گزشتہ دو برسوں سے متعدد میڈیا رپورٹس، تحقیقی دستاویزات اور فریقین کے بیانات سے اس امکان کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ امارات نے تیزرفتار (Rapid Support Forces ) فورسز کو مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کی ہے، اگرچہ ابوظبی بارہا ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ تسنیم نیوز کے مطابق، سوڈان کی جنگ جو اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، دنیا کے پیچیدہ ترین اور سب سے نظرانداز شدہ انسانی بحرانوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ 2023 کے اپریل سے شروع ہونے والی اس لڑائی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور دارالحکومت خرطوم سمیت کئی بڑے شہر عملاً تباہ ہو چکے ہیں۔ اس بحران کو مزید پیچیدہ بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ بیرونی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات پر جنگ کو شدید تر کرنے یا طول دینے کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں، اگرچہ امارات ان کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
جنگ کیسے شروع ہوئی؟:
موجودہ لڑائی کی وجہ سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور تیزرفتار فورسز (RSF) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو (حمیدتی) کے درمیان پرانی رقابت ہے۔ یہ دونوں عسکری ڈھانچے 2019 کی بغاوت کے بعد طاقتور ہوئے، اور بالآخر ان کے اختلافات ایک وسیع شہری جنگ میں بدل گئے۔ سعودی عرب اور مصر سوڈانی فوج کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امارات کو RSF کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ آج خرطوم، ام درمان اور الفاشر جیسے شہر جنگ کے میدان بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 1 سے 1.2 کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جس سے یہ بحران حالیہ برسوں کی سب سے بڑی انسانی تباہی بن گیا ہے۔
امارات کا نام کیوں بار بار آ رہا ہے؟:
1. سونے کے ذخائر پر کنٹرول: آر ایس ایف اور اماراتی تجارتی نیٹ ورکس کے درمیان گہرے معاشی روابط موجود رہے ہیں۔ حمیدتی کی فورسز برسوں تک سوڈان کی سونے کی کانوں، خصوصاً جبل عامر پر قابض رہی ہیں۔ اس سونے کا بڑا حصہ امارات کے ذریعے عالمی منڈی میں فروخت ہوتا تھا۔ اسی معاشی مفاد کی بنیاد پر بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ امارات کی ممکنہ حمایت کا مقصد سوڈان کے سونے تک مسلسل رسائی کو یقینی بنانا ہے۔
2۔ اسلحے کی ترسیل اور تجارت: سوڈان کی حکومت نے 2025 میں امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ آر ایس ایف کو اماراتی ہوائی راستوں سے اسلحہ ملتا ہے۔ اگرچہ کسی سرکاری سطح پر اسلحہ فراہم کرنے کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا، لیکن مشکوک کارگو پروازوں اور چینی ساختہ آلات کی بعض معلومات نے شبہات کو تقویت دی ہے کہ امارات پس پردہ لاجسٹک نیٹ ورک سے مدد فراہم کر سکتا ہے۔
3. جیوپولیٹیکل اہداف: گزشتہ دہائی سے امارات افریقہ اور بحیرۂ احمر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ سوڈان کے بحری راستے اور بندرگاہیں اور اس کی جغرافیائی اہمیت، امارات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ بعض ماہرین امارات، مصر اور حتیٰ کہ چین کے درمیان خاموش مقابلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
امارات کا دھندلاتا سافٹ امیج:
اس پورے سیاق میں "اسپورٹس واشنگ" (Sportwashing) بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ یورپ کی مشہور ٹیموں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، مثلاً شیخ منصور کی ملکیت میں مانچسٹر سٹی کلب، امارات کے جدید، محفوظ اور پرکشش چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی بلاگرز اور مشہور شخصیات سوشل میڈیا پر امارات کی دلکش تصویریں پیش کرتے ہیں، لیکن ناقدین کے مطابق یہ خوبصورت تاثر سوڈان جیسے ممالک میں امارات کے ممکنہ عسکری کردار سے متصادم ہے۔
کیا سوڈان واپسی کے راستے سے آگے نکل چکا ہے؟:
سوڈان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر علاقائی طاقتوں کی حمایت جاری رہی، اور آر ایس ایف کو سونے سے ہونے والی آمدنی میسر رہی، تو جنگ کے طول پکڑنے اور ملک کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ممکن ہے مغربی حصّہ آر ایس ایف کے ہاتھ میں رہے اور مشرقی و شمالی علاقے فوج کے زیرِانتظام چلے جائیں، بالکل اسی طرح جیسے پہلے سوڈان جنوبی حصے سے محروم ہو چکا ہے۔
اگر عالمی اور علاقائی طاقتیں، خصوصاً امارات، سعودی عرب، مصر اور امریکا، مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو ایک سیاسی معاہدہ ممکن ہے، لیکن یہ راستہ نہایت مشکل اور طویل ہے۔ سب سے خطرناک امکان انسانی بحران کا شدید تر ہونا ہے۔ اگر امدادی راستے بند رہے اور الفاشر جیسے شہر محاصرے میں رہے، تو سوڈان یمن کے بعد دنیا کی سب سے بدترین انسانی تباہی والا ملک بن سکتا ہے، جس کی علامات پہلے ہی ظاہر ہو چکی ہیں۔
سوڈان کا بحران صرف دو فوجی لیڈروں کی جنگ نہیں، بلکہ سونے، اسلحے، علاقائی اثر و رسوخ، جیوپولیٹکس، اور میڈیا بیانیوں کا ایک مرکب ہے۔ امارات کا کردار، خواہ اسلحہ بھیجنے کے الزامات ہوں، سونے کے ذریعے معاشی نفوذ ہو، یا اسپورٹس واشنگ، اس سارے تجزیے کا مرکزی حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف مصر اور سعودی عرب، سوڈانی فوج کی پشت پر ہیں، جس سے جنگ مزید پیچیدہ اور طویل ہوتی جا رہی ہے۔ آخری حقیقت یہ ہے کہ سوڈان بکھر رہا ہے، اور اس بکھراؤ کی قیمت صرف عوام ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی اتفاقِ رائے اور بین الاقوامی نگرانی کے بغیر امن کا کوئی روشن امکان قریب نظر نہیں آتا۔
اسلام ٹائمز:




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
