
سلیمانی
حضرت عباس کی صفات کمالیہ
قرآن مجید کے سورہٴ مریم میں جناب زکریا کی دعا اور تمنا کا تذکرہ ملتا ہے جس سے جناب یحییٰ پیدا ہوئے،
حضرت فاطمہ بنت اسد کی دعا اور تمنا سے حضرت علی نے دنیا کو زینت بخشی اور حضرت علی کی دعا اور تمنا سے قمر بنی ہاشم ،علمدار کربلا، سقائے حرم، عبد صالح حضرت عباس نے دنیا کو رونق بخشی،حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے
لیکن سن ولادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے تمام محققین نے حضرت عباس کی ولادت سن ۲۶ ہجری میں بیان کی ہے،
ہندوستانی علماء نے حضرت عباس کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیا ہے کسی نے ۱۹ جمادی لثانی،کسی نے ۱۸/ رجب، کسی نے۲۶/جمادی الثانی بیان کی ہے لیکن اہل ایران۴ شعبان پر متفق ہیں،جو مطابق ہے ۱۸/مئی ۶۴۷ء بروز منگل،آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا اور عباس نام رکھا گیا،
عباس عبس مصدر سے ہے جس کے معنی تیوری چڑھانا،ترش رو ہونا،چیں بجبیں ہونا ہے
اور اصطلاح میں بپھرے ہوئے شیر کو عباس کہتے ہیں،سن ۴۰ ہجری میں حضرت علی نے سر پر ضربت لگنے کے بعد آخری لمحات میں اپنے بیٹوں منجملہ حضرت عباس کو وصیت و تاکید فرمائی کہ :رسول اللہ کے بیٹوں حسن و حسین سے منھ نہ موڑنا پھر تمام اولاد کا ہاتھ امام حسن کے ہاتھ میں دیا اور حضرت عباس کا ہاتھ امام حسین کے ہاتھ میں دیا،
جیسا کہ حضرت علی کی تمنا سے ظاہر ہے آپ نے حضرت عباس کی تربیت میں ایثار و فدا کاری کوٹ کوٹ کر بھردی تھی، حضرت علی مسلسل حضرت عباس سے اس کا اظہار فرماتے رہتے تھے کہ تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے مہیا کیا گیا ہے ،تمہارا مقصد شہادت کے علاوہ اورر کچھ نہیں ہے ،
ایک بار جناب ام البنین مادر حضرت عباس تشریف فرما تھیں اور حضرت عباس کا بچپن تھا مولائے کائنات نے اپنے فرزند عباس کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازووٴں کو بوسے دینے لگے،ام البنین نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کی :مولا !یہ کیسا طریقہٴ محبت ہے یہ بازووٴں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں ،یہ آستین کیوں الٹی جا رہی ہے،آپ نے فرمایا: ام البنین !تمہارا یہ لال کربلا میں شہید ہوگا،اس کے شانے قلم ہوں گے،پروردگار اسے دوپر عنایت کرے گا جس سے یہ جعفر طیار کی طرح جنت میں پروز کرے گا،یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف جنت الفردوس ،مولائے کائنات حضرت عبا س کو مستقبل سے باخبر کرنے کے ساتھ دنیا کو متوجہ کررہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بچے حالات میں گرفتار ہوکر قربانی نہیں دیاکرتے بلکہ آغاز حیات سے ہی قربانی کے لئے آمادہ رہتے ہیں ،
جب شب عاشور زہیر قین نے یاد دلایا اور کہا عباس !آپ کو یاد ہے کہ آپ کے پدر بزرگوار نے آپ کو کس دن کے لئے مہیا کیاہے؟ تو حضرت عباس نے اس طرح انگڑائی لی کہ رکابیں ٹوٹ گئیں اور فرمایا: اے زہیر آج کے دن شجاعت دلارہے ہو،عاشور کی رات تمام ہونے دو اور صبح کا وقت آنے دو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ بیٹے نے باپ کے مقصد کو کس انداز سے پورا کیا ہے اور عباس اپنے عہد و فا پر کس طرح قائم ہے ،دشمن کو میدان میں تلوار کا پانی پلانا واقعاً شجاعت ہے لیکن جب جذبات تلوار چلانے پر پوری طرح آمادہ ہوں تو اس وقت اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے تلوار نہ چلانا اس سے بھی بڑی شجاعت ہے ،جناب عباس نے صرف صفین کی جنگ میں تلوار چلائی باقی موقعوں پر آپ نے اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی تلوار نیام ہی میں رکھی ،امام حسن کے جنازے کی بے حرمتی،والد بزرگوار کی شان میں منبر سے گستاخی ،مخلصین کا بے دردی سے قتل ،کربلا میں فرات سے خیمے ہٹائے جانے کا مطالبہ یہ تمام وہ مواقع تھے جہاں حضرت عباس کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی تھے لیکن آپ نے ان موقعوں پر بھی اطاعت مولا کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شجاعت کی مثال قائم کردی ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے کمالات و اوصاف سے حضرت عباس متصف تھے جو آپ کو معصوم علی جیسے امام سے ورثہ میں ملے تھے،ان کمالات کا احصاء کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ،یہ توہم تذکرہ کے طور پر تبرکاً تحریر کر رہے ہیں،اسلامی لشکر کی علمداری،پیاس کی شدت سے انسانوں کی جان بچا نے کو سقائی اور عبد صالح کا خطاب وہ صفات ہیں جن میں حضرت عباس کو کمال حاصل تھا،لشکر کی علمبرداری ہی کو لے لیجئے ہر قوم اپنے پرچم یا علم کو اپنی عزت و عظمت کا نشان سمجھتی ہے بالخصوص میدانِ کارزار میں جنگ کے درمیان دونوں فوجیں اپنا اپنا علم بلند رکھتی ہیں جس کا پرچم بلند رہتا ہے اُ س لشکر کو فتح مند قرار دیاجاتاہے اور جس فوج کا پرچم سرنگوں ہوجاتا ہے وہ شکست خوردہ سمجھی جاتی تھی،اسی لئے علمدار کا باقاعدہ انتخاب کیاجاتاتھا اور علم اس شخص کو دیاجاتاتھا جس میں ایک ماہر اوربہادر کمانڈر کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں ،جسے علم مل جاتا تھا اُس کا سر افتخار سے بلند رہتاتھا ،
علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہیں : علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہئے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے اور شدائد کا مقابلہ کرسکے وہی محافظ کہاجاسکتاہے اور جو محافظت کا اہل ہوتاہے وہی پرچم کے گردو پیش رہتاہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتاہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ،وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کردیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں“ امام علی کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع،بہادر،محافظ، غیرت دار،ثابت قدم، مستقل مزاج اورصابر انسان ہوتا ہے ،کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین حضرت عباس کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم ،مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کررہے تھے،حضرت عباس کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے،سقائی یعنی پانی پلانا،کسی کو پانی پلاکر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لئے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خدا وند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیاہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ،
اور ہم نے آسمان سے پانی اس لئے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں اور رسول اسلام فرماتے ہیں :جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا ،اب اگر پانی پلاکر کسی کی زندگی کو بچالیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا،پانی پلاکر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہوسکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہاہو تو وضو کا پانی پلاکر جاندار کی زندگی بچالی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ،
