
سلیمانی
مہدوی معاشرے کی تہذیبی خصوصیات
امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد جو مثالی معاشرہ قائم ہوگا اسکی تہذیبی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں
1)علم و آگاہی میں ترقی: حضرت امام مہدی (عج)کے زمانہ حکومت میں انسان علم و دانش کا اس قدر پیاسا ہو جائے گا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں”مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں آپ سب کو علم و حکمت عطا کیا جائے گا، حتی کہ گھر میں بیٹھی خواتین اس قدر عالمہ ہو جائیں گی کہ کتاب الہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں فیصلے کریں گی”(1)
2)الہی توحیدی تصور کائنات کا عالمی سطح تک پھیل جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، توحیدی اصول اور وحدانیت خدا پر ایمان کا پوری دنیا میں پھیل جانا ہے۔ اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا کی قسم (امام مہدی (عج) اور ان کے ساتھی اس قدر جہاد کریں گے کہ سب خدا کی توحید کا اقرار کر لیں گے اور کوئی شخص خدا کا شریک نہیں ٹھہرائے گا” اسی طرح ایک اور حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “خداوند متعال نے فرمایا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم، اس قدر اس (امام مہدی عج) کی مدد کروں گا کہ دنیا کے تمام انسان میری وحدانیت پر گواہی دینے لگیں گے۔”
3) دینی اور اسلامی اصولوں کا عالمگیر ہو جانا: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد انسانوں میں عبادت، شرعی احکام کی پیروی، دین داری اور نماز جماعت کی طرف رغبت بڑھ جائے گی اور کوئی ایسا انسان نہ ہو گا جس کے دل میں اہلبیت پیغمبر علیھم السلام سے کینہ یا دشمنی پائے جائے۔”
4)دنیا بھر میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، مہدوی معاشرے میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “جب ہمارا قائم (امام مہدی عج) قیام کرے گا تو انسانوں کے دلوں سے ایکدوسرے کی دشمنی اور کینہ ختم ہو جائے گا (3)اسی طرح احادیث و روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب امام مہدی (عج) کا ظہور ہو گا تو خداوند متعال اپنے بندوں کو اس قدر مال عطا کرے گا کہ وہ بے نیاز ہو جائیں گے اور جب امام مہدی(عج) یہ اعلان فرمائیں گے کہ محتاج اور ضرورت مند افراد آ جائیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے تو کوئی بھی نہیں آئے گا۔ لہذ ضرورت اس امر کی ہے کہ صبغۃ اللہ یعنی الہی سوسایٹی کے عملی قیام کے لئے ہم سب اپنی فردی واجتماعی ذمہداریوں کی طرف متوجہ ہوجائیں اور الہی حکومت کے قیام کے لے کوشش کریں۔
نتیجہ: مندرجہ بالا وہ چار اہم خصوصیات ہیں جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد معاشرے میں تہذیبی وثقافتی طور پر نظر آینگی لہذا امام کا انتظار کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں ان خصوصیات کو پیدا کرنے کے لے کوشش کریں تاکہ الھی معاشرے کا عملی قیام ممکن ہو۔
……………………………………
1: بحار الانوار جلد 52، صفحہ 352
2: بحار الانوارجلد 52، صفحہ 356
3:۔ بحار الانوارجلد 52صفحہ 316
فوائد غیبت مہدی موعود(عج)
ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ (عج) کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
۱۔ امام زمانہ(عج) کی غیبت اور آپ (عج) کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے۔ بنابریں عصر غیبت میں بھی امام زمانہ(عج) کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ (عج) کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں، جو آپ (عج) کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ محقق طوسی (رہ) تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں: (وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا) "امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔" {یعنی امام زمانہ(عج) بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں، انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا، لیکن پھر بھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}
۲۔ امام (عج) کے پیروکاروں کا امام (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ (عج) تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ (عج) کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہو اور وہ آپ (عج) کے وجود سے فیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افراد کے ذریعے آپ (عج) کے وجود کے تمام آثار و برکات سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اور شائستہ افراد کی آپ (عج) کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے۔
۳۔ امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اور بلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندے معین فرماتے تھے، جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا۔ اسی وجہ سے امام زمانہ (عج) بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں، جیسا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں آپ (عج) نواب اربعہ (نیابت خاصہ) کے ذریعے اور غیبت کبریٰ کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین (نیابت عامہ) کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں۔
۴۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔ بے شک یہ اعتقاد (کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں، گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتے، لیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں، نیز آپ (عج) کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ (عج) کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے) انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
۵۔ امامت کے اہداف میں سے ایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے۔ امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنے والے افراد کو اپنی طرف جذب کرکے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔ واضح ہے کہ انسان کے اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے۔
گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرہ مند نہیں ہوتا ہے،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال امام زمانہ (عج) کے وجود کے آثار و برکات سے بہرہ مند نہ ہونے کا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کا فراہم نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام، کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی (رہ) آپ (عج) کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں: (واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب) لیکن یہ جائز نہیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ (عج) کی طرف سے ہو، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔ پس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں، کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہی اس کا سبب ہے اور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو ظہور واجب ہو جائے گا۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ(عج) کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثار تھے، لیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔
اسی بنا پر روایات میں موجود ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمین حجت خدا سے خالی ہو تو وہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔(لو لا الحجة لساخت الارض باهلها) یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے جو کہ بعض دعاوں میں موجود ہے:(بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء) "امام زمانہ(عج) کے وجود کی برکت سے ہی موجودات رزق پا رہه ہیں اور آسمان و زمین برقرار ہیں۔" امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں، خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں، جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی، امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ لہذا امام زمانہ(عج) کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ(عج) کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کی جو برکات ہیں، وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد، بحث امامت
2۔ کمال الدین، شیخ صدوق، باب 45۔ حدیث 4، ص485
3۔ الرسائل، سید مرتضیٰ، ج2، ص297 – 298
4۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی، ص 148
دشمن خواب میں بھی ایرانی قوم سے جنگ کا نہیں سوچ سکتا، جنرل سلامی
سردار حسین سلامی نےصوبہ یزد کے شہداء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزد دارالعلوم اور دارالفقہ ہے اور یہ شہر ایسے جوانوں کا مسکن ہے جو ہمیشہ قوم کو پیش آنے والے امتحانات میں سرخرو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یزد اسلامی فنون لطیفہ اور فن تعمیر کی سرزمین ہے جسے دار الفنون بھی کہا جاسکتا ہے۔ یزد روحانیت، اخلاقیات اور جذبات کی سرزمین ہے اور یہ 4000 شہداء اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس سرزمین نے اسلام، اہل بیت اور ولایت کی خاطر ہمیشہ قربانی دی اور راستے کے ساتھ وفاداری کی اور اہل یزد ایران، ایران کی عزت و اقتدار اور استقلال وطن کے محافظ ہیں۔
ایران چائنہ معاہدہ امریکہ کو بڑا جھٹکا
اب دنیا نے اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے، انسانیت اس سے تنگ آچکی ہے۔ ہر قوم کا اپنا طرز زندگی ہوتا ہے، وہ اس کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے، امریکی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ہر ایک سے یہ تقاضا کرتا ہے، اس کے نظام میں ڈھل جاو تو ٹھیک ہے، ورنہ سخت دنوں کے لیے تیار ہو جاو۔ امریکہ کے اس نظام کو بھی آزاد اقوام نے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے اور آج کی دنیا بھی چالیس سال پہلے والی دنیا نہیں ہے۔ ایشیا میں دنیا کی بڑی معیشتیں پنپ رہی ہیں اور بڑی تیزی سے وسائل پیدا کر رہی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آزاد تجارت کے نعرے لگانے والے ٹیکسوں کی بھرمار کر رہے ہیں اور چیزوں کی درآمد و برآمد میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ تب تک درست تھا، جب تک غریب ممالک کے وسائل کا خون چوس رہا تھا، جب اس کے مقابل چینی معیشت نے مسابقت دکھانی شروع کی اور وسائل کا رخ چین کا طرف ہونے لگا تو مسائل گھڑے کئے جانے لگے ہیں اور ان کے خلاف بی بی سی، سی این این اور فوکس نیوز پر ہر تیسرے دن کوئی فرضی کہانی آئی ہوتی ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ خطے میں تجارت و معیشت سے لے کر سکیورٹی تک کی صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی طرف سے معاہدے کے لیے ایرانی پارلیمنٹ کے سابق سپیکر علی لاریجانی کو اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ پہلے یہ معاہدہ دس سال کے لیے کیا جانا تھا، مگر اب اس کی مدت کو پچیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ اس معاہدے کی بنیاد چائنہ کے صدر کے 2016ء کے دورہ ایران کے موقع پر رکھی گئی، پھر فائیو پلس طاقتوں کے ساتھ معاہدے اور دیگر وجوہات سے یہ پس منظر میں چلا گیا، مگر ایرانی اور چینی قیادت اس پر مسلسل کام کر رہی تھی۔ اب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔
اس معاہدے میں فوجی تربیت و مشقیں، ہتھیاروں کی تیاری اور اس سے متعلق تحقیقات میں تعاون، خفیہ معلومات کا تبادلہ، انسانی سگلنگ، ائرپورٹ، ہائی سپیڈ ٹرین، سب ویز، فری ٹریڈ زونز اور فائیو جی نیٹ ورک کا قیام شامل ہے۔ فائیو جی اور انٹرنیٹ کی چائییز نظام میں منتقلی سے سائبر سے متعلقہ معاملات میں مغرب پر انحصار ختم ہوگا۔ آج کی دنیا میں اصل جنگ سائبر کی دنیا میں لڑی جا رہی ہے اور مغرب اس پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ایشیائی ممالک اس میں بھی خود انحصاری کی طرف بڑھیں۔ امریکی اخبار نیو یارک پوائنٹ کا تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
