سلیمانی

سلیمانی

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات (نمت ) اسلام آباد، حجت الاسلام سید رمیز الحسن موسوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : جو شخص بھی عالمی سیاست خصوصاً دنیائے اسلام کی سیاست سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی سیاست کا دارومدار اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتا ہے اور پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور اس کے اہداف کو پورا کرنا ہے ۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : بقول امام خمینی ؒ اس سرطانی غدے کو ایجاد کرنے کامقصد ہی عالمی شیطانی قوتوں کو تقویت پہنچانا تھا اور پچھلے بہتر، تہتر سال سے عالم اسلام اور اسلامی ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں اسی مقصد کےلئے تھیں ۔ اس عالمی شیطانی سازش کو امام خمینی ؒ کی اسلامی تحریک نے برملا کیااور عالم اسلام کو بیدارکرکے اسے اس طاغوتی نظام کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا ۔اس لئے دنیائے اسلام میں جہاں بھی کوئی اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،اس کے پیچھے یہی طاغوتی مقاصد کی تکمیل کارفرماہوتی ہے ۔

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے بیان کیا : اس وقت آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی مقاصد کو تحفظ دینے اور ان کی تکمیل کے لئے آخری مراحل کو طے کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کی ایک کڑی امارات کا اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق بحرین نے بھی اسرائیلی مملکت کو رسمی طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسے اہم ملک میں اضطراب پیدا کرنا ایک ان طاقتوں کی سیاسی ضرورت ہے ۔پاکستان دنیائے اسلام میں اسرائیلی مخالفت کے لحاظ سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے بانیوں نے شروع ہی سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس عدم تسلیم کو پاکستان کی نظریاتی بنیاد بنا دیا تھا ۔جس کی بنا پر پاکستانی عوام خواہ جس مسلک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ،اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔

انہوں نے کہا : اس رکاوٹ کو فرقہ وارنہ جنگ ہی کے ذریعے کمزور کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد سےاسرائیلی مخالفت کے محاذ کی قیادت اہل تشیع کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان کے باشعور اہل سنت کی اکثریت اس نظریاتی قیادت کو تسلیم کرچکی ہے اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے زمانے سے ہی اس فکری اور نظریاتی قیادت کی جڑیں پاکستان میں کافی مضبوط ہوچکی تھیں ۔لہذا جب بھی اسرائیلی مفادات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو پاکستان میں اہل تشیع پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ شاید پاکستان کی سیاسی اور مبارزاتی تاریخ میں اس وقت جس قدر دباؤ اہل تشیع پر ڈالاجارہا ہے وہ اس سے پہلے نہیں ڈالا گیا ۔

سید رمیز الحسن موسوی نے کہا : اس وقت محرم الحرام سے پہلے ہی اس دباؤ اور تنش کے محرکات فراہم کردیئے گئے تھے ۔آصف جلالی نامی ایک سعودی ایجنٹ کے ذریعے بنت رسول ؐ جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی توہین کرائی گئی ۔اس کے بعد اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آصف علوی نامی عالمی ایجنٹ کو استعمال کرتے ہوئے محرم الحرام کے آغاز میں ہی اہل تشیع کے خلاف ایک ماحول پیدا کیا گیا اور آخر کار روز عاشور زیارت عاشورہ کی تلاوت کو بہانہ بنا کر تمام شیعہ مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی سازش کی گئی ۔لیکن اہل سنت عوام کے باشعور طبقے خصوصاً حالا ت سے آگاہ علمائے اہل سنت کی اکثریت نے اس عالمی صیہونی منصبوے کی نفی کی ہے ۔گو کہ تکفیری سوچ کے حامل کچھ بے شعور لوگ صیہونی ایجنڈے کی تکمیل میں ٹشو پیپر کا کردارادا کررہے ہیں، جنہیں بعد میں ہمیشہ کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے گا ۔