حضرت عباس ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں ،سن ۳۴ ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی ٴ کوثر حضرت علی نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے،یہاں بھی حضرت عباس کی عمر اگرچہ ۸ سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی،تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیاتھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھاگیا تھا ،جن لوگوں نے حضرت عثمان اوران کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو حضرت عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا ،اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے،بہر حال اسی طرح سن ۶۰ ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں ،گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین نے جناب عباس کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھاکر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی ،
حضرت عباس نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کردیااور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منھ نہ پھیر لیا،لیکن ۶۱ ہجری میں حضرت عباس نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچادیا ،علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت علی سے ورثہ میں ملی تھی ،حضرت علی کو ساقی ٴ کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا
لیکن عباس کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے ،سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے،حضرت علی نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ،
اس مقصد کے لئے آپ نے کربلا میں متعدد کنوئیں کھودے لیکن پانی نہ نکلا،ادھر امام حسین کے 6ماہ کے بچے علی اصغر پیاس کی وجہ سے لب دم ہیں ،مچھلی جب پانی سے باہر آجاتی ہے تو اس کی تین کیفیتیں ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ وہ بہت زیادہ تڑپتی ہے اور دوسری کیفیت وہ جب اس کی تڑپ اور حرکت میں کمی آجاتی ہے اور تیسری کیفیت یہ کہ اُس سے تڑپا بھی نہیں جاتا وہ صرف منھ کھول کر سانس لینے کی کوشش کرتی ہے ،
روز عاشور کربلا میں حضرت علی اصغر کی یہی کیفیت تھی ،آپ بے حس و حرکت پیاس کی شدت اور تکلیف سے اسی طرح برداشت کررہے تھے،بچوں کی یہ حالت جناب عباس سے نہ دیکھی گئی،ادھر آپ کی بھتیجی سکینہ نے آپ سے پانی کا مطالبہ بھی کردیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور آ پ نے امام حسین سے اجازت طلب کی ،
اجازت ملنے کے بعد آپ دریا پر پہنچے ،دریا پر قبضہ کرنے کے بعد بھی آپ نے پانی لبوں کو نہ لگایا،بچوں کے لئے مشکیزہ بھر لیا لیکن پانی بچوں تک نہ پہنچ سکا اور آپ نے پانی مہیا کرنے پراپنی جان بھی قربان کردی اس سقائی کی حسرت آپ کے دل ہی میں رہ گئی ،حضرت عباس کی تیسری صفت کمالیہ ”عبد صالح“ کا وہ خطاب ہے جو تمام انبیاء کو بھی نصیب نہ ہوا ،
قرآن مجید میں اللہ نے حضرت داوٴد، حضرت ابراہیم ،حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب،حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی کو عبد صالح کا خطاب دیا ہے،غیر انبیاء اور ائمہ میں صرف حضرت عباس کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کو عبد صالح کا خطاب دیا گیا جس کی سند چھٹے امام جعفر صادق نے زیارت حضرت عباس میں دی ہے ،اس کی روایت ابو حمزہ ثمالی نے کی ہے ،
حضرت عباس کے لئے امام جعفر صادق فرماتے ہیں : السلام علیک ایها العبد الصالح
یعنی اے عبد صالح آپ پر خدا کی طرف سے سلامتی ہو ،
ہم روزانہ نماز کے اختتام پر اللہ کے نیک بندوں (عباد الصالحین) پر سلام پڑھتے ہوئے تشہد کے بعد کہتے ہیں السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین یعنی ہمارے اوپر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو،اس سلام میں انبیاء اور ائمہ کے ساتھ ساتھ حضرت عباس بھی شریک ہیں کیونکہ آپ عبد صالح ہیں
- مؤلف:
- سید پیغمبر عباس نوگانوی
امام حسین علیہ السلام کون ہیں
سید الشہدا، امام حسین بن علی علیھما السلام، رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے اور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ آپ (ع) کی مادر گرامی سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ آپ ہجرت کے تیسرے سال تین شعبان کو یا دوسری روایت کے مطابق ہجرت کے چوتھے سال تیسری یا پانچویں شعبان کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ جب اس نومولود کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے جایا گیا تو آپ مسرت سے پھولے نہ سمائےاور آپ کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
ولادت کے ساتویں روز عقیقہ کی رسم ادا کرتے ہوئے آپ کے سر کے بال اتارے گئے۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا (س) سے فرمایا کہ حسن کی طرح میرے حسین کے سر کے بالوں کا وزن کر کے ان کے برابر چاندی صدقہ کرو۔
امام حسین(ع) اپنے بھائی امام حسن(ع) سے عمر میں بہت کم چھوٹے تھے اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان دونوں سے متعلق احادیث اور واقعات میں دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل شدہ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: " جو شخص حسن و حسین کو دوست رکھے گا میں اسے دوست رکھوں گا اور جو مجھے دوست رکھے گا خدا اسے دوست رکھے گا اور خدا سے دوستی بہشت کا سبب ہے۔ اور جو ان دونوں سے دشمنی رکھے گا میں اس سے دشمنی رکھوں گا اور جسے میں دشمن سمجھوں گا خدا بھی اس کو اپنا دشمن قرار دے گا۔ اور جس سے خدا دشمنی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں بھنے گا"۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ فرمایا: میرے یہ دو بیٹے، میرے لیے اس دنیا کے دو پھول ہیں۔
محمد بن عبد اللہ نے ابن ابی نعم سے نقل کرتے ہوئے کہا: میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے اس سے مچھر کے خون کا حکم معلوم کرنا چاہا۔ اس نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ جواب دیا: عراق کا۔ اس نے کہا: اس آدمی کو دیکھو کہ مجھ سے مچھر کے خون کا حکم معلوم کر رہا ہے حالانکہ انہوں نے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خون بہایا ہے۔ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: میرے یہ دوبیٹے( حسن و حسین) میرے لیے اس دنیا کے دو پھول ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے نواسوں کو جنت کا سردار بنایا ہے۔
حذیفہ نے آنحضرت سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: مجھ پر آج وہ فرشتے نازل ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئے اذن خدا سے مجھ پر سلام کرنے کےبعد یہ خوشخبری دی ہے کہ فاطمہ خواتین جنت کی سردار اور حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ رسول خدا سے شباہت رکھتے تھے عاصم اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواب میں دیکھا اور اپنی خواب کو ابن عباس کے سامنے بیان کیا۔ اس نے پوچھا: کیا ان کو دیکھتے وقت تمہیں امام حسین یاد نہیں آئے؟ میں نے کہا: بخدا کیوں نہیں۔ پیغمبر کے شانوں پر نگاہ پڑتے ہی مجھے امام حسین کی یاد آگئی۔ ابن عباس نے کہا: امام حسین رسول خدا سے کتنا مشابہ ہیں!۔