the partnership would create new and potentially dangerous flash points in the deteriorating relationship between China and the United States اس شراکت داری سے چین اور امریکہ کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات میں نئے اور ممکنہ طور پر خطرناک فلیش پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکہ خطے میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ دھمکیاں اور پابندیاں قوموں کی دشمنیاں ہی لاتی ہیں، ان سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ہوتی۔ امریکی اداروں میں پسماندہ ممالک میں مداخلت کرکے من پسند افراد کو نوازنے کی غلط روایت موجود ہے، جس کا خمیازہ ان ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تعاون اور باہمی مفادات کے تحفظ کا دور ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے مفادات کا تحفظ کریں اور دیگر اقوام کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک جاری رکھیں۔ معاشی دباو کی پالیسی کے نتائج آپ کے سامنے ہیں، اس نے آپ کے دوستوں میں کمی کی ہے اور دشمنوں میں اضافہ کیا ہے۔
چینی وزیر خارجہ ایران آنے سے پہلے سعودی عربیہ اور ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور ایران کے بعد عرب امارات، بحرین اور عمان کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ چائینہ کی اقتصادی سفارتکاری کے جارحانہ اظہار کا موقع ہے۔ چائنہ بڑی تیزی سے خظے میں اقتصادی رابطے کے لیے انفراسٹکچر پر کام کر رہا ہے۔ ون بیلٹ منصوبے میں چائینہ خلیجی ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ چائینہ کے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چائینہ کے خطے کے ممالک اور ایران میں بات چیت کرا سکتا ہے۔ اس معاہدے سے چار سو ارب ڈالر کی انویسمنٹ آئے گی، جہاں ایران کے داخلی مالی مسائل درست ہوں گے، وہیں یہ معاہدہ مڈل ایسٹ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی مقاصد پر کاری ضرب ہے، امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ایران تنہائی کاشکار ہو جائے اور مالی مجبوریاں اسے امریکہ کے پاس لوٹنے پر مجبور کر دیں، مگر اس کے برعکس ہوا ہے، ایران مالی طور پر مزید مستحکم ہونے جا رہا ہے۔
شہداء کا پیغام خوف اور ناامیدی سے محفوظ رہنا ہے، آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صوبہ یزد کے چار ہزار شہداء کی یاد میں منعقدہ کانفرنس کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کی۔ اس اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے یزد کانفرنس کے خوبصورت اور نئے انداز میں منصوبہ بندی جیسے پروگراموں کی تعریف کی جن میں شہداء کے نام پر پودے لگانا، جہیز کا اہتمام، مفت علاج، روزگار معاش اور ثقافتی پیکیج تیار کرنا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے پروگرامز شامل ہیں۔ آپ نے کہا کہ اہل یزد نے دفاع مقدس کےدوران بھی پانی کی کھدائی کے فن کا استعمال کرتے ہوئے زیرزمین نہروں کی کھدائی کرنا یا متعدد سلائی مرکز بنانا اور مجاہدین کو لباس مہیا کرنے میں خواتین کی شرکت وغیرہ جیسے نئے نئے منصوبہ انجام دیئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے شہدا کے پیغام کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہدا عالم برزخ میں ایک خاص زندگی کے حامل ہیں اور ان کے راستے پر چلنے والوں کے لئے ان کا اہم پیغام خوف اور نا امیدی سے محفوظ رہنے کی بشارت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس پُر امید پیغام کو دنیا طلب لوگوں کے فتنوں کا مقابلہ سمجھا اور مزید کہا کہ شہداء کے میدان جہاد میں حاضر ہونے کا مقصد جو خود شہدا کے وصیت ناموں میں ذکر ہوا ہے انقلاب کی حمایت، امام خمینی کی حمایت کا اعلان، حجاب، دشمن کی شرارت کا خاتمہ اور نظام کو اس کے اہداف کے حصول کے نزدیک کرنا تھا کہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ ان نظریات کی تردید یا تحریف نہ ہو۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوجوانوں کو انقلاب کے راستے سے مایوس کرنے یا انہیں پیچھے ہٹانے کے لئے دشمن کی مستقل منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دشمن اپنے فتنہ کیلئے نوجوانوں کو متاثر کر سکتے اور ان کو اپنا آلہ کار بنائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور ہمسران کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس خاندان اور خاندان کی خصوصیات جنہوں نے اپنے اعلی حوصلہ افزائی اور ایمان کے ساتھ اپنے بچوں کی اس انداز میں پرورش کی اسے محفوظ کیا جانا چاہئے۔
آخر میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے سائے میں کام کرنے والے ایسے لوگوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شہدا اور مجاہدین کی مجاہدت اور کی برکت سے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ سلامتی اور آزادی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں لیکن ان پاک شہدا کے مقاصد کے برخلاف فعالیت کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ایسی کوششوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شہداء کے راستے پر اور حق کی خاطر (ہمیں بھی) اپنی کوششوں، فعالیت اور کام کو دو برابر کرنے کی ضرورت ہے۔
15 شعبان، یوم مستضعفین جہان
پندرہ شعبان کو اسلامی تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے مختلف فرقے اور مسالک اس دن کو اپنے اپنے عنوان سے مناتے ہیں۔ شب برات ہو یا شب نیمہ شعبان اس رات اور پندرہ شعبان کے دن کا انسانیت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کا ہر آسمانی دین ایک نجات دہندہ کا منتظر ہے۔ عالم اسلام میں شیعہ مسلمان اس دن کو امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے روز ولادت باسعادت کے عنوان سے مناتے ہیں۔ علمائے تشیع نے پندرہ شعبان کی رات اور دن کے لیے مختلف اعمال تعلیم کئے ہیں، لیکن عالم اسلام میں اسلامی حکومت تشکیل دینے والی عظیم الشان شخصیت یعنی بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے اس دن کو محروموں اور مستضعفوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بانی انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو مختلف حلقوں میں شایان شان طریقے سے پذیرائی ملی تھی۔
لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت میں دو چند اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیا کو تیسری دنیا، ترقی پذیر، ترقی یافتہ اور غریب و محروم ممالک میں تقسیم کر رکھا ہے۔ نام نہاد سپرپاورز انسانیت کے استحصال میں مصروف ہیں۔ طاقت اور اقتصاد کے بل بوتے پر مخالفین پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والے ممالک کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ کرونا وائرس کے حالیہ حملے نے اس دنیا اور اس میں بڑی طاقت ہونے کا چرچا کرنے والی ریاستوں کے مکروہ اور کریہیہ چہرے سے مزید پردہ اتار دیا ہے۔ آج دنیا محروموں اور مستکبروں کے دو بلاکوں میں تقسیم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔
آج مستضعف اور محروم انسان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں محرومین اور مستضعفین کو بلاتفریق مذہب، دین، قوم، ملت، رنگ، نسل اور علاقے کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام محروم اور مستضعف یک زبان ہو کر وقت کے طاغوتوں، مستکبروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، عدل و انصاف کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔ پندرہ شعبان کو یوم مستضعفین جہاں یعنی محروموں کا عالمی دن قرار دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عالم انسانیت کو جس نجات دہندہ کی ضرورت اور انتظار ہے، اس کا ظہور قریب ہے، اگرچہ مخالفین اس کے برعکس کہتے ہیں۔
امام مھدی علیہ السلام
"وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5) اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ ذرا تصور کریں کہ ہم اپنی پوری زندگی کسی ایسی جگہ پر بسر کرتے ہیں جہاں سورج ہمیشہ بادلوں کے پیچھے رہتا ہے۔ آپ کے والدین اور دادا دادی بھی یہاں رہتے تھے، اور ان کے والدین اور دادا دادی بھی اسی طرح رہتے تھے۔ آپ کے پاس مناسب رزق ہے اور جو کام آپ کو کرنا سکھایا گیا ہے وہ آپ کرتے رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سورج اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ آپ زندہ رہتے ہیں۔ امام قائم منتظر مہدی جن کے ساتھ عالم کی امیدیں وابستہ ہیں، انہی کے وجود سے دنیا باقی ہے۔
انہی کی برکت سے مخلوق روزی پا رہی ہے اور ان کے وجود سے زمین و آسمان قائم ہیں اور انہی کے ذریعے خدا زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ آپ کو نظریہ توحید کی تعلیم دی گئی ہے اور اگرچہ آپ کے ارد گرد اللہ کے وجود کا کافی ثبوت موجود ہے، آپ کی خواہش ہے کہ ایسے شخص کو دیکھیں اور سنیں جو جس پر شک کیا ہے۔ روح میں بےچینی اور غم ہے کہ اللہ کی حجت غائب ہے، کیوںکہ امام بادل کے پیچھے سورج کی مانند ہیں۔ ہم ان کے ظہور کے منتظر ہیں کیونکہ یہ حتمی ثبوت حجت ہیں۔ اس دنیا کو ڈیزائن کے ذریعہ تخلیق کیا گیا ہے اور واقعتا اس کا مقصد پورا ہوگا۔ توحید غالب آئے گی اور اللہ کا وعدہ پورا ہوگا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا نکاح روم کے شہنشاہ کی بیٹی حضرت نرجس سلام اللہ علیھا سے ہوا۔
امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش جمعہ 15 شعبان 255 ہجری کو سامرہ میں ہوئی۔ سیدہ حکیمہ (دسویں امام کی بہن) بیان کرتی ہیں کہ وہ 14 شعبان کو افطاری کے بعد اپنے بھتیجے (گیارہویں امام) کے گھر گئی تھیں اور انہیں بتایا گیا کہ وہ ان کے گھر میں ہی رہیں کیونکہ ان کے ہاں بچے کی ولادت متوقع ہے۔ سیدہ حکیمہ نے رات قیام کیا اور انہیں امام حسن عسکری علیہ السلام نے بتایا تھا کہ سورہ قدر کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت سیدہ حکیمہ نے یہ سن کر حیران ہو گئیں کہ سیدہ نرجس کے شکم سے سورۃ القدر کی تلاوت ہو رہی تھی۔ امام مہدی پندرہ شعبان کی فجر کو اس دنیا میں تشریف لائے۔ سیدہ حکیمہ بچے کو لے کر امام حسن عسکری (ع) کے پاس آئیں۔
شیر خوار بچے نے تلاوت کی: "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيم وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ"(سورہ قصص آیت نمبر5)۔ اللہ کے نام سے جو سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے امام مہدی کی ولادت کی خبر کو ان کی حفاظت کے لئے عام نہیں کیا۔ صرف کچھ قابل اعتماد پیروکاروں کو بتایا۔ جن میں ابو ہاشم الجعفری احمد بن اسحاق، سیدہ حکیمہ، سیدہ خدیجہ (ایک اور خالہ)۔ ابو دیوان نے گیارہویں امام سے پوچھا کہ آپ کے بعد کون امام ہوگا؟ اچانک ایک پردہ اٹھا اور اس نے ایک چمکدار چہرے والے ایک چھوٹے بچے نے جس کی عمر تین سے چار سال تھی کو دیکھا۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی منتخب مومنین کو قم سے دعوت دی اور 12ویں امام کی ولادت کا بتایا۔
امام حسن عسکری کی شہادت:
8 ربیع الاول کو امام مہدی (ع) نے اپنے والد بزرگوار کی جنازہ نماز پڑھوائی۔ امام مہدی (ع) اپنے والد کے ایک خادم کے پاس پہنچے جس کا نام ادیان تھا اور اس سے ایک خط مانگا جو اس کے پاس آپ کے والد گرامی کی جانب سے تھا۔ گیارہویں امام نے ادیان کو ایک خط کیساتھ بغداد بھیجا تھا اور اس کو جواب کے ساتھ واپس آنے کو کہا تھا اور کہا کہ اگر اس دوران وہ فوت ہو جائیں تو یہ خط ان کی نماز جنازہ پڑھانے والے کے حوالے کر دینا ہے۔ تو وہ کون ہوگا وہ ہی ان کا جانشین اور وقت کا امام ہوگا۔
غیبت صغری کا آغاز:
یہ وہ وقت ہے جب امام غیبت صغری میں چلے گئے اور نمائندے مقرر کیے (نائب، سفیر ......)۔ امام کا لوگوں کی درخواستوں کو جواب بذریعہ لفظ یا دستخط شدہ نوٹ "توقیع" کے نام سے جانا جاتا ہے جس سے امام کی ہینڈ رائٹنگ مشہور تھی۔
1۔ امام کے پہلے نمائندے عثمان بن سعید عمری تھے۔
2۔ امام کے دوسرے نمائندے محمد بن عثمان سعید عمری تھے۔
3۔ امام کے تیسرے نمائندے حسین بن روح نوبختی تھے۔
4۔ امام کے چوتھے نمائندے علی بن محمد سمری تھے۔
عثمان بن سعید وہ امام کا پہلا نمائندہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گیارہ برس کے سن سے نویں امام، امام علی نقی (ع) کے گھر میں خادم تھے، امام کا ان پر اعتماد تھا۔ وہ دسویں اور گیارہویں امام کے ساتھ ریے اور اسی اعتماد کو قائم رکھا۔ امام نے لوگوں کو بتایا کہ ان کے بعد لوگ امام کو نہیں دیکھ سکیں گے اور انہیں عثمان کی اطاعت کرنی ہو گی۔ گیارہویں امام کی شہادت کے بعد عثمان بغداد چلے گئے اور مکھن بیچنے والے کے بھیس میں، انہوں نے امام کے لئے خمس کو جمع کیا۔ عثمان بن سعید امام نے 18 ماہ تک 11ویں امام کی خدمت کی اور امام کی طرف سے ان کی وفات کے قریب ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے محمد بن عثمان کو امام کا اگلا نمائندہ مقرر کرے اور اسے بتائے کہ اس کے والد کی طرح ان کا بیٹا خوش قسمت ہے۔
محمد بن عثمان سعید عمری:
محمد بن عثمان بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلے اور مکھن بیچنے والے کی حیثیت سے کاروبار جاری رکھا۔ اس وقت کے حکمران المتعمد نے امام کی تلاش شروع کی اور امام سے معمولی سی مشابہت رکھنے والے لاتعداد معتقدین کو شہید کروا دیا۔ دعائے سمات محمد بن عثمان کے ذریعہ پہنچی ہے۔ جیسا کہ امام نے ہدایت کی انہوں نے حسین بن روح نوبختی کو امام کا نائب مقرر کیا۔ محمد بن عثمان کی وفات 305 ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد حسین بن روح کو اگلا نمائندہ مقرر کیا۔ انہیں مشرقی بغداد (خلیلانی میں) میں دفن کیا گیا ہے۔
حسین بن روح نوبختی:
اس کی کنیت ابوالقاسم تھی، وہ نوبختی خاندان سے تھے، ان کی ملنسار طبیعت کیوجہ سے انہوں نے بہت عزت حاصل کی۔ وہ اپنی سرگرمیاں برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہم امام کو بھیجنے والے 'عریضہ' کے ذریعے ان سے خطاب کرتے ہیں۔ انہوں نے وفاداری سے خدمت کی یہاں تک کہ شعبان 326ء میں وفات پائی۔ انہوں نے علی بن محمد سمری کی تقرری کا انکشاف کیا۔
علی بن محمد سمری:
انہوں نے صرف تین سال خدمات انجام دیں۔ اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے ان کو مام کی طرف سے ایک خط موصول ہوا، جس میں آپ کو ان کے بعد آنے والی بات بتائی گئی کہ ان کے بعد امام کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا۔ سمری کی نیابت کا دور حکومت وقت کی کڑی نگرانی اور سخت دباؤ کا شکار رہا، جس نے انہیں اس وکالتی نظام میں وسیع سرگرمیوں سے باز رکھا۔ علی بن محمد سمری کے نام امام زمانہؑ کی توقیع، جس میں آپ نے ان کی موت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ نیابت خاصہ کے دور کے اختتام اور غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی جو امام زمانہؑ کے آخری نائب خاص کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہیں۔ انہوں نے 15 شعبان 329 ہجری میں وفات پائی۔
غیبت کبری:
غیبت کبری کے دوران امام نے اپنے پیروکار کی رہنمائی کی۔ اسحاق بن یعقوب، شیخ مفید وغیرہ کے ذریعہ متعدد خطوط لکھے گئے ہیں۔ امام جعفرصادق (ع) سے اطلاع ملتی ہے کہ پوری دنیا میں 30 افراد سے باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ وہ لازمی طور پر مجتہدین نہیں ہیں بلکہ وہ عام مومنین ہیں۔ امام مہدی (ع) کی سیرت میں پڑھا ہے کہ امام تین مواقع پر مومنین سے ملاقات کرتے ہیں۔
1۔ مشکلات کے وقت
2۔ حج کے موقع پر
3۔ ان مومنین کی نماز جنازہ میں شرکت کرتے ہیں جن کے اوپر شرعی ذمہ داریاں پینڈنگ میں نہ ہوں جیسے، نماز، روزہ اور خمس۔ میرا اپنے آپ سے سوال ہے کہ کیا میں نے اپنے آپ کو اس لائق بنایا ہے کہ امام میرے جنازہ میں بھی شریک ہوں؟
ظہور:
تو کیا ہوگا؟ اپنے آپ کو ایک ایسے دور کی طرف لے جائیں جب دنیا میں بدامنی اور انارکی پیدا ہو، ایسا دور جہاں اسلام پر دو جہتی حملہ ہو گا۔
اول۔ مشرق وسطی (پیش گوئی شدہ سفیان) کے اندر راستباز لیکن بے رحم ہونے والے شخص سے، جو فلسطین سے شام ، فلسطین اور اردن پر حملہ کرے گا اور اپنا کنٹرول حاصل کرے گا۔ اور دمشق کو اپنے اقتدار کی نشست بنائے گا۔ اور وہاں سے عراق اور اس کے بعد مدینہ اور مکہ پر اپنی نظریں جما کر رکھے گا۔
دوم۔ دجال جس کا مطلب ہے دھوکہ دہی کرنے والا یا مسلط کرنے والا اور جیسا کہ سید محمد اصدر نے اپنی کتاب تاریخ الغیبت الکبری میں کہا ہے کہ شاید ایک ایسے نظریئے کی نمائندگی ہے جس کو ایک لفظی شخص کی بجائے بہت سارے ممالک نے تسلیم کیا ہو گا، جو مسلمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا۔ دنیا کو یہ ماننا ہوگا کہ ان کی معیشتیں اس پر بھروسہ کرتی ہیں یا اس کے مرہون منت ہیں۔ وہ حرمین کو تباہ کرے گا ۔
سوم: بغداد پر مغرب کی فوج کا قبضہ ہوگا اور یہ شہر انتشار کی حالت میں ہوگا۔
چہارم سعودی عرب میں اقتدار کا خلا ہوگا۔
پنجم: انسان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ بےمثال طاقت اور موقع ملیں گے۔ اتنے کہ دنیا میں کہیں بھی کیا گیا اعلان سب اپنی زبان میں اور اسی وقت سن لیں گے۔ اسی وقت، امام حسن علیہ السلام کی اولاد کے تحت ایران سے آنے والی ایک فوج، جسے احادیث میں سید حسنانی کے نام سے جانا جاتا ہے کو متحرک کیا جائے گا وہ اسلام پر حملوں کا مقابلہ کریں اور یہ فوج بصرہ کے راستے عراق میں داخل ہوگی۔ 313 رہنما (جن میں 50 خواتین بھی شامل ہیں) ایک دوسرے کے ساتھ روحانی علم کا تبادلہ کریں گے ، اور ہر جگہ دوسرے افراد کو بااختیار اور متحد کریں گے۔ امام علی (ع نہج البلاغہ کے (خطبہ 149) میں فرماتے ہیں، اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح سیقل کی جائیگی جس طرح لوہار تلوار کی دہار کو سیقل (تیز) کرتا ہے۔۔ ان لوگوں کی آنکھوں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا جائیگا۔ ان کے کانوں میں مسلسل تفسیر کو پہنچایا جائیگا۔ انہیں صبح و شام مسلسل حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا۔
ظہور 2 مراحل میں ہو گا:
پہلا مرحلہ:
اس کی ابتداء ذوالحجہ کے مہینے میں ہوگی جب 40 مجاہدین ظہور کی نزاکت کا احساس کریں گے اور حج سے گھر واپس نہیں آئیں گے۔ وہ حرم جائیں گے اور کعبہ کے نزدیک امام کے ساتھ سامعین کے لئے اللہ سے التجا کریں گے۔ ان میں سے ایک کو امام بلائیں گے اور اس گروپ کی نمائندگی کرنے کو کہا جائے گا۔ اس نمائندے کے توسط سے انہیں ملاقات کی دعوت دی جائے گی، امام ان میں سے کسی ایک کو اپنے نزدیک ظہور کا اعلان خانہ کعبہ کے دروازے پر کرنے کو کہیں گے۔ اعلان کرنے والا مارا جائے گا۔ وہ نفس زکیہ ہوگا جس کا خون کعبہ کو چھوئے گا جس کا ذکر بہت ساری پیشگوئیوں میں کیا گیا ہے۔ (بحار انوار جلد 13)
دوسرا مرحلہ:
15 دن کے بعد جب امام زمانہ رسول اکرم (ص) کی عبا پہن کر، کعبتہ اللہ کی دیوار کیساتھ، جو عاشور کا دن ہو گا امام زمانہ دنیا کو خطاب کریں گے جو دنیا کے تمام افراد اپنی اپنی زبانوں میں سنیں گے، امام کہیں گے۔ یا ایھا العالم! اے جہاں کے رہائشی یا باسیو، سورہ ھود کی آیت نمبر 86 پڑییں گے کہ "بَقِيَّتہ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ " اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو۔ کوئی اعلان کرنے والا کہے گا کہ سورہ اسرا کی آیت نمبر 81 "وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا" اور کہہ دیجئے کہ حق آ گیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔
.