انہوں نے کہا : الحمدللہ بعض اہل سنت علما اور شیعہ علماء نے بصیرت کا ثبوت دیا ہے گو کہ پہلے شیعوں کے اندرونی خلفشار اور گروہی سیاست نے ان نازک حالات کا ادراک نہیں کیا، لیکن جلد ہی بعض علماءکی بصیرت کی وجہ سے کہ جنہوں نے ہمیشہ ملت کے مفاد کی خاطر اپنے گروہی جذبات واحساسات کو پس پشت ڈالا ہے ، آخر کل ۱۲ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں بزرگ علماء کی زیرسرپرستی علما وذاکرین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملت کے تقریبا ً سبہی گروہ شامل تھے سوائے ایک دو کو چھوڑ کر سب نے ذمہ داری کا احساس کیا اور ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آیا ۔جس کے انشا اللہ امید افزا نتائج نکلیں گے اور عالمی سازش ایک بار پھر پاکستانی عوام کی امنیت کو خراب کرنے میں ناکام ہو گی ۔

سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے اس سوال کے جواب میں کہ دشمن مسلمان سے کیوں خوف کھاتا ہے بیان کیا : واضح سی بات ہے اور اس کے پیچھے قرآنی فکر کارفرما ہے ۔دشمن مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے متحد ہونے سے خوف زدہ ہے ۔اسی لئے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے ۔جس کی مثال پاکستان کے حالیہ صورت حال ہے کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دوام دینے اوراس کے مفادات کی حفاظت کے لئے پاکستان جیسے اسلام کے قلعے میں اضطراب اور تنش پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ مسلمانان پاکستان متحد ہو کر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے والے مسلمان ممالک کے خلاف قیام نہ کرسکیں ۔

انہوں نے موجودہ صوت حال میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت ہی اہم جانا ہے اور بیان کیا : ایسے حالات میں ہمارے فریضہ وہی ہے جو قرآن اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت نے ہمارے لئے معین کیا ہے ۔یعنی اتحاد اور وحدت کلمہ تمام مسلمانوں کو خصوصاً پیروان اہل بیت اطہار کو ایسے حالات میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے ۔اہل تشیع کوکہ جو امام علی علیہ السلام کی پیروی کا دعوی ٰ کرتے ہیں ،سب سے زیادہ صبر وتحمل کرناچاہیے اور بصیرت وشعور کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ہمارے سامنے امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ سیرت موجود ہے اور پھر موجود ہ دور میں امام خمینی ؒ اور رہبر معظم کی بصیرت افروز سیرت کہ کس طرح ہماری قیادت نے پچھلے چالیس سال میں صبر تحمل کے ساتھ پوری دنیا سے انقلاب اسلامی ایران کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کا مفاد امام خمینی ؒکی فکر ونظریئے کے ذریعے ہی پور ا کیا جاسکتا ہے کہ جو اسلام ناب محمد ی کی فکر ہے نہ عالمی طاغوتوں کی سیاست کے ذریعے ۔

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی نافرمانی کے قریب جانے کی وجہ سے نظراندار کرکے تنہا نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کے تازیانوں سے مضروب نہ کر، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے راغبوں کی رغبت کی انتہا ۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رابطہ عامہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپاہ قدس کے سربراہ کے جانشین جنرل سید محمد حسین زادہ حجازی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے۔ سپاہ نے اپنے بیان میں سپاہ کے مختلف شعبوں میں مرحوم جنرل حجازی کی شاندار خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل حجازی کی سپاہ میں مخلصانہ ، ہمدردانہ اور مؤمنانہ خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنرل حجازی دفاع مقدس کے بعد سپاہ اور رضاکار فورس میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور انھوں نے سپاہ میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سپاہ قدس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی کی تجویز پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے جنرل حجازی کو سپاہ قدس کے سربراہ کا جانشین مقرر کیا تھا۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔

 امریکا کی ریاست منی سوٹا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام کے قتل کیخلاف پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے گاڑیوں اور اسٹورز کو آگ لگا دی گئی، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ادھر ٹیکساس میں بھی پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ڈرائیور اور مسافر ہلاک ہو گئے جبکہ ایک شہری زخمی ہو گیا۔

عادی سازی با اسرائیل یعنی سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا یا پھر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ریاستی سطح پر ان تعلقات کو سفارتی تعلقات کہا جاتا ہے کہ جس کے بعد آپس میں تجارت اور دفاع سمیت متعدد ریاست کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون اور امداد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یقیناً نوجوانوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہو گا کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا عادی سازی کی اس قدر مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ حقیقت میں اسرائیل کیا ہے۔؟ اسرائیل ایک ایسی ناجائز ریاست کا نام ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر 1948ء میں غاصبانہ تسلط حاصل کرکے امریکی و برطانوی آشیر باد کے ذریعے مسلط ہوئی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست کا نام ہرگز نہیں کہ جسے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تشبیہ دیا جا سکے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کی بات اس لئے بھی زیادہ کی جاتی ہے کہ ایک ایسی ناجائز ریاست جس کا وجود ہی غاصبانہ ہے اور اپنے قیام کے روز اول سے ہی نہ صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام کرنے میں مصروف عمل ہے بلکہ فلسطین کے باہر کئی ایک ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ اسرائیل کے بانیان کا یہ خواب ہے کہ وہ ایک عظیم تر اسرائیل قائم کریں کہ جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں۔ اس کے لئے بنائے جانے والے نقشوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بہرحال سادہ سا جواب یہ ہے کہ کیا کسی چور اور ڈاکو کہ جو آپ کے بھائی کے گھر میں زبردستی گھس گیا ہو اور آپ کے بھائی اور ان کے تمام اہل و عیال کو نکال باہر کیا ہو تو کیا اس چور اور ڈاکو کے ساتھ آپ دوستانہ تعلقات بنا کر زندگی گزارنا پسند کریں گے۔؟ یہی چور اور ڈاکو اسرائیل ہے، جو ہمارے بھائیوں یعنی فلسطینیوں کے گھر میں گھس چکا اور انہیں نکال باہر کیا ہے۔ لہذا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سفارتی تعلقات کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے تمام غلط اور مجرمانہ اقدامات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ جو دنیا میں سب سے اولین درجہ کی اہمیت رکھتا ہے۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مشترکہ طور پر نا انصافی کی ہے۔ ان کی زمینوں پر اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جو مسلم امہ کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے، آج بھی صہیونیوں کی بدترین سازشوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ قبلہ اول بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں شب معراج پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (ص) مسجد الحرام سے یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں اس مقام پر آپ (ص) نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ اب آئے روز صہیونی قبلہ اول کا تقدس پائمال کر رہے ہیں۔ شعائر اللہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

فلسطینی عوام کو بے دردی سے قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا عمل گذشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ کئی ایک جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی زمینوں پر بھی غاصبانہ تسلط قائم کر لیا ہے۔ داعش جیسے فتنہ کو اسرائیل ہی نے جنم دیا تاکہ خطے کو آگ و خون میں غلطاں کرکے اپنے ناپاک عزائم حاصل کرے۔ ان تمام تر معاملات اور وجوہات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین مسجد اقصیٰ یعنی قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظہر رہا ہے۔ دنیا میں چاہے مسلمانوں میں آپس کے کچھ بھی اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بھی بات انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین فلسطین کی ہو یا قبلہ اول بیت المقدس کی بات ہو تو مسلم امہ کے عوام متحد اور یکجا نظر آتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں کہ فلسطین و القدس کے پرچم تلے مسلمان اقوام آپس میں متحد و یکجا نظر آتی ہیں۔ اس قسم کے مشاہدات موجودہ دور میں ہمیں خود پاکستان کی سرزمین پر بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔

عالمی استعمار اور اس کے شیطانی چیلے چاہے وہ براہ راست اسرائیل کی صورت میں ہوں یا یورپی و مغربی سامراج کی صورت میں ہوں، مسلم امہ کے مابین مسئلہ فلسطین سے متعلق پائے جانے والے اتفاق اور اتحاد سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ مسلمان اقوام کا اتحاد اور وحدت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو دنیا کی ظالم و استکباری قوتوں کی ناک کو زمین پر رگڑ رہا ہے۔ اسلام و مسلمین کے دشمنوں نے گذشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ جنگ کے میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تاکہ مغربی استعمار غاصب اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کئے گئے وعدوں کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کو یقین دلوا سکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

بدھ 14 اپریل کے دن ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے تہران میں قرآن کریم سے متعلقہ سرگرمیاں انجام دینے والے افراد سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ تحریر حاضر میں چند چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔
1)۔ مختلف قرآنی موضوعات میں ہدایت پر مبنی موضوع کی اہمیت اور مقام
خداوند متعال نے ماہ مبارک رمضان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کئی چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت 185 میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: "شَهرُ رَمَضانَ الَّذی اُنزِلَ فیهِ القُرءان ۔۔۔" (رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا)۔ یہ شاید ماہ مبارک رمضان کا اہم ترین طرہ امتیاز ہے۔
 
دوسری طرف قرآن کریم کی بھی ہزاروں فضیلتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر ایسی ہیں جنہیں ہماری عقل درک کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن خداوند متعال نے ان تمام خصوصیات میں سے "ہدایت عطا کرنے" کی خصوصیت بیان کی ہے۔ سورہ بقرہ کی اسی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "۔۔۔۔ هُدًی لِلنّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الفُرقان" (انسانوں کیلئے ہدایت اور ہدایت کی واضح دلیلوں کا حامل اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والا ہے)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیات بہت زیادہ اہمیت اور اعلی مقام رکھتی ہے۔ خود قرآن کریم کا آغاز بھی ہدایت سے ہوتا ہے جیسا کہ سورہ حمد میں پڑھتے ہیں: "اِهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم" (خدایا ہمیں سیدھے راستے کی جانب ہدایت فرما)۔ اسی طرح سورہ بقرہ کے آغاز میں فرمایا: "ذٰلِکَ الکِتٰبُ لارَیبَ فیهِ هُدًی لِلمُتَّقین" (یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور متقین کیلئے ہدایت ہے)۔
 
2)۔ قرآن کریم کی ہدایت کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر حاوی
قرآن کریم کی ہدایت انسانوں کے ایک خاص گروہ کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ پوری عالم بشریت کیلئے ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت انسانی زندگی کے ایک یا چند مخصوص پہلووں تک بھی محدود نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کی زندگی کے تمام پہلووں کیلئے ہدایت فراہم کرتا ہے۔ قرآن کریم نے انسانی زندگی کے کسی پہلو سے چشم پوشی نہیں کی۔ انسان کی روحانی ترقی سے لے کر انسانی معاشروں کی ضروریات، ان کی مدیریت، ان میں عدل و انصاف کے قیام اور انسان کے ظاہری اور باطنی دشمنوں سے مقابلے کیلئے جہاد پر تاکید کرنے، اخلاق، گھرانے کے امور، اولاد کی تربیت وغیرہ جیسے تمام موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
 