امام حسین علیہ السلام سن ۶۱ ہجری میں شہادت فرما گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۵۶ سال تھی۔ اپنی زندگی کے چھ یا سات سال اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گزارے ۳۷ سال تک اپنے بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ساتھ اور ۴۷ سال کی عمر تک اپنے بھائی امام حسن(ع) کے ساتھ رہے۔اپنے بھائی کی شہادت کے دس سال بعد خود بھی مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔
آپ کی کنیت ابا عبد اللہ تھی اور القاب: الرَّشيد، الوَفىّ، الطّيِّب، السّيد الزّكى، المبارك، التّابع لمرضاة اللَّه، الدّليل على ذات اللَّه والسِّبط، تھے۔
سید شباب اھل الجنہ اور سبط اصغر دو ایسے القاب ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو عطا کئے۔
امام حسین (ع) کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ۱: علی اکبر کہ جو کربلا میں شہید ہو گئے جن کی ماں لیلی ابومرۃ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھی۔ ۲: علی اوسط، ۳: علی اصغر، زین العابدین کہ جن کی ماں " شاہ بانو" ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں۔ لیکن شیخ مفید کے عقیدہ کے مطابق زین العابدین علی اکبر سے بڑے تھے۔ ۴: محمد۔ ۵: جعفر کہ جو پہلے ہی دنیا سے چل بسے تھے۔ ۶: عبد اللہ، شش ماہے جو کربلا میں اپنی گردن پر سہ شعبہ تیر کھا کر شہید ہو گئے۔ آ پ کی بیٹیاں سکینہ، فاطمہ اور زینب تھیں۔
واقعہ کربلا کے بعد آپ کی اولاد میں سے صرف امام زین العابدین باقی بچے تھے جن سے آپ کی نسل آگے بڑھی۔
اخلاقی فضائل
امام حسین علیہ السلام انسانی فضائل و کمالات اور اسلامی اخلاق کے نمونہ عمل تھے۔ سخاوت، کرامت، عفو و بخشش، شجاعت و بہادری، ظلم و ستم کا مقابلہ آپ کی آشکارا خصوصیات تھیں۔ یہاں پر آپ کے بعض فضائل و کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اسامہ بن زید حالت احتضار میں تھے امام حسین علیہ السلام عیادت کرنے انکے پاس گئے اور انہیں غمگین حالت میں دیکھا۔ سبب معلوم کیا تو انہوں نے کہا: ساٹھ ہزار درھم کا مقروض ہوں۔ اور اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ کبھی ادا کرنے سے پہلے ہی مر جاؤں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے مرنے سے پہلے اسے ادا کر دوں گا اور اس کے بعد آپ نے ان کا قرضہ ادا کر دیا۔
ایک دیہاتی آدمی آپ کی خدمت میں آیا اور کہا: ایک دیّت میری گردن پر ہے اسے ادا کرنے سے ناتوان ہوں۔ اور میں نے سوچا باکرامت ترین شخص سے اس کا مطالبہ کروں گا اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ کریم کوئی شخص میں نے نہیں پایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے مومن بھائی میں تجھ سے تین سوال کروں گا۔ اگر ایک کا جواب دیا تو تمہاری دیّت کا ایک تہائی مال ادا کروں گا اور دو سوال کے جواب دئے تو دو تہائی اور تینوں کا جواب دیا تو پورا مال عطا کر دوں گا۔ اس آدمی نے کہا: آپ جیسا عالم اور شریف آدمی مجھ سے سوال کرے گا؟ فرمایا: ہاں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا ہے کہ " المعروف بقدر المعرفۃ" نیکی انسان کی معرفت کی مقدار میں ہونا چاہیے۔ اس آدمی نے کہا: اچھا سوال پوچھئے اگر معلوم نہیں ہوں گے تو آپ سے معلوم کر لوں گا۔ آپ نے فرمایا:
سب سے بہترین عمل کون سا ہے؟ اس نے کہا: خدا پر ایمان۔ فرمایا: ہلاکت اور عذاب سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ کہا: خدا پر بھروسہ اور توکل۔ امام نے پھر پوچھا: مرد کی زینت کیا ہے؟ کہا: علم حلم اور بردباری کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ اس کے پاس نہ ہو؟ ( یعنی علم اور حلم نہ رکھتا ہو) اس نے کہا: مال سخاوت کے ساتھ۔ فرمایا اگر یہ بھی نہ ہو؟ فقر صبر کے ساتھ۔ فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ اس نے کہا: پس آسمان سے بجلی گرے اور مر جائے۔ امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی اسے عطا کی۔ اور ایک انگوٹھی جس کی قیمت دو سو درھم تھی اسے دی اور کہا ان پیسوں سے دیت ادا کرو اور انگھوٹھی بیچ کر اپنا خرچ چلاؤ۔ اس اعرابی نے پیسے لیئے اور کہا: خدا بہتر جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا سزوار کون ہے؟
انصار کا ایک آدمی اپنی حاجت لے کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام (ع) نے فرمایا: اے میرے بھائی ! سوال کر کے اپنی آبرو ریزی نہ کرو اپنی حاجت ایک خط میں لکھ کر مجھے دو۔ اس نے لکھا : یا ابا عبد اللہ ! میں فلاں آدمی کا پانچ سو دینار کا مقروض ہوں۔ اس سے کہیئے کہ کچھ دن مجھے مہلت دے۔ امام (ع) خط پڑھنے کے بعد گھر تشریف لے گئے اور ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر اس کو دی اور فرمایا: پانچ سو دینار اس کا قرض دو اور پانچ سو اپنے بال بچوں پر خرچ کرو۔ اور اپنی حاجت کو کسی سے طلب نہ کرو مگر تین اشخاص سے: دیندار، سخی اور سید و سردار ۔ اس لیے کہ دیندار اپنی دینداری کا پاس و لحاظ رکھے گا۔ سخاوت مند اپنی سخاوت مندی سے شرم و حیا کر کے دے گا اور سید و سردار یہ جانتا ہے کہ جب آپ نے اس کے سامنے اپنی آبرو ریزی کی ہے تو اس کی حفاظت کرتے ہوئے آپ کی ضرورت کو پورا کرے گا۔
نقل ہوا ہے کہ روز عاشورا آپ کی پیٹھ پر گھٹوں کے نشان نکھائی دئے تو اس کا سبب امام سجاد علیہ السلام سے معلوم کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ اپنی پیٹھ پر اناج کی بوریاں لاد کر یتیموں، بیواؤں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
ایک دن آپ کا چند فقیروں کے پاس سے گذر ہوا جو عبا بچھا کر بیٹھے ہوئے سوکھی روٹیاں چبا رہے تھے۔ آپ نے ان پر سلام کیا اور ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کے پاس بیٹھ گئے اور کہا: اگر یہ روٹیاں صدقہ نہ ہوتیں تو میں بھی آپ کے ساتھ کھاتا۔ اس کے بعد انہیں اپنے گھر ساتھ لے گئے اور کھانا کھلایا پہنے کو لباس دیا اور ہر ایک کو کچھ درھم عطا کئے۔
فصاحت و بلاغت
امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے آپ ایسے گھر میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے آذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب زہرا (س) تھیں اور استاد آپ کے والد بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کالال مقابلہ نہ کر پایا۔
حضرت سید الشھداء (ع) کے بہت سارے حکیمانہ خطبات نقل ہوئے ہیں کہ جن میں سے ایک خوبصورت اور لاجواب خطبہ صبح عاشور آپ نے فرمایا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذى خَلَقَ الدُّنيا فَجَعَلَها دارَ فَناءٍ وَزَوالٍ، مُتَصَرِّفَةً بِأَهْلِها حالًا بَعْدَ حالٍ، فَالْمَغْرُورُ مَنْ غَرَّتْهُ وَالشَّقِىُّ مَنْ فَتِنَتْهُ، فَلا تَغُرَّنَّكُمْ هذِهِ الدُّنْيا، فَإِنَّها تَقْطَعُ رَجاءَ مَنْ رَكَنَ إِلَيْها وَتُخَيِّبُ طَمَعَ مَنْ طَمِعَ فيها وَأَراكُمْ قَدْ اجْتَمَعْتُمْ عَلى أَمْرٍ قَدْ أَسْخَطْتُمُ اللَّهَ فيهِ عَلَيْكُمْ. فأَعْرَضَ بِوَجْهِهِ الْكَريمِ عَنْكُمْ وَأَحَلَّ بِكُمْ نِقْمَتَهُ وَجَنَّبَكُمْ رَحْمَتَهُ فَنِعْمَ الرَّبُّ رَبُّنا وَبِئْسَ الْعَبْدُ أَنْتُمْ، أَقْرَرْتُمْ بِالطَّاعَةِ وَآمَنْتُمْ بِالرَّسُولِ مُحَمَّدٍ- صَلىَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ- ثُمَّ إنَّكُمْ زَحَفْتُمْ إِلى ذُرِّيَّتِهِ وَتُريدُونَ قَتْلَهُمْ، لَقَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْكُمُ الشَّيْطانُ فَأَنْساكُمْ ذِكْرَ اللَّهِ الْعَظيمِ. فَتَبّاً لَكُمْ وَما تُرِيدُونَ، إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ، هؤُلاءِ قَوْمٌ كَفَرُوا بَعْدَ إيمانِهِمْ فَبُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمينَ۔
