے وہ دوسروں کو ایٹمی دھمکی دیکر غلط بات کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج امریکی حکومت اور امریکی کانگریس پر صہیونی کمپنیوں اور صہیونی سرمایہ داروں کا تسلط قائم ہے جس کی وجہ سے وہ صہیونیوں کا لحاظ رکھنے پر مجبور ہیں لیکن ہم صہیونیوں کا لحاظ رکھنے پر مجبور نہیں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نے پہلے دن کہا، آج بھی کہہ رہے ہیں اور آئندہ بھی کہیں گے کہ ہم صہیونی حکومت کو جعلی، ناجائز اور حرامزادہ حکومت جانتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم اور حکام کی ہوشیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم حکام کے ہر اس اقدام کی حمایت کریں گے جو ملک کی مصلحت میں ہوگا۔ اور حکام ، قوم اور بالخصوص جوانوں کو پھر سفارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی آنکھوں کو مکمل طور پر کھول لیں کیونکہ قوم کے اہداف تک پہنچنے کا واحد راستہ آگاہی اور ہوشیاری پر مبنی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں فرمایا: امیدوار ہیں کہ جوان اپنے شاداب جذبہ کے ساتھ ملک کو اپنی تحویل میں لیں اور اپنی خلاقیت کے ذریعہ اسے ترقی کے بام عروج تک پہنچادیں۔

Read 1384 times