3)۔ قرآنی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے تدبر کی ضرورت
قرآن کریم کا انداز عام انسانی کتب کی مانند نہیں کہ ایک فہرست پائی جاتی ہو اور مختلف ابواب پر مشتمل ہو۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں بعض جگہ ایک لفظ یا ایک اشارے کے ذریعے انسان کیلئے معرفت کے سمندر بیان کر ڈالے ہیں۔ لہذا اگر ہم قرآن کریم میں تفکر کریں، تدبر کریں اور اس کے مختلف پہلووں کا بغور جائزہ لیں تو بعض اوقات ایک لفظ سے وسیع مطالب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں جو مختلف واقعات کہانیوں کی صورت میں بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض انبیاء الہی کے بارے میں ہیں جبکہ بعض عام افراد کے بارے میں ہیں۔ ان تمام واقعات میں انسان کی ہدایت کا سامان موجود ہے۔ ان واقعات کے ذریعے ایسے مطالب بیان کئے گئے ہیں جو کلی ہیں اور ہر زمانے میں لاگو ہوتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر سورہ آل عمران کی آیت 173 میں ارشاد ہوتا ہے: "الَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانًا وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل" (وہ افراد جنہیں لوگوں نے کہا کہ لوگ تم سے جنگ کرنے کیلئے اکٹھے ہو چکے ہیں لہذا ان سے ڈریں، لیکن ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین حمایت کرنے والا ہے)۔ یہ جنگ احد کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ظاہری شکست کے بعد بہت زیادہ زخمیوں کے ہمراہ واپس آ رہا تھا۔ کچھ منافقین نے انہیں ڈرانے کی کوشش کی۔ رسول خدا ص نے صرف زخمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور جا کر انہیں شکست دے دی۔ اس واقعہ سے حاصل ہونے والا سبق آج بھی ہمارے لئے مفید ہے۔ ہر زمانے کیلئے ہے۔
 
4)۔ تقوی، قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی لازمی شرط
اگرچہ قرآن کریم تک ہم سب کو رسائی حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم قرآن کریم سے بہرہ مند ہوتے ہیں؟ یا اس سے بہرہ مند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم نے تمام انسانوں کیلئے ہدایت پیش کی ہے لیکن ہم کس صورت میں اس ہدایت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: "هُدًی لِلمُتَّقین" (متقین کیلئے ہدایت ہے) ایک اور جگہ فرمایا: "هُدًی وَ رَحمَةً لِقَومٍ یُؤمِنون" (اہل ایمان کیلئے ہدایت اور رحمت ہے، سورہ اعراف)۔ ان آیات میں ہدایات کے مختلف درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ جب تقوی پایا جائے گا تو یہ ہدایت بھی ہمیں نصیب ہوتی رہے گی۔

تحریر: مصطفی ہادی

مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی علاقہ کے 4 ممالک کا دورہ کریں گے۔محمود قریشی کل اتوار کے دن اپنے سفر کے پہلے مرحلے میں متحدہ امارات کا دورہ کریں گے ۔ اس کے بعد پاکستانی وزير خارجہ تہران میں ایرانی حکام کے ساتھ دو طرفہ ، علاقائی اور عالمی  امور کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے ایران کے بعد پاکستانی وزير خارجہ قطر اور ترکی کا سفر کریں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس سفر میں متعلقہ ممالک کے حکام سے دو طرفہ تعلقات اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے دوسرے روز مسلسل غزہ کے بعض علاقوں پر شدید بمباری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے حماس کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے اورحماس کے اسلحہ ڈپو سمیت ملٹری سائٹس کو تباہ کردیا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے رفح میں شدید بمباری کی

اطلاعات  کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں فضائی کارروائی کے دوران حماس کی ملٹری سائیٹس اور اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی غزہ کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر داغے گئے میزائل کے جواب میں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی ڈرون نے بھی غزہ کے ایک علاقہ پر حملہ کیا۔ اسرائیل کے فضائی حملوں میںم تعدد فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یوم فوج کی مناسبت سے اپنے پیغام میں  ایرانی فوج کی میدان میں موجودگی اور آمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی مسلح افواج کو اپنی آمادگی اور نقش آفرینی میں روزبروز اضافہ کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل سید عبد الرحیم موسوی کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: ایران کی مسلح افواج ہر قسم کی ماموریت انجام دینے کے لئے میدان میں موجود ہیں اور فوج کی نقش آفرینی اور آمادگی میں روز بروز اضافہ کرنا چاہیے۔

 اے معبود! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں شمار فرما، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان ۔