تمام تعریفیں اس خدا عظیم کی ہیں جس نے دنیا کو خلق کیا اور اس کو فنا اور زوال کا گھر بنا دیا۔ دنیا اپنے اندر بسنے والوں کو ہر لمحہ دگرگوں بناتی ہے۔ مغرور وہ شخص ہے جس کو دنیا نے فریب دیا ہو اور بد بخت وہ ہے جس کو دنیا نے گمراہ کیا ہو۔ مبادا دنیا کا فریب کھاجاؤ۔ اس لیے کہ دنیا اس پر اعتماد کرنے والوں کے ساتھ قطع تعلق کرتی ہے اور اس کی لالچ کرنے والوں کو امید دلاتی رہتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں ایسے کام کو کرنے کی خاطر جمع ہوئے ہو کہ جس سے خدا غضبناک ہوا ہے۔ اور اس کریم اور مہربان خدا نے اپنا منہ تم لوگوں سے موڑ کر تمہارے لیے عذاب کا سامان فراہم کیا ہے۔ اور تم لوگوں کواپنی رحمت سے محروم کر دیا ہے۔ ہمارا پرودگار کتنا اچھا پرودگار ہے۔ اور تم لوگ کتنے برے لوگ ہو۔ تم لوگوں نے یہ قبول کیا تھا کہ خدا کے حکم کی اطاعت کروگے اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لاؤ گے لیکن آج اس کی اولاد کے ساتھ جنگ کرنے آگئے ہو۔ اور انہیں قتل کرنے پر مصمم ہو۔ بتحقیق شیطان نے تم لوگوں پر غلبہ کر لیا ہے اور خدا کی یاد کو اپنے دلوں سے محو کر دیا ہے۔ وای ہو تم پر تم کس چیز کی تلاش میں ہو؟۔ ہم خدا کی جانب سے ہیں اور اس کی طرف ہماری بازگشت ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کر لیا ہے ۔ پس نابودی ہو ظالم قوم پر۔
شجاعت اور دلیری
امام حسین علیہ السلام نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔ آپ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کےبعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو آمادہ کیا اور پورے اقتداراور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار خون میں غلتیدہ ہوگئے لیکن ہر گز آپ دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کر چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دئے۔
آپ نے ہر جنگی ٹیکنیک کو پوری امید کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ایسی جنگ کی کہ دشمن نے جنگی قوانین کو پامال کرتے ہوئے حیوانوں کی طرح آپ پر حملہ کیا۔
وہ لوگ جو آپ کے مد مقابل بر سر پیکار تھے کوچہ و بازار کے افراد نہ تھے بلکہ پیشاور اور ماہر جنگجو تھے لیکن آپ کی شجاعت کے سامنے سب نے گھٹنے ٹیک دئے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ آج تک کسی کو ایسا نہ دیکھا کہ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی گودی کے پلے ہوئے اور لاڈلے ذبح کئے جائیں پھر بھی وہ تمام قوت کے ساتھ میدان کارزار میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرے۔
برخلاف دشمن کے کہ جو حکومت اور اقتدار کی لالچ دلا کر لوگوں کو جنگ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب و انصار کو واپس چلے جانے اور جنگ کرنے میں اختیار دیا تھا۔ آپ نے اپنی اپنے مختصر سے لشکر کو دنیا پرستی اور پست عناصر سے پاک وپاکیزہ کر دیا تھا اور صرف وہی لوگ آپ کے ہمراہ آئے تھے جنہوں نے دنیا کو بیچ کر جنت کے مقامات خرید لئے تھے یہی وجہ تھی کہ دشمن نے کبھی بھی امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب کے اندر ضعف اور ناتوانی کے آثار نہیں دیکھے۔
فوج اشقیاء کے چاروں طرف سے آپ کو گیر کر جو چیز انہیں میسر ہوئی اس سے آپ پر حملہ کیا لیکن پھر بھی شجاعانہ طریقہ سے دفاع کر رہے تھے اور دشمن کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ ہاں، حسین ابن علی (ع) نے زخموں سے چھلنی بدن کے ساتھ زندگی کے آخری لمحہ تک فوج اشقیاء کے سیلاب کے سامنے جبل راسخ کی طرح ڈت کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرما لیا۔
حریت اور آزادی
امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی آشکارا صفات میں سے ایک صفت حریت اور آزادی تھی۔
امام حسین (ع) نے ذلت کو قبول نہیں کیا، ظلم وستم کے نیچے نہیں دبھے اور ظالموں کا آخری لمحہ تک منہ توڑ جواب دیا۔ یزید کے بر سر اقتدار آنے سے یہ احساس کیا کہ اسلامی اور انسانی قدریں نابود ہو رہی ہیں۔ اگر یزید جیسا شرابخوار، ہوس پرست اور زن باز اسلامی تخت خلافت پر بیٹھ جائے تو دین اور دینداری کا چراغ گل ہو جائے گااسی وجہ سے روز اول مروان کے سامنے بیٹھ کر یہ اعلام کر دیا:
جب بھی اسلامی حکومت کی باگ ڈور یزید جیسوں کے ہاتھ میں ہو تو ایسے میں اسلام کی فاتحہ پڑھنا چاہیے ۔ اپنے بھائی محمد حنفیہ کے جواب میں جو مسالحت کی دعوت دے رہے تھے فرمایا: چنانچہ پوری دنیا میں اگر کہیں پناہگاہ نہ ملے تب بھی یزید کی بیعت نہیں کی جائے گی۔
وہ حسین (ع) کہ جنہوں نے آغوش وحی میں تربیت حاصل کی تھی ہر گز اپنے ذاتی مفاد اور مصالح کی حفاظت کی خاطر اھداف رسالت کو پامال ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا تھا: ہم خاندان پیغمبر، آماجگاہ رسالت اور فرشتوں کی رفت و آمد کی جگہ ہیں۔ خدا وند عالم نے ہم سے آغاز کیا ہے اور ہمیں پر ختم کرے گا۔
مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
آپ نے اپنی تحریک اور قیام کے اندر بھی حریت اور آزادی کو پیغام دیا ہے مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت کرتےوقت آپ کو یہ پیشنہاد دی تھی کہ آپ بھی عبداللہ بن ذبیر کی طرح کہیں اور کا راستہ اختیار کریں لیکن آپ نے فرمایا: خدا کی قسم میں اس راستے کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ خدا جو چاہے میرے مقدر میں لکھ دے۔ جب جناب حر نے آپ پر راستہ روکا اور آپ سے کہا گیا کہ خدا کے لیے اپنا راستہ بدل دیں اور جان بچالیں اگر جنگ کریں گے تو قتل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا: میری روش اور منطق اس اوسی بھائی کی طرح ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت کا قصد رکھتا تھا لیکن اس کا چچیرا بھائی اسے موت کا خوف دلا رہا تھا اس نے جواب میں کہا:
میں جاؤں گا اس لیے کہ جب تک مرد مجاہد کی نیت حق رہے اور اسلام کی راہ میں جنگ کرتا رہے موت اس کے لیے ننگ و عار نہیں ہے۔
میں اپنی جان کو قربان کرتا ہوں اس کے باقے رہنے کی آرزؤں نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ دو چھوٹے اور بڑے لشکر آپس میں معرکہ آراء نہ ہو جائیں۔
اگر زندہ رہ گیا تو پشیمان نہیں ہوں اور اگر قتل ہو گیا تو سرزنش نہ کریں مرد کے لیے یہی سب سے بڑی ذلت ہے کہ وہ زندہ رہے لیکن ظالم کے حکم کی اتباع کرتا رہے۔
دشمن کے پاس عظیم لشکر تھا اور امام حسین علیہ السلام کے مختصر اصحاب و انصار انے مقابلہ میں ناچیز تھے۔ لیکن علی (ع) کے لال اس لشکر غفیر کو اپنے مد مقابل کے لیے کچھ بھی سمجھ رہا تھا اس لیے وہ پست و ضمیر فروش لوگ تھے اور انسانی اعلی قدروں کے لیے کسی حرمت کے قائل نہیں تھے اسی وجہ سے ان کی بے غیرت مندانہ رفتار کو دیکھ کر آپ نے فرمایا:
«انْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ وَكُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ فَكُونُوا أَحْراراً فِى دُنْياكُمْ ...» اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم سے کم اپنی زندگی میں آزاد تو رہو۔۔۔۔