امام اپنا تعارف کروائیں گے "انا بقیتہ اللہ" 313 افراد کا نیٹ ورک پہلے ہی امام کے ہاتھ پر بعیت کیلئے آچکا ہے۔ امام مہدی (ع) ان سے وہی عھد لیں گے جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ص) اپنے سپاہیوں سے لیا تھا۔ 25 شرائط میں وہی عہد جو اس نے دیا تھا
1۔ چوری نہ کریں
2۔ زنا نہ کرنں
3۔ کسی مسلمان کو گالی نہیں دینا
4۔ غیر قانونی طور پر کسی کا قتل نہیں کرنا
5۔ کسی کی عزت کی خلاف ورزی نہیں کرنا
6۔ کسی کی رہائش گاہ پر حملہ نہ کرنا
7۔ کسی کو تکلیف نہیں پہنچانا
8۔ سونے، چاندی، گندم اور جو کو جمع نہ کرنا
9۔ کسی یتیم کی جائداد غصب نہ کرنا
10۔ جھوٹی گواہی نہ دیں
11۔ مسجد کو ترک نہ کریں
12۔ شراب یا نشہ نہیں پینا
13۔ ریشم یا سنہری دھاگے کا لباس نہ پہنیں
14۔ سونے کا بیلٹ نہ پہنیں
15۔ ڈکیتی نہیں کرنی
16۔ مسافروں پر حملہ نہ کریں
17۔ ہم جنس پرستی میں ملوث نہ ہوں
18۔ کھانے کے ذخیرہ کو ضائع نہ کریں
19۔ تھوڑے پر راضی رہیں
20۔ خوشبو اور عطر استعمال کریں
21۔ ناپاکی سے دور رہیں
22۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں
23۔ آسان لباس پہنیں
24۔ مٹی کے تکیے پر آرام کرو
26۔ 1للہ کے راستہ میں جہاد کرو جس طرح اس کا حق ہے
امام (ع) اس بات کا عہد لیں گے کہ جو وعدہ کریں کہ:
وہ ان کے ساتھ رہیں گےا
وہ ان کی طرح لباس پہنیں گے
وہ ان جیسی سواری رکھیں گے۔
وہ ان کی مرضی کے مطابق کام کریں گے
وہ تھوڑی پہ راضی رہیں گے۔
وہ اللہ کی مدد سے دنیا کو مساوات اور انصاف سے بھریں گے۔
وہ اللہ کی عبادت کریں گے جیسا کہ اس کا حق ہے
ان کو بغیر انٹرمیڈیٹ براہ راست رسائی دی جائیگی
ان کی برادریوں یا نیٹ ورکس کو برقرار رکھیں گے باخبر اور متحرک ہوکر انہیں امام کے پاس بلایا۔
سفیانی اپنی میڈیا مشین کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ امام کا سب سے پہلا مقابلہ مکہ مکرمہ میں ہوگا، وہ ایک گورنر مقرر کرے گا اور مدینہ کی طرف جائیں گے جس کو تباہ کیا جائیگا۔ امام مدینہ کو اس کی سابقہ عظمت میں بحال کروائیںگے اور آگے بڑہیں گے۔ امام کوفہ کی طرف جائیں گے جہاں سید حسنانی کی فوج سے ملیں گے۔ امام دجال کی فریب کاری اور فوج کا مقابلہ فلسطین میں کرنے کے بعد، وہ آگے بڑھیں گے اور شام جائیں گے شام سفیانی کے تعاقب میں۔ وہ فرار ہو جائے گا۔ وہاں جب اس کی پوری فوج کو بائیدہ کے قریب مدینہ، مکہ جاتے ہوئے صحرا میں بے حد نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ شام کے ساتھ عراق کی سرحد پر، امام حضرت عیسٰی علیہ السلام کے لئے انتظار کریں گے، فجر سے پہلے اور امام نماز فجر کی امامت کروائیں گے۔ پھر لڑائی میں مصروف ہونگے۔
امام کی فوج فاتح ہوگی لیکن سفیانی یروشلم فرار ہوگا، امام اس کا تعاقب کریں گے اور اس کو حضرت عیسیٰ (ع) کے ہاتھوں شکست ہوگی۔ امام مسجد اقصٰی کو دوبارہ تعمیر کریں گے جس کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ امام کے زیر اقتدار مشرق وسطٰی کے ساتھ کوفہ میں حکومت قائم کریں گے عراق کی تعمیر نو کریں گے۔ امام کا انقلاب دانشورانہ اور عاقلانہ ہوگا۔ فہد بن یاسر نے امام باقر (س) کو یہ کہتے سنا، "جب ہمارے قائم اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ زیادہ مشکلات کا سامنا کریں گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام جاہلیت میں بھی برداشت نہیں کی ہونگی۔ امام نے بیان کیا جب پیغمبر نے اپنے مشن کا اعلان کیا تو اس زمانے میں لوگ پتھروں اور لکڑی کی پوجا کرتے تھے۔ جب امام اٹھ کھڑے ہونگے تو لوگ قانون کی ترجمانی اللہ کی اس کی تفسیر کے خلاف کریں گے اور اس پر بحث کریں۔ امام ان کے درمیان قرآن کے ذریعے اس طرح انصاف کریں گے کہ انصاف ان کے گھروں میں اس طرح داخل ہوگا جیسے گرمی اور سردی داخل ہوتی ہے۔
امام اپنے مددگار/ آزاد کنندگان کو مشرق اور مغرب میں بھیجیں گے، جس طرح ہمارے 5ویں اور چھٹے اماموں نے کہا ہے، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کہ اللہ کی رضا حاصل نہ ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں، جب تک ساری زمین پر اللہ کا پیغام پہچائیں۔ وحدانیت، توحید۔ امام علی (ع) کا 20 قول ہے کہ امام مھدی کی حکومت میں کیا ہوگا؟ ایک عالمی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو مطلق طاقت ہوگی اور وہ خود مختاری کی نئی وضاحت کرے گی۔ شہید مطہری نے اپنی کتاب ‘The awaited savior’ نجات دہندہ میں کہا ہے جب ایسا ہوگا:
1۔ راستبازی، فضیلت، امن، انصاف، آزادی اور سچائی کی حتمی فتح ہوگی۔ انا پرستی ، ظلم، دھوکہ دہی کا خاتمہ ہوگا۔
2۔ عالمی حکومت کا قیام۔
3۔ پوری زمین پر کوئی علاقہ ضائع نہیں رہے گا۔
4۔ انسان کی ذات اپنی مکمل معقولیت کے ساتھ معراج پر ہو گی، غیر مناسب معاشرتی پابندیاں ہونگی ہی نہیں۔
5۔ زمین اپنے خزانہ تحائف کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریگی۔
6۔ دولت اور املاک کی تقسیم تمام انسانوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوگی۔
7۔ سود، نشہ آور اشیا، غداری، چوری کا استعمال اور قتل اور مکمل گمشدگی، غیر معمولی پیچیدہ، بددیانتی اور ناجائز خواہشات جیسی تمام برائیوں کا مکمل خاتمہ۔
8۔ امن، دوستی، تعاون اور احسان کی بحالی ہوگی اور جنگ کا خاتمہ
9۔ انسان اور فطرت کے مابین مکمل ہم آہنگی ہوگی۔
امریکہ کی روز افزوں تحقیر کا سلسلہ جاری(1)
