قبلۂ اول کی آزادی، مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

Rate this item
(0 votes)
قبلۂ اول کی آزادی، مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

صیہونی سکیورٹی فورسز مسجد اقصٰی کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوگئیں جس کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں نے مزاحمت کی اور صیہونی فورسز کے ساتھ  ہونے والےتصادم میں 20 افراد زخمی ہوگئے۔ صیہونی سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصٰی میں داخل ہونے کی کوشش کی، صیہونی فوجیوں نے فلسطینیوں کو قبلہ اول سے دور رکھنے کے لئے ان پر لاٹھی چارج اور اشک آور گیس کی شیلنگ بھی کی۔ صیہونی فوج نے مسجد میں پچاس سال سے کم عمر کے مسلمان مرد و خواتین کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ صیہونی فوج کی اس جارحیت پر جہاں عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے وہیں فلسطینی مسلمانوں نے ایک بار پھر صہیونی فوجیوں کے خلاف کارروائی کی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں الخلیل کے نزدیک ایک فلسطینی نے اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر تین صیہونی فوجیوں کو زخمی کر دیا، زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اسرائیلی فوج کے خلاف فلسطینوں کا یہ دوسرا حملہ ہے۔ صیہونی پولیس ترجمان لوبا سمری نے کہا ہے ڈرائیور اپنی گاڑی سے جس پر فلسطینی نمبر پلیٹ نصب تھی، ٹکر مار کر موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گيا۔ اس واقعہ سے چند گھنٹے قبل ہی بیت المقدس میں اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں دو اسرائیلی ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں ہوئے اس واقعہ کی ذمہ داری فسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے قبول کر لی ہے۔ غزہ میں حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ وین حملہ مسجد الاقصی کے خلاف صہیونی جرائم کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔

ہمارے ساتھی نے اس موضوع پر ہندوستان کے معروف اہلسنت عالم دین مفتی عبدالباطن سے گفتگو کی اور ان سے پہلے یہ جاننا چاہا کہ مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس اور اسی طرح مظلوم فلسطینیوں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے حملے اس سے قبل بھی ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس قسم کے حملے کس مقصد کے تحت ہو رہے ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا۔

مفتی عبدالباطن کا انٹرویو سننےکے لیے نیچے میڈیا پلیئر پر کلک کیجیے۔

قدس کی جابر اور غاصب صیہونی حکومت  کی جانب سے مسجد الاقصی پر حملے اور 20 نمازیوں کو زخمی کرنے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور صہیونی حکومت کے ہاتھوں مسجد الاقصی کے خلاف توہین آمیز اقدامات جاری رہنے پر اردن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس غاصب حکومت کی شکایت کی ہے۔ اردن نے کل ایک مراسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد الاقصی پر صہیونی حکومت کے حملے جاری رہنے کے سبب، اس مسجد کو پہنچنے والے نقصان کی بابت اس حکومت کا مواخذہ کریں۔اردن نے اس مراسلے ميں کہا ہے کہ مسجد الاقصی پر اسرائیل کے حملوں کو بند کرنے کے لئے وہ دیگر قانونی اقدامات کریگا۔

اس سے قبل مسجد الاقصی پر صیہونیوں کے مسلسل حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے اردن نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا تھا۔ اقوام متحدہ میں اردن کے سفیر کا کہنا تھا کہ اردن نے یہ اقدام بغیر کسی تعصب کے کیا ہے اور حرم شریف پر اسرائیلی حملوں کے خلاف وہ ہر طرح کی قانونی کارروائیاں کرنے کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے مسجد الاقصی کے خلاف اسرائیلی حکومت کی کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کو رکوانے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہيئں ۔

ہر چند کہ مسلمانوں کا قبلۂ اول خطرے میں ہے لیکن اس قسم کے حملے اور دھمکیاں اسرائیل کے خوفزدہ ہونے کا واضح ثبوت ہیں اور خطے میں جاری صیہونی اور تکفیری سازش کا انجام شکست اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔

غاصب صہیونی حکومت کی جانب سے مسجد الاقصی کی توہین پر مبنی حالیہ اقدامات کی وجہ سے آج مسلمانوں کا قبلۂ اول حقیقی خطرے سے دوچار ہے۔ آج اس مقدس مقام کو حقیقی اور سنگین خطرہ لاحق ہے اور اس کا دفاع سب کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا قبلہ اول نہ فقط مکمل طور پر نابود ہونے کے خطرے سے دوچار ہو چکا ہے بلکہ اس پر قبضہ کرنے کی سازش پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت قبلہ اول سے عالم اسلام کی غفلت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنی دیرینہ آرزو یعنی مسجد الاقصٰی کی جگہ یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کو پورا کرنے کے درپے ہے۔ 

 البتہ اسرائیلی حکام کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کا سبب اسرائیل کا طاقتور ہونا نہیں بلکہ اس کا خوفزدہ ہونا ہےاس لئے کہ اسرائیلی حکام درحقیقت اپنی آرزووں پر پانی پھر جانے اور اپنے خوف پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام خیال کرتے ہیں کہ خطے کے موجودہ حالات نے اسلامی مزاحمت کو کمزور کر دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف اس کی فوجی آمادگی کم ہوگئی ہے جو اس کی بھول ہے اس لئے کہ 20 نمازیوں کو زخمی کرنے کے واقعہ پر اسلامی مزاحمت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا اور 2 صیہونیوں کو ہلاک کیا گیا اس سے بخوبی اسلامی مزاحمت کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس درمیان ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صرف سامراجی منصوبہ بندی، ڈالرز اور امریکی اسلحہ نے ہی ملت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ کچھ مسلم ممالک خاص طور سے سعودی عرب بھی براہ راست اس امریکی منصوبہ بندی کا باقاعدہ حصہ بن کر عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔

اگر اسلامی ممالک کے حکمران ذاتی مفادات اور سامراجی خوشنودی سے بالاتر ہوکر بیت المقدس کی آزادی کے لیے لائحہ عمل پیش کریں تو کوئی شک نہیں کہ نہ صرف دنیائے اسلام میں ان کی عزت و پذیرائی میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں سرخرو ہونگے اور اس وقت عالم اسلام کی جو صورتحال ہے وہ اس طرح نہ ہوتی۔ اس وقت افسوس ناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عصمتیں لٹ رہی ہیں، مسلم نسل کشی ہر سمت جاری ہے، شیطانی قوتوں کے قیدخانے مسلم نوجوانوں اور خواتین سے بھرے ہوئے ہیں۔ عراق، بحرین، شام، برما، افغانستان اور فلسطین میں سامراجی طاقتیں مسلمانوں کے قتل و غارت کو فروغ دے رہی ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں کے مقدسات غیر محفوظ ہیں، قرآن کریم کی بے حرمتی عام ہوگئی ہے، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود مسلمان لا تعلق بیٹھا ہوا ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی برسوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لئے عوام کو آمادہ کریں۔ قلم کاروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں اور استعمار و استکبار کے خلاف اپنے قلم کو جنبش دیں، میڈیا سے وابستہ افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنی روایتی روش بدل کر قبلہ اول کی آزادی میں اپنا کردار ادا کریں، اگر معاشرے کے ہر ایک فرد نے اپنی ذمہ داری نبھائی تو وہ دن دور نہیں کہ جب فلسطیبن کی آزادی کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔

 

 

Read 1394 times