صلح امام حسن (ع) کے دور میں
حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنے دور کے سیاسی۔ سماجی اور عسکری شرائط کے پیش نظرمعاویہ کے ساتھ ایسا عہد و پیمان کر جس اسلامی قدروں کا محفوظ رکھا جا سکتا تھا جنگ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن خود خوواہ اور زیرک عناصر اس بیچ اس صلح پر راضی نہ تھے امام حسن علیہ السلام کے ساتھ مخالف کا اظہار کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کو بھی اس صلح سےکنارہ کشی کی ترغیب دلاتے تھے۔لیکن امام حسین علیہ السلام نے ان کی پیشنہادوں کو در کرتے ہوئے فرمایا ہم نے بیعت کر لی ہے اور بیعت ٹورنے کا ابھی کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت منصب امامت پر امام حسن علیہ السلام فائز ہیں ان کے ساتھ مخالفت جائز نہیں ہے۔
امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد جب تک معاویہ زندہ تھا پیمان صلح کی بنا پر آپ نے اس کے ساتھ عہد و پیمان نہیں توڑا اور کسی طرح کا قیام اس کے خلاف نہیں کیا۔ جو اس کے ساتھ مخالفت کی دعوتیں دیتے تھے آپ فرماتے تھے کہ جب تک معاویہ زندہ ہے ہم پیمان صلح کی وجہ سے اس کے ساتھ مخالفت کا حق نہیں رکھتے۔
امام حسن (ع) اور معاویہ کے درمیان پیمان صلح کی بنا پر معاویہ اپنے بعد جانشین مقرر کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا ایک دن مغیرہ بن شعبہ کہ جو کوفہ کی سربراہی سے معزول ہوا تھا معاویہ کے پاس آیا اور اسے پیشنہاد دی کہ اپنے بعد یزید کو جانشین مقرر کرے۔ معاویہ اس پیشنہاد کو عملی جامہ پہنانے میں مردّد تھا لیکن مغیرہ نے اسے دعدہ دیا کہ وہ کوفہ اور بصرہ کے لوگوں سے اس کے لیے بیعت لے گا اور ان شہروں کی بیعت کے بعد مخالفت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اس کے بعد معاویہ نے بھی کوشش کرنا شروع کردی کہ یزید کے لیے ہر ممکن صورت میں بیعت لے اور چونکہ سب زیادہ مخالف لوگ اس کے حجاز میں تھے لہذا حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ وہ امام حسین (ع) اور چند دوسرے سر کرفہ افراد سے یزید کے لیے بیعت لے لے۔ اس تلاش و کوشش کے ناکام ہونے کے بعد وہ خود مکہ و مدینہ میں عزم سفر ہوا اور لوگوں کے درمیان اس پیشنہاد کو رکھا لیکن اس کوشش بھی ناکام رہ گئی اور وہ واپس شام آنے پر مجبور ہو گیا۔
معاویہ کی مرگ کے بعد سب سے پہلا سیاسی اقدام یہ تھا کہ امام حسین اور چند دوسرے افراد سے یزید کے لیے بیعت حاصل کی جائے۔ لیکن امام حسین (ع) یزید کی بیعت کرنے پر راضی نہیں ہوئے اور اس کے مقابلہ میں قیام کرنے پر تیار ہوگئے۔ حاکم مدینہ نے یزید کے حکم کے مطابق امام حسین(ع) کو اس کام کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے اپنا وطن مدینہ چھوڑا اور مکہ کی طرف چل پڑے۔ کوفہ کے لوگوں کو محض خبر ملتے کہ امام یزید کی بیعت کے مخالف ہیں اور نتیجہ میں اس کی مخالف میں قیام کرنا چاہتے ہیں ان کی طرف خطوط کے ڈھیر لکھنا شروع کر دئے کہ امام ان کے شہر یعنی کوفہ میں تشریف لے جاکر حکومت اسلامی کی زمام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے خطوط کے مضامین تقریبا کچھ اس طرح کے تھے: "ہمارے ہاں کوئی امام نہیں ہے۔ آپ آجائیے ۔ خدا آپ کےذریعے ہمیں حق کی طرف ہدایت کرے گا" امام علیہ السلام نے بھی فریضہ الہی پر عمل کرتے ہوئے اور حجت تمام کرتے ہوئے یہ ارادہ بنا لیا کہ ان کے تقاضہ و پورا کیا جائے۔
اس دوران مکہ میں کئی شخصیات آپ کو اس کام سے روکنے کی غرض آئیں۔ منجملہ ابن عباس نے اس سلسلے میں امام (ع) سے گفتگو کی اور کہا اگر کوفہ کے لوگ اپنے حاکم کو قتل کرکے حکومتی امور کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنے دشمنوں کو اپنے شہر سے باہر کریں تو ٹھیک ہے آپ جائیں۔ لیکن اگر ان کا حاکم ان پر حکومت کر رہا ہو اور وہ اس کو ٹیکس اور جزئیہ ادا کرتے ہوں تو ایسی حالت میں آپ کو دعوت صرف جنگ و جدال کے ہو گی۔ ابن عباس نے مزید کہا اگر سچ مچ آپ کو مکہ بھی چھوڑنا تو یمن کی طرف چلے جائیے اور اپنا آپ بچا لیجیئے۔
اس کے بعد عبد اللہ بن زبیر نے بھی اصرار کیا کہ آپ مکہ میں ہی ٹھر جائیں اس لیے کہ مکہ میں آپ کا مقام و منزلت عظیم ہے۔ اور لوگ یہی پر آپ کے حکم کی اتباع کریں گے۔
اس باوجود ان میں سے بعض باتیں منطقی اور بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں لیکن امام (ع) نے کسی ایک کی بھی نہ سنی اور سب کی باتوں کی تردید کی۔ آخر کیوں؟ اس بات کو راز امام (ع) کے عقیدہ اور دوسرے لوگوں کے طرز تفکرات میں نہفتہ تھا۔ وہ لوگ سیاسی اور فوجی نگاہ سے اس مسئلہ کی طرف دیکھتے تھے اور نتیجہ میں امام (ع) کی بنی امیہ پر کامیابی کو امر محال سمجھتے تھے۔ لیکن امام (ع) ان خبروں کی بنا پر جو آپ کے نانا اور بابا کی طرف سے آپ کی شہادت کے بارے میں نقل ہوئیں تھی اورآپ کے لیے تعیین تکلیف کر رہی تھیں آگے بڑھ رہے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمادیا تھا کہ میرا بیٹا حسین (ع) بنی امیہ کےہاتھوں شہید ہوگا۔ اور امام حسین (ع) قضای الٰہی کے سامنے تسلیم تھے اور الہی الھامات کی بنا پر قدم اٹھا رہے تھے۔
مؤلف: افتخار علی جعفری
پیغمبر اسلام (ص) : حسین(ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں
مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اے اللہ، اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔
حضرت امام حسین (ع) تین شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں، آپ کے والد حضرت علی مرتضی (ع) ہیں اور آپ کے نانا سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین (ع) کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا،اس کے بعدداہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے خیرفرما کر حسین نام رکھا۔ علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کابھی نہیں تھا ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خودخداوندعالم کا رکھاہواہے۔ کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہواہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایا: میں حسنین (ع) کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تہے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا۔
جامع ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین(ع) آگئے اورحسین(ع) کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکر فرمایا: ھذا حسین فعرفوہ۔
اللہ تعالی کی طرف سے ولادت امام حسین علیہ السلام کی تہنیت اور تعزیت
علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطراز ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومیری طرف سے حسین علیہ السلام کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل علیہ السلام بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ولادت اور شہادت حسینی کی تہنیت اور تعزیت پیش کی، یہ سن کرسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل علیہ السلام ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مولا صلی اللہ علیہ وسلم ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند" حسین علیہ السلام " کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بے یار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین علیہ السلام کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ سلام اللہ علیہا ہوگئے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جوحضرت علی علیہ السلام کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں اوروہ حسین علیہ السلام کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبر ہونے کے بعد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ سلام اللہ علیہا نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایا جب نہ میں ہوں گا نہ آپ ہونگی نہ علی (ع) ہوں گے نہ حسن (ع) ہوں گے فاطمہ سلام اللہ علیہا نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا : اسلام کی حمایت میں میرے حسین (ع) کا سر قلم کیا جائےگا۔