تقریباً دس سال پہلے اسلامی جمہوریہ ایران نے غیر قانونی طور پر اپنی حدود میں داخل ہونے پر امریکہ کا جدید ترین ڈرون طیارہ آر کیو 170 کامیابی سے ہیک کرکے نیچے اتار لیا اور اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس وقت یہ واقعہ خبر کی دنیا میں ایک بم بن کر پھٹا اور عالمی میڈیا میں تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ اس واقعے نے امریکہ کے کھوکھلے دبدبے اور طاقت کی قلعی کھول دی۔ اس کے بعد امریکہ کی جھوٹی طاقت کے سامنے ایران کی مسلسل استقامت اور پائیداری سیاسی، فوجی اور سفارتی میدان میں امریکہ کی تحقیر کے ایسے سلسلے کا باعث بنی، جو اب تک جاری ہے۔ ایران کے اس جرات مندانہ اقدام نے امریکہ کے خلاف دیگر اقوام کو بھی جرات بخشی اور انہوں نے بھی اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے امریکہ کے خلاف شجاعانہ اقدامات کا آغاز کر دیا۔
مثال کے طور پر حال ہی میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر بحییٰ سریع نے اعلان کیا ہے کہ یمن کے فضائی دفاع نے امریکہ کا ڈرون طیارہ ایم کیو 9 مار گرایا ہے۔ یاد رہے یہ ڈرون طیارہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی تحویل میں تھا اور ان کیلئے یمن کی فضائی حدود میں جاسوسی کرنے میں مصروف تھا۔ تحریر حاضر میں ہم نے گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے کی حریت پسند اقوام کی جانب سے امریکہ کے خلاف چند ایسے بڑے جرات مندانہ اقدامات کا ذکر کیا ہے، جن کی مثال ماضی بعید میں بہت کم ملتی ہے لیکن اب روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔
1)۔ امریکی ڈرون گلوبل ہاک کی تباہی
20 جون 2019ء کی صبح امریکہ کا ایک اور جدید ڈرون طیارہ "گلوبل ہاک" خلیج فارس میں ایرانی حدود میں داخل ہوا، جس پر ایران نے اسے نشانہ بنا کر مار گرایا۔ اس وقت امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے ایک رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا "جو کچھ امریکہ کے 110 ملین ڈالر قیمتی ڈرون کو مار گرانا ایران کے بارے میں کہتا ہے۔" اس رپورٹ میں کہا گیا: "گرد و غبار چھٹ جانے کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ گذشتہ ہفتے ہمیں زمین سے 22 ہزار پائی کے فاصلے پر ایک نہ بھولنے والا سبق سکھایا گیا ہے۔" امریکی میڈیا نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے ایران ساختہ "تین خرداد" نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے امریکہ کے ڈرون طیارے گلوبل ہاک آر کیو 4 اے کو مار گرائے جانے کو اہم قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ فضا میں پینٹاگون کے جاسوسی پرندے کی تباہی کا پہلا واقعہ ہے۔
امریکی میڈیا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ فضا میں گلوبل ہاک نامی ڈرون طیارے کو کامیابی سے نشانہ بنا کر تباہ کر دینا، فوجی شعبے میں ایران کی اعلیٰ صلاحیتوں اور ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ دفاع کے شعبے میں شائع ہونے والے امریکی ماہانہ میگزین جینز ڈیفنس کے چیف ایڈیٹر جیریمی بینی نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کے بارے میں لکھا: "یہ (ایرانی فضائی دفاعی نظام) بہت موثر ہے۔ یہ حادثہ (گلوبل ہاک کی تباہی) ظاہر کرتا ہے کہ جب ایرانی کسی کام پر سرمایہ لگاتے ہیں تو اس کے نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں۔" جیریمی بینی نے مزید کہا: "ہم اس سے پہلے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں یہ جانتے تھے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کا فضائی دفاعی نظام بھی ایسا ہی ہے۔"
2)۔ عین الاسد امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ
8 جنوری 2020ء اسلامی جمہوریہ ایران اور خطے کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم دن ہے۔ اس دن ایران نے امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا بدلہ لیتے ہوئے "فاتح 313" نامی تیرہ بیلسٹک میزائل بغداد کے قریب واقع امریکہ کے فوجی اڈے عین الاسد پر داغ دیئے۔ عین الاسد عراق اور خطے میں امریکہ کی مرکزی کمان کا حامل انتہائی اہم فوجی اڈہ تھا۔ ایران کی اس جوابی کارروائی کا نتیجہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے کھوکھلے رعب اور دبدبے کی حقیقت واضح ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ایران کی یہ جوابی کارروائی ایسے وقت انجام پائی جب امریکہ کے تمام فوجی اڈے ہائی الرٹ تھے اور ایران نے انتقامی کارروائی کی دھمکی دے رکھی تھی۔
یاد رہے 3 جنوری 2020ء کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر امریکی ڈرون طیارے نے جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس کی گاڑی کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا، جس میں دونوں موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکہ کو ان شہداء کا انتقام لینے کی کھلی دھمکی دی اور چند دن بعد ہی بغداد سے 170 کلومیٹر فاصلے پر واقع عین الاسد امریکی فوجی اڈے کو میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ہائی الرٹ کے باوجود امریکی حتی ایک میزائل کو بھی فضا میں تباہ نہ کرسکے اور تمام میزائل ٹھیک نشانے پر لگے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔ اس حملے نے ایک طرف ایران کی بھرپور میزائل طاقت کو ثابت کر دیا اور دوسری طرف امریکہ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران چین اسٹریٹیجک جامع تعاون کا معاہدہ
ایران اور چین کے درمیان تعلقات کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور چین کے درمیان تین بڑی سطحوں یعنی سیاسی اقتصادی تعاون، سکیورٹی دفاعی اور جیوپولیٹیکل اسٹریٹیجک سطح پر تعلقات ہیں، جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان پچیس سالہ تعاون کی جامع دستاویز پر دستخط ہونے سے صورتحال مزید واضح ہو جائیگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا دوسرا زاویہ علاقائی اور عالمی مسائل پر سفارتی کوششیں ہیں، جس میں دونوں ممالک بہت سے مسائل پر مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔
ایران اور چین علاقائی سلامتی بالخصوص خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی سکیورٹی پر یکساں موقف کے حامل ہیں۔ جس میں مزید پیشرفت کے لیے چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ تہران مزید موثر اور فائدہ مند ثابت ہوگا۔ البتہ پچیس سالہ اسٹریٹیجک جامع تعاون کے معاہدے نے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے اور ایران کو عالمی سیاست میں تنہا کرنے والے اداروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ ظالمانہ جنگ کے چھ سال مکمل /یمنی عوام کی تاریخی استقامت
سعودی عرب نے 25 مارچ سن 2015 کو یمن کے نہتے عرب مسلمانوں کے خلاف بربریت اور جارحیت کا آغاز کیا سعودی عرب کو یمن پر جنگ مسلط کرنے کے سلسلے میں امریکہ نے ہری جھنڈی دکھائی۔ سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ جنگ کو" عزم کے طوفان " کے نام سے موسوم کیا ، اور یمن کو دو ہفتوں کے اندر اندر فتح کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن دو ہفتوں کے بجائے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ آج ساتویں سال میں داخل ہوگئی ہے اور سعودی عرب اپنے کسی بھی شوم ہدف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ سعودی عرب نے یمن پر ظالمانہ جنگ مسلط کرکے سنگين جرائم کا ارتکاب کیا جن میں شہری آبادی ، مسجدوں، مدرسوں، اسپتالوں ، تاریخی عمارتوں پر سعودی عرب کی وحشیانہ بمباری تاریخ میں باقی رہےگی۔
سعودی عرب نے یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں اپنے امریکی اور مغربی آقاؤں کے اشاروں پر اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اسے گذشتہ چھ برسوں میں تاریخی شکست کا سامنا ہے اور اسلامی مزاحمتی تنظیمیں خطے میں مزید مستحکم ہوگئی ہیں اب علاقائی عوام میں اسرائیل اور سعودی عرب کے وحشیانہ جرائم کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب نے یمن پر اسی طرح مجرمانہ جرائم کا ارتکاب کیا جس طرح اسرائیل اس سے قبل فلسطین میں کرچکا ہے۔ سعودی عرب نے بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ یمن میں نہتے عرب مسلمانوں کا قتل عام کیا جن میں بچے عورتیں اور بزرگوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
یمن پر سعودی عرب ، امارات اور ان کے اتحادی ممالک کی مشترکہ اور متحدہ یلغار سے ثابت ہوگیا کہ یہ دونوں عرب ریاستیں خطے امریکی اور اسرائیلی آلہ کار ہیں اور ان کا کام امریکہ کے اشارے پر اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی اسلامی تنظیم انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں امریکی اور اسرائیلی مزدور اور نوکر ہیں۔ محمد عبدالسلام نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر دستخط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اور امارات خطے میں امریکی اور اسرائیل پروجیکٹ کے سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب صدی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کا اصلی ٹھیکیدار ہے اور امارات کے بعد اب سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات بھی طشت از بام ہوجائیں گے۔ اس نے کہا کہ سعودی عرب اور امارات اس دور کے یزید امریکہ کے اتحادی ہیں اور وہ معاویہ اور یزید کے راستے پر گامزن ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے یمن کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یمنی کے نہتے عرب مسلمانوں کو سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کی وجہ سے اب قحط ، طبی مشکلات اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔ برطانوی اخبا ر اینڈپینڈٹ کے مطابق سعودی عرب کی امریکہ اور اسرائیل نواز آل سعود حکومت نے یمن کے نہتے عربوں پر گذشتہ 6 برس سے وحشیانہ اور ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے، یمنی شہریوں کو اب سعودیہ کی مجرمانہ جنگ کے ساتھ قحط اور کورونا وائرس کا بھی سامنا ہے۔
برطانوی اخبار کے جائزے کے مطابق یمن کی آدھی آبادی کا انحصار غیر ملکی غذائی اشیاء پر ہے کورونا وباء کے پھیلنے کے بعد یمن کی صورتحال مزید پیچيدہ اور بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے اختتام تک 2 ملین 400 سے زائد یمنی بچوں کے قحط میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ بین الاقوامی امدادی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یمنی عوام کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق یمن میں سعودی عرب کے فوجی اتحاد کو عالمی اور انسانی قوانین کی سنگين خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ادھراقوامِ متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب کے فوجی اتحاد نے یمن پر مسلط کردہ جنگ میں تمام بین الاقوامی ، انسانی اور اسلامی قوانین کو بری طرح پامال کیا۔ سعودی عرب نے گذشتہ 6 برسوں میں 45 ہزار سے زائد یمنی شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔ سعودی عرب کے مجرمانہ ہوائي حملوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ادھر یمنی فوج اور قبائل نے بھی جدید میزائلوں سے سعودی عرب کے اندر فوجی اور اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یمنی فورسز اور قبائل نے جدہ میں سعودی تیل کی کمپنی آرامکو ، ملک خالد ايئر پورٹ ، ابہا ایئر پورٹ ، دارالحکومت ریاض میں سعودی عرب کے فوجی اور اقتصادی ٹھکانوں کو نشانہ بنا نا شروع کردیا ہے جس کے بعد سعودی عرب پر لرزہ طاری ہوگیا ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق یمن پر مسلط کردہ ظالمانہ جنگ میں سعودی عرب کی شکست یقینی ہے۔ سعودی اتحاد میں شامل دس سے زائد ممالک کے خلاف یمن کے نہتے عربوں کی شاندار استقامت کو تاریخ میں سنہرے حروف سے یاد رکھا جائےگا۔