ایرانی سپاہ نے نئے میزائل شہر کا افتتاح کیا/ کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی رونمائی
اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور سپاہ کی بحریہ کے سربراہ جنرل علی رضا تنگسیری نے سپاہ کی بحریہ کے نئے میزائل شہر کا افتتاح کرتے ہوئے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کی رونمائی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سپاہ کی بحریہ کے نئے میزائل شہر میں مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ سپاہ کی بحریہ کی تحویل میں مختلف قسم کے میزائل دیئے گئے ، ان میزائلوں کو ایرانی وزارت دفاع کے ماہرین نے ملک کے اندر تیار کیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ایران جنگی وسائل اور پیشرفتہ میزائلوں کی مقامی سطح پر تیاری میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایرانی بحریہ کی تحویل میں جو جنگی ساز و سامان دیا گیا ہے ان میں فائرنگ کے بعد ہدف کو تبدیل کرنے والے نئے اور پیشرفتہ میزائل بھی موجود ہیں۔
مسجد طور سینا – ایتوپی (حبشہ)
مسجد طور سینا ایتوپی میں پائی جانے والی ایک تاریخی مسجد ہے جس کی مخصوص ساخت آنے والوں کو اپنی طرف جلب کرتی ہے۔
مسجد طور سینا ایتوپی کی مشہورترین مسجدوں میں سے ایک ہے جو ایتوپی کے شہر (ولو) میں واقع ہے۔
مسجد طور سینا لکڑی سے بنائی گئی ہے جو 250 میٹر زمین کو احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس مسجد کے 40 لکڑیوں کے ستون ہیں۔
سی طرح مسجد کے اطراف سر سبز و شاداب ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہوا ہے
مسجد طور سینا کہ جو ایتوپی کے آثار قدیمہ کی لسٹ میں شامل ہے، اپنے مخصوص ساخت و ساز کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
ایتوپی کے مسلمان قرآن کی تعلیمات حاصل کرنے میں پوری دنیا میں مشہور ہیں ان کی ہر ہر مسجد کے ساتھ ایک مدرسہِ تعلیم قرآن ضرور موجود ہوتا ہے۔ مسجد طور سینا بھی ایک عبادتگاہ ہونے کے ساتھ تعلیم قرآن کا بہترین درسگاہ بھی ہے۔
اس مسجد میں 430 طلباء قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
مسجد طور سینا سن 1943ء میں بنائی گئی۔
اس مسجد کی خصوصیات میں سے ایک ییہ ہے کہ یہ بہت ہی سادی ہے اور کسی قسم کی تزئین و آرایش نہیں ہے۔
آس پاس کے مسلمانوں کو اس مسجد سے خاص لگاو ہے۔
ایتوپی کہ جو پہلے حبشہ کے نام سے مشہور تھا مسلمانوں کا مرکز رہا ہے اور یہ سر زمین بہت سارے بزرگ صحابی رسول اکرم (ص) کا پناہ گاہ رہا ہے اور اس سرزمین کا پہلا بادشاہ کہ جس نے اسلام قبول کیا تھا نجاشی ہے آج بھی نجاشی کا مزار اس سرزمین کے مسلمانوں کی زیارگاہ ہے۔ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے اکثر کا تعلق شافعی مذھب سے ہے اور محب اھل بیت (ع) ہیں اور صوم و صلاۃ کا پابند ہیں۔
بانی مقاومت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور داعیان مقاومت
مقاومت کے دشوار اور کٹھن مراحل وہی شخص طے کرسکتا ہے، جس کی زندگی صرف خدا کیلئے ہو، جو دنیا اور اس کی لذتوں سے نکل کر شہادت کو اپنی زندگی کا محور قرار دے، یہ شہید ڈاکٹر ہی تھے، جن کی پوری زندگی خدا تعالیٰ کی رضا میں گزری، ان کی زندگی میں رضایت خدا کا ہر پہلو نظر آتا ہے، جب عالمی طاقتوں نے جوانوں کی زندگی کو مفلوج کرنا شروع کیا تو اس دور میں شہید ڈاکٹر نے ان صیہونی طاقتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا، ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا، ناصرف اسلام و انسانیت کی خدمت کی بلکہ میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب امام خمینی (رہ) نے صدائے "ھل من ناصر ینصرنا" بلند کی اور کہا جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہے، وہ محاذ پر جائے تو اس فرزند زہراء نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مظلومیت کی آواز پر لبیك کہا اور پوری طاقت سے میدان جنگ میں حاضر ہوگئے، انسانیت اور اسلام کی خدمت کرکے "من يشري نفسه إبتغاء مرضات الله" کے مصداق بن گئے۔
شہادت کا اشتیاق اس قدر تھا کہ محاذ جنگ سے واپسی پر بہشت زہراء کے مقام پر فرماتے ہیں، دل چاہتا ہے کہ ان شہداء کے ساتھ زندہ اس قبرستان میں لیٹ جاؤں۔ ہائے افسوس کہ اس قدر شہداء کی چاہت رکھنے والے شہید ڈاکٹر کا نظریہ ابھی تک صرف کاغذ کی زینت بنا۔ آج تمام تنظیمیں، جماعتیں، شخصیات خود کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والا کہتی ہیں۔ ہر جماعت، ہر شخصیت ان کے نام کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ کیا انہوں نے شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنایا؟ آخر انہوں نے شہید کے نظریئے کی کتنی عہد سازی کی، ان افراد نے شہید ڈاکٹر کی زندگی سے کون سا درس لیا، کتنے جوانوں کو یکجا کیا؟ کتنے جوانوں کی زندگی میں تحرک پیدا کیا؟ کتنے جوانوں کا ہاتھ تھاما؟ کتنے جوانوں کو مقاومت کا راستہ دکھایا؟ کتنے جوانوں کو حوصلہ دیا؟ جذبہ پیدا کیا؟ ان کو منزل دکھائی؟
آخر ان شخصیات نے جوانوں کیلئے کیا کیا؟ بلکہ جب بھی جوانوں کی طرف سے مقاومت کا نعرہ بلند ہوتا، ان کی آواز کو دبا دیا جاتا، حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی، جذباتیت کا طعنہ دے کر افکار و نظریات کے ٹکڑے کر دیئے جاتے۔ ہمیں شہید کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ خود کو محدودیت سے نکال کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دینا چاہیئے، جیسا کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی میں یہ پہلو روزِ روشن کی طرح واضح تھے، شہید ڈاکٹر مقاومتی شخصیت تھے، شہید ایک روشن چہرہ رکھتے تھے، وہ افکار و کردار میں سچے تھے، وہ مصلحت کے نام پر دوغلے پن سے مبریٰ تھے، وہ جرأت کردار رکھتے تھے، وہ گھر، ہسپتال، تنظیم، تحریک، معاشرہ، محفل، تنہائی، عوام و خواص سب میں وہ ایک ہی محمد علی تھے۔
قرآن کریم سے آیات حذف کرنے والا بیان ارتدادی فکر کا واضح ثبوت
انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے قرآن مقدس سے کئی آیات بینات کو حذف کرنے سے متعلق زرخرید آلہ کار اور حکومتی وقف بورڈ کے چیرمین وسیم رضوی کے حالیہ بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مقدس آخری آسمانی صحیفہ اور قیامت تک نوع بشریت کے لئے وسیلہ ہدایت و نجات ہے جس میں زیر و زبر کی تبدیلی بھی ناقابال معافی جرم ہے۔
آغا صاحب نے وسیم رضوی کے نجس و فتنہ انگیز بیان کو اسلام دشمنی کی حد انتہا اور ارتدادی فکر و ذہنیت کا برملا ثبوت قرار دیا، آغا صاحب نے کہا کہ موصوف نے اعلانیہ طور پر اپنی ارتدادی فکر کا اظہار کیا ہے اور یہ علماء و مفتیان ہند کی شرعی مسؤلیت ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی منصبی ذمہ داریاں پورا کرکے فتویٰ صادر کریں۔
مرکزی امام بارگاہ بڈگام میں بھاری جمعہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے صدر نے علمائے لکھنو سے استفسار کیا کہ وہ وسیم رضوی کی حثیت اور اسکے منصب سے متعلق اپنا موقف واضح کرے کیوں کہ شخص مذکورہ مسلک اہلبیتؑ کا لبادہ اوڑھے ہوئے شیعیت کی بد ترین توہین اور تذلیل کر رہا ہے۔
آغا صاحب نے کہا کہ وسیم رضوی اور آر ایس ایس آلہ کار کئی دیگر لکھنوی مولوی متواتر اسلام اور مسلمین کے خلاف ناقابل برداشت بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں صورت حال کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس حوالے سے دیگرذمہ دار علمائے دین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہی لکھنوی علماے دین کشمیر میں آکر دینی بیداری اور شیعیان کشمیر کی فلاح و بہبود کا نعرا لگا کر یہاں اپنے اثر و نفوذ کی سعی ناکام کر رہے ہی۔
۔
وسیم رضوی کے خلاف جموں و کشمیر کے شیعہ تنظیموں کا شدید احتجاج
جموں و کشمیر کے تمام شیعہ تنظیموں نے نام نہاد اور خود ساختہ لیڈر وسیم رضوی کی دریدہ دہنی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے تختہ دار پر چڑھانے کا مطالبہ کیا ۔
نمائندے کے مطابق شیعہ مکتب فکر کے نامور سماجی و مذہبی تنظیموں بشمول اتحاد المسلمین ،انجمن شرعی شیعیان ،شیعہ ایسوسی ایشن ،شیعہ فیڈریشن جموں ،شیعہ ڈیولپمنٹ اونڈیشن کشمیر، انجمن صدائے حسینی ،پیروان ولایت ،ادارہ امام خمینی، متحدہ مجلس علمائے امامیہ ،پاسداران ولایت، جامعہ امام رضا ،جامعہ باب العلم سمیت درجنوں تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں وسیم رضوی کی جانب سے سپریم کورٹ میں آیات قرآنی کو حذف کرنے کی عرضی کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔
انہوں نے قرآن مقدس سے آیات حذف کرنا ارتدادی فکر قرار دیا اور کہا کہ اس فکر کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا انہوں نے وسیم رضوی کو ملعون اور فتنہ پرور قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمانوں کا یہ مشترکہ اور پختہ عقیدہ ہے کہ قرآن پاک میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور کمی زیادتی نہ ہوئی ہے نہ تا روز قیامت ہوگی ۔بلکہ لاکھوں وسیم رضوی جیسے فرسودہ اور بیہودہ ذہن رکھنے والے افراد بھی متحد ہوجائیں تب بھی قرآن پاک کے ایک لفظ کو حذف نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن پاک اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کے دلوں پر نقش کنندہ ہے اس کو مٹانے کی دشمن کی تمام ترغیبیں اور تدبیریں بے کار ہیں ۔انہوں نے توہین آمیز عرضی کی شدید مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی گستاخی ناقابل معافی جرم ہے اس جرم کے مرتکب وسیم رضوی تختہ دار کا حقدار ہے اسے جلد از جلد یہ حق ملنا چاہئے ۔انہوں نے ملے اسلامیہ سے اپیل کی کہ وہ وسیم رضوی کو شیعہ مکتب فکر سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں بلکہ علمائے امامیہ ہند نے اس خود ساختہ لیڈر کو پہلے ہی شیعت کے صف سے باہر کا راستہ دکھایا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام ولایت فقیہ، اہلبیت اطہار علیہم السلام کا پیش کردہ الہی سیاسی نظام
اسلامی دنیا میں مختلف قسم کے مکاتب فکر، مسالک اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہر مسلک اور مکتب فکر اپنی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں کیلئے مطلوبہ نظام پیش کرتا ہے۔ عالم اسلام دو بڑے مسلک یعنی اہل تشیع اور اہلسنت پر مشتمل ہے۔ اس تقسیم کی بنیادی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے کیلئے دو مختلف قسم کے سیاسی نظام متعارف کروانے پر استوار ہے۔ اہل تشیع جو مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے عنوان سے جانا جاتا ہے، نظام امامت جبکہ اہلسنت نظام خلافت کے قائل ہیں۔ نظام امامت کی بنیاد اس عقیدے پر استوار ہے کہ نبی اکرم ص نے اپنی زندگی میں اپنی وفات کے بعد امت مسلمہ کی سیاسی اور علمی سربراہی اور سرپرستی کیلئے بارہ معصوم ہستیوں کو متعارف کروا دیا تھا جن میں سے پہلی ہستی امام علی علیہ السلام اور بارہویں ہستی امام مہدی عج کی ہے۔
پیغمبر اکرم ص کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے میں موجود مختلف زمینی حقائق کے باعث نظام امامت نافذ نہ ہو سکا اور معصوم ہستی کی سربراہی میں الہی حکومت تشکیل نہ پا سکی۔ امام علی علیہ السلام کی عمر کے آخری چند سالوں میں انتہائی محدود مدت کیلئے نظام امامت اسلامی معاشرے پر نافذ ہوا لیکن درپیش رکاوٹیں اور چیلنجز اس قدر شدید اور وسیع تھے کہ امت مسلمہ میں اس الہی سیاسی نظام کی جڑیں مضبوط نہ ہو پائیں۔ جب اڑھائی صدیوں تک اسلامی معاشرے میں نظام امامت کے نفاذ کیلئے مناسب زمینہ فراہم نہ ہو سکا تو خاص مصلحت الہی کے تحت غیبت صغری اور اس کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہو گیا۔ غیبت کبری سے مراد ایسا زمانہ ہے جس میں معصوم ہستی یعنی امام مہدی عج پردہ غیبت میں ہیں اور ظہور کیلئے خدا کے حکم کی منتظر ہے۔ غیبت کبری کے زمانے میں مسلمانوں کو امام معصوم تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ دوسری طرف دین مبین اسلام آخری اور ہمیشگی دین ہے اور اس کے احکام اور قوانین قیامت تک جاری و ساری ہیں۔
لہذا امام مہدی عج نے مختلف احادیث کے ذریعے اپنے پیروکاروں کو بدلتے حالات کے تناظر میں درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے ایسے فقہاء کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا جو متقی، عالم، نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے والے اور عادل ہوں۔ مثال کے طور پر ایک خط میں امام مہدی عج نے فرمایا: "واَمّا الحَوادِثُ الواقِعَهُ فَارُجِعُوا فیها اِلى رُواهِ اَحادیثِنا فَأِنَّهُمْ حُجَّتى عَلَیْكُمْ وَاَنَا حُجَّهُ اللّهِ عَلَیْهِم" (کمال الدین و تمام النعمه، ج 2، ص 483)
ترجمہ: "نئے پیش آنے والے حالات میں ہماری احادیث کے راویوں (فقہاء) سے رجوع کرو۔ پس وہ تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں۔"
یوں نظام مرجعیت کا آغاز ہوا اور پیروان اہلبیت علیہم السلام نے شرعی احکام کیلئے مراجع تقلید سے رجوع کرنا شروع کر دیا۔ مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام میں غیبت کبری کے دوران عادل، متقی اور عالم فقیہ کو نائب امام مہدی عج کی حیثیت حاصل ہے۔
غیبت کبری کے آغاز سے لے کر آج تک ہر دور میں ایسے بزرگ فقیہ موجود رہے ہیں جنہوں نے حالات کی مناسبت سے اپنی دینی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کی حقیقی تعلیمات وسعت اختیار کرتی گئیں اور اہل تشیع کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور یوں اسلامی معاشرے میں امام مہدی عج کے نائب کے طور پر شیعہ فقہاء اور مجتہدین کے اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دین مبین اسلام درحقیقت ایک جامع نظام حیات ہے جس میں انسان کی فردی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کیلئے مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔ دوسری طرف ایک انسانی معاشرے میں کوئی بھی سماجی نظام یعنی تعلیمی نظام، اقتصادی نظام، ثقافتی نظام یا سیاسی نظام نافذ کرنے کیلئے خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہوتی ہے جو اس نظام کے نفاذ کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ ان ضروری حالات میں سے ایک عوام کی جانب سے فقہاء کی اطاعت اور پذیرائی ہے جو "مقبولیت" یا محبوبیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔
بیسویں صدی تک شیعہ فقہاء مختلف انداز میں سیاسی شعبے سے متعلق حقیقی اسلامی تعلیمات مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔ اس دوران مختلف شعبوں میں ترقی کے باعث اسلامی علوم بھی اعلی سطح تک پہنچ چکے تھے اور اسلامی معاشروں میں سیاسی شعور بھی بہت حد تک ترقی پا چکا تھا۔ ایرانی معاشرے کے تاریخی پس منظر کے باعث عوام کی اکثریت شیعہ مذہب اختیار کر چکی تھی اور اسے سرکاری مذہب کا بھی درجہ مل چکا تھا۔ ایسے حالات میں مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سیاسی نظام کو متعارف کروانے اور نافذ کرنے کا بہترین موقع فراہم ہو چکا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فقیہ اور مجتہد عصر امام خمینی رح نے عصر غیبت کے دوران اسلامی تاریخ میں پہلی بار الہی مشروعیت کے حامل نظام ولایت فقیہ کی بنیاد رکھی اور اس نظام کے سائے تلے ایران میں اسلامی جمہوریہ تشکیل پائی۔
نظام ولایت فقیہ کی مشروعیت الہی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس نظام کی سربراہی ولی فقیہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ولی فقیہ ایسا مجتہد ہے جس میں دین مبین اسلام کی گہری سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ اجتہاد، تقوی، سیاسی بصیرت، علم، مدیریت، زمانے کے حالات سے بھرپور آگاہی اور اعلی درجے کی معنویت جیسی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ یہ خصوصیات بھی امام مہدی عج اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی احادیث میں اسلامی حکمران کی ضروری شرائط کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ نظام ولایت فقیہہ ایسے حالات میں ابھر کر سامنے آیا جب مغربی دنیا میں دین کا فاتحہ پڑھ دیا گیا تھا اور سماجی نظامات سے دین کو حذف کر کے سیکولر نظامات متعارف کروا دیے گئے تھے۔ یوں یہ نظام خداوند متعال کی جانب سے پوری عالم بشریت کیلئے ایک قیمتی تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر اتمام حجت بھی ثابت ہوا ہے۔
مسجد نورد کمال ( دنیا کے شمال بعید کی مسجد ) نوریلسک شھر ، روس
روس کے نوریلسک شہر میں مسجد نورد کمال کی تعمیر کا آغاز ۱۹۹۵ عیسوی میں ہوا ، یہ مسجد ۱۹ اگست ۱۹۹۸ عیسوی کو تیار ہوئی ۔
دنیا کے انتھائے شمال میں مسجد نورد کمال سے آگے کوئی اور مسجد واقع نہیں ہے ۔ پوری مسجد میں فرش بچھادیا گیا ہے جو لوگوں کے ذریعے مسجد کے لیے ہدیہ کیا گیا ہے ، نوریلسک شھر کی آبادی دو لاکھ افراد پر مشتمل ہے جس کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے جو علاقائی اور غیر علاقائی ہے ۔ قطب شمالی کے دائرے سے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ۱۹۵۳ میں یہ شھر ، روس کے جغرافیائی نقشہ پر ظاہر ہوا ، آج کل یہ شھر قطب شمالی میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شھر ہے ، یہ شھر روس کے بڑے صنعتی شھروں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں نوریلسک نیکل کی کان کمپنی موجود ہے، آج کل نوریلسک نیکل کمپنی کا دنیا کی نیکل اور پلاٹیں کی پیداوار میں بیس فیصد حصہ ہے۔ وہاں پر تانبا ، کوبالٹ، اور دوسری قیمتی دھاتیں نکلتی ہیں ، یہ بات اتفاقی نہیں ہے کہ نوریلسک شھر کو کارخانوں کا شھر کہتے ہیں ،البتہ مسلماںوں کی روحانی ضروریات نوریلسک کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مشکلات سے دوچار تھیں۔
۱۹۹۶ عیسوی میں ارتھوڈکس گرجاگر تعمیر ہوا اس کے دوسال بعد نوردکمال کی زمردی مسجد شھر کی زینت بنی۔
عبد اللہ حضرت گالموف ، روس کے اسلامک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ، مسجد نوریلسک کے امام کہتے ہیں: اکثر مسلمان دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں ، قفقاز سے بہت سے لوگ یہاں آئے ہیں جن میں تاتار ، باشقیر اور آذربائیجانی ہیں ، عام طور پر وہ کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں مرکزی ایشیا کے مہاجر ، داغستان ، تاتار اور آذربائیجانیوں کی تعداد ۴ ہزار سے زیادہ ہے یہ آبادی مختلف مذاھب سے تشکیل پائی ہے اور شیعہ ، سنی اتحاد و اتفاق سے اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔
مسجد کے امام کہتے ہیں ، ہماری سماجی زبان ایک ہی ہے ہم ایک گھرانے جیسے رہتے ہیں اور آپس میں بہت نزدیک ہیں۔
مسجد کے دروازے رات دیر گئے تک ہر ایک کے لئے کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
قرآن کی مقدس آیات لکڑی کے دروازوں پر کندہ کی گئی ہیں ، مسجد کے خوبصورت فرش نے اس مسجد کو شھر کے فن تعمیر کا زیور قرار دیا ہے۔
دنیا کی سب سے شمالی مسجد کے فن تعمیر میں اھم خصوصیات ہیں ، مسجد کی شکل ستارہ جیسی اور اس کامینار چوکور اور اس کی لمبائی ۳۰ میٹر ہے عام طور پر مساجد کے منارے گول ہوتے ہیں لیکن نوریلسک مسجد کا مینار مربع شکل کا ہے جس کی وجہ شمال کی شدید سردی ہے سال کے دو تہائی حصے میں اس شہر کا درجہ حرارت صفر کے نیچے رہتا ہے اور جاڑے میں اس شہر کا درجہ حرارت منفی ۵۵ ڈگری تک پہنچتا ہے اگر اس مسجد کے مینار گول بنائے جاتے تو اس کی دیوار منجمد ہوجا تی اور شمالی ھواؤں کی نسبت رد عمل دکھاتی ، مسجد کی چھت اور مینار ڈھال کے طریقے پر بنائی گئی ہیں۔
مسجد کا شبستان گول اور دائرہ کی شکل کا ہے مسجد دو مںزلہ ہے جس میں پہلی منزل مدرسے کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس میں اصول اسلام ، نماز کے قوانین ، ماہ مبارک میں روزوں کے احکام کے درس دیئے جاتے ہیں.
ہر اتوار کو مسلمان ایک ھفتے کے کام کاج کرنے کے بعد “ذکر” کرنے کے لئے مسجد میں جمع ہوتے ہیں یہ مسجد نوریلسک کی بہت سی عمارتوں کی طرح شمع جیسے ستونوں کی بنیادوں پر بنی ہے کیونکہ زمین کی سطح سے کم گہرائی پر برف جمی ہوتی ہے اوراس کی گہرائی ۳۰۰ سے ۵۰۰ میٹر تک ہوتی ہے لہذا عمارتوں کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے شمع کے مانند ستونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ، بنیادوں کو زمین کی گہرائی میں ڈالا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ جمی برفیلی پتھروں میں انہیں منجمد کیا جاتا ہے۔
نوریلسک میں ہمشہ برف جمی رہنے کی وجہ سے وہا
نوریلسک شہر کے دنیا کے باقی شہروں کے ساتھ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں پر قطبی راتیں اور قطبی دن ہوتی ہیں ، یعنی چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے ا
ں بھیڑوں کا پالنا ممکن نہیں ہے اس لئے وہ بقر عید پر بھیڑ کی قربانی کے بدلے شمالی ہرن کو قربان کرتے ہیں۔
ور شدید ہوائیں چلتی ہیں جو بہت سرد ہوتے ہیں ، یہ اس علاقے کے مسلماںوں کا ایمان ہی ہے جو اس مسجد کو گرمی بخشتا ہے تا کہ اتحاد و اخوت کے ساتھ ایک ہی صف میں خالق واحد کے مقابلے میں تعظیم کرکے اسلام کی عظمت کو سلام پیش کریں۔